منزل سفر عشق کی زنہار نہ ٹوٹے
منزل سفر عشق کی زنہار نہ ٹوٹے
جب تک کمر قافلہ سالار نہ ٹوٹے
اس پند سے دل ناصح دیں دار نہ ٹوٹے
بت توڑنے میں کعبے کی دیوار نہ ٹوٹے
بے فکر رہے بندہ نقاب رخ جاناں
ہم سے کبھی قفل در گلزار نہ ٹوٹے
جب تک نہ گوارہ ہو تجھے نزع کی تلخی
پرہیز ترا اے دل بیمار نہ ٹوٹے
ہر روز ہو جب سیکڑوں عشاق کا چورنگ
اے شوخ کہاں تک تری تلوار نہ ٹوٹے
سر پٹکوں جو دیوار سے کہتا ہے وہ ظالم
بس بس مرے گھر کی کہیں دیوار نہ ٹوٹے
بے جا ہے تری گرمئ بازار کا شکوہ
کیوں جنس نئی پا کے خریدار نہ ٹوٹے
قسمت میں ہو گو منزل مقصد کا پہنچنا
پر آبلۂ پا میں سر خار نہ ٹوٹے
آساں ہے شہیدیؔ کی اگر دل شکنی ہو
پر شرط یہ ہے خاطر اغیار نہ ٹوٹے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |