منظور ہے ناپنا کمر کا

منظور ہے ناپنا کمر کا
by نسیم دہلوی

منظور ہے ناپنا کمر کا
پیمانہ بنائیے نظر کا

تھا شام سے دغدغہ سحر کا
دھڑکا ہی لگا رہا گجر کا

سینے میں سے کچھ آئی آواز
پھوٹا کوئی آبلہ جگر کا

آنسو پونچھیں گے کب تک احباب
ٹپکا نہ رکے گا چشم تر کا

دل ہی تو ہے کیا عجب بہل جائے
کچھ ذکر کرو ادھر ادھر کا

کیوں زلف دراز کھولتے ہو
کیا خوف تمہیں نہیں کمر کا

کچھ بے ادبی ہوئی مقرر
سینہ بیدھا گیا گھر کا

تنہا نہیں گوشۂ قفس بھی
جھگڑا ہے ساتھ بال و پر کا

محتاج کفن نہیں ہے بلبل
پردہ کافی ہے بال و پر کا

رہتے نہیں ایک دم کسی جا
بتلائیں نشان خاک گھر کا

کیا کیا ہم نے نہ خاک اڑائی
پایا نہ غبار تیرے در کا

ہو آپ کے کان تک رسائی
اللہ یہ مرتبہ گھر کا

اے دل کنج مزار دیکھا
پہلا یہ مقام ہے سفر کا

یاقوت کہاں مرے دھن میں
ٹکڑا ہوگا کوئی جگر کا

رخصت رخصت جو کہہ رہے ہو
اے جان خیال ہے کدھر کا

جب تک ہے کچھ حیات باقی
رستہ دیکھیں گے نامہ بر کا

آنکھوں میں خیال اور ہی ہے
جلوہ کیا دیکھیے قمر کا

آرام کہاں نصیب ہم کو
کھٹکا درپیش ہے سفر کا

پہنچے مرے ہاتھ تک تو فصاد
منہ لال کروں گا نیشتر کا

دوڑے لینے قدم اجل کے
دھوکا ہوا یار کی خبر کا

ٹھہرو لاشہ اٹھے تو جانا
جھگڑا ہے اور دو پہر کا

کیوں آئے نسیمؔ نیند ہم کو
سر رکھ کے زمیں پہ یار سرکا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse