منہ بنائے ہوئے پھرتا ہے وہ کل سے ہم سے
منہ بنائے ہوئے پھرتا ہے وہ کل سے ہم سے
کوئی آج اس کو ملا دے کسی کل سے ہم سے
نالہ و آہ و فغاں کیوں نہ ہوں ہم دم اپنے
دوستی عشق کو ہے روز ازل سے ہم سے
نالہ خاموش پھر آزردہ نہ ہو جائے کہیں
آج بولا ہے وہ کس رد و بدل سے ہم سے
خوف رکھتے ہیں تری کم نگہی کا ورنہ
یار ڈرتے ہیں کوئی تیغ اجل سے ہم سے
ؔجوشش اس عربدہ جو ترک ستمگار نے آج
آشتی کی ہے بڑی جنگ و جدل سے ہم سے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |