منہ دکھا کر منہ چھپانا کچھ نہیں
منہ دکھا کر منہ چھپانا کچھ نہیں
کچھ نہیں یہ منہ دکھانا کچھ نہیں
تھا جو کیا کچھ بات کہتے کچھ نہ تھا
آدمی کا بھی ٹھکانا کچھ نہیں
گل ہیں معشوقوں کے دامن کے لئے
قبر عاشق پر چڑھانا کچھ نہیں
ہے ستانے کا بھی لطف اک وقت پر
ہر گھڑی ان کو ستانا کچھ نہیں
بے منائے من گئے ہم آپ سے
ایسے روٹھے کو منانا کچھ نہیں
ہاتھ سے گلچیں کے جھٹکے کون کھائے
شاخ گل پر آشیانا کچھ نہیں
یہ حسیں ہیں پیار کر لینے کی چیز
ان حسینوں کو ستانا کچھ نہیں
اے حباب اپنی ذرا ہستی تو دیکھ
اس پر اتنا سر اٹھانا کچھ نہیں
تو نے توبہ کی تو ہے لیکن ریاضؔ
بات کا تیری ٹھکانا کچھ نہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |