منہ سے پردہ نہ اٹھے صاحب من یاد رہے
منہ سے پردہ نہ اٹھے صاحب من یاد رہے
پھر قیامت ہی عیاں ہے یہ سخن یاد رہے
چھوڑو اتنی نہ زباں غنچہ دہن یاد رہے
پھر ہمارے بھی دہن ہے یہ سخن یاد رہے
کوچہ گردوں میں نہیں ہم جو یہ کوچہ چھوڑیں
خاک کرنا ہے ہمیں یاں ہے بدن یاد رہے
عہد آنے کا کیا ہے تو گرہ بند میں دے
اس سے شاید تجھے اے عہد شکن یاد رہے
آپ کے کوچے کو ہم کعبۂ مقصود سمجھ
بھول بیٹھے ہیں سب آرام وطن یاد رہے
حرف اٹھ جانے کا کہہ بیٹھے ہو اب تو لیکن
پھر نہ کہیے گا کبھی قبلۂ من یاد رہے
سو چمن ایک فقط مکھڑے میں اس کے ہیں نظیرؔ
جب یہ صورت ہو تو پھر کس کو چمن یاد رہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |