منہ پہ کھاتا ہے یہ اس طرح سے تلوار کہ بس
منہ پہ کھاتا ہے یہ اس طرح سے تلوار کہ بس
دل مرا عشق میں ایسا ہے جگر دار کہ بس
نزع میں دیکھ مجھے یار جھجک کر بولا
کیا بری طرح سے مرتا ہے یہ بیمار کہ بس
آپ کو بیچ کے یوسف نے زلیخا کو لیا
کیا خریدار نے پایا ہے خریدار کہ بس
اس جھڑی سیتی کہیں گر نہ پڑے بام فلک
اس طرح روتے ہیں تجھ بن در و دیوار کہ بس
عشق کے دار شفا میں مجھے لے چل تو یقیںؔ
کہ طبیبوں نے دیا اس قدر آزار کہ بس
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |