منہ کہاں یہ کہ کہوں جائیے اور سو رہئے

منہ کہاں یہ کہ کہوں جائیے اور سو رہئے
by میر حسن دہلوی

منہ کہاں یہ کہ کہوں جائیے اور سو رہئے
خوب گر نیند ہے تو آئیے اور سو رہئے

تکیہ زانو کا مرے کیجیے بے خوف و خطر
آپ تشریف ادھر لائیے اور سو رہئے

آج کی چاندنی وہ ہے کہ کسی شوخ کے ساتھ
کھول آغوش لپٹ جائیے اور سو رہئے

یوں تو ہرگز نہیں آنے کی تمہیں نیند مگر
مجھ سے قصہ مرا کہوائیے اور سو رہئے
غم رہا تھا مری باتوں کا تمہیں کس کس دن
منہ مرا آپ نہ کھلوایئے اور سو رہئے

گر رہیں ہم بھی کہیں پائنتی اب جائیں کہاں
آپ اتنا ہمیں فرمائیے اور سو رہئے

بخت جاگے ہیں شب ماہ میں جو یار ہے پاس
چاندنی تخت پہ بچھوائیے اور سو رہئے

اس ادا کا ہوں میں دیوانہ کہ انگڑائی لے
مجھ سے کہتا ہے کہیں جائیے اور سو رہئے

ڈر خدا کا ہے نہیں اور صنم کو لے کر
ایک جا پر تجھے دکھلائیے اور سو رہئے

تپش عشق کی گرمی سے جلے جاتے ہیں
چھاؤں ٹھنڈی کہیں ٹک پائیے اور سو رہئے

یہ بلا فکر سے کچھ نید ہوئی ہے حسنؔ
جی میں آتا ہے کہ کچھ کھائیے اور سو رہئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse