موت آتی نہیں قرینے کی
موت آتی نہیں قرینے کی
یہ سزا مل رہی ہے جینے کی
مے سے پرہیز شیخ توبہ کرو
اک یہی چیز تو ہے پینے کی
تمہیں کہتا ہے آئنہ خودبیں
باتیں سنتے ہو اس کمینے کی
ہو گیا جب سے بے نقاب کوئی
شمع روشن نہ پھر کسی نے کی
چشم تر آبرو تو پیدا کر
یوں نہیں بجھتی آگ سینے کی
اہل دنیا سے کیا بدی کا گلا
اے تپشؔ تو نے کس سے کی نیکی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |