موت ہی چارہ ساز فرقت ہے
موت ہی چارہ ساز فرقت ہے
رنج مرنے کا مجھ کو راحت ہے
ہو چکا وصل وقت رخصت ہے
اے اجل جلد آ کہ فرصت ہے
روز کی داد کون دیوے گا
ظلم کرنا تمہاری عادت ہے
کارواں عمر کا ہے رخت بدوش
ہر نفس بانگ کوس رحلت ہے
سانس اک پھانس سی کھٹکتی ہے
دم نکلتا نہیں مصیبت ہے
تم بھی اپنے حیاؔ کو دیکھ آؤ
آج اس کی کچھ اور حالت ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |