موجود تھے ابھی ابھی روپوش ہو گئے
موجود تھے ابھی ابھی روپوش ہو گئے
اے مست ناز تم تو مرے ہوش ہو گئے
سوتے میں وہ جو مجھ سے ہم آغوش ہو گئے
جتنے گلے تھے خواب فراموش ہو گئے
وعدے کی رات آئی قضا اس ادا کے ساتھ
دھوکے میں تیرے اس سے ہم آغوش ہو گئے
برسوں ہوئے نہ تم نے کیا بھول کر بھی یاد
وعدے کی طرح ہم بھی فراموش ہو گئے
آنکھوں میں بھی جو آئے تو اللہ رے حجاب
بن کر نظر نظر سے وہ روپوش ہو گئے
کیا کیا زباں دراز چراغ انجمن میں تھے
دامن کشاں تم آئے تو خاموش ہو گئے
یاران رفتہ بات کا دیتے نہیں جواب
کیا کہہ دیا فضا نے کہ خاموش ہو گئے
آئی شب وصال تو نیند آ گئی انہیں
ہم ہوش میں جو آئے وہ مدہوش ہو گئے
مر کر تمام سر سے ٹلیں آفتیں جلیلؔ
ہم جان دے کے سب سے سبک دوش ہو گئے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |