موسم برسات کی صبح
آج جس وقت مجھے تم نے جگایا اماں
اپنے اور نیند کے پہلو سے اٹھایا اماں
آسماں کملی تھا اوڑھے ہوئے کالی کالی
تازگی اور سفیدی سے فضا تھی خالی
نہ اندھیرا ہی تھا شب کا نہ اجالا دن کا
رات کے گرد نظر آتا تھا ہالا دن کا
ایک بلندی کی کڑک پستی کو دھندلاتی تھی
دل ہلاتی ہوئی آواز سنی جاتی تھی
صبح ہر چار طرف روتی ہوئی پھرتی تھی
اپنا منہ آنسوؤں سے دھوتی ہوئی پھرتی تھی
جیسے ننہا سا میں بیٹا ہوں تمہارا اماں
ایسے ہی صبح کا اک لال ہے پیارا اماں
جیسے میں کھیلنے جاتا ہوں بہت دور کہیں
ایسے ہی شرق میں ہے آج وہ مستور کہیں
کھو گیا ہے نظر آتا نہیں بچہ اس کا
ڈھونڈھتی لاکھ ہے پاتا نہیں بچہ اس کا
دیکھو تو صبح کا دل سرد ہے بے نور ہے آنکھ
اپنے بچہ کے تصور ہی سے معمور ہے آنکھ
مجھ کو جانے دو کہ میں ڈھونڈ کے لاؤں اس کو
غم زدہ صبح کے پہلو میں بٹھاؤں اس کو
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |