مٹیا برج کے حالات

مٹیا برج کے حالات
by عبد الحلیم شرر
319467مٹیا برج کے حالاتعبد الحلیم شرر

کلکتے سے تین چار میل کی مسافت پر جنوب کی طرف دریائے بھاگیرتی (ہگلی) کے کنارے ’’گارڈن پچ‘‘ کے نام ایک خاموش محلہ ہے اور چونکہ وہاں ایک مٹی کا تودہ تھا، اس لیے عام لوگ اسے مٹیا برج کہتے تھے۔ یہاں کئی عالیشان کوٹھیاں تھیں جن کی زمین دریا کے کنارے کنارے تقریباً ڈھائی میل تک چلی گئی ہے۔ جب واجد علی شاہ کلکتے میں پہنچے تو گورنمنٹ آف انڈیا نے یہ کوٹھیاں انہیں دیں۔ دو خاص بادشاہ کے لئے، ایک نواب خاص محل کے واسطے اور ایک علی نقی خان کی سکونت کے لئے جو بادشاہ کے ساتھ تھے۔ ان کے گرد زمین کا ایک بڑا قطعہ جو عرض میں دریا کے کنارے سے تقریباً ڈیڑھ میل تک چلا گیا تھا اور اس کا حلقہ چھ سات میل سے کم نہ ہوگا، بادشاہ کو اپنے اور اپنے ملازمین کے قیام کے لئے دیا گیا۔

میونسپلٹی کی سڑک اس رقبہ کو طولاً قطع کرتی تھی۔ وہ دو کوٹھیاں جو بادشاہ کو دی گئی تھیں، ان کے نام بادشاہ نے سلطان خانہ اور اسد منزل قرار دیے اور نواب خاص محل کی کوٹھی پر بھی جب بادشاہ نے قبضہ کر لیا تو اس کا نام مرصع منزل رکھا اور ان کے بعد ان کی اولاد خصوصاً نواب اختر محل کے قبضہ میں رہی جو علی نقی خان کی بیٹی اور بادشاہ کی ممتاز بی بی بلکہ ان کے دوسرے ولی عہد مرزا خوش بخت بہادر کی ماں تھیں۔

غدر کے زمانہ میں انگریزی فوج کے باغی افسروں نے ارادہ کیا کہ اگر بادشاہ ان کے حکمراں بنیں تو کلکتہ میں بھی غدر کردیں مگر بادشاہ نے گورنمنٹ آف انڈیا کے معاملہ میں یہ روش نہ تخت و تاج سے جدا ہوتے وقت اختیار کی تھی اورنہ اب پسند کی بلکہ لاٹ صاحب کو ان لوگوں کے ارادے کی اطلاع کر دی۔ اس پر ان کا شکریہ ادا کیا گیا مگر دو ہی چار روز بعدمناسب سمجھا گیا کہ بادشاہ کو قلعہ فورٹ ولیم میں رکھا جائے تاکہ پھر کبھی باغیوں تک ان کی رسائی نہ ہو سکے۔ لندن میں ان کی جانب سے جو مقدمہ تھا، وہ اس بنا پر ملتوی کر دیا گیا کہ جس ملک کے لئے یہ دعویٰ ہے، وہ اب ہمارے قبضے ہی میں نہیں۔ جب اس پر پھر دولت برطانیہ کا قبضہ ہو لےگا، تب دیکھا جائےگا۔

بادشاہ اس حراست ہی میں تھے کہ لکھنؤ کا غدر فرو ہو گیا اور مسیح الدین خان نے جو لندن میں مختار عام تھے، پھر اپنا دعویٰ پیش کیا۔ انہیں بادی النظر میں کامیابی اور استرداد سلطنت کی پوری امید تھی مگر بدقسمتی سے ان لوگوں میں جو قلعے میں بادشاہ کے مشیر اور مصاحب تھے، خواہ کسی بیرونی تحریک سے یا خود اپنے نفع کے خیال سے ایک سازش ہوئی۔ ان لوگوں نے خیال کیا کہ اگر مسیح الدین خان مقدمہ جیت گئے تو ہمارا بازار سرد پڑ جائےگا اور وہیں وہ رہ جائیں گے، لہٰذا سب نے بادشاہ کو سمجھانا شروع کیا کہ جہاں پناہ بھلا کبھی کسی نے ملک لے کے دیا ہے؟ مسیح الدین خان نے حضور کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔ ہونا ہو انا کچھ نہیں ہے اور جہاں پناہ مفت میں تکلیف اٹھا رہے ہیں۔ ڈیڑھ دو سال سے تنخواہ نہیں لی ہے، ہر بات کی تنگی ہے اور ہم ملازمان دولت بھی پیسے پیسے کو محتاج ہیں۔ مناسب یہ ہے کہ حضور گورنمنٹ انگریزی کی تجویزوں کو قبول کر لیں اور تنخواہ وصول کر کے اطمینان اور فارغ البالی سے اپنے محلات عالیات اور آستان بوسان دولت کے ساتھ بسر فرمائیں۔

بادشاہ کو خرچ کی تنگی تھی اور بادشاہ سے زیادہ ان کے رفقاء پریشان تھے۔ مصاحبوں نے جب بارہا یہ تجویز پیش کی تو بلا تکلف حضور وائسرائے کی خدمت میں لکھ بھیجا، ’’مجھے سرکار انگریزی کی مجوزہ ماہوار لینا منظور ہے، لہٰذا میری اس وقت تک کی تنخواہ دی جائے اور مقدمہ جو لندن میں دائر ہے، خارج کیا جائے۔‘‘ جواب ملا، ’’اب آپ کو اول تو گزشتہ ایام کی ماہواری نہ دی جائے گی، صرف اسی وقت سے جاری ہوگی۔ دوسرے فقط بارہ لاکھ روپیہ سالانہ دیے جائیں گے اور جو تین لاکھ روپیہ سالانہ آپ کے ملازمین کے لئے تجویز کیے گئے تھے، اب ان کے دینے کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی۔‘‘

بظن غالب بادشاہ اس نقصان کو برداشت نہ کرتے، مگر مصاحبوں نے اس پر راضی کر دیا اور گورنمنٹ آف انڈیا نے انگلستان میں اطلاع دی کہ واجد علی شاہ نے گورنمنٹ کی تجویز منظور کر لیا، لہٰذا ان کا مقدمہ خارج کر دیا جائے۔ یہ واقعات میں نے خود اپنے نانا منشی قمر الدین صاحب کی زبان سے سنے ہیں جو جناب عالیہ کے ہم راہی دفتر کے میر منشی اور مولوی مسیح الدین خان کے نائب خاص تھے اور کل کارروائیاں انہیں کے ہاتھ سے عمل میں آتی تھیں۔ بادشاہ کے ماہوار پر راضی ہو جانے کی خبر جیسے ہی لندن میں پہنچی، مسیح الدین خاں کے حواس جاتے رہے۔ بادشاہ کی ماں، ان کے بھائی اور ولی عہد نے سرپیٹ لیا اور حیران تھے کہ یہ کیا غضب ہوگیا۔ افسوس اس وقت تک کا کیا دھرا سب خاک میں ملا جاتا ہے۔ آخر مسیح الدین خاں نے سوچتے سوچتے ایک بات پیدا کی اور پارلیمنٹ میں یہ عذر پیش کیا کہ ’’بادشاہ فی الحال گورنمنٹ آف انڈیا کی حراست میں ہیں۔ ان کی کوئی تحریر پایہ اعتبار کو نہیں پہنچ سکتی۔ عذر معقول تھا، تسلیم کیا گیا اور گورنمنٹ آف انڈیا کو بادشاہ کے مختار کی عذر داری سے مطلع کیا گیا۔ ساتھ میں مسیح الدین خاں اور تمام ارکان خاندان شاہی نے بادشاہ کو لکھا کہ ’’یہ آپ کیا غضب کر رہے ہیں۔ ہمیں ملک اودھ کے واپس ملنے کی پوری امید ہے۔‘‘

اب غدر فرو ہو چکا تھا۔ گورنمنٹ نے بادشاہ کو چھوڑ دیا اور وہ خوشی خوشی قلعے سے نکل مٹیا برج میں آئے اور آزادی حاصل ہوئی ہی تھی کہ مصاحبوں نے عرض کیا، ’’حضور مسیح الدین خاں لندن میں کہہ رہے ہیں کہ جہاں پناہ نے تنخواہ لینے کو صرف قید ہونے کی وجہ سے منظور کر لیا ہے۔‘‘ یہ سنتے ہی بادشاہ نے برافروختہ ہوکے اسی وقت لکھ بھیجا کہ ’’ہم نے آزادی سے بہ رضا و رغبت گورنمنٹ کی تجویز منظور کیا ہے اور مسیح الدین خان کا یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ ہم نے قید میں ہونے یا کسی جبروا کراہ کی وجہ سے منظوری دی ہے، لہٰذا آئندہ کے لئے ہم اس مختار نامے ہی کو منسوخ کیے دیتے ہیں جس کی رو سے وہ ہمارے مختار عام بنائے گئے ہیں۔‘‘

اب کیا تھا؟ ساری کارروائی ختم ہو گئی۔ بادشاہ مٹیا برج میں رنگ رلیاں منانے لگے۔ مصاحبوں کے گھر میں ہن برسنے لگا اور شاہی خاندان کا شکستہ حال قافلہ جو انگلستان میں پڑا ہوا تھا، قریب قریب وہیں تباہ ہو گیا۔ اکثر ہم راہیوں نے ساتھ چھوڑ دیا۔ بادشاہ کی جناب عالیہ اس صدمہ سے بیمار ہو گئیں اور اسی بیماری میں چلیں کہ ملک فرانس سے ہوتی ہوئی مقامات متبرکہ میں جائیں اور ان کی زیارت سے شرف یاب ہوکے کلکتے پہنچیں مگر موت نے پیرس سے آگے قدم نہ بڑھانے دیا۔ وہیں انتقال کیا اور عثمانی سفارت خانہ، فرانس کی مسجد کے متصل مسلمانوں کا ایک قبرستان ہے، اسی میں دفن ہوئیں۔ مرزا سکندر حشمت کو ماں کے مرنے کا اس قدر صدمہ ہوا کہ ماں کے مرتے ہی خود بھی بیمار پڑ گئے اور ان کے چودہ پندرہ روز بعد وہ بھی ماں کے برابر یوم جزا کا انتظار کرنے کے لئے لٹا دیے گئے۔ اکیلے مرزا ولی عہد بہادر کلکتہ واپس آکر ماں باپ سے ملے۔

کہتے ہیں کہ ابتداءً مٹیا برج میں بھی بادشاہ کی زندگی نہایت ہی بیدار مغزی اور ہوشیاری کی تھی۔ یہ حالت دیکھ کر گرد و پیش کے لوگوں نے چند آلات موسیقی فراہم کر دیے۔ فوراً سرود بمستان یاد دیائیدن کا پورا پورا مضمون صادق آ گیا اور ارباب نشاط کا گروہ وہاں بھی جمع ہونے لگا۔ ہندوستان کے اچھے اچھے گوئیے آکے ملازم ہوئے اور مٹیا برج میں موسیقی دانوں کا ایسا مجمع ہو گیا تھا کہ اور کسی جگہ نہ تھا۔

تیسرا شوق انہیں عمارت کا تھا۔ سلطان خانہ کے گرد بیسیوں محل سرائیں تعمیر ہو گئیں اوربہت سی نئی کوٹھیاں اور ان میں محل سرائیں تھیں۔ گورنمنٹ سے صرف سلطان خانہ، اسد منزل اور مرصع منزل ملی تھیں مگر بادشاہ کے شوق نے چند ہی روز میں بیسیوں کوٹھیاں تعمیر کرا دیں جن کے گرد نہایت ہی پر فضا باغ اور فرحت بخش چمن تھے۔ جس وقت میں نے دیکھا ہے، بادشاہ کے قبضے میں مندرجہ ذیل عالیشان کوٹھیاں تھیں جو جنوب سے شمال تک ترتیب وار چلی گئی تھیں۔ (1) سلطان خانہ، (2) قصر البیضا، (3) گوشۂ سلطانی، (4) شہنشاہ منزل، (5) مرصع منزل، (6) اسد منزل، (7) شاہ منزل، (8) نور منزل، (9) تفریح بخش، (10) بادامی، (11) آسمانی، (12) تہنیت منزل، (13) حد سلطانی، (14) سد سلطانی اور (15) عدالت منزل۔ ان کے علاوہ اور بھی کئی کوٹھیاں تھیں جن کے نام مجھے یاد نہیں رہے۔

ان کے ماسوا باغو ں کے اندر تالا بوں کے کنارے بہت سے کمرے، بنگلے اور چھوٹی چھوٹی کوشکیں تھیں۔ ان تمام کوٹھیوں، متفرق کمروں، بنگلوں اور کوشکوں میں صاف ستھرا پرتکلف فرش بچھا رہتا تھا۔ چاندی کے پلنگ، بچھونوں اور تکیوں سے مکمل لگے رہتے۔ تصویریں اور طرح طرح کا فرنیچر آراستہ ہوتا اور محض پرورش کے خیال سے ضرورت سے زیادہ مکان دار مقرر تھے جو روز جھاڑتے اور ہر چیز کو صفائی اور قرینے سے آراستہ رکھتے۔ غرض ہر کوٹھی بجائے خود اس قدر آراستہ و پیراستہ نظر آتی کہ انسان عش عش کر جاتا۔ کوٹھیوں کے گرد کے باغ اور چمن ایسی ہند سی ترتیبوں اور اقلیدس کی شکلوں کے مطابق بنائے گئے تھے کہ دیکھنے والوں کو بادشاہ کی مناسبت طبعی پر تعجب تھا۔

لکھنؤ میں تو باشاہ نے صرف قیصر باغ اور اس کے پاس کی چند عمارتیں یا اپنے والد مرحوم کا امام باڑہ اور مقبرہ ہی تعمیر کیا تھا مگر مٹیا برج میں نفیس او ر اعلیٰ عمارتوں کا ایک خوبصورت شہر بسا دیا تھا۔ دریا کے اس پار مٹیا برج کے مقابل کلکتہ کا مشہور بوٹینکل گارڈن ہے مگر وہ مٹیا برج کی دنیوی جنت اور اس کے دلکش عجائبات کے سامنے مٹ گیا تھا۔ ان تمام عمارتوں، چمنوں، کنجوں اور وسیع و نزہت بخش مرغزاروں کے گرد بلند دیواروں کا احاطہ تھا مگرمیونسپلٹی کی شاہراہ عام کے کنارے کنارے تقریباً ایک میل تک شاندار دکانیں تھیں اور ان میں وہی ادنیٰ درجے کے ملازمین رہنے پاتے تھے جن کو اپنے فرائض کے لحاظ سے رہنے کی ضرورت تھی مگر اندر جانے کا راستہ سوائے پھاٹکوں کے جن پر پہرہ رہتا، کھلی دکان میں سے نہیں رکھا گیا تھا۔ خاص سلطان خانہ کے پھاٹک پر نہایت عالیشان نوبت خانہ تھا۔ نقارچی نوبت بجاتے اور پرانے پہروں اور گھڑیوں ہی کے حساب سے شب و روز گھڑیال بجا کرتا تھا۔

دنیا میں عمارت کے شوقین ہزاروں بادشاہ گزرے ہیں مگر غالباً اپنی ذات سے کسی تاجدار نے اتنی عمارتیں اور اتنے باغ نہ بنائے ہوں گے جتنے کہ واجد علی شاہ نے اپنی ناکام زندگی اور برائے نام شاہی کے مختصر زمانے میں بنائے۔ شاہجہاں کے بعد اس بارہ خاص میں اگر کسی کا نام لیا جاسکتا ہے تو وہ اسی ستم زدہ شاہ اودھ کا نام ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کوئی خاص عمارت سینکڑوں ہزاروں سال تک باقی رہی اور کسی کی صدہا عمارتیں زمانے نے چند ہی روز میں مٹاکے رکھ دیں۔

عمارت کے علاوہ بادشاہ کو جانوروں کا شوق تھا اور اس شوق کو بھی انہوں نے اس درجہ تک پہنچا دیا کہ دنیا اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے اور شاید کوئی شخصی کوشش آج تک اس کے نصف درجہ کو بھی نہ پہنچ سکی ہوگی۔ نور منزل کے سامنے خوشنما آہنی کٹہروں سے گھیر کے ایک وسیع رمنہ بنایا گیا تھا جس میں صدہا چیتل، ہرن اور وحشی چوپائے چھوٹے چھوٹے پھرتے تھے۔ اسی کے درمیان سنگ مرمر کا ایک پختہ تالاب تھا جو ہر وقت ملبب رہتا اور اس میں شتر مرغ، کشوری، فیل مرغ، سارس، قازیں، بگلے، قرقرے، ہنس، مور، چکور اور صدہا قسم کے طیور اور کچھوے چھوڑ دیے گئے تھے۔ صفائی کا اس قدر اہتمام تھا کہ مجال کیا کہ جو کہیں بیٹ یا کسی جانور کا پر بھی نظر آ جائے۔ ایک طرف تالاب کے کنارے کٹہروں میں شیر تھے اور اس رمنے کے پاس ہی سے لکڑی کی سلاخوں دار بڑے بڑے خانوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا تھا جس میں بیسوں طرح کے اور خدا جانے کہاں کہاں کے بندر لا کے جمع کیے گئے تھے جو عجیب عجیب حرکتیں کرتے اور انسان کو بغیر اپنا تماشہ دکھائے آگے نہ بڑھنے دیتے۔

مختلف جگہ حوضوں میں مچھلیاں پالی گئی تھیں جو اشارے پر جمع ہوجاتیں اور کوئی کھانے کی چیز ڈالیے تو اپنی اچھل کود سے خوب بہار دکھاتیں۔ سب پر طرہ یہ کہ شہنشاہ منزل کے سامنے ایک بڑا سا لمبا اور گہرا حوض قائم کر کے اور اس کے کنارو ں کو چاروں طرف سے خوب چکنا کر کے اور آگے کی طرف جھکا کے اس کے بیچ میں ایک مصنوعی پہاڑ بنایا گیا تھا جس کے اندر سیکڑوں نالیاں دوڑائی گئی تھیں اور اوپر سے دو ایک جگہ کاٹ کے پانی کا چشمہ بھی بہا دیا گیا تھا۔ اس پہاڑ میں ہزاروں بڑے بڑے دو دو، تین تین گز کے لمبے سانپ چھوڑ دیے گئے تھے جو برابر دوڑتے اور رینگتے پھرتے۔ پہاڑ کی چوٹی تک چڑھ جاتے اور پھر نیچے اتر آتے۔ مینڈکیاں چھوڑی جاتیں، انہیں دوڑ دوڑ کر کے پکڑتے۔ پہاڑ کے گردا گرد نہر کی شان سے ایک نالی تھی، اس میں سانپ لہرا لہرا کے دوڑتے اور مینڈکوں کا تعاقب کرتے اور لوگ بلا کسی خوف کے پاس کھڑے سیر دیکھا کرتے۔ اس پہاڑ کے نیچے بھی دو کٹہرے تھے، جن میں دو بڑی بڑی چیتنیں رکھی گئی تھیں۔ یوں تو خاموش پڑی رہتیں، لیکن جس وقت مرغ لاکے چھوڑا جاتا، اسے جھپٹ کر پکڑتیں اور مسلم نگل جاتیں۔ سانپوں کے رکھنے کا انتظام اس سے پہلے شاید کہیں نہ کیا گیا ہوگا اور یہ خاص واجد علی شاہ کی ایجاد تھی جس کو یورپ کے سیاح حیرت سے دیکھتے اور اس کی تصویریں اور مشرح کیفیت قلمبند کرتے جاتے تھے۔

مذکورہ جانوروں کے علاوہ ہزارہا طیور کے چمکتے ہوئے برنجی پنجرے خاص سلطان خانے کے اندر تھے۔ بیسیوں بڑے بڑے ہال تھے جو لوہے کے جال سے محفوظ کر لیے گئے تھے اور گنج کہلاتے تھے۔ ان میں قسم قسم کے طیور کثرت سے لاکے چھوڑ دیے گئے تھے۔ ان کے رہنے اور نشوونما پانے کا پورا سامان فراہم کیا گیا تھا۔ بادشاہ کی کوشش تھی کہ چرند و پرند میں سے جتنی قسم کے جانور دستیاب ہو سکیں، سب جمع کرلیے جائیں اور واقعی ایسا مکمل اور زندہ عجائب خانہ شاید روئے زمین پر کہیں موجود نہ ہوگا۔ ان جانوروں کی فراہمی میں بے روک روپیہ صرف کیا جاتا اور کوئی شخص کوئی نیا جانور لاتا تو منہ مانگے دام پاتا۔ کہتے ہیں کہ بادشاہ نے ریشم پرے کبوتروں کا جوڑا چوبیس ہزار روپے کو اور سفید مور کا جوڑا گیارہ ہزار روپے کو لیا تھا۔ زرافہ جوافریقہ کا بہت بڑا اور عجیب جانور ہے، اس کا بھی ایک جوڑا موجود تھا۔ دو کوہان کے بغدادی اونٹ ہندوستان میں کہیں نہیں نظر آتے اور بادشاہ کے وہاں تھے۔ کلکتے میں ہاتھی مطلق نہیں ہیں، مگر بادشاہ کے اس زندہ نیچرل ہسٹری میوزیم میں ایک ہاتھی بھی تھا۔ محض اس خیال سے کہ کوئی جانور رہ نہ جائے، دو گدھے بھی رمنے میں لاکے چھوڑ دیے گئے تھے۔ درندوں میں سے شیرببر، دیسی شیر، چیتے، تیندوے، ریچھ، سیاہ گوش، چرخ، بھیڑیے کٹہروں میں بند تھے اوربڑی خاطر دشت سے رکھے جاتے۔

کبوتروں کا انتظام دیگر جانوروں سے الگ تھا۔ بادشاہ کی مختلف کوٹھیوں میں سب ملائے چوبیس پچیس ہزار کبوتر تھے جن کے اڑانے میں کبوتر بازوں نے بڑے بڑے کمالات دکھائے تھے۔ جانوروں پر جو صرف ہو رہا تھا، اس کا ناقص اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ آٹھ سو سے زیادہ جانور باز تھے۔ تین سو کے قریب کبوتر باز تھے۔ اسی کے قریب ماہی پرور تھے اور تیس چالیس کے قریب مار پرور تھے جن کو دس روپیہ ماہوار سے لے کر چھ روپیہ ماہوار تک تنخواہیں ملتی تھیں۔ افسروں کی تنخواہیں تیس سے بیس روپیہ تک تھیں اور کبوتروں، سانپوں اور مچھلیوں کے علاوہ دیگر جانوروں کی خوراک میں کچھ کم نو ہزار روپے ماہوار صرف ہوتے تھے۔

عمارت کا کام زیادہ تر مونس الدولہ اورایمان الدولہ کے سپر درہا۔ ان کو عمارت کی مد میں تقریباً پچیس ہزار ماہوار ملا کرتے تھے۔ ہزار کے قریب پہرے کے سپاہی تھے جن کی تنخواہیں عموماً چھ روپیہ ماہوار تھیں۔ بعض بعض آٹھ یا دس روپے بھی پاتے۔ یہی تنخواہ مکان داروں کی تھی جن کا شمار پانچ سو سے زیادہ تھا۔ مالیوں کی بھی یہی تنخواہ تھی اور ان کا شمار بھی پانچ سوسے زیادہ تھا۔ تقریباً اسی اہل قلم یعنی محرر تھے جو تیس سے دس روپیہ ماہوار تک تنخواہ پاتے تھے۔ معزز مصاحبوں اور اعلیٰ عہدیداروں کا شمار چالیس پچاس سے کم نہ ہوگا جو اٹھارہ روپیہ ماہوار پاتے تھے۔ سو سے زیادہ کہار تھے۔ ان کے علاوہ بیسیوں چھوٹے چھوٹے محکمے تھے۔ باورچی خانہ، آبدار خانہ، بھنڈی خانہ، خس خانہ اور خدا جانے کیا کیا تھا۔ پھر ایک مدلواحق بیگمات یعنی ممتوعات کے رشتہ داروں اوربھائی بندوں کی تھی، جنہیں حسب حیثیت تنخواہیں ملتی تھیں۔

ان سب لوگوں نے کوٹھیوں کے رقبے سے باہر زیادہ تر اسی زمین پر جو بادشاہ کو دی گئی تھی اور بہتوں نے پاس کی دوسری زمینوں پر مکان بنالیے تھے اور ایک شہر بس گیا تھا جس کی مردم شماری چالیس ہزار سے زیادہ تھی۔ ان سب کی زندگی بادشاہ کی تنخواہ کے ایک لاکھ روپے ماہوار سے وابستہ تھی اور کسی کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اتنی خلقت عظیم اس تھوڑی رقم میں کیونکر زندگی بسر کر لیتی تھی۔ بنگالہ عوام میں یہ مشہور تھا کہ بادشاہ کے پاس پارس پتھر ہے، جب ضرورت ہوتی ہے، لوہے یا تانبے کو اس میں رگڑ کر سونا بنا لیا کرتے ہیں۔

حقیقت حال یہ ہے کہ بادشاہ کے قیام سے کلکتہ کے پڑوس میں ایک دوسرا لکھنؤ آباد ہو گیا تھا۔ اصلی لکھنؤ مٹ گیا تھا اور اس کی منتخب صحبت مٹیا برج میں چلی گئی تھی بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ان دنوں لکھنؤ، لکھنؤ نہیں رہا تھا، مٹیا برج لکھنؤ تھا۔ یہی چہل پہل تھی۔ یہی زبان تھی، یہی شاعری تھی، یہی صحبتیں اوربذلہ سنجیاں تھیں اور یہیں کے علماء اور اتقیاء تھے۔ یہیں کے علماء او رروساء تھے اور یہیں کے عوام تھے۔ کسی کو نظر ہی نہ آتا تھا کہ ہم بنگالہ میں ہیں۔ یہی پتنگ بازیاں تھیں، یہی مرغ بازیاں تھیں، یہی بٹیر بازیاں تھیں، یہی افیونی تھے، یہی داستان گوئی تھی، یہی تعزیہ داری تھی، یہی مرثیہ خوانی و نوحہ خوانی تھی، یہی امام باڑے تھے اور یہی کربلا تھی بلکہ جس جلوس اور شان و شوکت سے بادشاہ کی ضریح اٹھتی تھی، لکھنؤ میں عہد شاہی میں شاید ہی اٹھ سکی ہو۔ غدر کے بعد تو کبھی کوئی تعزیہ نہ اٹھ سکا۔ کلکتے کی ہزارہا خلقت اور انگریز تک زیارت کو مٹیا برج میں آجاتے تھے۔

مٹیا برج کے دکان دار اور مہاجن تک لکھنؤ کے تھے اور لکھنؤ کی کوئی چیز نہ تھی جو مکمل ترین صورت میں وہاں موجود نہ ہو۔ جدھر گزریے ایک عجیب رونق اور چہل پہل نظر آتی تھی اور اس لطف میں لوگ اس قدر محو اور مست و از خود رفتہ ہورہے تھے کہ کسی کو انجام کی خبر ہی نہ تھی۔ عمارت شاہی اور رمنہ وغیرہ کے اندر جانے کی اہل لکھنؤ، جملہ ملازمین بلکہ ساکنین مٹیا برج کو عام آزادی حاصل تھی۔ باغوں میں پھریے تواس سے زیادہ پر فضا مقام کہیں نصیب نہ ہو سکتا۔ دریا کے کنارے کھڑے ہوجائیے تو عجیب لطف نظر آتا۔ کلکتے کو آنے جانے والے جہاز سامنے سے ہوکے گزرتے جو فورٹ ولیم کی سلامی کے لئے یہیں سے اپنی جھنڈیاں اتارنا شروع کردیتے اور لوگ سمجھتے کہ بادشاہ کی سلامی لے رہے ہیں۔ محلات کی ڈیوڑھیوں اور محل سراؤں کے دروازوں پر کھڑے ہو جائیے تو عجیب لطف کی دھوم دھام میں کبھی کبھی ایسی صورتیں نظر آ جاتیں اورا یسی فصیح و دلکش زبان اور ایسی مزے مزے کی پیاری باتیں سننے میں آ جاتیں کہ انسان مدتوں بلکہ زندگی بھر مزہ لیا کرتا۔

آہ! یہ خوبصورت اور دل فریب نقش تو مٹنے کے قابل نہ تھا! مگر ہائے زمانے نے مٹا ہی دیا اور ایسا مٹایا کہ گویا تھا ہی نہیں۔ 1316ھ (1887) میں یکایک بادشاہ کی آنکھ بند ہوئی اور ایسا معلوم ہوا کہ، خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا۔ سب باتیں خواب و خیال تھیں۔ ایک طلسم تھا کہ یکایک ٹوٹ گیا اور وہ خوبصورت بقعہ جس کی زیارت کی تمنا یورپ کے سلاطین اور ہندوستان کے والیان ملک کو رہا کرتی تھی، آج ایک وحشتستان فنا اور عبرت کدہ ہے جہاں کچھ بھی نہیں۔ جس نے اگلے رنگ کو کبھی دیکھا تھا، اب وہاں کے سناٹے کو دیکھ کے سوا اس کے کمال حسرت و اندوہ کے ساتھ ایک ٹھنڈی سانس بھر کے کہے، ’’رہے نام اللہ کا۔‘‘ اور کیا کر سکتا ہے؟


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.