مکان دیکھے مکیں دیکھے لا مکاں دیکھا

مکان دیکھے مکیں دیکھے لا مکاں دیکھا
by ریاض خیرآبادی

مکان دیکھے مکیں دیکھے لا مکاں دیکھا
کہاں کہاں تجھے ڈھونڈا کہاں کہاں دیکھا

ذرا جو ہم نے انہیں آج مہرباں دیکھا
نہ ہم سے پوچھئے کیا رنگ آسماں دیکھا

نہ پہنچے بام قفس تک کبھی مرے نالے
وہ برق ہوگی جسے گرد آشیاں دیکھا

جھکا جھکا ہے تو ہاں گر پڑے مرے سر پر
یہی نہ یاس سے تھا سوئے آسماں دیکھا

بہت سے رند بھی دیکھے بہت سے زاہد بھی
انہیں تو پیر ہمیشہ انہیں جواں دیکھا

اب آرزوئیں بر آئیں کہ خاک میں مل جائیں
خدا نے دن یہ دکھایا انہیں جواں دیکھا

یہ جانتے ہیں کہ دل خاک ہو گیا جل کر
نہ آگ دیکھی نہ اٹھتے ہوئے دھواں دیکھا

بہت ہی روئے گلے مل کے ایک ایک سے ہم
لٹا ہوا جو کوئی ہم نے کارواں دیکھا

قفس میں روکے ستم تیرے دیکھ لیں صیاد
چمن میں رہ کے بہت لطف باغباں دیکھا

ریاضؔ خاک در مے کدہ تھا جیتے جی
فنا کے بعد اسے خلد آشیاں دیکھا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse