مکان ملتے ہیں کیا لا مکاں نہیں ملتا

مکان ملتے ہیں کیا لا مکاں نہیں ملتا
by ریاض خیرآبادی

مکان ملتے ہیں کیا لا مکاں نہیں ملتا
نشان لاکھ ہیں لیکن نشاں نہیں ملتا

کہیں بھی جائیں کہاں آسماں نہیں ملتا
لحد ہی ایک جگہ ہے جہاں نہیں ملتا

ہوئی ہے روشن اسی سے ہماری پیشانی
جبین عرش کو جو آستاں نہیں ملتا

سنی ہے میں نے بھی رنگیں نوائی ناقوس
گلے سے میرے یہ وقت اذاں نہیں ملتا

یہ چاہتا ہوں کہ بے منہ کے آبلوں سے نبھے
کہیں بھی خار کوئی بے زباں نہیں ملتا

بہار آتے ہی پھولوں نے چھاؤنی چھائی
کہ ڈھونڈھتا ہوں مجھے آشیاں نہیں ملتا

یہ کہہ رہا ہے ترنم ہوا کی موجوں کا
خموش پھولوں کا حسن بیاں نہیں ملتا

یہ شب گزار حرم ہے ضرور اے ساقی
کسی سے رات کو پیر مغاں نہیں ملتا

چلے نہ کام بھرے خم اگر نہ ساتھ چلیں
حرم کی راہ میں کوسوں کنواں نہیں ملتا

شفق کھلی نہ سر قبر پائے رنگیں سے
زمیں سے جھک کے کبھی آسماں نہیں ملتا

خدا کے واسطے پہنچا دے کوئی منزل تک
بچھڑ گیا ہوں مجھے کارواں نہیں ملتا

زبان حال میں ان کی عجب لطافت ہے
کسی سے پھولوں کا حسن بیاں نہیں ملتا

چلے نہ ہاتھ گلے پر تو خود ہی چل جائے
انہیں گلا ہے کہ خنجر رواں نہیں ملتا

ریاضؔ چھانٹ لیا اس نے مجھ سے بوڑھے کو
کوئی بھی دختر رز کو جواں نہیں ملتا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse