مگر تم سیں ہوا ہے آشنا دل
مگر تم سیں ہوا ہے آشنا دل
کہ ہم سیں ہو گیا ہے بے وفا دل
چمن میں اوس کے قطروں کی مانند
پڑے ہیں تجھ گلی میں جا بہ جا دل
جو غم گزرا ہے مجھ پر عاشقی میں
سو میں ہی جانتا ہوں یا مرا دل
ہمارا بھی کہاتا تھا کبھی یہ
سجن تم جان لو یہ ہے مرا دل
کہو اب کیا کروں دانا کہ جب یوں
برہ کے بھاڑ میں جا کر پڑا دل
کہاں خاطر میں لاوے آبروؔ کوں
ہوا اس میرزا کا آشنا دل
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |