مہربانی بھی ہے عتاب بھی ہے
مہربانی بھی ہے عتاب بھی ہے
کچھ تسلی کچھ اضطراب بھی ہے
ہے تو اغیار سے خطاب مگر
میری ہر بات کا جواب بھی ہے
واں برابر ہے خلوت و جلوت
اس کی بے پردگی حجاب بھی ہے
ہو قناعت تو ہے جہاں دریا
حرص غالب ہو تو سراب بھی ہے
وہ تخبتر کہاں تپاک کہاں
گرم و روشن تو آفتاب بھی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |