مہینے کی پہلی تاریخ

مہینے کی پہلی تاریخ
by مرزا فرحت اللہ بیگ
319555مہینے کی پہلی تاریخمرزا فرحت اللہ بیگ

اکثر بھلے آدمیوں کے حالات پر غور کرنے کے بعد میری یہ رائے قائم ہوئی ہے کہ میاں بیوی میں سب سے بڑا جھگڑے کا جھوپڑا تنخواہ کا حساب ہے۔ یقین مانئے کہ اگر گورنمنٹ اپنے ملازموں کے ہاتھ میں تنخواہ نہ دے کر خود ہی اپنے کسی اہل کار کے ذریعے سے مہینہ بھر کا غلہ بھروا دے، قصائی کا حساب کرا دے، ترکاری والے کا چکتا کرا دے اور گھر کی تمام ضروریات خود ہی فراہم کرا دے، تو جن گھروں میں آئے دن دانتا کلکل رہتی ہے وہ یک قلم موقوف ہو جائے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ جو اہل کار صاحب مہینہ کا حساب کرنے آئیں، ان کو دفتر جانے کی بجائے شاید اسپتال جانا پڑے۔دنیا میں میاں دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو ساری کی ساری تنخواہ چپکے سے لا کر بیوی کے ہاتھ میں دھر دیتے ہیں۔ دوسرے وہ جو خود حساب کرتے ہیں اور حساب سے زیادہ ایک کوڑی بیوی کو نہیں دیتے۔ اور لطف یہ ہے کہ دونوں صورتوں میں بیوی کو میاں سے شکایت ہوتی ہے اور میاں کو بیوی سے۔ دنوں جھگڑے چلتے ہیں۔ یہاں تک کہ پندرہ تاریخ آ کر ان جھگڑوں کو ٹھنڈا کر دیتی ہے۔ اور دوسری تنخواہ کا انتظار اس لڑائی کی آگ پر کونڈا ڈھک دیتا ہے۔آپ کہیں گے کہ جب میاں پوری تنخواہ بیوی کو دے دیتے ہیں تو پھر جھگڑے کی کون سی صورت رہی۔ جناب عالی وجہ یہ ہوتی ہے کہ میاں اس طرح جیب خالی کر کھک ہو جاتے ہیں۔ آخر وہ بھی آدمی ہیں۔ سیکڑوں شوق ہیں۔ ہزاروں ضرورتیں ہیں۔ لاکھوں کام ہیں۔ آخر ان کو بھی روپے کی ضرورت ہے یا نہیں۔ اب جو یہ بیوی سے کچھ مانگتے ہیں تو ٹکا سا جواب مل جاتا ہے۔ آپ خود ہی غور کیجئے کہ جو شخص پورے مہینہ بھر محنت کر کے آنکھوں کا تیل نکال کر افسروں کی خفگیاں اٹھا کر گھر میں تنخواہ لائے تو اس کا تنخواہ میں کوئی حق ہے یا نہیں۔میں نے مانا بیوی بڑی چیز ہے۔ مگر صاحب میاں کو بڑی چیز نے نہ سمجھو تو کم سے کم چھوٹی چیز تو سمجھو۔ یہ کیا بیوی تو ساری تنخواہ اٹھانے کی حق دار ہوں اور میاں کو اس میں سے ایک حبہ نہ ملے۔ بس انہی باتوں پر میاں کو غصہ آتا ہے اور جب میاں کو غصہ آئے تو پھر بیوی کو کیوں نہ آئے۔ گھر بار کی مالک ہے تو وہ ہے۔ روپیہ پیسہ ہے تو اس کے ہاتھ میں ہے۔ کھانے پکانے کا انتظام ہے تو اس کے قبضے میں ہے۔ اگر میاں کی حکومت دفتر میں ہے تو اس کی حکومت مکان میں ہے۔ یہاں برابر کی ٹکر ہے۔ دو کہوگے تو چار سنوگے۔ غرض لڑائی ہوتی ہے اور خوب ہوتی ہے۔ فرق یہ ہے کہ شریفوں میں ذرا کھسر پسر کی صورت میں ہوتی ہے۔ معمولی لوگوں میں ذرا اونچی آواز میں ہوتی ہے اور رذیلوں میں دھواں دھوں ہوتی ہے۔ مگر ہوتی ہے سب میں۔ ہاں نتیجہ ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ میاں کے پلے کوڑی نہیں پڑتی۔ میاں ہارتے ہیں اور بیوی جیتتی ہیں۔اب دوسری صورت لیجئے کہ پہلی تاریخ ہوئی۔ میاں تنخواہ لائے اور حساب کرنے بیٹھے۔ بیوی سامنے آ کر بیٹھ گئیں۔ کاغذ آیا۔ میاں نے فونٹین پن نکالا اور لکھائی شروع ہوئی۔میاں ہاں صاحب تو اب حساب بولئے۔بیوی میں کیا بولوں آخر پچھلے مہینے کا پرچہ کیا ہوا۔ جہاں مہینہ ہوا، اور تم نے کہا ہاں صاحب اب بولو حساب۔ آخر پرچہ سنبھال کر کیوں نہیں رکھتے۔ خدا نے صندوقچہ دیا ہے، میز دی ہے، الماری دی ہے، اللہ کے فضل سے سب چیز رہ جاتی ہےاور نہیں رہتا تو موا یہ چار انگل کا پرچہ۔ دس برس سے حساب کر رہے ہو۔ اور اب تک یہ نہیں معلوم کہ گھر میں کیا خرچ ہوتا ہے۔ بتاؤں تو میں بتاؤں، نہیں توآپ ایک حرف نہ لکھیں۔ اچھا لکھئے نیاز کا ایک روپیہ۔میاں نیاز کا ایک روپیہ، میں نے لکھ تو لیا۔ مگر یہ بتائیے کہ آخر یہ روپیہ ہوتا کیا ہے۔ ہم نے تو کبھی نہیں دیکھا کہ تم نے کسی کو ہاتھ اٹھا کر ایک پیسہ دیا ہو۔ یا کبھی نیاز کے لئے مٹھائی آئی ہو۔ کہیں ایسا نہ کرنا کہ روپیہ لو تو نیاز کے لیے اور کسی اور کام میں اٹھا بیٹھو۔ خدا کی قسم نیاز کے پیسے میں سے خود اپنے پر کچھ خرچ کرنا بڑا گناہ ہے۔ خیر مجھے اس سے کیا۔ تم جانو اور تمہارے اللہ میاں جانیں۔ ان کے روپے میں سے حصہ بٹایا تو خود جہنم میں جاؤ گی۔بیوی بس جی بس۔ ایسی باتیں نہ کیا کرو۔ میں کیوں جہنم میں جانے لگی۔ جائیں گے میرے برا چاہنے والے۔ ایسا ہی ہے تو اٹھاؤ اپنی تنخواہ۔ خود ہی حساب کرو۔ خود ہی تقسیم کرو۔ کوڑی کوڑی کا حساب کر کے تو روپیہ کھسکاتے ہو اور اوپر سے ایسی الٹی سیدھی باتیں کرتے ہو۔میاں واہ بی واہ۔ تم تو خفا ہی ہو گئیں۔ خدا معلوم تمہاری کیا حالت ہو گئی ہے کہ ذرا مذاق کیا اور تم بگڑ گئیں۔ اچھا آگے چلو۔بیوی مکان کا کرایہ بائیس روپے۔

میاں اف فوہ، خدا غارت کرے اس مکان دار کو۔ ظالم کرایہ تو پہلی تاریخ کو آ کر وصول کر لیتا ہے اور مرمت کو کہو تو جواب تک نہیں دیتا۔ سامنے کی دیوار کو دیکھو، ادہر کھڑی ہے۔ اب کی برسات میں نہ آ پڑے تو میرا ذمہ۔ خدا معلوم کون کون اس کے نیچے دب کر مرنے والا ہے۔ چھتیں ہیں تو ان کی یہ حالت ہے کہ دن کو اس میں تارے دکھائی دیتے ہیں۔ غسل خانہ ہےتو ماشاء اللہ اور ڈیوڑھی ہے تو سبحان اللہ۔ کہو جی اگر یہ مکان چھوڑ دیں تو کیا۔ دفتر کی قربت کی وجہ سے اس کھنڈرمیں پڑے ہیں۔ ورنہ خدا کی قسم بائیس روپے میں ایسے چار مکان مل سکتے ہیں۔ بھئی اس مکان دار سے ہم تو تنگ آگئے۔ یہ غضب تو دیکھو کہ مکان کی تو یہ حالت اور پچھلے مہینے سے بیس کے بائیس کر دیے۔ تو ہاں مکان کے بائیس روپے۔ آگے چلو۔بیوی امیرن کو نو روپے۔ میاں یہ امیرن کون بلا ہیں؟بیوی تم امیرن کو نہیں جانتے۔ اور آخر تمہیں روز روٹیاں ٹھونک کر کون دیتا ہے۔ تم تو دن بدن ننھے بچے بنتے چلے جاتے ہو۔ سال بھر سے پکانے والی نوکر ہے، اس کا حساب کرتے ہو اور پھر پوچھتے ہو کہ امیرن کون ہے۔میاں بیوی تم نے بھی کس سڑیل ماما کو رکھ چھوڑ اہے۔ نکالو چڑیل کو۔ مجھے تو اس کی صورت دیکھے سے گھن آتی ہے۔بیوی تو میں کب منع کرتی ہوں۔ نکال دو، اور ڈھونڈ ڈھانڈ کر وضع دار، طرح دار، خوبصورت ماما کو لے آؤ پھر دیکھو کہ وہ کھانا پکاتی ہے یا اپنی کنگھی چوٹی میں گرفتار رہتی ہے۔ جہا ں بیری ہوتی ہے وہاں پتھر آتے ہیں۔ تھوڑے دن میں کھلے گا آپ کی ڈیوڑھی اس کے رشتے داروں کی بیٹھک ہو جاتی ہے یا نہیں۔ کوئی بھائی بن کرآئے گا تو کوئی ماموں بن کرآئے گا۔میاں خیر جلی کٹی باتیں چھوڑو۔ ہاں یہ بتاؤ کہ یہ بی امیرن جو آٹھ روز گھر میں جا کر بیٹھ رہی تھیں اس کی تنخواہ ان کو کیوں دی جائے۔ ہم ایک دن دفتر نہ جائیں تو تنخواہ کٹ جائے اور یہ آٹھ آٹھ روز اپنے گھر سے نہ آئیں اور پوری تنخواہ رکھوا لیں۔بیوی اچھا! کاٹ لو آٹھ دن کی تنخواہ۔ دیکھ لو کل اپنے گھر چلی جاتی ہے یا نہیں۔ یہ تو بڑا غضب ہے کہ کوئی بیمار پڑے اور اپنے گھر نہ جائے۔ کسی کے ہاں شادی غمی ہو اور گھر نہ جائے۔ نوکری کیا ہوئی عذاب جان ہو گئی۔ کوئی اس نے نو روپے میں اپنے کو بیچ دیا ہے کہ مرتے مرجائے اورآ پ کی دہلیز سے باہر قدم نہ رکھے۔میاں امیرن کے آٹھ روپے۔ اور فرمائیے۔بیوی آٹھ نہیں نو۔ کلو کے چار روپے۔میاں کلو کے چار روپے۔بیوی کیوں اس کی تنخواہ پر کچھ نہیں کہا۔ میاں کا چاہیتا نوکر ہے نا۔ جب دیکھو، ڈیوڑھی خالی پڑی ہے۔ کچھ لانے بھیجو تو صبح کا گیا شام کا آئے۔ سودا لائے تو پیسے میں سے پون پیسہ کھا جائے۔ جب آواز دو غائب اور نواب صاحب ہیں کہ گھر سے دور درخت کے نیچے بیٹھے یار لوگوں سے تاش کھیل رہے ہیں۔ جوا کھیتا ہے موا پکڑا جائے تو میرے دل میں ٹھنڈک پڑے۔میاں تم تو خواہ مخواہ جس کے چاہتی ہو پیچھے پڑ جاتی ہو۔ آج کل کے زمانے میں چار روپے پر کہیں نوکر ملتا ہے۔بیوی چار روپے تم اس بھروسے پر نہ رہنا، وہ اس گھر سے خاصے دس پندہ روپے اور پیدا کر لیتا ہے۔ ذرا دیکھو تو سہی کیا بنا ٹھنا پھرتا ہے۔ گویا دنیا جہان کی دولت اس کے ہاں آ گئی ہے۔ عید میں جو اس نے شیروانی بنوائی ہے وہ تو ذرا جا کر دیکھو۔ دس روپے گز کا کپڑا ہے۔ ایسی شیروانی تم نے ساری عمر بھی نہ پہنی ہوگی۔ میں خفا ہوتی ہوں، تم اس کی پچ کرتے ہو۔ میں نے بھی سمجھ لیا کہ جب گھر والے ہی گھر لٹوانا چاہتے ہیں تو لٹوانے دو۔ میں بیچ میں بول کر کیوں بری بنوں۔ چار روپے کیا تم اس کے دس کروڑ دو میری بلا سے۔میاں اجی چھوڑو۔ ان جھگڑوں کو۔ اچھا آگے چلو۔بیوی قصائی کے سات روپے۔میاں اس کو تو میں ایک پیسہ نہیں دوں گا۔ بد معاش نے سارے مہینے کتوں کا راتب کھلایا ہے۔ ذرا تم ہی ایمان سے کہنا ایک دن بھی گوشت گلا۔ روپے کا دو سیر گوشت دیتا ہے اور اٹھا کر دیکھو تو نرے چھیچھڑے ہوتے ہیں۔بیوی نہ دو میرا کیا جاتا ہے۔ وہ جانے اور تم جانو۔ تمہارے میاں کلو جانیں۔میاں قصائی کے سات روپے اور۔۔۔بیوی ترکاری والی کے پانچ روپے۔میاں ترکاری والی کے پانچ روپے۔بیوی بنیئے کے پچھتر روپے۔میاں پچھتر روپے۔ غضب خدا کا۔ ہم دو میاں بیوی اور یہ دو بچے، مہینہ بھر میں پچھتر روپے کا اناج کھا گئے۔ آدمی کیا ہوئے پیٹھا رتھو ہو گئے۔بیوی کھا گئے یا نہیں کھا گئے، یہ تو میں جانتی نہیں۔ لویہ بنیئے کا پرچہ ہے۔ خود دیکھ لو۔ پچھتر روپے ہوتے ہیں یا نہیں۔میاں (پرچہ دیکھ کر) گیہوں ایک من دس سیر۔ دس روپے کے۔ کیا بھاؤ ہوئے۔ روپے کے پان سیر ہیں۔ تمام دنیا میں غل مچ رہا ہے کہ غلہ سستا ہو گیا۔ غلہ سستا ہو گیا۔ اور ہمارے ہاں وہی پرانا بھاؤ چلا جاتا ہے۔ بات یہ ہے کہ کسی ایک دوکان سے حساب رکھنے میں یہی مصیبتیں پیش آتی ہیں۔ آئندہ مہینے میں ہم خود بازار سے جا کر غلہ لائیں گے۔ گھی سوا دس روپے کا۔ گھی کیا اسی کو گھی کہتے ہیں جو اس بد معاش کی دوکان سے آتا ہے۔ سارا بنا ہوا گھی ہوتا ہے بس شہر کے رہنے میں یہی آفت ہے۔ نہ گھی اچھا ملے نہ غلہ اچھا ملے۔ نہ گوشت اچھا ملے۔ نہ ترکاری اچھی ملے۔ مٹھیاں بھر بھر کے روپیہ جائے اور سامان آئے تو اس شکل کا۔ میں تو اپنا تبادلہ کہیں باہر کرا لیتا ہوں۔ کم سے کم ایسا گھی تو ملے گا جس سے کچھ طاقت آئے۔ یہاں کیا ہے دس سوا دس روپے مہینے کا گھی کھاؤ، منہ پر پانی پھرنا تو کیسا الٹا معدہ خراب ہو جائے۔بیوی اچھا آگے چلو۔میاں آگے چلوں کیا خاک۔ لو اٹھاؤ اپنا حساب پچھتر روپے لکھے لیتا ہوں۔ ہے یہ کہ تمہیں گھر داری کرنی نہیں آتی۔ جو چیز آتی ہے چپکے سے رکھ لیتی ہو۔ یہ نہیں ہوتا کہ لانے والے کے منہ پر مارو کہ جاؤ ہم ایسا مال نہیں لیتے۔ یہاں محنت کرتے کرتے ہم موئے جاتے ہیں اور بیوی صاحبہ ہیں کہ مال مفت دل بے رحم سمجھ کر اندھا دھند لٹائے چلی جاتی ہیں۔بیوی یہ بھی اچھی کہی کہ میں آپ کا روپیہ لٹا رہی ہوں۔ کبھی حساب سے ایک پیسہ زیادہ بھی مجھے دیا ہے جو یہ طوفان اٹھائے جا رہے ہیں۔ مجھے آپ ایسے کون سے نوے ٹکے تھمائے دیتے ہیں جو ساری کمائی اٹھانے کا الزام مجھ پر لگایا جا رہا ہے۔ اٹھاؤ اپنے روپے، خود ہی کماؤ اور خود ہی اٹھاؤ۔ میں بیچ میں پڑ کر مفت میں بری بنوں۔ اپنی نہیں کہتے۔ یہ دوست آئے لاؤ چائے، وہ دوست آئے لاؤ کھانا۔ آج تھیٹر چلے جا رہے ہیں کل سنیما چلے جا رہے ہیں۔ آپ ہی نہیں جاتے دو تین دستوں کو سمیٹ کر لے جاتے ہیں۔ پیسہ خرچ نہ ہوگا تو کیا ہوگا۔ کیا کسی نفاختے کو یہ بھی نصیب ہوا ہے کہ لو بھئی روز یہ ہم کو تماشا میں لے جاتے ہیں۔ آج ہم ان کو لے چلیں۔ خود ہی تو تمہاری ہمیانی کھلی پڑتی ہے۔ مجھے کیا کہتے ہو۔ پہلے اپنے کو دیکھو کہ تم روپیہ لٹا رہے ہو یامیں۔میاں سارے دن محنت کر کے تفریح کے لیےشام کو تماشے میں بھی نہ جاؤں تو کیا مر جاؤں۔ تم کوتو میرا ہر کام برا معلوم ہوتا ہے۔ اور تم ہی کہو جب دو ایک دوست ساتھ ہوں تو یہ کیسے کروں کی خود ٹکٹ لوں اور ان سے کہہ دوں کہ میاں تم اپنے ٹکٹ خود خریدو۔ مجھ سے تو یہ بے حیائی نہیں ہو سکتی۔ بیوی تو میں یہ کب کہتی ہوں کہ تم بے حیا بنو۔ میرا تو یہ کہنا ہے کہ جب تم خود روپیہ خرچ کرتے ہو تو اس کا الزام مجھ پر کیوں رکھتے ہو۔ تمہارا روپیہ ہے جس طرح چاہو رکھو۔ جس طرح چاہو اٹھاؤ، اگر میں کچھ کہوں تو جو چور کا حال وہ میرا حال۔میاں اچھا آگے چلو۔ بیوی دھوبی کے تین روپے۔میاں قسم خدا کی دھوبی سے تو میری جان بے زار ہوگئی۔ میری حکومت ہوتی تو سب سے پہلے اس کو پھانسی پر لٹکا دیتا۔ اب یہی دیکھو کہ میں جو کرتا پہنے بیٹھا ہوں اس کاکیا حال ہے۔ دو دھوپ میں نامعقول نے دھجیاں کر دیا ہے۔ یہ جو کپڑے پھاڑتا ہے آخر تم اس کی تنخواہ میں سے کاٹ کیوں نہیں لیتیں۔ میں پھر وہی کہتا ہوں کہ تم میں مساواتی حد درجہ کی ہے۔ دو دفعہ تنخواہ کاٹ لو، تو بیٹا ٹھیک ہو جاتے ہیں۔بیوی لکڑیاں چھ روپے کی۔میاں کیا کہا۔ لکڑیاں چھ روپے کی۔ ایک مہینہ میں اکٹھی چھ روے کی لکڑیاں جلا ڈالیں۔ روپے کی چار من تو لکڑیاں آتی ہیں، اور ماشاء اللہ آپ کے ہاں چھے روپے کی جل جاتی ہیں۔بیوی روپے کی چار من لکڑیاں آپ کے گھر میں آتی ہوں گی۔ بڑی مشکل سے پونے دو من کی ملتی ہیں۔ اور آپ جانیں نہ بوجھیں چٹ اعتراض کر بیٹھتے ہیں۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے صبح کے چار بجے سے جو چولہا سلگتا ہے تو کہیں رات کو بارہ بجے جا کر ٹھنڈا ہوتا ہے۔ آپ ہیں کہ منہ دھوئیں تو گرم پانی سے۔ وضو کریں تو گرم پانی سے، نہائیں تو گرم پانی سے۔ دن میں کچھ نہیں کچھ نہیں تو بیس پچیس چلمیں ضرور بھری جاتی ہیں۔ جب سارے دن چولہا دھر دھر جلے گا تو لکڑی نہ اٹھے گی تو کیا ہوگا۔میاں اچھا صاحب تم سچی اور ہم جھوٹے۔ لو لکھے لیتے ہیں، لکڑیاں چھے روپے کی۔بیوی مہتر کا ایک روپیہ؟میاں مہتر کا ایک روپیہ۔ مگر ہاں اب یہ دو وقتی کو نہیں آتا۔ ذرا اس سے کہہ دینا کہ اب کی ایسا کیا تو آٹھ آنے کاٹ لوں گا۔ غرض یو ں ہی حساب کا سلسلہ چلتا رہا۔ اور تان یوں ٹوٹی کہبیوی قرضے کے اٹھارہ روپے۔میاں خدا کے لئے بیوی تم سب کچھ کرو۔ مگر للہ قرضہ نہ کرو۔ قرضے کے نام سے میرا دم نکلتا ہے۔ آخر میں بھی تو سنوں ک یہ قرضہ ہوا کاہے میں۔بیوی تم بہت دن سے کہہ رہے تھے کہ مجھے چکن کے کرتے بنا دو۔ پرسوں رام لال بزاز آیا تھا اس سے دو کرتوں کی چکن لے لی کہو تو واپس کر دوں۔میاں تو کیا دو کرتوں کی چکن اٹھارہ روپے کی ہوگی۔ زیادہ سے زیادہ ہوگی کوئی روپے سوا روپے کی۔بیوی روپیہ سوا روپیہ کیوں کہتے ہو تین چار آنے کہو۔ پورے ساڑھے سات روپے کی ہے۔ ساڑھے سات روپے کی۔میاں اچھا ساڑھے سات سہی اور باقی؟بیوی باقی کا میں نے پیجاموں کا کپڑا لیا۔میاں کیوں پچھلے پیجامے کیا ہوئے، دو ہی مہینے تو ہوئے کہ چھے پیجاموں کا کپڑا لا کر دیا تھا تمہیں۔ تو ہوکا گیا ہے۔ نہ یہ دیکھتی ہو کہ ضرورت ہے۔ نہ یہ دیکھتی ہو کہ گھر میں پیسہ ہے۔ جہاں کوئی چیز دیکھی اور لوٹ گئیں۔ ضرورت ہو یا نہ ہو۔ تم کو خرید لینا ضرور ہے۔ میں نے کلو سے کہہ دیا تھا کہ ان بد معاش گھٹے والوں کو دروازے میں نہ گھسنے دیا کر۔ مگر جب گھر کی بیوی ہی روپیہ لٹانے پر آمادہ ہوں تو وہ بچارا کیا کرے۔ بیگم صاحب تم کو معلوم بھی ہے کہ یہ پھیری پھرنے والے کیا کرتے ہیں۔ بڑی بڑی دوکانوں پر جو پرانا دھرانا، سڑا بسا مال ہوتا ہے وہ لے آتے ہیں اور تم جیسی گھر والیوں سے پیسے کے دو پیسے کھرے کر لیتے ہیں۔ اور فرمائیے۔ کیا اس کے علاوہ اور بھی کسی کو کچھ دینا ہے۔بیوی ہاں رامو کی کے چالیس روپے ہیں۔ دس روپے اس مہینے میں دے دو باقی پھر تھوڑے تھوڑے کر کے دے دینا۔میاں رامو کون ہے۔ وہی سوئی پوتھ والی 1 دیکھو بیوی کان کھول کر سن لو۔ مجھے اس عورت کا گھر میں آنا برا معلوم ہوتا ہے۔ اس سے سے الٹی سیدھی چیزیں خرید کر تمہیں قرضہ لینے کی عادت پڑی ہے۔ ذرا میں بھی تو دیکھوں کہ اس سے آپ نے ایسی کون سی چیز خریدی ہے جو میرے کام آئی ہے۔ یا آپ کے کام آئی ہو۔ خیر اب تک تو میں نے نہیں کہا تھا۔ ہاں اب کہتا ہوں کہ تم نے اپنے جہیز کا سارا گوٹا کناری ادھیڑ ادھیڑ کر اسی کے نذر کر دیاہے اور اس کے بدلے میں لیا کیا ہے کہ بارہ آنے درجن کی چینی کی رکابیاں، جھوٹے موتیوں کی لڑیاں، جاپان کی بنی ہوئی ٹرمہی، گڑیاں غرض ایسی اہی الا بلا خرید کر سارا جہیز نیگ لگا دیا۔ اور اس پر بھی بی رامو کے چالیس روپے باقی ہیں۔ہے یہ کہ تم نے گھر کا خوب گھرواہا کیا ہے۔ میاں کو تنخواہ تو ہے سوا دو سو اور بیوی مہینہ بھر میں اٹھائیں پونے تین سو۔ آخر یہ گھر چلے گا تو کیسے چلے گا۔ کوئی میرے باپ دادا جاگیر تو چھوڑ نہیں گئے ہیں کہ قرضہ ہوتا ہے تو ہونے دو۔ فصل پر روپیہ آئے گا تو اتار دیں گے۔ یہاں تو اسی سوا دو سو میں مرنا جینا سب کچھ ہونا ہے۔ اور تم ہو کہ ہر مہینے کچھ نہ کچھ قرضہ ضرور کر بیٹھتی ہو۔بیوی تو میں نے کب کہا کہ خدا کے لئے یہ گھر داری میرے سپرد کرو۔ ایسا ہی ہے تو خود ہی تنخواہ لاؤ، خود ہی اٹھاؤ غضب خدا کا کہ گھر کے خرچ تو خود بڑھائیں اور بیوی پر آنکھیں نکالیں۔ جاؤ میں تمہارا روپیہ دو روپیہ نہیں لیتی۔ تم جانو اور تمہارا گھر جانے۔لیجئے چلی گئی۔ مگر جناب آپ سمجھے بھی کہ آخر اس گڑبڑ کی وجہ کیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ میاں ہوں یا بیوی بے ضرورت اخراجات بڑھا لیتے ہیں۔ تنخواہ آنے پر جب جمع و خرچ پر نظر ڈالی جاتی ہے۔ اس وقت خیال آتا ہے کہ ہیں یہ قرضہ کیسے ادا ہوگا۔ میاں کو بیوی پر اور بیوی کو میاں پر غصہ آتا ہے۔ ایک طرف سے حساب پر جاو و بے جا اعتراض ہوتے ہیں۔ دوسری طرف سے جلے کٹے جواب دیے جاتے ہیں۔ بات بڑھ جاتی ہے۔ شرافت پھر بیچ میں پڑ کر صفائی کرا دیتی ہے۔دوسرے مہینے پھر یہی مصیبت پیش آتی ہے۔ مگر کوئی اللہ کا بندہ خیال نہیں کرتا کہ لاؤ کچھ اس طرح خرچ کریں کہ تنخواہ میں پوری پڑ جائے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر ہم لوگ ’’جتنی چادر دیکھو اتنے پاؤں پھیلاؤ‘‘ پر عمل کریں اور بے ضرورت خرچ سے ہاتھ روکیں تو تنخواہ میں پوری پڑنی کیسی انشاء اللہ کچھ بچت ہی ہو کر یہ جو آئے دن کے جھگڑے ہیں خود بخود رفع ہو جائیں۔ مگر بھئی ہماری سنتا کون ہے۔ خیر ہم تو اپنی سی کہے دیتے ہیں۔ آئندہ تم جانو اور تمہارا کام جانے۔من آنچه شرف بلاغ است با تو میگویم تو خواہ از سخنم پند گیر خواہ ملالحاشیے اللہ کے فضل سے یہ ہر بھلے آدمی کے گھر کا نقشہ ہے۔ پڑھ کر ہر شخص دل میں قائم ہوگا۔ لیکن انشاء اللہ اصلاح حال کی ایک بھی کوشش نہ کرے گا۔ (مصنف)

(1) حیدرآباد کی یہ گھٹے والیاں ہیں۔ ہر قسم کا سامان خدا جانے کہاں کہاں سے خرید کر لاتی ہیں اور من مانے داموں پر گھروں پر بیچ جاتی ہیں۔ ان کے قرضے کا وہ پھیر ہے کہ مرتے دم تک اس سے پیچھا چھوٹنا مشکل ہے۔


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.