میان سے تیرا اگر خنجر نکل کر رہ گیا

میان سے تیرا اگر خنجر نکل کر رہ گیا
by میرزا الطاف حسین عالم لکھنوی

میان سے تیرا اگر خنجر نکل کر رہ گیا
میرے بھی دل میں بڑا ارماں ستم گر رہ گیا

کیا فقط کوچہ میں تیرے میرا بستر رہ گیا
بلکہ مجھ سے چھوٹ کر دل ہی کہیں پر رہ گیا

میکشوں کے دور میں بیٹھے تھے ہم بھی با نصیب
اب تو خالی ہاتھ میں ساقی کے ساغر رہ گیا

میرے کس ارماں نے میرے قتل سے روکا تجھے
جو کمر سے تیرے یوں خنجر نکل کر رہ گیا

در تک اس کے میں پہنچ جاؤں گا یہ کہتا ہوا
تیرے کوچے میں مرا بھولے سے بستر رہ گیا

موت آئی ہے مجھے لینے کو یہ کہہ دے کوئی
رہنے والا مر گیا اجڑا ہوا گھر رہ گیا

وائے ناکامی کہ اڑنے بھی نہ پایا تھا ابھی
باندھتے ہی نامہ بازوئے کبوتر رہ گیا

دل کی مایوسی نہ پوچھو جب وہ پہلو سے اٹھے
کر ہی کیا سکتا تھا تڑپا اور تڑپ کر رہ گیا

سب کو لوح قبر میرا بھی یوں ہی دے گی نشاں
آئنے سے جس طرح نام سکندر رہ گیا

عشق اس کے گیسوؤں کا کیا ہوا عالمؔ مجھے
سارے عالم کا جو سودا تھا مرے سر رہ گیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse