میرا ایک سفر

میرا ایک سفر
by رشید جہاں
319610میرا ایک سفررشید جہاں

شکنتلا۔۔۔ تم لڑکیاں بھی کتنی بد مذاق ہو، میری گھڑی پیچھے کردی، اگر ریل چھوٹ جاتی تو؟

کل کالج سے اتنی دیر کر کے چلی کہ اسٹیشن پر پہنچی تو گاڑی گھڑی تو تھی، لیکن گارڈ سیٹی پر سیٹی بجا رہا تھا۔ جس مصیبت سے میں نے اسے پکڑا بس میں ہی جانتی ہوں۔ اپنی ساڑی اونچی اٹھا میں نے پل پر سے بھاگنا شروع کیا۔ یقین مانو! اگر تم ساتھ ہوتیں تو یہ ریل کبھی نہ ملتی۔ ریلوے کے ملازم تھے کہ حیرت سے منہ پھاڑے میری طرف دیکھ رہے تھے اور میں تھی کہ نہ آگے دیکھوں نہ پیچھے۔ بس بھاگے جارہی تھی۔ پل پر سے اتر رہی تھی کہ گاڑی نے آہستہ آہستہ کھسکنا شروع کیا۔ میں نے بھی اپنی چال تیز کی۔ دو دو تین تین سیڑھیاں پھلانگنے لگی۔ گارڈ کوئی نیک سا جوان تھا۔ میری طرف دیکھ کر مسکرایا اور پھر ایک دفعہ سیٹی بجائی۔ میری حالت ہی یہ تھی کہ جو دیکھتا ضرور ہنستا۔ بال اڑتے ہوئے۔ تم کہو گی یہ تو کوئی نئی بات نہیں۔ ہمیشہ ہی اڑا کرتے ہیں لیکن کل تو بری حالت تھی۔ کلپ سب گر گئے تھے۔ لٹیں تھیں کہ منہ پر لہرا رہی تھیں۔ سیڑھیاں دکھائی تک نہ دیتی تھیں۔ ساڑھی تھی کہ پیچھے پیچھے چلی آ رہی تھی۔ سانس تھا کہ لوہار کی دھونکنی بنا ہوا تھا اور میں تھی کہ بس قدم آگے تھا۔ آخری دو سیڑھیاں جو اور جلدی میں کودنی چاہیں توساڑھی میں الجھ کر چاروں خانے چت گری۔

ہر کوئی میرے اٹھانے کو بڑھا۔ لیکن میں خود ہی جلدی سے اٹھ بیٹھی اور بالوں میں سے لال منہ نکال کر ہانپتی ہوئی چیخی، ’’گاڑی!‘‘ گارڈ نے ہنس کر کہا۔ (میرے اس طرح گرنے پر سب ہی ہنس رہے تھے۔ قہقہے تک مجھے سنائی دیئے۔ تو گارڈ بچارا کیوں نہ ہنستا) خیر اس نے بڑی مشکل سے اتنا کہا، ’’گاڑی ٹہرکا دی ہے۔ (ہنسی) جلدی کیجئے ویسے ہی پانچ منٹ لیٹ ہے۔‘‘

بس میں پھر دوڑی اور سامنے کے درجے میں گھس گئی۔ درجہ مردانہ تھا۔ وہاں میں مسکراہٹوں اور ہنسی کے درمیان ریل کے باہر جھانکتی رہی۔ جب سانس ٹھیک ہوا تو غسل خانے میں جا کر بال درست کئے اور دوسرے اسٹیشن کا انتظار کرنے لگی۔ وہاں اتر کر میں نے ٹکٹ خریدا اور زنانے ڈبے میں چلی گئی۔

تیسرا کلاس کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ چھوٹا درجہ عورتیں بچے اور اسباب مل کر اتنی جگہ تھی کہ کوئی آرام سے کھڑا بھی ہو سکے۔ پاخانے کے پاس والی کھڑکی میں سے منہ نکال کر جھانکنے لگی۔ جب درجہ تیسرا ہو اور اس طرح بھرا ہوا ہو تو میری جگہ پر جو جو خوشبوئیں آ رہی ہوں گی اس کا اندازہ تم فرسٹ، سیکنڈ کلاس میں سفر کرنے والی کم لگا سکتی ہو۔ میں ناک میں رومال ٹھونسے کھڑی تھی کہ ایک ہندو عورت نے ذرا سی جگہ نکال کر کہا، ’’بہن جی یہاں بیٹھ جایئے۔‘‘ میں بیٹھ گئی۔ چار بنچ تھے۔ دو پر ہندو اور ان کے بچے بیٹھے تھے۔ اور دو پر مسلمان اور ان کی اولاد۔ میرے ماتھے پر جو لال بندی لگی تھی اس کی وجہ تھی کہ انہوں نے مجھے اپنے پاس بٹھا لیا تھا، میں نے شکریہ کیا کہ یہ بندی جسے دیکھ کردادی اماں اتنی ناراض ہوں، مجھ پر تو خیر۔ میرے ماں باپ کو بھی ہزاروں سنا دیں اس وقت خوب کام آئی۔

’’بہن جی۔ ابھی گھنٹے بھر میں ہم تین جنی اتر جائیں گی تو تم آرام سے بیٹھ جانا۔‘‘

جی میں بھی گھنٹہ بھر میں اتر جاؤں گی۔‘‘میں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے جواب دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد ’’آپ پڑھتی ہیں؟‘‘

’’جی‘‘

’’آپ کی شادی ہو گئی ہے۔‘‘

’’جی نہیں۔‘‘ میری ’جی نہیں ‘ سے وہ اتنی ناراض ہوئیں کہ آنکھیں بھویں سیکڑ منہ دوسری طرف کرلیا۔

’’آ پ کون ذات ہیں؟‘‘ ایک اور بولیں۔

’’چمار‘‘ میں نے زور سے ہنس کر جواب دیا۔

میں ریل پکڑنے سے اتنی خوش تھی کہ دل چاہ رہا تھا کہ آپ ہی آپ قہقہے لگاؤں، چیخوں اور کودنے لگوں۔ بمشکل ضبط کئے بیٹھی تھی۔ اب ان کے سوالوں نے پھر سے گدگدی شروع کر دی اور میں زور سے ہنس پڑی۔ جنہوں نے یہ سوال کیا تھا بگڑ گئیں۔

’’آپ چمار ہیں، پڑھی لکھی ہو کر ایسا دوسروں کو الو سمجھتی ہیں۔‘‘

ہاں، دوسری بچواں پر جو مسلمان عورتیں بیٹھی ہوئی پان پر پان کھا رہی تھیں سب کی سب ان پڑھ تھیں اور دیکھنے میں بھی ایک ہی برادری کی معلوم ہوتی تھیں اور یہ ہندو عورتیں بھی زیادہ تر بے پڑھی لکھی بینیاں، کھترانیاں، برہمن قسم کی تھیں۔ ویسے ہی سفر میں ہر کوئی برہمن ہو جاتا ہے اور ٹھاکر سے نیچی ذات کو تو ہم نے آج تک سفر کرتے دیکھا ہی نہیں۔

ایک اور مسلمان عورت کالے تنگ پاجامے گلابی دوپٹہ چاندی کے زیور سے لدی ہوئی اٹھی، بلاق اس کا اتنا بڑا تھا کہ اس کا پان سے بھرا ہوا منہ اور مسی سے کالے دانت سب اس بلاق کے پیچھے چھپ گئے تھے۔ بلاق کیا تھا ایک ٹٹی تھا کہ سامنے لٹک رہا تھا۔ میرا خیال ہے کہ پرانے زمانے میں عورت کی چڑچڑ سے تھک کر کسی مرد نے بلاق نکالا ہوگا تاکہ عورت کی آواز منہ میں پھنس جائے۔ لیکن عورتیں بھی کیا ہی بے وقوف ہیں کہ اس کو رواج بنا لیا۔ جبھی تو ہر مذہب یہی سکھاتا ہے کہ عورت ناقص العقل ہے۔

اچھا سنو! وہ مسلمان اٹھیں۔ اب لوٹا لئے پاخانے کی طرف چلیں۔ ہندو عورتیں جلدی سے سمٹیں۔ ایک بچاری جو اسباب پر بیٹھی ہوئی تھی مع جوتیوں کے صندوق پر چڑھ گئی۔ یہ مسلمان صاحبہ بغیر ادھر ادھر دیکھے اپنا دوپٹہ سایۂ رحمت کی طرح اسباب والی اور ایک اوپرجوان کے قریب ہی بیٹھی تھی لٹکاتی ہوئی نکل گئیں۔

وہ دونوں غصہ سے تلملا گئیں۔ ’’دیکھا کیسی بیڈھنگی ہے کپڑے چھواتی چلی گئی۔‘‘

’’تو پاخانے کہاں سے جائے! راستہ میں کیوں بیٹھی ہو؟‘‘ ایک ادھیڑ عمر کی مسلمان عورت دوسری طرف سے بولیں۔

’’جانے کو کس نے بند کیا ہے؟ اپنا کپڑا اٹھا کر توچلے۔ کیوں دوسروں کو چھواتی ہوئی جاتی ہے۔‘‘ میری ہمسائی تڑخ کر چیخیں۔ یہ ایک ہندی اخبار ہاتھ میں لئے ہوئے تھیں۔

’’راستہ میں بیٹھو گی تو یہی ہوگا۔‘‘ ایک اور مسلمان نے لاپرواہی سے جواب دیا۔

’’راستہ میں نہ بیٹھیں تو کیا تمہارے سر پر بیٹھیں۔ ٹانگ پھیلا پھیلا کر تو تم بیٹھو ہم یہاں تکلیف سے بیٹھتے ہیں تو بھی تمہیں کھٹکتا ہے، جیسے ریل تمہارے باپ کی ہے اور ٹکٹ تمہیں اکیلی نے تو خریدا ہے۔‘‘ دوسری ہندو صاحبہ نے پیچھے مڑکر اور ہاتھ پھیلا کر مسلمانوں کو جواب دیا۔

’’ہاں ریل ہمارے باپ کی ہے۔ ہم تو یوں ہی ٹانگیں پھیلا پھیلا کر بیٹھیں گے۔ تم سے جو بنے بنا لو اور جو زیادہ بک بک تم سب نے کی تو ٹھیک نہ ہوگا۔‘‘ ادھیڑ مسلمان نے پیک ریل کے اندر تھوک کر ہندؤوں کو ڈانٹا۔

’’ٹھیک نہیں ہوگا تو کیا ہوگا؟ تم کوئی کلٹر ہو کہ توپ دم کروا دوگی؟‘‘

پھر اپنی پارٹی کی طرف مڑکر ’’سن رہی ہو بہن جی! جب سے یہ مسلمانیاں گھسی ہیں یہ آفت اٹھا رکھی ہے۔‘‘

اب میں سمجھی کہ یہ دو کیمپ کیوں اس طرح الگ الگ بیٹھے تھے۔ یہاں بھی ہندو اور مسلمان کی لڑائی ہو رہی تھی۔ ان غریب گھر کی بیٹھنے والیوں کو سڑکوں پر تو موقع ملتا نہیں۔ اب خوش قسمتی سے تیسرے کلاس کا ڈبہ میسر آیا۔ وہیں دشمنی نکالنے لگیں۔

میں سنبھل کر بیٹھ گئی اور غور سے سننے لگی۔ ایک جوان مسلمان عورت نے زور سے ہندؤں کو سنا کر کہا، ’’اے چچی تم بھی کن کمینوں کے منہ لگتی ہو۔ بھلا جوتوں کا بھوت باتوں سے اترتا ہے۔‘‘

’’کیا کہا تم نے؟ جوتوں کا بھوت؟ کمین؟ ذرا اپنی زبان سنبھال کر بولو۔ کیا خون خرابہ کرنے کی تمہاری منشا ہے۔‘‘

شریمتی جو میرے قریب تیج پڑھ رہی تھیں، اکڑ کر بولیں، ’’جانتی ہو میں کون ہوں؟ جو زیادہ چیڑ پھنس کی تو سسریو یہیں سب کو اتروا دوں گی۔‘‘

مسلمان لڑکیوں نے قہقہہ لگایا، ’’اے لو! کچھ اور بھی سنا، وہ بیٹھی ہیں لاٹ صاحب کی جورو!‘‘

یہ مجھے زور سے ہٹاتی ہوئی جوش میں آکر کھڑی ہو گئیں۔ اتنے میں غسل خانے کا دروازہ کھلا اور بلاق والی نکلیں۔ یہ ابھی کھڑی ہی تھیں کہ اسباب پر سے ہندو بولیں، ’’دیکھو جی اپنے کپڑے سنبھالتی ہوئی چلو۔‘‘

’’ہم تو ایسے ہی جائیں گے۔‘‘ کہہ کر وہی اپنی پرانی شان سے آنچل لٹکاتی ہوئی نکلیں، ان کا دوپٹہ پھر اسباب والی سے چھوا، اس دفعہ تو انہوں نے دانت کچکچا کر دوپٹہ گھسیٹ ہی لیا۔ بلاق والی اوندھی گریں اور لوٹا چھوٹ کر وہ گیا۔ سارا پانی دو ہندو عورتوں پر گرا اور چھینٹیں تو کئی پر پڑیں۔ سب کی سب چلا پڑیں، ’’رام رام۔‘‘ دوپتہ گھسیٹنے والی دوپٹہ چھوڑ اپنی دھوتی دیکھنے لگیں۔ بلاق والی بھی سنبھل کر کھڑی ہوئیں۔ یہ واقعہ اتنی جلدی اور اچانک ہوا تھا کہ ان کی ساتھ والیاں ابھی اٹھ ہی رہی تھیں کہ یہ اپنا دو پٹہ چھوڑ تن کر کھڑی ہو گئیں۔ آؤ دیکھا نہ تاؤ۔ ایک طمانچہ چٹ سے اپنے دشمن کے جھکے ہوئے سر پر مارا۔

’’حرامزادی، سمجھتی کیا ہے اپنے کو۔‘‘

اب درجہ میں ایک عجب طیش اور غصہ کی قضا تھی۔ ہر عورت آنکھیں نکالے دوسری پارٹی کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اور میں جھک جھک کر باہر جھانک رہی تھی کہ کوئی اسٹیشن بھی آ جائے تو ان کا دھیان بٹ جائے لیکن یہ تو ایکسپریس تھی۔ سب چھوٹے موٹے اسٹیشن چھوڑ رہی تھی اور اس کے ٹھہرنے میں تو ابھی بہت وقت تھا۔

طمانچہ کھا کر اور بھیگ کر کس طرح ممکن تھا کہ وہ خاموش رہتیں۔ ان کی ساتھی جو بھیگی بیٹھی تھیں، اکیلی ہی لڑنے مرنے کو تیار تھیں۔ دونوں ایک ساتھ ہی بلا قن سے گتھ گئیں۔ ادھر سے بھی مدد آگئی اور اب ذرا سی جگہ میں چار پانچ عورتیں ایک دوسرے سے بھڑی ہوئی تھیں۔ کسی کے بال دوسری کے ہاتھ میں تھے تو اس کے خود کے بالی پتے کھنچ رہے تھے۔ اسباب پر لدالد گر رہی تھیں۔ پھر اٹھتی تھیں۔ جو ہندؤوں نے بالیوں اور بلاقوں پر ہاتھ مارا تو مسلمانوں نے بال کھینچے۔ جہاں جس کا منہ پڑا وہیں کے وہیں اپنی دشمن کا گوشت دانتوں میں دبا لیا۔ اگر کسی کا وار پڑ گیا تو وہیں دو ہتڑہی دو ہتڑ لگانے لگی۔ غرضیکہ یہ سب مارپیٹ، نوچ کھسوٹ کی زندہ تصویریں اسباب اور ریل کے فرش پر لوٹ رہی تھیں۔

میرے پاس جو شریمتی کھڑی تھیں، اسباب ہٹاتی ہوئی میدان جنگ میں پہونچنا چاہتی تھیں۔ لیکن جگہ ہی نہیں ملتی تھی۔ جوش قومی سے پاگل ہو رہی تھیں۔ جب ادھر جانے راستہ نہ ملا تو بنچ پر سے جھک کر ایک آٹھ دس سال کی مسلمان لڑکی کے دھول جمائی۔ اب دو تین مسلمان عورتیں جو لڑائی میں صرف زبانی حصہ لے رہی تھیں۔ بے قابو ہو کر کودیں اور دشمن کے ملک میں گھس آئیں۔ ادھر بھی جو ہندو لڑائی میں شریک نہ تھیں، کھڑی ہو گئیں۔ اب بجائے ایک جگہ کے دو طرف گتھم گتھا ہونے لگی۔ میں اپنی جگہ پر اور سکڑ گئی۔ ہمسائی نے میری اس مردہ دلی کو دیکھ کر مجھے جنگ میں شرکت کی دعوت دی، ’’بہن جی! بیٹھی کیا دیکھ رہی ہو آخر کیا ان ملیچھنوں کی مار کھاؤ گی۔‘‘

ادھیڑ مسلمان نے غضب کی آنکھوں سے میری طرف دیکھا۔ میں جلدی سے باہر دیکھنے لگی تاکہ اس کو یقین ہو جائے کہ میں اس مار پیٹ میں شریک ہونا نہیں چاہتی۔ میں نے دیکھا کہ چند بچے ڈرے سہمے ہوئے بیٹھے تھے۔ یہ سین دیکھ رہے تھے اور باقی گلا پھاڑ کر رو رہے تھے۔ لیکن مائیں تھیں کہ اس جوش قومی کے سامنے بچوں کو بھی بھول چکی تھیں اگر کمی تھی تو بس ’’اللہ اکبر اور سری کرشن مہاراج کی جے‘‘ کی تھی۔ یہاں تو ان بولوں کے بدلے رنڈی، لچی، سوت، رانٹ، حرامزادی، الو کی پٹھی کے اور جو جو لفظ سنائی دے رہے تھے ان کو لکھنے کی میری تو ہمت نہیں۔ تم خود ہی سمجھ جانا۔

ایک مسلمان بڑھیا نے جو کونے میں بیٹھی سر ہلا رہی تھی۔ اب ایک اور چال چلی۔ شاید ارادہ نیک ہو، لیکن انجام تو بہت ہی برا ہوا۔ اس نے اپنے کھانے کو پوٹلیا کھولی۔ کھانا نکالا اور گوشت کی بوٹیوں اور قیمہ کی بوچھاڑ ہمارے طرف کردی۔ ہندو عورتیں ایک لمحہ تو رکیں اور پھر سنبھل کر ایک نے گرے ہوئے لوٹے کو اٹھا کر باہر پھینک دیا۔ مسلمان اب ان کے اسباب کی طرف لپکیں اور ذرا سی دیر میں سب کی سب ایک دوسرے کے اسباب پر چپٹ گئیں۔ اگر ایک پارٹی چھین رہی ہے تو دوسری بچا رہی ہے۔ اسباب کی چھینا جھپٹی بڑھتی جا رہی تھی۔ دونوں طرف کی دو چار چھوٹی موٹی چیزیں کھیتوں کی نذر بھی ہو چکی تھیں اور میرا ڈر کے مارے برا حال تھا کہ کہیں اسباب اور اسباب کے بعد بچوں کی باری نہ آ جائے۔

عورت جب غصہ سے پاگل ہوتی ہے تو بگڑے ہوئے بجا رسے بد تر اس کی حالت ہوتی ہے اور یہاں تو اتنی عورتیں تھیں اور سب کی سب غضبناک۔ میں اپنی خوشی وشی سب بھول چکی تھی اور اس سوچ میں تھی کہ کیا کروں اور کس طرح ان عورتوں کو منع کروں کہ میری ہمسائی شریمتی کشتی میں ہار کر میرے اوپر گریں اور ادھیڑ مسلمان کا اندھا ہاتھ میرے کٹے ہوئے بالوں پر پڑا۔ بس میں چکرا ہی تو گئی۔ آنکھوں کے نیچے اندھیرا آ گیا۔ میں شریمتی کو دھکا دے کر کھڑی ہو گئی۔ اپنا سیدھا ہاتھ جو میں نے گھما کر مارا تو ادھیڑ اور ان کی ساتھی دونوں کے سر جا کر بنچ پر ٹکرائے اور میں لپک کر زنجیر کی طرف بڑھی۔

شکنتلا کاش تم بھی ہوتیں! لڑائیاں میں نے عورتوں کی بہت دیکھی ہیں اور خاص کر ریل میں، جگہ پر، مذہب پر، بچوں پر، گندگی پر، غرضیکہ ہر بات پر ہوتی ہیں لیکن ایسی انوکھی ہاتھا پائی میں نے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ کسی کے کان سے خون بہہ رہا ہے تو کسی کے ناک میں سے کسی کے کپڑے چیتھڑے ہو گئے ہیں تو کسی کے بالوں کی لٹیں دوسری کے ہاتھ میں ہیں۔ ایک بے چاری کی دھوتی بھی اسی کشتم کشتا میں کھل گئی لیکن اس کو کہاں ہوش تھا وہ تو یوں ہی جتی ہوئی تھی۔ تو میں لکچر دینے لگی لیکن کاش تم وہاں ہوتیں تو سنتیں کہ زبیدہ بھی بول سکتی ہے۔

میں نے زنجیر تھا می اور گلا پھاڑ کر چلائی، ’’آپ لوگ لڑنا بند کریں گی یا نہیں یا میں زنجیر کھینچ کر پولیس کو بلاؤں؟‘‘

لڑنے والیاں رکیں میری طرف دیکھا اور میرا ہاتھ زنجیر پر دیکھ کر کچھ ہوش میں آئیں۔ ان کے ہاتھ تھوڑے ڈھیلے پڑے۔ میں موقع کو غنیمت سمجھ کر پھر اسی آواز میں گرجی۔

’’ذرا اپنی حالت تو دیکھو، کوئی ننگی پڑی ہے۔‘‘ فوراً اس عورت نے اپنی دھوتی گھسیٹی۔ اس کو پہلی دفعہ اپنی برہنگی کا احساس ہوا تھا۔ ’’کسی کا کان کھینچا ہوا ہے۔‘‘ بہت سے ہاتھ اپنے کانوں کی طرف اٹھے۔ ’’کسی کا کرتہ پھٹ پھٹا کر دھجی ہو گیا ہے۔ آخر بتاؤ کہ تم عورتیں ہو کہ جانور؟‘‘

میرا ہاتھ برابر زنجیر پر تھا اور میں نے محسوس کیا کہ اس وقت اگر میں نے بولنا بند کیا تو یہ کہیں پھر آپس میں نہ جت جائیں۔ نہ معلوم کیا کیا کہتی رہی۔ ہزاروں باتیں سب کو سنائیں اور آج آواز ہے کہ نکلتی ہی نہیں!

میں نے اپنی ہمسائی کی طرف مڑ کر کہا۔

’’شریمتی جی یہ کوئی مہا سبھا کا اکھاڑا ہے کہ آپ داؤ پیچ دکھانے لگیں۔ مانا کہ آپ اسٹیشن ماسٹر کی بیوی ہیں اور شاید کسی کنیا پاٹ شالہ کی تعلیم یافتہ بھی ہوں لیکن آپ کو شرم نہیں آتی کہ ایک بے قصور چھوٹی بچی پر آپ نے ہاتھ اٹھایا۔‘‘

انہوں نے جواب دینے کو منہ کھولا ہی تھا کہ میں پھر زور سے چیخی۔

’’خاموش! اگر تم میں شرم ہو تو ڈوب مرو۔‘‘

اس کے بعد بڑھیا کی طرف مخاطب ہوئی اور دانت پیس کر کہا۔

’’بڑی بی! افسوس ہے کہ نہ ہوئیں تم میری اماں ورنہ میں تمہارا گلا اپنے ہاتھ سے گھونٹ دیتی۔ تمہاری جیسیوں کو تو زندہ دفن کردینا چاہئے۔ یہ گوشت اس طرح پھینکنے کے کیا معنی تھے؟ کیا کوئی ہولی تھی کہ تم رنگ اچھالنے لگیں؟‘‘

بڑی بی اپنے سلوٹوں سے بھرے ہوئے سوکھے منہ اور چندھی آنکھوں کو ایک عورت کی طرف موڑ کر بولیں۔

’’کیا کہہ رہی ہے؟‘‘

میں جل کر چیخی، ’’کم بخت، بہری بھینڈ، تجھے اس بڑھاپے میں جہاد کی کیا سوجھی؟‘‘

دیکھنے کے قابل سین تھا۔ ہر عورت اسی طرح بال بکھیرے جیسی کی تیسی وہیں بیٹھی تھی اور اب میدان میرے ہاتھ میں تھا۔ ہر ایک کی آنکھ میری طرف تھی اور میں تھی کہ ایک خوفناک ہاتھی کی طرح چنگھاڑے جاتی تھی۔ ’’تم کو کیا ضرورت تھی کہ چلتی عورت کا دوپٹہ کھینچ لیا۔ چھو گیا تھا! تم کہاں کی ایسی اچھوت ہو؟ کھدر کی دھوتی پہن کر گاندھی جی کی چیلی بنی ہیں۔‘‘

میں نے محسوس کیا کہ اب میں بھی انہیں عورتوں کی زبان میں بات کر رہی تھی۔ نہ معلوم کیا کیا لفظ تھے جو میری زبان سے اس وقت نکل رہے تھے میں خود اپنی فصاحت پر حیران تھی۔

’’آخر تم کیوں اس طرح چلتی ہو! کیا ریل تمہاری ہے۔ اگر دوسرے لوگ تمہیں چھونا پسند نہیں کرتے تو تم بھی ان کو نہ چھوؤ۔ لیکن دوسروں پر زبردستی کے کیا معنی؟‘‘

رفتہ رفتہ میرا غصہ بھی دھیما ہو رہا تھا اور عورتیں بھی ہوش میں آ رہی تھیں۔ اب میں اور چال چلی۔

’’آنے دو اسٹیشن کو میں ضرور پولیس میں رپورٹ لکھواؤں گی، جب بندھی بندھی پھروگی تب مزہ آئے گا۔‘‘

ایک ہمت کر کے بولیں، ’’رہنے بھی دو مس صاحب جی۔ آپس میں لڑائی جھگڑاہو ہی جاتا ہے۔ پولیس میں نہ لکھوانا ورنہ بڑی آفت آئے گی۔

میں تو ضرور لکھواؤں گی۔ خود لڑیں تو لڑیں آخر میرے اوپر کیوں گریں اور انہوں نے میرے بال کیوں نوچے۔ ایسی آسانی سے نہ چھوٹو گی۔‘‘

’’مس صاحب! بہو بیٹیوں کی عزت تمہارے ہاتھ ہے۔ اب جو غلطی ہو گئی اس کو جانے دو۔‘‘ ادھیڑ مسلمان نے میری خوشامد شروع کی۔

’’کیوں جانے دوں۔ یہ سب کیا دھرا تمہارا ہے۔ تم اتنی دیر سے اپنی لڑکیوں کو اکسا رہی تھیں۔ جو تم ڈانٹ دیتیں تو یہ نوبت ہی کیوں آتی۔ بیڈھنگی، بددماغ، لڑاکی۔ تم نے میرے بال نوچے میں تمہیں اس آسانی سے نہ چھوڑوں گی۔‘‘

شریمتی یہ سن کر زور سے ہنسیں اور جھک کر ایک ہندو سے کچھ کہنا چاہتی تھیں کہ میں بیچ میں بول پڑی۔

’’آپ کون سی بہتر ہیں۔ آپ نے مجھے لڑائی میں شریک ہونے کو ابھارا، جو میں نہیں اٹھی تو جان کر میرے اوپر گریں۔ تاکہ میں ضرور شریک ہوں۔ آپ بھی اتنی دیر سے ہندؤوں کو اکسا رہی تھیں۔ لیڈری کا شوق ہے تو بازار میں جا کر کیجئے۔ یہ آپ کے تیج میں لکھا ہے کہ جہاں مسلمان دیکھو گتھ جاؤ۔ اب آپ اسٹیشن ماسٹر کی بیوی ہوں یا کوئی اور میں آپ کا نام بھی ضرور لکھواؤں گی۔‘‘

میں گھڑی گھڑی اپنے سر کو پکڑتی تھی اور جان کر ہائے وائے بھی کرتی جاتی تھی۔ اب میں بیٹھ گئی تھی۔ ہندو مسلمان کیمپ اور کچھ برابر میری خوشامد کرر ہی تھیں کہ اب زیادہ نہ بگڑوں اور پولیس سے کچھ نہ کہوں۔

میں نے اخیر میں یہ فیصلہ کیا کہ ادھیڑ مسلمان، شریمتی، بلاقن اور ہندو لڑکی جس پر پانی گرا تھا ایک دوسرے سے معافی مانگیں اور توبہ کریں اور ہاں بڑھیا کھڑی ہو کر اور ہاتھ جوڑ کر ہندؤوں سے معافی مانگے۔

ادھیڑ عورت گاؤں کی رہنے والی جس نے اپنی ساری عمر میں کبھی معافی کا لفظ نہ سنا تھا۔ بہت سٹ پٹائی اور چپکے بیٹھی رہی۔ میں نے ڈرایا۔

’’تمہاری مرضی، نہ مانگو۔ تم جانتی ہو کہ میں کیا کروں گی۔ بار بار کہنے سے کیا فائدہ؟‘‘

اس نے اپنی ہمت بڑھانے کی خاطر اپنی مسلمان بہنوں کی طرف دیکھا۔ منظر بدل گیا تھا۔ سب اپنی اپنی چوٹیں بھول کر اس نئے طرز کو دیکھنے کی خواہش مند تھیں۔ اور میں تھی

کہ بغیر مسکرائے موت کی طرح زبردست تھی۔ دو ایک لڑکیوں نے ہمت دلانے کو سر ہلا دیئے۔ یہ عورت کھڑی ہو گئی۔ جیسے ایک بچہ جب سبق بھول جاتا ہے تو کچھ جھینپی اور کچھ ڈری ادا سے واپس اپنی جگہ پر بیٹھ جاتا ہے۔ اسی طرح یہ چاروں طرف دیکھ کر بیٹھ گئی۔ میں نے اس کی طرف دیکھا تو پھر جلدی سے کھڑی ہو گئی۔

’’معافی دو۔ معافی دو۔ معافی دو!‘‘

میں نے کہا، ’’ٹھہرو۔ کیا آپ سب نے معاف کر دیا؟‘‘

’’ہاں جی، جی ہاں۔‘‘ کی آوازیں آئیں۔

’’شریمتی جی اب آپ کی باری ہے۔‘‘

’’کیوں؟ کوئی آپ گورنامنٹ ہیں؟‘‘ انہوں نے علم بغاوت پھر بلند کیا۔

’’جی افسوس ہے کہ میں گورنمنٹ نہیں ہوں، آپ اپنے کئے پر شرمندہ نہیں ہیں تو خیر، آپ کے شوہر ریل میں نوکر ہیں۔ آپ کی رپورٹ ہوگی تو ان کی خبر لی جائے گی۔‘‘

پتہ کی سن کر کچھ راضی سی ہوئیں اور ساتھ ہی ایک ہندو بہن کی آواز۔

’’بہن جی کھڑی بھی ہو جاؤ۔‘‘

سنکر کھڑی ہو گئیں اور نیم مردہ آواز میں بولیں۔

’’سب بہنیں میری خطا معاف کریں۔‘‘ اور جلدی سے بیٹھ گئیں۔

اب میری نگاہ بلاقن پرپڑی۔ اس کی ناک سے خون نکل رہا تھا اور وہ پہلے ہی سے کھڑی تھی۔ اپنا ہاتھ بڑھا کر بولی، ’’بہن دو منٹ کا سفر ہے۔ لڑائی دنگے سے کیا فائدہ؟ میرے دو پتہ سے جب اتنا چھوت ہے۔ تو میرے ہاتھ کو تم کب چھوؤ گی۔ خیر مجھے معاف کرو۔ میری ہی غلطی تھی۔‘‘ ایک ایسی بات ہوئی جس کی مجھے بالکل امید نہ تھی۔ وہ ہندو عورت جو گاڑھے کی ساڑھی میں تھی، اس سے لپٹ گئی اور رونے لگی!

عورتیں بھی کیا ہیں۔ ذرا میں کچھ اور ذرا میں کچھ۔ ابھی تو دوپٹہ کے آنچل چھوجانے پر لڑائی تھی اور اب گلے مل کر رو رہی تھیں۔

اسٹیشن آنے گلا تھا۔ سب اپنے اپنے اسباب کو جو لڑائی میں تتر بتر ہو گیا تھا جمع کرنے لگیں۔ لیکن یہ دونوں لڑکیاں گلے میں ہاتھ ڈال کر دیر تک روتی رہیں اور ان دونوں کے ملاپ میں ہم ایسے محو ہوئے کہ اس خرانٹ بڑھیا کو بالکل بھول گئے۔

ذرا دیکھنا خط لکھنے بیٹھی تھی کہ سارا ریل کا قصہ لکھ گئی۔ خیر اب تو جو کچھ کہنا ہے آگر ہی کہوں گی۔ لکھنا تو بہت تھا لیکن اب تو یہ کافی ہے کہ کالج میں دھیان ہے۔ خاص کر باسکٹ بال کے میچ میں۔

مکرر۔ ہاں یہ ضرور لکھنا اور جلدی کہ تم سب کے لئے کیا لاؤں؟

تمہاری زبیدہ


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.