میرا دل ناشاد جو ناشاد رہے گا
میرا دل ناشاد جو ناشاد رہے گا
عالم دل برباد کا برباد رہے گا
تا دیر جو ہنگامۂ فریاد رہے گا
شک ہے کہ کہیں عالم ایجاد رہے گا
پابندئ اقدار میں آزاد رہے گا
لیکن یہ ترا جور و ستم یاد رہے گا
دل اپنے ہی ہاتھوں سے جو برباد رہے گا
افسانۂ ناکامئ فریاد رہے گا
دل سست تو لب تشنۂ فریاد رہے گا
اب فرحت ناشاد تو ناشاد رہے گا
دل محو چمن ہے تو نگاہوں میں چمن ہے
پابند قفس ہو کے بھی آزاد رہے گا
غیروں کا کرم راس نہ آئے گا نہ آیا
عالم دل برباد کا برباد رہے گا
فرحتؔ ترے نغموں کی وہ شہرت ہے جہاں میں
واللہ ترا رنگ سخن یاد رہے گا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |