میرا شکوہ تری محفل میں عدو کرتے ہیں
میرا شکوہ تری محفل میں عدو کرتے ہیں
اس پہ بھی صبر ہم اے عربدہ جو کرتے ہیں
مشق بیداد و ستم کرتے ہیں گر وہ تو یہاں
ہم بھی بیداد و ستم سہنے کی خو کرتے ہیں
جاں ہوئی ہے نگہ نام پہ ان کی عاشق
چاک دل تار نظر سے جو رفو کرتے ہیں
بے ثباتی چمن دہر کی ہے جن پہ کھلی
ہوس رنگ نہ وہ خواہش بو کرتے ہیں
آج شمشیر بکف نکلے ہیں وہ دیکھیے تر
آب شمشیر سے کس کس کے گلو کرتے ہیں
ہے رچی جن کے دماغوں میں تری زلف کی بو
عنبر و مشک کی کب بو کو وہ بو کرتے ہیں
مشک و عنبر کا انہیں نام بھی لینا ہے ننگ
یار کی زلف معنبر کو جو بو کرتے ہیں
چاک کرتے ہیں گریباں کو وحشت میں کبھی
چاک دل میں کبھو ناخن کو فرو کرتے ہیں
دیکھ سودا زدۂ الفت خوباں اے عیشؔ
وادی عشق میں کیا کیا تگ و پو کرتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |