میرا نام رادھا ہے
یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب اس جنگ کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ غالباً آٹھ نو برس پہلے کی بات ہے۔ جب زندگی میں ہنگامے بڑے سلیقے سے آتے تھے ؛ آج کی کل طرح نہیں۔ بے ہنگم طریقے پر پے در پے حادثے برپا ہورہے ہیں، کسی ٹھوس وجہ کے بغیر۔
اس وقت میں چالیس روپے ماہوار پر ایک فلم کمپنی میں ملازم تھا اور میری زندگی بڑے ہموارطریقے پر افتاں و خیزاں گزر رہی تھی؛ یعنی صبح دس بجے اسٹوڈیو گئے، نیاز محمد ولن کی بلیوں کو دو پیسے کا دودھ پلایا، چالو فلم کے لیے چالو قسم کے مکالمے لکھے، بنگالی ایکٹرس سے جو اس زمانے میں بلبلِ بنگال کہلاتی تھی، تھوڑی دیر مذاق کیا اور دادا گورے کی جو اس عہد کا سب سے بڑا فلم ڈائریکٹر تھا، تھوڑی سی خوشامد کی اور گھر چلے آئے۔
جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں، زندگی بڑے ہموار طریقے پر افتاں و خیزاں گزر رہی تھی۔ اسٹوڈیو کا مالک ’ہر مزجی فرام جی‘ جو موٹے موٹے لال گالوں والا موجی قسم کا ایرانی تھا، ایک ادھیڑ عمر کی خوجہ ایکٹرس کی محبت میں گرفتار تھا؛ ہر نو وارد لڑکی کے پستان ٹٹول کر دیکھنا اس کا شغل تھا۔ کلکتہ کے بازار کی ایک مسلمان رنڈی تھی جو اپنے ڈائریکٹر، ساونڈ ریکارڈسٹ اور اسٹوری رائٹر تینوں سے بیک وقت عشق لڑا رہی تھی؛اس عشق کا مطلب یہ تھا کہ ان تینوں کا التفات اس کے لیے خاص طور پر محفوظ رہے۔
’’بن کی سندری‘‘ کی شوٹنگ چل رہی تھی۔ نیاز محمد ولن کی جنگلی بلیوں کو جو اس نے خدا معلوم اسٹوڈیو کے لوگوں پرکیا اثر پیدا کرنے کے لیے پال رکھی تھیں، دو پیسے کا دودھ پلا کر میں ہر روز اس ’’بن کی سندری‘‘ کے لیے ایک غیر مانوس زبان میں مکالمے لکھا کرتا تھا۔ اس فلم کی کہانی کیا تھی، پلاٹ کیسا تھا، اس کا علم جیسا کہ ظاہر ہے، مجھے بالکل نہیں تھا کیونکہ میں اس زمانے میں ایک منشی تھا جس کا کام صرف حکم ملنے پر جو کچھ کہا جائے، غلط سلط اردو میں، جو ڈ ائریکٹر صاحب کی سمجھ میں آجائے، پنسل سے ایک کاغذ پر لکھ کر دینا ہوتا تھا۔ خیر’’بن کی سندری‘‘ کی شوٹنگ چل رہی تھی اور یہ افواہ گرم تھی کہ دیمپ کا پارٹ ادا کرنے کے لیے ایک نیا چہرہ سیٹھ ہرمزجی فرام جی کہیں سے لارہے ہیں۔ ہیرو کا پارٹ راج کشور کو دیا گیا تھا۔
راج کشور راولپنڈی کا ایک خوش شکل اور صحت مند نوجوان تھا۔ اس کے جسم کے متعلق لوگوں کا یہ خیال تھا کہ بہت مردانہ اور سڈول ہے۔ میں نے کئی مرتبہ اس کے متعلق غور کیا مگر مجھے اس کے جسم میں جو یقیناً کسرتی اور متناسب تھا، کوئی کشش نظر نہ آئی۔۔۔ مگر اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ میں بہت ہی دبلا اور مریل قسم کا انسان ہوں اور اپنے ہم جنسوں کے متعلق اتنا زیادہ غور کرنے کا عادی نہیں جتنا ان کے دل و دماغ اور روح کے متعلق سوچنے کا عادی ہوں۔
مجھے راج کشور سے نفرت نہیں تھی، اس لیے کہ میں نے اپنی عمر میں شاذونادر ہی کسی انسان سے نفرت کی ہے، مگر وہ مجھے کچھ زیادہ پسند نہیں تھا۔ اس کی وجہ میں آہستہ آہستہ آپ سے بیان کروں گا۔
راج کشور کی زبان، اس کا لب و لہجہ جو ٹھیٹ راولپنڈی کا تھا، مجھے بے حد پسند تھا۔ میرا خیال ہے کہ پنجابی زبان میں اگر کہیں خوبصورت قسم کی شیرینی ملتی ہے تو راولپنڈی کی زبان ہی میں آپ کو مل سکتی ہے۔ اس شہر کی زبان میں ایک عجیب قسم کی مردانہ نسائیت ہے جس میں بیک وقت مٹھاس اور گھلاوٹ ہے۔ اگر راولپنڈی کی کوئی عورت آپ سے بات کرے تو ایسا لگتا ہے کہ لذیذ آم کا رس آپ کے منہ میں چوایا جارہاہے۔۔۔ مگر میں آموں کی نہیں راج کشور کی بات کررہا تھاجو مجھے آم سے بہت کم عزیز تھا۔
راج کشور جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں، ایک خوش شکل اور صحت مند نوجوان تھا۔ یہاں تک بات ختم ہو جاتی تو مجھے کوئی اعتراض نہ ہوتا مگر مصیبت یہ ہے کہ اسے یعنی کشور کو خود اپنی صحت اور اپنے خوش شکل ہونے کا احساس تھا۔ ایسا احساس جو کم از کم میرے لیے ناقابلِ قبول تھا۔
صحت مند ہونا بڑی اچھی چیز ہے مگر دوسروں پر اپنی صحت کو بیماری بنا کر عائد کرنا بالکل دوسری چیز ہے۔ راج کشور کو یہی مرض لاحق تھا کہ وہ اپنی صحت، اپنی تندرستی، اپنے متناسب اور سڈول اعضا کی غیر ضروری نمائش کے ذریعے ہمیشہ دوسرے لوگوں کو جواس سے کم صحت مند تھے، مرعوب کرنے کی کوشش میں مصروف رہتا تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ میں دائمی مریض ہوں، کمزور ہوں، میرے ایک پھیپھڑے میں ہوا کھینچنے کی طاقت بہت کم ہے مگر خدا واحد شاہد ہے کہ میں نے آج تک اس کمزوری کا کبھی پروپیگنڈا نہیں کیا، حالانکہ مجھے اس کا پوری طرح علم ہے کہ انسان اپنی کمزوریوں سے اسی طرح فائدہ اٹھا سکتا ہے جس طرح کہ اپنی طاقتوں سے اٹھا سکتا ہے مگر میراایمان ہے کہ ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔
خوبصورتی، میرے نزدیک، وہ خوبصورتی ہے جس کی دوسرے بلند آواز میں نہیں بلکہ دل ہی دل میں تعریف کریں۔ میں اس صحت کو بیماری سمجھتا ہوں جو نگاہوں کے ساتھ پتھر بن کر ٹکراتی رہے۔
راج کشور میں وہ تمام خوبصورتیاں موجود تھیں جو ایک نوجوان مرد میں ہونی چاہئیں۔ مگر افسوس ہے کہ اسے ان خوبصورتیوں کا نہایت ہی بھونڈا مظاہرہ کرنے کی عادت تھی: آپ سے بات کررہا ہے اور اپنے ایک بازو کے پٹھے اکڑا رہا ہے، اور خود ہی داد دے رہا ہے ؛ نہایت ہی اہم گفتگو ہورہی ہے یعنی سوراج کا مسئلہ چھڑا ہے اور وہ اپنے کھادی کے کرتے کے بٹن کھول کر اپنے سینے کی چوڑائی کا اندازہ کررہا ہے۔
میں نے کھادی کے کرتے کا ذکر کیا تو مجھے یاد آیا کہ راج کشور پکا کانگریسی تھا، ہو سکتا ہے وہ اسی وجہ سے کھادی کے کپڑے پہنتا ہو، مگر میرے دل میں ہمیشہ اس بات کی کھٹک رہی ہے کہ اسے اپنے وطن سے اتنا پیار نہیں تھا جتنا کہ اسے اپنی ذات سے تھا۔
بہت لوگوں کا خیال تھا کہ راج کشور کے متعلق جو میں نے رائے قائم کی ہے، سراسر غلط ہے۔ اس لیے کہ اسٹوڈیو اور اسٹوڈیو کے باہر ہر شخص اس کا مداح تھا: اس کے جسم کا، اس کے خیالات کا، اس کی سادگی کا، اس کی زبان کا جو خاص راولپنڈی کی تھی اور مجھے بھی پسند تھی۔ دوسرے ایکٹروں کی طرح وہ الگ تھلگ رہنے کا عادی نہیں تھا۔ کانگریس پارٹی کا کوئی جلسہ ہو تو راج کشور کو آپ وہاں ضرور پائیں گے۔۔۔ کوئی ادبی میٹنگ ہورہی ہے تو راج کشور وہاں ضرور پہنچے گا اپنی مصروف زندگی میں سے وہ اپنے ہمسایوں اور معمولی جان پہچان کے لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہونے کے لیے بھی وقت نکال لیا کرتا تھا۔
سب فلم پروڈیوسر اس کی عزت کرتے تھے کیونکہ اس کے کیریکٹر کی پاکیزگی کا بہت شہرہ تھا۔ فلم پروڈیوسروں کو چھوڑیئے، پبلک کو بھی اس بات کا اچھی طرح علم تھاکہ راج کشور ایک بہت بلند کردار کا مالک ہے۔
فلمی دنیا میں رہ کر کسی شخص کا گناہ کے دھبوں سے پاک رہنا، بہت بڑی بات ہے۔ یوں تو راج کشور ایک کامیاب ہیرو تھا مگر اس کی خوبی نے اسے ایک بہت ہی اونچے رتبے پر پہنچا دیا تھا۔ ناگ پاڑے میں جب میں شام کو پان والے کی دکان پر بیٹھتا تھا تو اکثر ایکٹر ایکٹرسوں کی باتیں ہوا کرتی تھیں۔ قریب قریب ہر ایکٹر اور ایکٹرس کے متعلق کوئی نہ کوئی اسکینڈل مشہور تھا مگر راج کشور کا جب بھی ذکر آتا، شام لال پنواڑی بڑے فخریہ لہجے میں کہا کرتا، ’’منٹو صاحب! راج بھائی ہی ایسا ایکٹر ہے جو لنگوٹ کا پکا ہے۔‘‘
معلوم نہیں شام لال اسے راج بھائی کیسے کہنے لگا تھا۔ اس کے متعلق مجھے اتنی زیادہ حیرت نہیں تھی، اس لیے کہ راج بھائی کی معمولی سے معمولی بات بھی ایک کارنامہ بن کر لوگوں تک پہنچ جاتی تھی۔ مثلاً، باہر کے لوگوں کو اس کی آمدن کا پورا حساب معلوم تھا۔ اپنے والد کو ماہوار خرچ کیا دیتا ہے، یتیم خانوں کے لیے کتنا چندہ دیتا ہے، اس کا اپنا جیب خرچ کیا ہے ؛یہ سب باتیں لوگوں کو اس طرح معلوم تھیں جیسے انھیں ازبریاد کرائی گئی ہیں۔
شام لال نے ایک روز مجھے بتایا کہ راج بھائی کا اپنی سوتیلی ماں کے ساتھ بہت ہی اچھا سلوک ہے۔ اس زمانے میں جب آمدن کا کوئی ذریعہ نہیں تھا، باپ اور اس کی نئی بیوی اسے طرح طرح کے دکھ دیتے تھے۔ مگر مرحبا ہے راج بھائی کا کہ اس نے اپنا فرض پورا کیا اور ان کو سر آنکھوں پر جگہ دی۔ اب دونوں چھپر کھٹوں پر بیٹھے راج کرتے ہیں، ہر روز صبح سویرے راج اپنی سوتیلی ماں کے پاس جاتا ہے اور اس کے چرن چھوتا ہے۔ باپ کے سامنے ہاتھ جوڑ کے کھڑا ہو جاتا ہے اور جو حکم ملے، فوراً بجا لاتا ہے۔
آپ برا نہ مانیے گا، مجھے راج کشور کی تعریف و توصیف سن کر ہمیشہ الجھن سی ہوتی ہے، خدا جانے کیوں۔؟
میں جیسا کہ پہلے عرض کرچکا ہوں، مجھے اس سے، حاشا و کلاّ، نفرت نہیں تھی۔ اس نے مجھے کبھی ایسا موقع نہیں دیا تھا، اور پھر اس زمانے میں جب منشیوں کی کوئی عزت و وقعت ہی نہیں تھی وہ میرے ساتھ گھنٹوں باتیں کیا کرتا تھا۔ میں نہیں کہہ سکتا کیا وجہ تھی، لیکن ایمان کی بات ہے کہ میرے دل و دماغ کے کسی اندھیرے کونے میں یہ شک بجلی کی طرح کوند جاتا کہ راج بن رہا ہے۔۔۔ راج کی زندگی بالکل مصنوعی ہے۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ میرا کوئی ہم خیال نہیں تھا۔ لوگ دیو تاؤں کی طرح اس کی پوجا کرتے تھے اور میں دل ہی دل میں اس سے کڑھتا رہتا تھا۔
راج کی بیوی تھی، راج کے چار بچے تھے، وہ اچھا خاوند اور اچھا باپ تھا۔ اس کی زندگی پر سے چادر کا کوئی کونا بھی اگر ہٹا کر دیکھا جاتا تو آپ کو کوئی تاریک چیز نظر نہ آتی۔ یہ سب کچھ تھا، مگر اس کے ہوتے ہوئے بھی میرے دل میں شک کی گدگدی ہوتی ہی رہتی تھی۔
خدا کی قسم میں نے کئی دفعہ اپنے آپ کو لعنت ملامت کی کہ تم بڑے ہی واہیات ہو کہ ایسے اچھے انسان کو جسے ساری دنیا اچھا کہتی ہے اور جس کے متعلق تمہیں کوئی شکایت بھی نہیں، کیوں بے کار شک کی نظروں سے دیکھتے ہو۔ اگر ایک آدمی اپنا سڈول بدن بار بار دیکھتا ہے تو یہ کون سی بری بات ہے۔ تمہارا بدن بھی اگر ایسا ہی خوبصورت ہوتا تو بہت ممکن ہے کہ تم بھی یہی حرکت کرتے۔
کچھ بھی ہو، مگر میں اپنے دل و دماغ کو کبھی آمادہ نہ کرسکا کہ وہ راج کشور کو اسی نظر سے دیکھے جس سے دوسرے دیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں دورانِ گفتگو میں اکثر اس سے الجھ جایا کرتا تھا۔ میرے مزاج کے خلاف کوئی بات کی اور میں ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑ گیا لیکن ایسی چپقلشوں کے بعد ہمیشہ اس کے چہرے پر مسکراہٹ اور میرے حلق میں ایک ناقابل بیان تلخی رہی، مجھے اس سے اور بھی زیادہ الجھن ہوتی تھی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی زندگی میں کوئی اسکینڈل نہیں تھا۔ اپنی بیوی کے سوا کسی دوسری عورت کا میلا یا اجلا دامن اس سے وابستہ نہیں تھا۔ میں یہ بھی تسلیم کرتا ہوں کہ وہ سب ایکٹرسوں کو بہن کہہ کر پکارتا تھا اور وہ بھی اسے جواب میں بھائی کہتی تھیں۔ مگر میرے دل نے ہمیشہ میرے دماغ سے یہی سوال کیا کہ یہ رشتہ قائم کرنے کی ایسی اشد ضرورت ہی کیا ہے؟
بہن بھائی کا رشتہ کچھ اور ہے مگر کسی عورت کو اپنی بہن کہنا، اس انداز سے جیسے یہ بورڈ لگایا جارہا ہے کہ ’’سڑک بند ہے‘‘ یا ’’یہاں پیشاب کرنا منع ہے‘‘ بالکل دوسری بات ہے۔ اگر تم کسی عورت سے جنسی رشتہ قائم نہیں کرنا چاہتے تو اس کا اعلان کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اگر تمہارے دل میں تمہاری بیوی کے سوا اور کسی عورت کا خیال داخل نہیں ہو سکتا تو اس کا اشتہار دینے کی کیا ضرورت ہے۔ یہی اور اسی قسم کی دوسری باتیں چونکہ میری سمجھ میں نہیں آتی تھیں، اس لیے مجھے عجیب قسم کی الجھن ہوتی تھی۔
خیر!
’’بن کی سندری‘‘ کی شوٹنگ چل رہی تھی۔ اسٹوڈیو میں خاصی چہل پہل تھی، ہر روز ایکسٹرا لڑکیاں آتی تھیں، جن کے ساتھ ہمارا دن ہنسی مذاق میں گزر جاتا تھا۔ ایک روز نیاز محمد ولن کے کمرے میں میک اپ ماسٹر، جسے ہم استاد کہتے تھے، یہ خبر لے کر آیا کہ ویمپ کے رول کے لیے جو نئی لڑکی آنے والی تھی، آگئی ہے اور بہت جلد اس کا کام شروع ہو جائے گا۔ اس وقت چائے کا دور چل رہا تھا، کچھ اس کی حرارت تھی، کچھ اس خبر نے ہم کو گرما دیا۔ اسٹوڈیو میں ایک نئی لڑکی کا داخلہ ہمیشہ ایک خوش گوار حادثہ ہوا کرتا ہے، چنانچہ ہم سب نیاز محمد ولن کے کمرے سے نکل کر باہر چلے آئے تاکہ اس کا دیدار کیا جائے۔
شام کے وقت جب سیٹھ ہرمزجی فرام جی، آفس سے نکل کر عیسیٰ طبلچی کی چاندی کی ڈبیا سے دو خوشبودار تمباکو والے پان اپنے چوڑے کلے میں دبا کر، بلیرڈ کھیلنے کے کمرے کا رخ کررہے تھے کہ ہمیں وہ لڑکی نظر آئی۔ سانولے رنگ کی تھی، بس میں صرف اتنا ہی دیکھ سکا کیونکہ وہ جلدی جلدی سیٹھ کے ساتھ ہاتھ ملا کر اسٹوڈیو کی موٹر میں بیٹھ کر چلی گئی۔۔۔ کچھ دیر کے بعد مجھے نیاز محمد نے بتایا کہ اس عورت کے ہونٹ موٹے تھے۔ وہ غالباً صرف ہونٹ ہی دیکھ سکا تھا۔ استاد، جس نے شاید اتنی جھلک بھی نہ دیکھی تھی، سر ہلا کر بولا، ’’ہونہہ۔۔۔ کنڈم۔۔۔‘‘ یعنی بکواس ہے۔
چار پانچ روز گزر گئے مگر یہ نئی لڑکی اسٹوڈیو میں نہ آئی۔ پانچویں یا چھٹے روز جب میں گلاب کے ہوٹل سے چائے پی کر نکل رہا تھا، اچانک میری اور اس کی مڈبھیڑ ہوگئی۔ میں ہمیشہ عورتوں کو چور آنکھ سے دیکھنے کا عادی ہوں۔ اگر کوئی عورت ایک دم میرے سامنے آجائے تو مجھے اس کا کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ چونکہ غیر متوقع طور پر میری اس کی مڈبھیڑ ہوئی تھی، اس لیے میں اس کی شکل و شباہت کے متعلق کوئی اندازہ نہ کرسکا، البتہ پاؤں میں نے ضرور دیکھے جن میں نئی وضع کے سلیپر تھے۔
لیبوریٹری سے اسٹوڈیو تک جو روش جاتی ہے، اس پر مالکوں نے بجری بچھا رکھی ہے۔ اس بجری میں بے شمار گول گول بٹیاں ہیں جن پر سے جوتا بار بار پھسلتا ہے۔ چونکہ اس کے پاؤں میں کھلے سلیپر تھے، اس لیے چلنے میں اسے کچھ زیادہ تکلیف محسوس ہورہی تھی۔
اس ملاقات کے بعد آہستہ آہستہ مس نیلم سے میری دوستی ہوگئی۔ اسٹوڈیو کے لوگوں کو تو خیر اس کا علم نہیں تھا مگر اس کے ساتھ میرے تعلقات بہت ہی بے تکلف تھے۔ اس کا اصلی نام رادھا تھا۔ میں نے جب ایک بار اس سے پوچھا کہ تم نے اتنا پیارا نام کیوں چھوڑ دیا تو اس نے جواب دیا، ’’یونہی۔‘‘ مگر پھر کچھ دیر کے بعد کہا، ’’یہ نام اتنا پیارا ہے کہ فلم میں استعمال نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
آپ شاید خیال کریں کہ رادھا مذہبی خیال کی عورت تھی۔ جی نہیں، اسے مذہب اور اس کے توہمات سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ لیکن جس طرح میں ہر نئی تحریر شروع کرنے سے پہلے کاغذ پر ’بسم اللہ‘ کے اعداد ضرور لکھتا ہوں، اسی طرح شاید اسے بھی غیر ارادی طور پر رادھا کے نام سے بے حد پیار تھا۔ چونکہ وہ چاہتی تھی کہ اسے رادھا نہ کہا جائے۔ اس لیے میں آگے چل کر اسے نیلم ہی کہوں گا۔
نیلم بنارس کی ایک طوائف زادی تھی۔ وہیں کا لب و لہجہ جو کانوں کو بہت بھلا معلوم ہوتا تھا۔ میرا نام سعادت ہے مگر وہ مجھے ہمیشہ صادق ہی کہا کرتی تھی۔ ایک دن میں نے اس سے کہا، ’’نیلم! میں جانتا ہوں تم مجھے سعادت کہہ سکتی ہو، پھر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تم اپنی اصلاح کیوں نہیں کرتیں۔‘‘ یہ سن کر اس کے سانولے ہونٹوں پر جو بہت ہی پتلے تھے، ایک خفیف سی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس نے جواب دیا، ’’جو غلطی مجھ سے ایک بار ہو جائے، میں اسے ٹھیک کرنے کی کوشش نہیں کرتی۔‘‘
میرا خیال ہے کہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ وہ عورت جسے اسٹوڈیو کے تمام لوگ ایک معمولی ایکٹرس سمجھتے تھے، عجیب و غریب قسم کی انفرادیت کی مالک تھی۔ اس میں دوسری ایکٹرسوں کا سا اوچھا پن بالکل نہیں تھا۔ اس کی سنجیدگی جسے اسٹوڈیو کا ہر شخص اپنی عینک سے غلط رنگ میں دیکھتا تھا، بہت پیاری چیز تھی۔ اس کے سانولے چہرے پر جس کی جلد بہت ہی صاف اور ہموار تھی؛ یہ سنجیدگی، یہ ملیح متانت موزوں و مناسب غازہ بن گئی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے اس کی آنکھوں میں، اس کے پتلے ہونٹوں کے کونوں میں، غم کی بے معلوم تلخیاں گھل گئی تھیں مگر یہ واقعہ ہے کہ اس چیز نے اسے دوسری عورتوں سے بالکل مختلف کردیا تھا۔
میں اس وقت بھی حیران تھا اور اب بھی ویسا ہی حیران ہوں کہ نیلم کو ’’بن کی سندری‘‘ میں ویمپ کے رول کے لیے کیوں منتخب کیا گیا؟اس لیے کہ اس میں تیزی و طراری نام کو بھی نہیں تھی۔ جب وہ پہلی مرتبہ اپنا واہیات پارٹ ادا کرنے کے لیے تنگ چولی پہن کر سیٹ پر آئی تو میری نگاہوں کو بہت صدمہ پہنچا۔ وہ دوسروں کا ردِّ عمل فوراً تاڑ جاتی تھی۔ چنانچہ مجھے دیکھتے ہی اس نے کہا، ’’ڈائریکٹر صاحب کہہ رہے تھے کہ تمہارا پارٹ چونکہ شریف عورت کا نہیں ہے، اس لیے تمہیں اس قسم کا لباس دیا گیا ہے۔ میں نے ان سے کہا اگر یہ لباس ہے تو میں آپ کے ساتھ ننگی چلنے کے لیے تیار ہوں۔‘‘
میں نے اس سے پوچھا، ’’ڈائریکٹر صاحب نے یہ سن کر کیا کہا؟‘‘
نیلم کے پتلے ہونٹوں پر ایک خفیف سی پراسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی، ’’انھوں نے تصور میں مجھے ننگی دیکھنا شروع کر دیا۔۔۔ یہ لوگ بھی کتنے احمق ہیں۔ یعنی اس لباس میں مجھے دیکھ کر، بے چارے تصور پر زور ڈالنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟‘‘ ذہین قاری کے لیے نیلم کا اتنا تعارف ہی کافی ہے۔ اب میں ان واقعات کی طرف آتا ہوں جن کی مدد سے میں یہ کہانی مکمل کرنا چاہتا ہوں۔
بمبئی میں جون کے مہینے سے بارش شروع ہو جاتی ہے اور ستمبر کے وسط تک جاری رہتی ہے۔ پہلے دو ڈھائی مہینوں میں اس قدر پانی برستا ہے کہ اسٹوڈیو میں کام نہیں ہوسکتا۔ ’’بن کی سندری‘‘ کی شوٹنگ اپریل کے اواخر میں شروع ہوئی تھی۔ جب پہلی بارش ہوئی تو ہم اپنا تیسرا سیٹ مکمل کررہے تھے۔ ایک چھوٹا سا سین باقی رہ گیا تھا جس میں کوئی مکالمہ نہیں تھا، اس لیے بارش میں بھی ہم نے اپنا کام جاری رکھا۔ مگر جب یہ کام ختم ہوگیا تو ہم ایک عرصے کے لیے بے کار ہوگئے۔
اس دوران میں اسٹوڈیو کے لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بیٹھنے کا بہت موقع ملتا ہے۔ میں تقریباً سارا دن گلاب کے ہوٹل میں بیٹھا چائے پیتا رہتا تھا۔ جو آدمی بھی اندر آتا تھا، یا تو سارے کا سارا بھیگا ہوتا تھا یا آدھا۔۔۔ باہر کی سب مکھیاں پناہ لینے کے لیے اندر جمع ہوگئی تھیں۔ اس قدر غلیظ فضا تھی کہ الاماں۔ ایک کرسی پر چائے نچوڑنے کا کپڑا پڑا ہے، دوسری پر پیاز کاٹنے کی بدبودار چھری پڑی جھک مار رہی ہے۔ گلاب صاحب پاس کھڑے ہیں اور اپنے گوشت خورہ لگے دانتوں تلے بمبئی کی اردو چبا رہے ہیں، ’’تم ادھر جانے کو نہیں سکتا۔۔۔ ہم ادھر سے جاکے آتا۔۔۔ بہت لفڑا ہوگا۔۔۔ ہاں۔۔۔ بڑا واندہ ہو جائیں گا۔۔۔‘‘
اس ہوٹل میں جس کی چھت کو روگیٹیڈ اسٹیل کی تھی، سیٹھ ہرمزجی فرام جی، ان کے سالے ایڈل جی اور ہیروئنوں کے سوا سب لوگ آتے تھے۔ نیاز محمد کو تو دن میں کئی مرتبہ یہاں آنا پڑتا تھا کیونکہ وہ چنی منی نام کی دو بلیاں پال رہا تھا۔
راج کشور دن میں ایک چکر لگا تا تھا۔ جونہی وہ اپنے لمبے قد اور کسرتی بدن کے ساتھ دہلیز پر نمودار ہوتا، میرے سوا ہوٹل میں بیٹھے ہوئے تمام لوگوں کی آنکھیں تمتما اٹھتیں۔ اکسٹرا لڑکے اٹھ اٹھ کر راج بھائی کو کرسی پیش کرتے اور جب وہ ان میں سے کسی کی پیش کی ہوئی کرسی پر بیٹھ جاتا تو سارے پروانوں کی مانند اس کے گرد جمع ہو جاتے۔ اس کے بعد دو قسم کی باتیں سننے میں آتیں، اکسٹرا لڑکوں کی زبان پر پرانی فلموں میں راج بھائی کے کام کی تعریف کی، اور خود راج کشور کی زبان پر اس کے اسکول چھوڑ کر کالج اور کالج چھوڑ کر فلمی دنیا میں داخل ہونے کی تاریخ۔۔۔ چونکہ مجھے یہ سب باتیں زبانی یاد ہو چکی تھیں اس لیے جونہی راج کشور ہوٹل میں داخل ہوتا میں اس سے علیک سلیک کرنے کے بعد باہر نکل جاتا۔
ایک روز جب بارش تھمی ہوئی تھی اور ہرمزجی فرام جی کا ایلسیشین کتا، نیاز محمد کی دو بلیوں سے ڈر کر، گلاب کے ہوٹل کی طرف دم دبائے بھاگا آرہا تھا، میں نے مولسری کے درخت کے نیچے بنے ہوئے گول چبوترے پر نیلم اور راج کشور کو باتیں کرتے ہوئے دیکھا۔ راج کشور کھڑا حسبِ عادت ہولے ہولے جھول رہا تھا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ اپنے خیال کے مطابق نہایت ہی دلچسپ باتیں کررہا ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ نیلم سے راج کشور کا تعارف کب اور کس طرح ہوا تھا، مگر نیلم تو اسے فلمی دنیا میں داخل ہونے سے پہلے ہی اچھی طرح جانتی تھی اور شاید ایک دو مرتبہ اس نے مجھ سے برسبیل تذکرہ اس کے متناسب اور خوبصورت جسم کی تعریف بھی کی تھی۔
میں گلاب کے ہوٹل سے نکل کر ریکاڈنگ روم کے چھجے تک پہنچا تو راج کشور نے اپنے چوڑے کاندھے پر سے کھادی کا تھیلہ ایک جھٹکے کے ساتھ اتارا اور اسے کھول کر ایک موٹی کاپی باہر نکالی۔ میں سمجھ گیا۔۔۔ یہ راج کشور کی ڈائری تھی۔
ہر روز تمام کاموں سے فارغ ہو کر، اپنی سوتیلی ماں کا آشیرواد لے کر، راج کشور سونے سے پہلے ڈائری لکھنے کا عادی ہے۔ یوں تو اسے پنجابی زبان بہت عزیز ہے مگر یہ روزنامچہ انگریزی میں لکھتا ہے جس میں کہیں ٹیگور کے نازک اسٹائل کی اور کہیں گاندھی کے سیاسی طرز کی جھلک نظر آتی ہے۔۔۔ اس کی تحریر پر شیکسپیئر کے ڈراموں کا اثر بھی کافی ہے۔ مگر مجھے اس مرکب میں لکھنے والے کا خلوص کبھی نظر نہیں آیا۔ اگر یہ ڈائری آپ کوکبھی مل جائے تو آپ کو راج کشور کی زندگی کے دس پندرہ برسوں کا حال معلوم ہو سکتا ہے ؛ اس نے کتنے روپے چندے میں دیے، کتنے غریبوں کو کھانا کھلایا، کتنے جلسوں میں شرکت کی، کیا پہنا، کیا اتارا۔۔۔ اور اگر میرا قیافہ درست ہے تو آپ کو اس ڈائری کے کسی ورق پر میرے نام کے ساتھ پینتیس روپے بھی لکھے نظر آجائیں گے جو میں نے اس سے ایک بار قرض لیے تھے اور اس خیال سے ابھی تک واپس نہیں کیے کہ وہ اپنی ڈائری میں ان کی واپسی کا ذکر کبھی نہیں کرے گا۔
خیر۔۔۔ نیلم کو وہ اس ڈائری کے چند اوراق پڑھ کر سنا رہا تھا۔ میں نے دور ہی سے اس کے خوبصورت ہونٹوں کی جنبش سے معلوم کرلیا کہ وہ شیکسپیئرین انداز میں پربھو کی حمد بیان کررہا ہے۔ نیلم، مولسری کے درخت کے نیچے گول سیمنٹ لگے چبوترے پر، خاموش بیٹھی تھی۔ اس کے چہرے کی ملیح متانت پر راج کشور کے الفاظ کوئی اثر پیدا نہیں کررہے تھے۔ وہ راج کشور کی ابھری ہوئی چھاتی کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کے کرتے کے بٹن کھلے تھے، اور سفید بدن پر اس کی چھاتی کے کالے بال بہت ہی خوبصورت معلوم ہوتے تھے۔
اسٹوڈیو میں چاروں طرف ہر چیز دھلی ہوئی تھی۔ نیاز محمد کی دو بلیاں بھی جوعام طور پر غلیظ رہا کرتی تھیں، اس روز بہت صاف ستھری دکھائی دے رہی تھیں۔ دونوں سامنے بنچ پر لیٹی نرم نرم پنجوں سے اپنا منہ دھو رہی تھیں۔ نیلم جارجٹ کی بے داغ سفید ساڑھی میں ملبوس تھی، بلاؤز سفید لنین کا تھا جو اس کی سانولی اور سڈول بانھوں کے ساتھ ایک نہایت ہی خوشگوار اور مدھم سا تضاد پیدا کررہا تھا۔ ’’نیلم اتنی مختلف کیوں دکھائی دے رہی ہے؟‘‘
ایک لحظے کے لیے یہ سوال میرے دماغ میں پیدا ہوا اور ایک دم اس کی اور میری آنکھیں چار ہوئیں تو مجھے اس کی نگاہ کے اضطراب میں اپنے سوال کا جواب مل گیا۔ نیلم محبت میں گرفتار ہو چکی تھی۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے بلایا۔ تھوڑی دیر ادھر ادھر کی باتیں ہوئیں۔ جب راج کشور چلا گیا تو اس نے مجھ سے کہا، ’’آج آپ میرے ساتھ چلیے گا!‘‘
شام کو چھ بجے میں نیلم کے مکان پر تھا۔ جونہی ہم اندر داخل ہوئے اس نے اپنا بیگ صوفے پر پھینکا اور مجھ سے نظر ملائے بغیر کہا، ’’آپ نے جو کچھ سوچا ہے غلط ہے۔‘‘میں اس کا مطلب سمجھ گیاتھا۔ چنانچہ میں نے جواب دیا، ’’تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ میں نے کیا سوچا تھا؟‘‘
اس کے پتلے ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ پیدا ہوئی۔
’’اس لیے ہم دونوں نے ایک ہی بات سوچی تھی۔۔۔ آپ نے شاید بعد میں غور نہیں کیا۔ مگر میں بہت سوچ بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ ہم دونوں غلط تھے۔‘‘
’’اگر میں کہوں کہ ہم دونوں صحیح تھے۔‘‘
اس نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا، ’’تو ہم دونوں بیوقوف ہیں۔‘‘
یہ کہہ کر فوراً ہی اس کے چہرے کی سنجیدگی اور زیادہ سنولا گئی، ’’صادق یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ میں بچی ہوں جو مجھے اپنے دل کا حال معلوم نہیں۔۔۔ تمہارے خیال کے مطابق میری عمر کیا ہوگی؟‘‘
’’بائیس برس۔‘‘
’’بالکل درست۔۔۔ لیکن تم نہیں جانتے کہ دس برس کی عمر میں مجھے محبت کے معنی معلوم تھے۔۔۔ معنی کیا ہوئے جی۔۔۔ خدا کی قسم میں محبت کرتی تھی۔ دس سے لے کر سولہ برس تک میں ایک خطرناک محبت میں گرفتار رہی ہوں۔ میرے دل میں اب کیا خاک کسی کی محبت پیدا ہوگی۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے میرے منجمد چہرے کی طرف دیکھا اور مضطرب ہو کر کہا، ’’تم کبھی نہیں مانو گے، میں تمہارے سامنے اپنا دل نکال کر رکھ دوں، پھر بھی تم یقین نہیں کرو گے، میں تمہیں اچھی طرح جانتی ہوں۔۔۔ بھئی خدا کی قسم، وہ مر جائے جو تم سے جھوٹ بولے۔۔۔ میرے دل میں اب کسی کی محبت پیدا نہیں ہوسکتی، لیکن اتنا ضرور ہے کہ۔۔۔‘‘ یہ کہتے کہتے وہ ایک دم رک گئی۔
میں نے اس سے کچھ نہ کہا کیونکہ وہ گہرے فکر میں غرق ہوگئی تھی۔ شاید وہ سوچ رہی تھی کہ ’’اتنا ضرور‘‘ کیا ہے؟
تھوڑی دیر کے بعد اس کے پتلے ہونٹوں پر وہی خفیف پراسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی جس سے اس کے چہرے کی سنجیدگی میں تھوڑی سی عالمانہ شرارت پیدا ہو جاتی تھی۔ صوفے پر سے ایک جھٹکے کے ساتھ اٹھ کر اس نے کہنا شروع کیا، ’’میں اتنا ضرور کہہ سکتی ہوں کہ یہ محبت نہیں ہے اور کوئی بلا ہو تو میں کہہ نہیں سکتی۔۔۔ صادق میں تمہیں یقین دلاتی ہوں۔‘‘
میں نے فوراً ہی کہا، ’’یعنی تم اپنے آپ کو یقین دلاتی ہو۔‘‘
وہ جل گئی، ’’تم بہت کمینے ہو۔۔۔ کہنے کا ایک ڈھنگ ہوتا ہے۔ آخر تمہیں یقین دلانے کی مجھے ضرورت ہی کیا پڑی ہے۔۔۔ میں اپنے آپ کو یقین دلا رہی ہوں، مگر مصیبت یہ ہے کہ آنہیں رہا۔۔۔ کیا تم میری مدد نہیں کرسکتے۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر وہ میرے پاس بیٹھ گئی اور اپنے داہنے ہاتھ کی چھنگلیا پکڑ کر مجھ سے پوچھنے لگی، ’’راج کشور کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے۔۔۔ میرا مطلب ہے تمہارے خیال کے مطابق راج کشور میں وہ کون سی چیز ہے جو مجھے پسند آئی ہے۔‘‘ چھنگلیا چھوڑ کر اس نے ایک ایک کرکے دوسری انگلیاں پکڑنی شروع کیں۔
’’مجھے اس کی باتیں پسند نہیں۔۔۔ مجھے اس کی ایکٹنگ پسند نہیں۔۔۔ مجھے اس کی ڈائری پسند نہیں، جانے کیا خرافات سنا رہا تھا۔‘‘
خود ہی تنگ آکر وہ اٹھ کھڑی ہوئی، ’’سمجھ میں نہیں آتا مجھے کیا ہوگیا ہے۔۔۔ بس صرف یہ جی چاہتا ہے کہ ایک ہنگامہ ہو۔۔۔ بلیوں کی لڑائی کی طرح شور مچے، دھول اڑے۔۔۔ اور میں پسینہ پسینہ ہو جاؤں۔۔۔‘‘ پھر ایک دم وہ میری طرف پلٹی، ’’صادق۔۔۔ تمہارا کیا خیال ہے۔۔۔ میں کیسی عورت ہوں؟‘‘
میں نے مسکرا کر جواب دیا، ’’بلیاں اور عورتیں میری سمجھ سے ہمیشہ بالاتر رہی ہیں۔‘‘
اس نے ایک دم پوچھا، ’’کیوں؟‘‘
میں نے تھوڑی دیر سوچ کر جواب دیا، ’’ہمارے گھر میں ایک بلی رہتی تھی، سال میں ایک مرتبہ اس پر رونے کے دورے پڑتے تھے۔۔۔ اس کا رونا دھونا سن کر کہیں سے ایک بلا آجایا کرتا تھا۔ پھر ان دونوں میں اس قدر لڑائی اور خون خرابہ ہوتا کہ الاماں۔۔۔ مگر اس کے بعد وہ خالہ بلی چار بچوں کی ماں بن جایا کرتی تھی۔‘‘
نیلم کا جیسے منہ کا ذائقہ خراب ہوگیا، ’’تھو۔۔۔ تم کتنے گندے ہو۔‘‘ پھر تھوڑی دیر بعد الائچی سے منہ کا ذائقہ درست کرنے کے بعد اس نے کہا، ’’مجھے اولاد سے نفرت ہے۔ خیر ہٹاؤ جی اس قصے کو۔‘‘یہ کہہ کر نیلم نے پاندان کھول کر اپنی پتلی پتلی انگلیوں سے میرے لیے پان لگانا شروع کردیا۔ چاندی کی چھوٹی چھوٹی کلھیوں سے اس نے بڑی نفاست سے چمچی کے ساتھ چونا اور کتھا نکال کر رگیں نکالے ہوئے پان پر پھیلایا اور گلوری بنا کر مجھے دی، ’’صادق!تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘
یہ کہہ کر وہ خالی الذہن ہوگئی۔
میں نے پوچھا، ’’کس بارے میں؟‘‘
اس نے سروتے سے بھنی ہوئی چھالیا کاٹتے ہوئے کہا، ’’اس بکواس کے بارے میں جو خواہ مخواہ شروع ہوگئی ہے۔۔۔ یہ بکواس نہیں تو کیا ہے، یعنی میری سمجھ میں کچھ آتا ہی نہیں۔۔۔ خود ہی پھاڑتی ہوں، خود ہی رفو کرتی ہوں۔ اگر یہ بکواس اسی طرح جاری رہے تو جانے کیا ہوگا۔۔۔ تم جانتے ہو، میں بہت زبردست عورت ہوں۔‘‘
’’زبردست سے تمہاری کیا مراد ہے؟‘‘
نیلم کے پتلے ہونٹوں پر وہی خفیف پر اسرار مسکراہٹ پیدا ہوئی، ’’تم بڑے بے شرم ہو۔ سب کچھ سمجھتے ہو مگر مہین مہین چٹکیاں لے کر مجھے اکساؤ گے ضرور۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں کی سفیدی گلابی رنگت اختیار کرگئی۔
’’تم سمجھتے کیوں نہیں کہ میں بہت گرم مزاج کی عورت ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی، ’’اب تم جاؤ۔ میں نہانا چاہتی ہوں۔‘‘
میں چلا گیا۔
اس کے بعد نیلم نے بہت دنوں تک راج کشور کے بارے میں مجھ سے کچھ نہ کہا۔ مگر اس دوران میں ہم دونوں ایک دوسرے کے خیالات سے واقف تھے۔ جو کچھ وہ سوچتی تھی، مجھے معلوم ہو جاتا تھا اور جو کچھ میں سوچتا تھا اسے معلوم ہو جاتا تھا۔ کئی روز تک یہی خاموش تبادلہ جاری رہا۔
ایک دن ڈائریکٹر کرپلانی جو ’’بن کی سندری‘‘ بنا رہا تھا، ہیروئن کی ریہرسل سن رہا تھا۔ ہم سب میوزک روم میں جمع تھے۔ نیلم ایک کرسی پر بیٹھی اپنے پاؤں کی جنبش سے ہولے ہولے تال دے رہی تھی۔ ایک بازاری قسم کا گانا مگر دھن اچھی تھی۔ جب ریہرسل ختم ہوئی تو راج کشور کاندھے پر کھادی کا تھیلا رکھے کمرے میں داخل ہوا۔ ڈائریکٹر کرپلانی، میوزک ڈائریکٹر گھوش، ساؤنڈ ریکارڈسٹ پی اے این موگھا۔۔۔ ان سب کو فرداً فرداً اس نے انگریزی میں آداب کیا۔ ہیروئن مس عیدن بائی کو ہاتھ جوڑ کر نمسکار کیا اور کہا، ’’عیدن بہن!کل میں نے آپ کو کرافرڈ مارکیٹ میں دیکھا۔ میں آپ کی بھابھی کے لیے موسمبیاں خرید رہا تھا کہ آپ کی موٹر نظر آئی۔۔۔‘‘ جھولتے جھولتے اس کی نظر نیلم پر پڑی جو پیانو کے پاس ایک پست قد کی کرسی میں دھنسی ہوئی تھی۔ ایک دم اس کے ہاتھ نمسکار کے لیے، اٹھے یہ دیکھتے ہی نیلم اٹھ کھڑی ہوئی، ’’راج صاحب! مجھے بہن نہ کہیے گا۔‘‘
نیلم نے یہ بات کچھ اس انداز سے کہی کہ میوزک روم میں بیٹھے ہوئے سب آدمی ایک لحظے کے لیے مبہوت ہوگئے۔ راج کشور کھسیانا سا ہوگیا اور صرف اس قدر کہہ سکا، ’’کیوں؟‘‘
نیلم جواب دیے بغیر باہر نکل گئی۔
تیسرے روز، میں ناگ پاڑے میں سہ پہر کے وقت شام لال پنواڑی کی دکان پر گیا تو وہاں اسی واقعے کے متعلق چہ میگوئیاں ہورہی تھیں۔۔۔ شام لال بڑے فخریہ لہجے میں کہہ رہا تھا، ’’سالی کا اپنا من میلا ہوگا۔۔۔ ورنہ راج بھائی کسی کو بہن کہے، اور وہ برا مانے۔۔۔ کچھ بھی ہو، اس کی مراد کبھی پوری نہیں ہوگی۔ راج بھائی لنگوٹ کابہت پکا ہے۔‘‘ راج بھائی کے لنگوٹ سے میں بہت تنگ آگیا تھا۔ مگر میں نے شام لال سے کچھ نہ کہا اور خاموش بیٹھا اس کی اور اس کے دوست گاہکوں کی باتیں سنتا رہا جن میں مبالغہ زیادہ اور اصلیت کم تھی۔
اسٹوڈیو میں ہر شخص کو میوزک روم کے اس حادثے کا علم تھا، اور تین روز سے گفتگو کا موضوع بس یہی چیز تھی کہ راج کشور کو مس نیلم نے کیوں ایک دم بہن کہنے سے منع کیا۔ میں نے راج کشور کی زبانی اس بارے میں کچھ نہ سنا مگر اس کے ایک دوست سے معلوم ہوا کہ اس نے اپنی ڈائری میں اس پر نہایت پر دلچسپ تبصرہ لکھا ہے اور پرارتھنا کی ہے کہ مس نیلم کا دل و دماغ پاک و صاف ہو جائے۔ اس حادثے کے بعد کئی دن گزر گئے مگر کوئی قابل ذکر بات وقوع پذیر نہ ہوئی۔
نیلم پہلے سے کچھ زیادہ سنجیدہ ہوگئی تھی اور راج کشور کے کرتے کے بٹن اب ہر وقت کھلے رہتے تھے، جس میں سے اس کی سفید اور ابھری ہوئی چھاتی کے کالے بال باہر جھانکتے رہتے تھے۔ چونکہ ایک دو روز سے بارش تھمی ہوئی تھی اور’’بن کی سندری‘‘ کے چوتھے سیٹ کا رنگ خشک ہوگیا تھا، اس لیے ڈائریکٹر نے نوٹس بورڈ پر شوٹنگ کا اعلان چسپاں کردیا۔ یہ سین جو اب لیا جانے والا تھا، نیلم اور راج کشور کے درمیان تھا۔ چونکہ میں نے ہی اس کے مکالمے لکھے تھے، اس لیے مجھے معلوم تھاکہ راج کشور باتیں کرتے کرتے نیلم کا ہاتھ چومے گا۔ اس سین میں چومنے کی بالکل گنجائش نہ تھی۔ مگر چونکہ عوام کے جذبات کو اکسانے کے لیے عام طور پر فلموں میں عورتوں کو ایسے لباس پہنائے جاتے ہیں جو لوگوں کو ستائیں، اس لیے ڈائریکٹر کرپلانی نے، پرانے نسخے کے مطابق، دست بوسی کا یہ ٹچ رکھ دیا تھا۔
جب شوٹنگ شروع ہوئی تو میں دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ سیٹ پر موجود تھا۔ راج کشور اور نیلم، دونوں کا ردِّ عمل کیا ہوگا، اس کے تصور ہی سے میرے جسم میں سنسنی کی ایک لہر دوڑ جاتی تھی۔ مگر سارا سین مکمل ہوگیا، اور کچھ نہ ہوا۔ ہر مکالمے کے بعد ایک تھکا دینے والی آہنگی کے ساتھ برقی لیمپ روشن اور گل ہو جاتے۔ اسٹارٹ اور کٹ کی آوازیں بلند ہوتیں اور شام کو جب سین کے کلائمیکس کا وقت آیا تو راج کشور نے بڑے رومانی انداز میں نیلم کا ہاتھ پکڑا مگر کیمرے کی طرف پیٹھ کرکے اپنا ہاتھ چوم کر، الگ کرہو گیا۔
میرا خیال تھا کہ نیلم اپنا ہاتھ کھینچ کر راج کشور کے منہ پر ایک ایسا چانٹا جڑے گی کہ ریکارڈنگ روم میں پی این موگھا کے کانوں کے پردے پھٹ جائیں گے۔ مگر اس کے برعکس مجھے نیلم کے پتلے ہونٹوں پر ایک تحلیل شدہ مسکراہٹ دکھائی دی۔ جس میں عورت کے مجروح جذبات کا شائبہ تک موجود نہ تھا۔ مجھے سخت ناامیدی ہوئی تھی۔ میں نے اس کا ذکر نیلم سے نہ کیا۔ دو تین روز گزر گئے اور جب نے اس نے بھی مجھ سے اس بارے میں کچھ نہ کہا۔۔۔ تو میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اسے اس ہاتھ چومنے والی بات کی اہمیت کا علم ہی نہیں تھا، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اس کے ذکی الحس دماغ میں اس کا خیال تک بھی نہ آیا تھا اور اس کی وجہ صرف یہ ہو سکتی ہے کہ وہ اس وقت راج کشور کی زبان سے جو عورت کو بہن کہنے کا عادی تھا، عاشقانہ الفاظ سن رہی تھی۔
نیلم کا ہاتھ چومنے کی بجائے راج کشور نے اپنا ہاتھ کیوں چوما تھا۔۔۔ کیا اس نے انتقام لیا تھا۔۔۔ کیا اس نے اس عورت کو ذلیل کرنے کی کوشش کی تھی، ایسے کئی سوال میرے دماغ میں پیدا ہوئے مگر کوئی جواب نہ ملا۔
چوتھے روز، جب میں حسبِ معمول ناگ پاڑے میں شام لال کی دکان پر گیا تو اس نے مجھ سے شکایت بھرے لہجے میں، ’’منٹو صاحب! آپ تو ہمیں اپنی کمپنی کی کوئی بات سناتے ہی نہیں۔۔۔ آپ بتانا نہیں چاہتے یا پھر آپ کو کچھ معلوم ہی نہیں ہوتا؟ پتا ہے آپ کو، راج بھائی نے کیا کیا؟‘‘ اس کے بعد اس نے اپنے انداز میں یہ کہانی شروع کی کہ ’’بن کی سندری‘‘ میں ایک سین تھا جس میں ڈائریکٹر صاحب نے راج بھائی کو مس نیلم کا منہ چومنے کا آرڈر دیا لیکن صاحب، کہاں راج بھائی اور کہاں وہ سالی ٹکہائی۔ راج بھائی نے فوراً کہہ دیا، ’’نا صاحب میں ایسا کام کبھی نہیں کروں گا۔ میری اپنی پتنی ہے، اس گندی عورت کا منہ چوم کر کیا میں اس کے پوتر ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ملا سکتا ہوں۔۔۔‘‘ بس صاحب فوراً ڈائریکٹرصاحب کو سین بدلنا پڑا اور راج بھائی سے کہا گیا کہ اچھا بھئی تم منہ نہ چومو ہاتھ چوم لو، مگر راج صاحب نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلیں۔ جب وقت آیا تو اس نے اس صفائی سے اپنا ہاتھ چوما کہ دیکھنے والوں کو یہی معلوم ہوا کہ اس نے اس سالی کا ہاتھ چوما ہے۔‘‘
میں نے اس گفتگو کا ذکر نیلم سے نہ کیا، اس لیے کہ جب وہ اس سارے قصّے ہی سے بے خبر تھی، تواسے خواہ مخواہ رنجیدہ کرنے سے کیا فائدہ۔
بمبئی میں ملیریا عام ہے۔ معلوم نہیں، کون سا مہینہ تھا اور کون سی تاریخ تھی۔ صرف اتنا یاد ہے کہ ’’بن کی سندری‘‘ کا پانچواں سیٹ لگ رہا تھا اور بارش بڑے زوروں پر تھی کہ نیلم اچانک بہت تیز بخار میں مبتلا ہوگئی۔ چونکہ مجھے ا سٹوڈیو میں کوئی کام نہیں تھا، اس لیے میں گھنٹوں اس کے پاس بیٹھا اس کی تیمار داری کرتا رہتا۔ ملیریا نے اس کے چہرے کی سنولاہٹ میں ایک عجیب قسم کی درد انگیز زردی پیدا کردی تھی۔۔۔ اس کی آنکھوں اور اس کے پتلے ہونٹوں کے کونوں میں جو ناقابل بیان تلخیاں گھلی رہتی تھیں، اب ان میں ایک بے معلوم بے بسی کی جھلک بھی دکھائی دیتی تھی۔ کونین کے ٹیکوں سے اس کی سماعت کسی قدر کمزور ہوگئی تھی۔ چنانچہ اسے اپنی نحیف آواز اونچی کرنا پڑتی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ شاید میرے کان بھی خراب ہوگئے ہیں۔
ایک دن جب اس کا بخار بالکل دور ہوگیا تھا، اور وہ بستر پر لیٹی نقاہت بھرے لہجے میں عیدن بائی کی بیمارپرسی کا شکریہ ادا کررہی تھی؛ نیچے سے موٹر کے ہارن کی آواز آئی۔ میں نے دیکھا کہ یہ آواز سن کر نیلم کے بدن پر ایک سرد جھرجھری سی دوڑ گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد کمرے کا دبیز ساگوانی دروازہ کھلا اورراج کشور کھادی کے سفید کرتے اور تنگ پائجامے میں اپنی پرانی وضع کی بیوی کے ہم راہ اندر داخل ہوا۔
عیدن بائی کو عیدن بہن کہہ کر سلام کیا۔ میرے ساتھ ہاتھ ملایا اور اپنی بیوی کو جو تیکھے تیکھے نقشوں والی گھریلو قسم کی عورت تھی، ہم سب سے متعارف کرا کے وہ نیلم کے پلنگ پر بیٹھ گیا۔ چند لمحات وہ ایسے ہی خلا میں مسکراتا رہا۔ پھر اس نے بیمار نیلم کی طرف دیکھا اور میں نے پہلی مرتبہ اس کی دھلی ہوئی آنکھوں میں ایک گرد آلود جذبہ تیرتا ہوا پایا۔
میں ابھی پورح طرح متحیر بھی نہ ہونے پایا تھا کہ اس نے کھلنڈرے آواز میں کہنا شروع کیا’’بہت دنوں سے ارادہ کررہا تھاکہ آپ کی بیمار پرسی کے لیے آؤں، مگر اس کم بخت موٹر کا انجن کچھ ایسا خراب ہوا کہ دس دن کارخانے میں پڑی رہی۔ آج آئی تو میں نے (اپنی بیوی کی طرف اشارہ کرکے) شانتی سے کہا کہ بھئی چلو اسی وقت اٹھو۔۔۔ رسوئی کا کام کوئی اور کرے گا، آج اتفاق سے رکھشا بندھن کا تہوار بھی ہے۔۔۔ نیلم بہن کی خیر و عافیت بھی پوچھ آئیں گے اور ان سے رکھشا بھی بندھوائیں گے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے کھادی کے کرتے سے ایک ریشمی پھندنے والا گجرا نکالا۔ نیلم کے چہرے کی زردی اور زیادہ درد انگیز ہوگئی۔
راج کشور جان بوجھ کر نیلم کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا، چنانچہ اس نے عیدن بائی سے کہا۔ مگر ایسے نہیں۔ خوشی کا موقع ہے، بہن بیمار بن کر رکھشا نہیں باندھے گی۔ شانتی، چلو اٹھو، ان کو لپ اسٹک وغیرہ لگاؤ۔‘‘
’’میک اپ بکس کہاں ہے؟‘‘
سامنے مینٹل پیس پر نیلم کا میک اپ بکس پڑا تھا۔ راج کشور نے چند لمبے لمبے قدم اُٹھائے اور اسے لے آیا۔ نیلم خاموش تھی۔۔۔ اس کے پتلے ہونٹ بھینچ گئے تھے جیسے وہ چیخیں بڑی مشکل سے روک رہی ہے۔ جب شانتی نے پتی ورتا استری کی طرح اٹھ کر نیلم کا میک اپ کرنا چاہا تو اس نے کوئی مزاحمت پیش نہ کی۔ عیدن بائی نے ایک بے جان لاش کو سہارا دے کر اٹھایا اور جب شانتی نے نہایت ہی غیر صناعانہ طریق پر اس کے ہونٹوں پر لپ اسٹک لگانا شروع کی تو وہ میری طرف دیکھ کر مسکرائی۔۔۔ نیلم کی یہ مسکراہٹ ایک خاموش چیخ تھی۔
میرا خیال تھا۔۔۔ نہیں، مجھے یقین تھا کہ ایک دم کچھ ہوگا۔۔۔ نیلم کے بھنچے ہُوئے ہونٹ ایک دھماکے کے ساتھ واہوں گے اور جس طرح برسات میں پہاڑی نالے بڑے بڑے مضبوط بند توڑ کر دیوانہ وار آگے نکل جاتے ہیں، اسی طرح نیلم اپنے رکے ہوئے جذبات کے طوفانی بہاؤ میں ہم سب کے قدم اکھیڑ کر خدا معلوم کن گہرائیوں میں دھکیل لے جائے گی۔ مگر تعجب ہے کہ وہ بالکل خاموش رہی۔ اس کے چہرے کی درد انگیز زردی غازے اور سرخی کے غبار میں چھپتی رہی اور وہ پتھر کے بت کی طرح بے حس بنی رہی۔ آخر میں جب میک اپ مکمل ہوگیا تو اس نے راج کشور سے حیرت انگیز طور پر مضبوط لہجے میں کہا، ’’لائیے! اب میں رکھشا باندھ دوں۔‘‘
ریشمی پھندنوں والا گجرا تھوڑی دیر میں راج کشور کی کلائی میں تھا اور نیلم جس کے ہاتھ کانپنے چاہئیں تھے، بڑے سنگین سکون کے ساتھ اس کا تکمہ بند کررہی تھی۔ اس عمل کے دوران میں ایک مرتبہ پھر مجھے راج کشور کی دھلی ہوئی آنکھ میں ایک گرد آلود جذبے کی جھلک نظر آئی جو فوراً ہی اس کی ہنسی میں تحلیل ہوگئی۔
راج کشور نے ایک لفافے میں رسم کے مطابق نیلم کو کچھ ر وپے دیے جو اس نے شکریہ ادا کرکے اپنے تکیے کے نیچے رکھ لیے۔۔۔ جب وہ لوگ چلے گئے، میں اور نیلم اکیلے رہ گئے تو اس نے مجھ پر ایک اجڑی ہوئی نگاہ ڈالی اور تکیے پر سر رکھ کر خاموش لیٹ گئی۔ پلنگ پرراج کشور اپنا تھیلا بھول گیا تھا۔ جب نیلم نے اسے دیکھا تو پاؤں سے ایک طرف کردیا۔ میں تقریباً دو گھنٹے اس کے پاس بیٹھا اخبار پڑھتا رہا۔ جب اس نے کوئی بات نہ کی تو میں رخصت لیے بغیر چلا آیا۔
اس واقعہ کے تین روز بعد میں ناگ پاڑے میں اپنی نو روپے ماہوار کی کھولی کے اندر بیٹھا شیو کررہا تھا اور دوسری کھولی سے اپنی ہمسائی مسز فرنینڈیز کی گالیاں سن رہا تھا کہ ایک دم کوئی اندر داخل ہوا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا، نیلم تھی۔ ایک لحظے کے لیے میں نے خیال کیا کہ نہیں، کوئی اور ہے۔۔۔ اس کے ہونٹوں پر گہرے سرخ رنگ کی لپ اسٹک کچھ اس طرح پھیلی ہوئی تھی جیسے منہ سے خون نکل نکل کر بہتا رہا اور پونچھا نہیں گیا۔۔۔ سر کا ایک بال بھی صحیح حالت میں نہیں تھا۔ سفید ساڑی کی بوٹیاں اڑی ہوئی تھیں۔ بلاوز کے تین چار ہک کھلے تھے اوراس کی سانولی چھاتیوں پر خراشیں نظر آرہی تھیں۔ نیلم کو اس حالت میں دیکھ کر مجھ سے پوچھا ہی نہ گیا کہ تمہیں کیا ہوا، اور میری کھولی کا پتہ لگا کر تم کیسے پہنچی ہو۔
پہلا کام میں نے یہ کیا کہ دروازہ بند کردیا۔ جب میں کرسی کھینچ کر اس کے پاس بیٹھا تو اس نے اپنے لپ اسٹک سے لتھڑے ہوئے ہونٹ کھولے اور کہا، ’’میں سیدھی یہاں آرہی ہوں۔‘‘
میں نے آہستہ سے پوچھا، ’’کہاں سے؟‘‘
’’اپنے مکان سے۔۔۔ اور میں تم سے یہ کہنے آئی ہوں کہ اب وہ بکواس جو شروع ہوئی تھی، ختم ہوگئی ہے۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’مجھے معلوم تھا کہ وہ پھر میرے مکان پر آئے گا، اس وقت جب اور کوئی نہیں ہوگا! چنانچہ وہ آیا۔۔۔ اپنا تھیلا لینے کے لیے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کے پتلے ہونٹوں پر جو لپ اسٹک نے بالکل بے شکل کردیے تھے، وہی خفیف سی پراسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی، ’’وہ اپنا تھیلا لینے آیا تھا۔۔۔ میں نے کہا، چلیے، دوسرے کمرے میں پڑا ہے۔ میرا لہجہ شاید بدلا ہوا تھا کیونکہ وہ کچھ گھبرا سا گیا۔۔۔ میں نے کہا گھبرائیے نہیں۔۔۔ جب ہم دوسرے کمرے میں داخل ہوئے تو میں تھیلا دینے کی بجائے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھ گئی اور میک اپ کرنا شروع کردیا۔‘‘
یہاں تک بول کر وہ خاموش ہوگئی۔۔۔ سامنے، میرے ٹوٹے ہوئے میز پر، شیشے کے گلاس میں پانی پڑا تھا۔ اسے اٹھا کر نیلم غٹا غٹ پی گئی۔۔۔ اور ساڑی کے پلو سے ہونٹ پونچھ کر اس نے پھر اپنا سلسلہ کلام جاری کیا، ’’میں ایک گھنٹے تک میک اپ کرتی رہی۔ جتنی لپ اسٹک ہونٹوں پر تھپ سکتی تھی، میں نے تھوپی، جتنی سرخی میرے گالوں پر چڑھ سکتی تھی، میں نے چڑھائی۔ وہ خاموش ایک کونے میں کھڑا آئینے میں میری شکل دیکھتا رہا۔ جب میں بالکل چڑیل بن گئی تو مضبوط قدموں کے ساتھ چل کر میں نے دروازہ بند کردیا۔‘‘
’’پھر کیا ہوا؟‘‘
میں نے جب اپنے سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے نیلم کی طرف دیکھا تو وہ مجھے بالکل مختلف نظر آئی۔ ساڑی سے ہونٹ پونچھنے کے بعد اس کے ہونٹوں کی رنگت کچھ عجیب سی ہو گئی تھی۔ اس کے علاوہ اس کا لہجہ اتنا ہی تپاہوا تھا جتنا سرخ گرم کیے ہوئے لوہے کا، جسے ہتھوڑے سے کوٹا جارہا ہو۔ اس وقت تو وہ چڑیل نظر نہیں آرہی تھی، لیکن جب اس نے میک اپ کیا ہوگا تو ضرور چڑیل دکھائی دیتی ہوگی۔
میرے سوال کا جواب اس نے فوراً ہی نہ دیا۔۔۔ ٹاٹ کی چارپائی سے اٹھ کر وہ میرے میز پر بیٹھ گئی اور کہنے لگی، ’’میں نے اس کو جھنجوڑ دیا۔۔۔ جنگلی بلی کی طرح میں اس کے ساتھ چمٹ گئی۔ اس نے میرا منہ نوچا، میں نے اس کا۔۔۔ بہت دیر تک ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کشتی لڑتے رہے۔ اوہ۔۔۔ اس میں بلا کی طاقت تھی۔۔۔ لیکن۔۔۔ لیکن۔۔۔ جیسا کہ میں تم سے ایک بار کہہ چکی ہوں۔۔۔ میں بہت زبردست عورت ہوں۔۔۔ میری کمزوری۔۔۔ وہ کمزوری جو ملیریا نے پیدا کی تھی، مجھے بالکل محسوس نہ ہوئی۔ میرا بدن تپ رہا تھا۔ میری آنکھوں سے چنگاریاں نکل رہی تھیں۔۔۔ میری ہڈیاں سخت ہورہی تھیں۔ میں نے اسے پکڑ لیا۔ میں نے اس سے بلیوں کی طرح لڑنا شروع کیا۔۔۔ مجھے معلوم نہیں کیوں۔۔۔ مجھے پتا نہیں کس لیے۔۔۔ بے سوچے سمجھے میں اس سے بھڑ گئی۔۔۔ ہم دونوں نے کوئی بھی ایسی بات زبان سے نہ نکالی جس کا مطلب کوئی دوسرا سمجھ سکے۔۔۔ میں چیختی رہی۔۔۔ وہ صرف ہوں ہوں کرتا رہا۔۔۔ اس کے سفید کھادی کے کرتے کی کئی بوٹیاں میں نے ان انگلیوں سے نوچیں۔۔۔ اس نے میرے بال، میری کئی لٹیں جڑ سے نکال ڈالیں۔۔۔ اس نے اپنی ساری طاقت صرف کردی۔ مگر میں نے تہیّہ کرلیا تھا کہ فتح میری ہوگی۔۔۔ چنانچہ وہ قالین پر مردے کی طرح لیٹا تھا۔۔۔ اور میں اس قدر ہانپ رہی تھی کہ ایسا لگتا تھا کہ میرا سانس ایک دم رک جائے گا۔۔۔ اتنا ہانپتے ہوئے بھی میں نے اس کے کرتے کو چندی چندی کردیا۔ اس وقت میں نے اس کا چوڑا چکلا سینہ دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ بکواس کیا تھی۔۔۔ وہی بکواس جس کے متعلق ہم دونوں سوچتے تھے اور کچھ سمجھ نہیں سکتے تھے۔۔۔‘‘
یہ کہہ کر وہ تیزی سے اٹھ کھڑی ہوئی اور اپنے بکھرے ہوئے بالوں کو سر کی جنبش سے ایک طرف ہٹاتے ہوئے کہنے لگی، ’’صادق۔۔۔ کم بخت کا جسم واقعی خوبصورت ہے۔۔۔ جانے مجھے کیا ہوا۔ ایک دم میں اس پر جھکی اور اسے کاٹنا شروع کردیا۔۔۔ وہ سی سی کرتا رہا۔۔۔ لیکن جب میں نے اس کے ہونٹوں سے اپنے لہو بھرے ہونٹ پیوست کیے اور اسے ایک خطرناک جلتا ہوا بوسہ دیا تو وہ انجام رسیدہ عورت کی طرح ٹھنڈا ہوگیا۔ میں اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔ مجھے اس سے ایک دم نفرت پیدا ہوگئی۔۔۔ میں نے پورے غور سے اس کی طرف نیچے دیکھا۔۔۔ اس کے خوبصورت بدن پر میرے لہو اور لپ اسٹک کی سرخی نے بہت ہی بدنما بیل بوٹے بنا دیے تھے۔۔۔ میں نے اپنے کمرے کی طرف
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |