میرا ہم سفر

میرا ہم سفر (1941)
by سعادت حسن منٹو
325207میرا ہم سفر1941سعادت حسن منٹو

پلیٹ فارم پر شہاب، سعید اور عباس نے ایک شور مچا رکھا تھا۔ یہ سب دوست مجھے اسٹیشن پر چھوڑنے کے لیے آئے تھے، گاڑی پلیٹ فارم کو چھوڑ کر آہستہ آہستہ چل رہی تھی کہ شہاب نے بڑھ کر پائدان پر چڑھتے ہوئے مجھ سے کہا:

’’عباس کہتا ہے کہ گھر جا کر اپنی ’’ان‘‘ کی خدمت میں سلام ضرور کہنا۔‘‘

’’وہ تو پاگل ہے۔۔۔ اچھا خدا حافظ۔‘‘ میں نے ان علیگی دوستوں سے پیچھا چھڑاتے ہوئے یہ الفاظ جلدی میں ادا کیے اور شہاب سے ہاتھ ملا کردروازہ بند کرنے کے بعد اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔

علی گڑھ اور اس کی حسین علمی فضا، جس میں مَیں اس سے کچھ عرصہ پہلے سانس لے رہا تھا، اب مجھ سے ایک طویل عرصہ کے لیے دورہورہی تھی۔ میرا دل سخت مغموم تھا۔ شہاب اگرچہ کالج میں بہت تنٓگ کرتا تھا مگر اس سے جدا ہونے کا مجھے اب احساس ہوا، جب میں نے دفعتاً خیال کیا کہ امرتسر میں مجھے اس ایسا دلچسپ دوست میسر نہ آسکے گا۔ اسی خیال کے غم افزا اثر کے تحت میں نے سر کو جنبش دیتے ہوئے اور اس عمل سے گویا اپنے ذہن سے اس تاریکی کو جھٹکتے ہوئے جیب میں سے سگریٹ کی ڈبیا نکالی اور اس میں سے ایک سگریٹ نکال کر اس کو سلگایا اور اطمینان سے نشست پر ٹھکانے سے بیٹھ کر اپنے سامان کا جائزہ لیا اور پھر اپنے ساتھی کی طرف جو سیٹ کے آخری حصے پر بیٹھا تھا، پیٹھ کرکے سگریٹ سے دھوئیں کے چھلے بنانے کی بے سود کوشش میں مصروف ہوگیا۔

میں بالکل خالی الذہن تھا۔ معلوم نہیں کیوں؟ سگریٹ کا دھواں جس کو میں اپنے منہ سے چھلوں کی صورت میں نکالنے کی کوشش کرتا تھا،ہوا کے تند جھونکوں کی تاب نہ لا کر کھڑکی کے راستے کسی تھرکتی ہوئی رقاصہ کی طرح تڑپ کر باہر نکل رہا تھا۔ میں بہت عرصہ تک سگریٹ کے اس لرزاں دھوئیں کو بڑے غور سے دیکھتا رہا۔۔۔ یہ رقص کی ایک تکمیل تھی۔

’’رقص کی تکمیل۔‘‘ یہ الفاظ دفعتاًمیرے دماغ میں پیدا ہوئے اور میں اپنے اس اچھوتے خیال پربہت مسرور ہوا۔

’’کیا میں پاگل ہوں؟‘‘

گاڑی پلیٹ فارم کو چھوڑ کر کھلے میدانوں میں دوڑ رہی تھی۔ آہنی پٹریوں کا بچھا ہوا جال بہت پیچھے رہ گیا تھا۔ پتھریلی روش کے آس پاس اگے ہوئے درخت ایک دوسرے کا تعاقب کرتے معلوم ہوتے تھے۔میں ’’رقص کی تکمیل‘‘ اور ان درختوں کی بھاگ دوڑ کا مشاہدہ کررہا تھا کہ ان حیران کن الفاظ نے مجھے چونکا دیا جو غالباً میرے اس ہم سفر نے ادا کیے تھے جو سیٹ کے آخری حصے پر کونے میں بیٹھا تھا۔ اس نے یقیناً یہ عجیب سوال مجھ سے ہی پوچھا تھا۔

’’ کیا آپ مجھ سے دریافت فرما رہے ہیں؟‘‘

’’ جی ہاں، کیا میں پاگل ہوں؟‘‘ اس نے ایک بار پھر مجھ سے دریافت کیا۔

ٹرین کی روانگی پر جب میں نے شہاب سے یہ کہا تھا، ’’وہ تو پاگل ہے۔ اچھا خدا حافظ۔‘‘ تو شاید اس شریف آدمی نے یہ خیال کرلیا تھا کہ میں نے اسی کو پاگل کہا ہے۔۔۔ میں کھل کھلا کر ہنس پڑا اور نہایت مؤدبانہ لہجہ میں کہا:

’’ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے حضرت، گاڑی چلتے وقت شاید میں نے اپنے کسی دوست کو پاگل کے نام سے پکارا تھا۔۔۔ وہ تو ہے ہی پاگل۔ میں معافی چاہتا ہوں کہ آپ کو خواہ مخواہ تکلیف ہوئی۔‘‘

یہ معقول دلیل سن کر میرا ہم سفر جو غالباً کچھ اور کہنے کے لیے ذرا آگے سرک رہا تھا، خاموش ہوگیا۔ یہ دیکھ کر مجھے ایک گونہ اطمینان ہوا کہ معاملہ نہیں بڑھا۔اتفاق سے میری طبیعت کچھ اس قسم کی واقع ہوئی ہے کہ عموماً نکمی سے نکمی باتوں پر طیش آجایا کرتا ہے۔ چونکہ اس سے قبل کئی مرتبہ دورانِ سفر میں میرا مسافروں سے جھگڑا ہو چکا تھا،اور میں اس کے تلخ نتائج سے اچھی طرح واقف تھا، اس لیے لازمی طور پر میں اس معاملہ کو اتنی جلدی بخیر و خوبی انجام پاتے دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ چنانچہ میں نے اس مسافر سے خوشگوار تعلقات پیدا کرنے کے لیے اس سے ایسے ہی گفتگو شروع کی۔۔۔ رسمی گفتگو جو عام طور پر گاڑیوں میں مسافروں کے ساتھ کی جاتی ہے۔

’’ آپ کہاں تشریف لے جارہے ہیں؟‘‘ میں نے اس سے دریافت کیا۔

’’میں۔۔۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ کونے سے سرکتا ہوا اٹھ کر میرے مقابلہ والی سیٹ پر بیٹھ گیا، ’’میں دہلی جارہا ہوں۔۔۔ آپ کہاں اتریں گے؟‘‘

’’ مجھے کافی طویل سفر کرنا ہے۔۔۔ امرتسر جارہا ہوں۔‘‘

’’امرتسر۔۔۔‘‘

’’ جی ہاں۔‘‘

’’مجھے یہ شہر دیکھنے کا کئی مرتبہ اتفاق ہوا ہے۔ اچھی بارونق جگہ ہے۔ کپڑے کی تجارت کا مرکز ہے۔ کیا آپ وہاں کالج میں پڑھتے ہیں؟‘‘

’’جی ہاں۔‘‘میں نے جھوٹ بولتے ہوئے کہا۔ کیونکہ اس کا سوال میرے نزدیک بہت غیر دلچسپ تھا، اس کے علاوہ مجھے اندیشہ تھا کہ اگر میں نے اپنے ہم سفر سے یہ کہا ہوتا کہ میں علی گڑھ کی یونیورسٹی میں پڑھتا ہوں تو وہ کالج کی دلچسپیوں، اس کی عمارت اور اس کے خدا معلوم کن کن حصوں اور شعبوں کے متعلق مجھ پر سوالات کی بوچھار شروع کردیتا۔ اس سے قبل میرے ساتھ اس قسم کا واقعہ پیش آچکا تھا۔ جب میرے ایک رفیق سفر نے سوال پوچھتے پوچھتے رات کی نیند مجھ پر حرام کردی تھی۔

’’کون سے کالج میں۔۔۔ میرے خیال میں وہاں کئی کالج ہیں۔‘‘ اس نے مجھ سے دریافت کیا۔

میں نے جھٹ سے جواب دیا، ’’خالصہ کالج میں۔‘‘

’’ اچھا، وہی جو اینڈرسن نے تعمیر کرایا ہے۔‘‘

’’ اینڈرسنٰ نے، مگر وہ سکھوں کا کالج ہے حضرت۔‘‘ میں نے حیران ہوتے ہوئے کہا۔

’’ مجھے معلوم ہے مسٹر، یہ اینڈرسن سِکھ ہوگیا تھا نا۔۔۔ آپ نے غالباً سکھ ہسٹری کا مطالعہ نہیں کیا۔‘‘

’’شاید۔‘‘

یہ کہہ کر میں نے گفتگو کو دلچسپ نہ پاتے ہوئے منہ موڑ لیا اور کھڑکی سے باہر کی طرف دیکھنا شروع کردیا۔ گاڑی اب یو۔ پی کے وسیع میدانوں میں دندناتی ہوئی چلی جارہی تھی۔ لوہے کے پہیوں کی وزنی جھنکار اور چوبی شہتیروں کی کھٹ کھٹ فضا میں ایک عجیب یک آہنگ شوربرپا کررہی تھی۔ اس شور کی صدائے بازگشت نے آس پاس کے دوڑتے ہوئے کھمبوں اور درختوں سے ٹکرا کر شام کی خنک ہوا میں ایک ارتعاش پیدا کردیا تھا۔ میں نے ایسے ہی کھڑکی میں سے اپنا بازو باہر نکالا۔ منہ زور گاڑی کی تیز رفتار کی وجہ سے ہوا کے زبردست دھکے نے میرے بازو کو ریلا دےکر پیچھے دبا دیا۔۔۔ میں نے ٹھنڈی ہوا کے اس دباؤ کو بہت پیارا محسوس کیا۔ چنانچہ میں کھیل میں مصروف ہوگیا اور اپنے ہم سفر اور اس کی گفتگو کو بالکل بھول گیا۔ ہواکے دباؤ کی دلنوازی بہت مسرور کن تھی۔

تھوی دیر کے بعد میں اپنے اس کھیل سے اکتا گیا۔ دراصل بار بار ہوا کو چیرنے سے میرا بازو تھک گیا تھا۔ اب میں نے مڑ کر میدانوں کی وسعت کا نظارہ کرنا شروع کردیا۔ ڈوبتے ہوئے سورج کی سرخ۔۔۔ آتشیں سرخ کرنیں میدان کے گڑھوں میں بارش کے جمع شدہ پانیوں پر زرنگاری کا کام کررہی تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ خاکستری زمین کے سینے پر کسی نے بڑے بڑے آئینے آویزاں کردیے ہیں۔ بجلی کے تاروں اور کھمبوں پر نیل کنٹھ اور ابابیلیں پھدک رہی تھیں۔ یہ منظر بہت سہانا تھا۔

’’ کیا میں پاگل ہوں؟‘‘

ان الفاظ نے ایک بار پھران رنگوں کو منتشر کردیا جو میرے دل و دماغ پر ایک نہایت ہی پیاری تصویر کھینچ رہے تھے۔ میں چونک پڑا۔ میرے اسی ہم سفر نے مجھ سے یہ سوال دریافت کیا تھا۔ میں مڑا۔ وہ میری طرف مستفسرانہ نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ یہ خیال کرتے ہوئے کہ شاید میرے کانوں کو دھوکا ہوا ہے، میں نے اس سے کہا:

’’ کیا ارشاد فرمایا آپ نے؟‘‘

وہ ایک لمحہ خاموش رہا اور پھر اپنے سرکو جھٹکتے ہوئے کہا، ’’کچھ بھی نہیں، شاید آپ نہ بتا سکیں گے!‘‘

اب میں نے غور سے اس کی طرف دیکھا۔ اس کی عمر غالباً بیس بائیس برس کے قریب ہوگی۔ داڑھی کمال صفائی سے مونڈی ہوئی تھی۔ اس کے گال گوشت سے بھرے ہوئے تھے، ان کی موٹائی میں بہت خفیف سا فرق تھا، جو صرف مجھ ایسا باریک بیں ہی دیکھ سکتا ہے۔ بال جن میں سے کسی اچھے اور بڑھیا تیل کی خوشبو آرہی تھی، پیچھے کی طرف کنگھی کیے گئے تھے جس سے اس کی پیشانی بہت کشادہ ہوگئی تھی۔ وہ معمولی قسم کے کشمیرے کا کوٹ پہنے ہوئے تھا۔ کلف شدہ کالر قمیص کے ساتھ لگا ہوا تھا مگر ٹائی موجود نہ تھی۔۔۔ یہ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔

میں ابھی کچھ کہنے ہی والا تھا کہ وہ پھر بولا، ’’آپ سے کچھ دریافت کرنا چاہتا ہوں؟‘‘

میں اس کے راز دارانہ لہجہ سے بہت متحیر ہوا۔ آخر وہ مجھ سے کیا دریافت کرنا چاہتا ہے؟ یہ خیال کرتے ہوئے میں نے جھک کر گویا اس کے سوال کا جواب دینے کے لیے تیار ہو کرکہا، ’’بصد شوق۔۔۔ فرمائیے۔‘‘

’’کیا میں پاگل ہوں؟‘‘

میری حیرت اور بھی بڑھ گئی۔ میں سمجھ نہ سکا کہ جواب کیا دوں۔ آپ ہی فرمائیے میں اس شخص کو کیا جواب دے سکتا تھا جو بظاہر نہایت ہی ہوش مند انسان معلوم ہوتا تھا۔۔۔ بالکل میری اور آپ کی طرح۔

’’آپ۔۔۔؟آپ۔۔۔؟‘‘ میں نے تتلاتے ہوئے کہا۔

’’ہاں، ہاں میں۔ آپ فرمائیے نا۔‘‘ اس نے بڑی سنجیدگی سے مجھ سے دریافت کیا۔

’’ مگر کیوں؟ آپ بڑے ہوش مند انسان ہیں۔۔۔!‘‘

’’آپ اپنی رائے مرتب کرنے میں جلدی سے کام نہ لیجیے، پھر غور فرما کر جواب دیجیے، کیا میں واقعی پاگل ہوں۔‘‘

اس میں غور کرنے کی بات ہی کوئی نہ تھی۔ لیکن پھر بھی میں نے اپنے ہم سفر کے چہرے کی طرف غور سے دیکھنا شروع کیا۔ دراصل میں دو چیزیں معلوم کرنا چاہتا تھا۔ اولاً یہ کہ کہیں وہ مجھ سے مذاق تو نہیں کررہا۔ ثانیاً یہ کہ شاید اس کے چہرے کا اتار چڑھاؤ ظاہر کردے کہ وہ سچ مچ پاگل ہی ہے۔ میں نے اپنے ایک دوست سے سنا تھا کہ عام طور پر پاگلوں کی آنکھوں میں سرخ ڈورے ابھرے ہوتے ہیں،مگر وہ آنکھیں جو میری طرف دیکھ رہی تھیں، غیر معمولی طور پر سفید تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ سفید چینی کی بنی ہوئی ہیں۔ میں کچھ معلوم نہ کرسکا۔

’’آپ کو کسی نے بہت غلط طور پر شک میں ڈال دیا ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے میں نے خیال کیا کہ شاید کسی ڈاکٹر نے اس کو وہم میں ڈال دیا ہے۔ کیونکہ مجھے اچھی طرح معلوم تھاکہ آج کل کے سستے اور جاہل ڈاکٹر بغیر سوچے سمجھے نبض پر ہاتھ رکھ کر کسی کو دیوانہ کسی کو مدقوق اور کسی کو ضعفِ اعصاب کا مریض ٹھہرا دیتے ہیں۔

’’ میرا بھی یہی خیال ہے۔۔۔ مگر آپ کو قطعی طور پر یقین ہے کہ میں واقعی پاگل نہیں ہوں۔‘‘ اس نے کہا۔

’’ قطعی طور پر۔۔۔ جس شخص نے آپ کو اس وہم میں مبتلا کیا ہے۔ میرے خیال میں وہ خود پاگل ہے۔‘‘

’’ خیر وہ تو پاگل نہیں، اچھا بھلا ہے۔‘‘

’’ وہ کون بزرگ ہیں؟‘‘

’’ میرا اپنا باپ۔‘‘

’’ آپ کا باپ؟‘‘

’’جی ہاں۔۔۔ وہ کہتا ہے کہ میں پاگل ہوں، حالانکہ میں خود اس قسم کی کوئی علامت نہیں پاتا۔ آج سے ایک سال قبل اس کی نظروں میں میں پاگل نہ تھا۔ لیکن جونہی میری شادی ہوئی میرے باپ نے یہ کہنا شروع کردیا کہ موہن دیوانہ ہے۔ چنانچہ اس کا یہ نتیجہ ہوا کہ سسرال والوں نے ڈر کے مارے اپنی لڑکی کو گھر بلوا لیا۔ اب وہ اس کو میرے حوالے نہیں کرتے۔ یہ کس قدر رنج افزا بات ہے کہ مجھے اپنی بیوی کے ساتھ دس پندرہ دن بھی بسر کرنے میسر نہیں ہوئے۔‘‘

یہ کہتے ہوئے اس کے چہرے سے معلوم ہوتا تھاکہ واقعتاً وہ بہت مغموم ہے۔ میں بھی بہت متاثر ہوالیکن مجھے یہ معلوم نہ ہوسکا کہ اس کے باپ نے اسے خواہ مخواہ پاگل بنا کر اس کی زندگی کیوں تلخ کردی ہے۔

’’ مگر آپ کے والد صاحب نے یہ حرکت کیوں کی؟‘‘ میں نے اس کی داستان میں گہر ی دلچسپی لیتے ہوئے کہا۔

’’مسٹر، وہ یہودی ہے۔۔۔ پکا یہودی۔ اس کو صرف اپنے طلائی سکوں سے غرض ہے اور بس۔ میں اس کے خون کا ایک حصّہ ہوں مگر یہ چیز اس کے دل پر اثر نہیں کرسکتی ہے۔ اگر اس نے مجھے پاگل بنایا ہے تو اس میں بھی کوئی بڑا راز مضمر ہے۔ وہ اس قدر نفس پرست ہے کہ مرنے کے بعد بھی وہ یہ نہیں چاہتا کہ اس کی جائیداد اس کے اپنے لڑکے کے ہاتھوں میں چلی جائے۔ دیکھیے، میں نے تین سال ہوئے بی۔ اے پاس کیا ہے، یہ علیحدہ بات ہے کہ میں کوئی نوکری حاصل نہیں کرسکا ہوں مگر میرے باپ کو یہ تو چاہیے کہ وہ مجھے اچھا خرچ دے۔‘‘

’’یقینا‘‘میں نے پرزور تائید کی۔

’’لیکن وہ مجھے صرف پانچ روپے ماہوار دیتا ہے۔۔۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس نے میرے شباب کی تمام رنگینیوں پر اپنی ہوس پرستیوں کی سیاہی الٹ دی ہے۔ میں آگرہ میں پڑا ہوں، میری بیوی دہلی میں ہے۔ میرے اس یہودی باپ نے میرے اور اس کے درمیان ایک خلیج حائل کردی ہے۔ میں اس سے بے حد محبت کرتا ہوں۔ وہ خوبصورت اور پڑھی لکھی ہے، مگر وہ مجبور ہے۔۔۔ ہوسکتا ہے کہ وہ بھی مجھے پاگل سمجھتی ہو۔ اب میں اس کا فیصلہ کردینا چاہتا ہوں، میں نے اپنی تین پتلونیں اور تین کوٹ بیچ دیے ہیں۔ اب میں دہلی جارہا ہوں۔ دیکھا جائے گا جو ہوگا۔‘‘

’’آپ اپنی بیوی کے پاس جارہے ہیں؟‘‘ میں نے اس سے دریافت کیا۔

’’ جی ہاں۔ میں گھر میں بغیر اجازت لیے داخل ہو جاؤں گا اور وہاں سے اپنی بیوی کو لیے بغیر ہرگزہرگز نہ ٹلوں گا۔ اگرمیں پاگل ہوں، تو ہوں۔۔۔ مگر مجھے یقین ہے کہ سوشیلا (یہ کہتے ہوئے ذرا سا جھینپ گیا) میرے ساتھ چلنے کو تیار ہوگی۔ میں نے اس کے لیے نمائش میں سے ایک اونی سوئٹر خریدا ہے۔ وہ اس کو یقیناً پسند کرے گی۔ کیا آپ سے دیکھنا پسند فرمائیں گے؟‘‘

’’اگر آپ کو ٹرنک وغیرہ کھولنے کی زحمت نہ اٹھانا پڑے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔

’’نہیں صاحب، یہ تو میں نے قمیص کے اندر خود پہن رکھا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھا اور کوٹ اتار دیا۔ پھر قمیص کو پتلون کی گرفت سے آزاد کرکے اس نے اسے بھی اتار دیا۔۔۔ وہ واقعی ایک رنگ برنگی فیتوں والا زنانہ سوئٹر پہنے ہوئے تھا۔

’’ کیا آپ کو پسند ہے۔۔۔؟ یہ میں نے اس لیے پہن رکھا ہے کہ اگر سوشیلا نے اس کو لینے سے انکارکردیا تو میں اسے پہنے ہی رہوں گا۔‘‘

اس زنانہ سوئٹر میں وہ کس قدر عجیب معلوم ہوتا تھا۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.