میری شادی

میری شادی (1954)
by سعادت حسن منٹو
319926میری شادی1954سعادت حسن منٹو

میں نے کبھی لکھا تھا کہ میری زندگی میں تین بڑے حادثے ہیں، پہلا میری پیدائش کا جس کی تفصیلات کا مجھے کوئی علم نہیں، دوسرا میری شادی کا، تیسرا میرا افسانہ نگار بن جانے کا۔ آخری حادثہ چونکہ ابھی تک چلا جا رہا ہے، اس لئے اس کے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ وہ لوگ جو میری زندگی کے اندر جھانک کر دیکھنا چاہتے ہیں، ان کی خاطر میں اپنی شادی کی داستان بیان کرتا ہوں۔ یہ من و عن نہیں ہوگی، کیونکہ بعض واقعات مجھے مصلحتاً گول کرنے پڑیں گے۔

میں پہلے اس حادثے کا عقبی منظر پیش کرتا ہوں تاکہ اس کی تفصیلات ابھر آئیں۔ سن مجھے یاد نہیں۔ غالباً بارہ تیرہ برس پہلے جب علی گڑھ یونیورسٹی سے مجھے اس لئےباہر نکال دیا گیا تھا کہ مجھے دق کا عارضہ لاحق ہے، میں اپنی بہن سے کچھ روپیہ لے کر صحت درست کرنے کی خاطر بٹوت، (جموں اور کشمیر کے درمیان ایک گاؤں) چلا گیا۔ یہاں تین مہینے قیام کرنے کے بعد میں واپس اپنے شہر امرتسر میں آیا تو مجھے معلوم ہوا کہ میری بہن کا لڑکا فوت ہو گیا ہے۔ (وہ بمبئی میں بیاہی ہوئی تھی۔ چند روز امرتسر رہ کر واپس بمبئی چلی گئی تھی۔ ) یہاں پر میں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں والد کے سائے سے محروم تھا۔ بہن کی شادی پر جو جمع پونجی موجود تھی وہ میری سادہ لوح اور نیک دل ماں نے میرے بہنوئی کے حوالے کر دی تھی۔ اب یہ حالت ہو گئی تھی کہ ہم دوسروں کے محتاج تھے۔ میرے دو بڑے بھائی ہمیں چالیس روپیہ ماہوار دیا کرتے تھے۔

امرتسر آتے ہی میرا دل و دماغ سخت مضطرب ہو گیا۔ جی چاہتا تھا کہیں بھاگ جاؤں، یا خودکشی کر لوں۔ مضبوط ارادے کا مالک ہوتا تو یقیناً میں نے خود کو ہلاک کر لیا ہوتا۔ اسی لئے جب بمبئی سے ہفتہ وار مصور کے مالک مسٹر نذیر نے مجھے خط لکھا کہ میں بمبئی آ کر ان کے پرچے کی ادارت سنبھال لوں تو میں نے فوراً بوریا بستر باندھا اور بمبئی چل دیا۔ میں نے یہ بھی نہ سوچا کہ والدہ امرتسر میں اکیلی رہ جائیں گی۔ مسٹر نذیر نے مجھے چالیس روپے ماہوار پر نوکر رکھ لیا۔ جب میں ان کے دفتر میں سونے لگا تو انہوں نے کرائے کے طور پر دو روپے تنخواہ میں سے کاٹنا شروع کر دیے۔ اس کے بعد جب انہوں نے مجھے امپریل فلم کمپنی میں بحیثیت منشی یعنی مکالمہ نگار چالیس روپیہ ماہوار پر ملازم کرا دیا تو میری تنخواہ آدھی یعنی بیس روپے کر دی، جس میں سے دو روپے دفتر کو رہائش کے لئے استعمال کرنے کے سلسلے میں کاٹے جاتے رہے۔

یہ وہ زمانہ تھا جب انتہائی عروج کے بعد امپریل فلم کمپنی روبہ تنزل تھی۔ اس کے مالک سیٹھ آرڈیشر ایرانی جو ایک باہمت آدمی تھے سرتوڑ کوششوں میں مصروف تھے کہ ان کی کمپنی کی حالت سنبھل جائے۔ ظاہر ہے کہ ایسی ڈگمگ حالت میں ملازموں کو تنخواہیں وقت پر نہیں ملتی تھیں۔ سیٹھ آرڈیشر نے ایک اور ظلم کیا کہ ہندوستان کا پہلا رنگین فلم بنانے کا فخر حاصل کرنے کے لئے باہر سے ’’سنے کلر پروسس‘‘ کی مشینیں منگوا لیں۔ وہ اس سے پیشتر ہندوستان کا سب سے پہلا ناطق فلم ’’عالم آراء‘‘ پیش کرنے کا فخر حاصل کر چکے تھے۔ کمپنی پر جب یہ رنگین بوجھ پڑا تو اس کی مالی حالت اور بھی کمزور ہو گئی، مگر جوں توں کام چلتا رہا۔ کچھ نہ کچھ ایڈوانس کے طور پر مل جایا کرتا تھا، باقی حساب میں جمع رہتا تھا۔

اتفاق ایسا ہوا کہ اس رنگین فلم کی ڈائریکشن مسٹر موتی، بی، گڈوانی کے سپرد ہوئی جو تعلیم یافتہ تھے اور مجھے پسند کرتے تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہانی لکھنے کے لئے کہا، جو میں نے لکھ دی اور انہوں نے پسند کی، مگر ایک پیچ آن پڑا کہ وہ سیٹھ سے کیسے کہیں کہ پہلی رنگین فلم کی کہانی کا مصنف ایک معمولی منشی ہے، بہت سوچ بچار کے بعد یہ طے ہوا کہ اچھے دام وصول کرنے کی خاطر کہانی پر کسی شخصیت کا نام دیا جائے۔ ایسی کوئی شخصیت، میرے دائرہ احباب میں نہیں تھی، لیکن جب میں نے چاروں طرف نظر دوڑائی تو مجھے بہت دور شانتی نکیتن میں پروفیسر ضیاء الدین (مرحوم) دکھائی دیے جو ٹیگور کی یونیورسٹی میں طلبا کو فارسی پڑھاتے تھے۔ میں نے ان کو خط لکھا، چونکہ وہ مجھ سے پیار کرتے تھے، اس لئے وہ ہمارے اس فراڈ میں شریک ہو گئے۔

کہانی چنانچہ انہی کے نام سے پیش ہوئی اور بہت بری طرح ناکام رہی۔ کمپنی کی حالت اور بھی ابتر ہو گئی۔ اس دوران میں مسٹر نذیر کی سفارش سے مجھے سو روپے ماہوار پر’ فلم سٹی‘ میں ملازمت مل گئی۔ کاردار صاحب کلکتے سے بمبے آئے تو ’فلم سٹی‘ نے ایک فلم کے لئے ان سے معاہدہ کیا۔ کہانیاں طلب کی گئیں۔ ان میں ایک میری بھی تھی جو میاں کاردار نے پسند کی اور اس پر کام بھی شروع کر دیا، مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ سیٹھ آرڈیشر کو پتہ چل گیا کہ میں ’فلم سٹی‘ میں ہوں، گو ان کی وہ پہلی سی ساکھ نہیں تھی، لیکن اپنے تمام ہم عمر پروڈیوسروں پر ان کا رعب اور دبدبا ویسے کا ویسا قائم تھا۔ ’فلم سٹی‘ کے مالکوں کو انہوں نے کچھ ایسی ڈانٹ پلائی کہ مجھے کان سے پکڑ کر واپس امپریل فلم کمپنی میں بھیج دیا گیا اور ساتھ ہی میری کہانی بھی۔

اب میری تنخواہ چالیس کے بجائے اسی کر دی گئی اور وعدہ کیا گیا کہ مجھے میری کہانی کا معاوضہ علیحدہ ملے گا۔ اس کہانی کی ڈائریکشن حافظ جی (رتن بائی والے) کے سپرد کی گئی۔ جب میں ’فلم سٹی‘ میں ملازم ہوا تھا تو میں نے ’مصور‘ کے دفتر میں رہائش چھوڑ کر پاس ہی ایک نہایت ہی غلیظ چالی (بلڈنگ) میں ایک کھولی (کمرہ) نو روپے ماہوار پر لے لی تھی۔ اس میں اس قدر کھٹمل تھے کہ چھت پر سے بارش کے قطروں کی طرح گرتے تھے۔ اس دوران میں میری والدہ بمبے آ گئی تھیں اور اپنی لڑکی کے پاس قیام پذیر تھیں۔ جب پہلی مرتبہ وہ مجھ سے ملنے کے لئے اس غلیظ کھولی میں آئیں تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ میرے اور میرے بہنوئی کے تعلقات کشیدہ تھے۔ اب اسے خدا بخشے مگر اس کا کردار بہت ہی خراب تھا۔ میں چونکہ نکتہ چینی کرتا تھا، اس لئے اس نے اپنے گھر میں میرا داخلہ بند کر دیا تھا اور میری بہن پر یہ پابندی عائد کر دی گئی تھی کہ وہ مجھ سے نہیں مل سکتی۔

میں اپنی ماں کے آنسوؤں کا ذکر کر رہا تھا جو اس لئے ان کی آنکھوں سے نکلے تھے کہ ان کا بیٹا جو ناز و نعم میں پلا تھا، اب زمانے کی گردش سے ایسی غلیظ جگہ میں رہتا ہے۔ اس کے پاس کپڑے نہیں۔ رات مٹی کے تیل کا لیمپ جلا کر کام کرتا ہے۔ ہوٹل میں روٹی کھاتا ہے۔ وہ جب تک روتی رہی، میں شدید قسم کی دماغی اور روحانی اذیت میں مبتلا رہا۔ جو دن گزر چکے ہیں، ان کی یاد میرے نزدیک ہمیشہ فضول رہی ہے اور پھر رونے دھونے کا کیا مطلب ہے۔ مجھے ہمیشہ ’’آج‘‘ سے غرض رہی ہے۔ گزری ہوئی کل یا آنے والی کل کے متعلق میں نے کبھی نہیں سوچا۔ جو ہونا تھا ہو گیا، جو ہونے والا ہے ہو جائے گا۔

رونے سے فارغ ہو کر میری والدہ نے بڑی سنجیدگی سے پوچھا، ’’سعادت تم زیادہ کیوں نہیں کماتے؟‘‘ میں نے جواب دیا، ’’بی بی جان، زیادہ کما کر کیا کروں گا۔ جو کچھ کما رہا ہوں میرے لئے کافی ہے۔‘‘ انہوں نے مجھے طعنہ دیا، ’’نہیں، بات اصل میں یہ ہے کہ تم زیادہ کما نہیں سکتے۔۔۔ زیادہ پڑھے لکھے ہوتے تو الگ بات تھی۔‘‘ بات درست تھی، لیکن میرا پڑھنے میں جی ہی نہیں لگتا تھا۔ تین بار انٹرنس میں فیل ہونے کے بعد جب کالج میں داخل ہوا تو میری آوارگی اور بھی بڑھ گئی اور ایف اے کے امتحان میں دو مرتبہ ناکام رہا۔ علی گڑھ گیا تو وہاں سے اس بناء پر نکالا گیا کہ مجھے دق کا عارضہ لاحق ہے۔

ان تلخ حقائق کو محسوس کرنے کے باوجود میں نے بات کو ہنسی مذاق میں ٹالنے کی کوشش کی، ’’بی بی جان، میں جو کچھ کماتا ہوں، میری ذات کے لئے کافی ہے۔۔۔ گھر میں بیوی ہوتی تو پھر آپ دیکھتیں، میں کیسے کماتا ہوں۔ کمانا کوئی مشکل کام نہیں۔ آدمی اعلیٰ تعلیم کے بغیر بھی ڈھیروں روپیہ حاصل کر سکتا ہے۔‘‘ یہ سن کر والدہ نے اچانک مجھ سے یہ سوال کیا، ’’ شادی کرو گے؟‘‘ میں نے ایسے ہی کہہ دیا، ’’ہاں۔۔۔ کیوں نہیں!‘‘

’’تو اس اتوار کو تم، ماہم آؤ، فٹ پاتھ پر کھڑے رہنا۔ میں تمہیں دیکھ کر نیچے آ جاؤں گی۔‘‘ والدہ نے یہ کہہ کر میرے سر پر ہاتھ پھیرا۔

’’تمہاری شادی کا بندوبست ہو جائے گا۔۔۔ انشاء اللہ۔۔۔ لیکن دیکھو، اپنے بال کٹوا کے آنا۔۔۔‘‘

میں نے بال نہ کٹوائے۔ رات کو میں نے اپنے کینوس شو پر پالش کر دیا تھا۔ ڈبل ریٹ پر دھلوائی ہوئی سفید پتلون پہن کر میں اتوار کی صبح کو ’ماہم‘ میں ’’ایننک لیٹومینشنز‘‘ کے پاس فٹ پاتھ پر کھڑا تھا۔ والدہ تیسری منزل کے فلیٹ کی بالکنی پر میری منتظر تھیں۔ انہوں نے مجھے دیکھا تو نیچے آئیں اور مجھے ساتھ چلنے کو کہا۔ بیس پچیس گز کے فاصلے پر ایک بلڈنگ تھی ’جعفر ہاؤس۔ ‘ والدہ نے اس کی دوسری منزل کے ایک فلیٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا جو نوکرانی نے کھولا۔ ہم اندر داخل ہوئے۔ والدہ زنانے میں چلی گئیں۔ میرا استقبال ایک گورے چٹے ادھیڑ عمر کے آدمی نے کیا۔ مردانے میں بڑی محبت اور بڑے خلوص کے ساتھ بٹھایا اور فوراً بے تکلف ہو گئے۔ آپ نے مجھ سے اور میں نے ان سے ایک دوسرے کے مشاغل کے متعلق معلومات حاصل کیں۔

وہ گورنمنٹ کے ملازم تھے۔ پولیس کے محکمے میں ’’فنگر پرنٹ اسپیشلسٹ۔‘‘ تنخواہ واجبی تھی۔ کئی بچوں کے باپ تھے۔ ریس اورفلش کے رسیا، کراس ورڈ پزلز بڑی باقاعدگی سے حل کرتے تھے، مگر کوئی انعام حاصل نہیں کر سکے تھے۔ میں نے ان کو اپنے سارے حالات بتا دیے۔ یہ بھی کہہ دیا کہ ایسی فلم کمپنی میں ملازم ہوں جہاں تنخواہ نہیں ملتی، صرف سانس کی آمدورفت جاری رکھنے کے لئے کبھی کبھی ایڈوانس کے طور کچھ مل جاتا ہے۔ مجھے تعجب ہے کہ میں نے جب ان کو یہ بتایا کہ ایسی پتلی حالت میں بھی ہر شام کو بیئر کی ایک بوتل ضرور پیتا ہوں تو انہوں نے برا نہ مانا۔ میری ہر بات کو انہوں نے بڑے غور سے سنا۔ جب میں جانے کے لئے اٹھا تو ملک حسن صاحب، میری کتاب زندگی کے تمام ضروری اوراق کا مطالعہ کر چکے تھے۔

جب ہم وہاں سے نکلے تو والدہ نے مجھے بتایا کہ یہ لوگ افریقہ سے آئے ہیں، تمہارے بھائیوں کو اچھی طرح جانتے ہیں (انہوں نے دس بارہ برس مشرقی افریقہ میں بیرسٹری کی تھی) ان کے ہاں ایک لڑکی ہے، جس کا بیاہ کرنا چاہتے ہیں۔ کئی رشتے آ چکے ہیں، مگر ان کو پسند نہیں آئے۔ اصل میں کوئی کشمیری گھرانہ چاہتے ہیں۔۔۔ میں نے ان سے تمہاری بات کی ہے۔۔۔ اور کوئی بات پوشیدہ نہیں رکھی۔ رہی سہی جو کسر رہ گئی تھی وہ والدہ نے پوری کر دی تھی، لیکن میں سوچنے لگا کہ یہ سلسلہ کیا ہے۔۔۔ اگر وہ لوگ مان گئے (حالانکہ مجھے اس کا یقین نہیں تھا، اس لئے کہ مجھ میں ایسی کوئی بات نہیں تھی کہ وہ مجھے اپنی لڑکی دیتے) تو کیا سچ مچ مجھے شادی کرنا پڑے گی اور۔۔۔ اور پھر ڈھیروں روپے بھی کمانا پڑیں گے؟

ملک صاحب نے مجھے دوسرے اتوار کو کھانے پر مدعو کیا تھا۔ میں حسب وعدہ وہاں پہنچا تو انہوں نے میری بڑی آؤ بھگت کی۔ کھانا آیا۔ مرغ تھا، کوفتے تھے، ساگ کا سالن بھی تھا اور دھنیے، پودینے اور انار دانے کی چٹنی، ہر چیز لذیذ تھی، لیکن گرم مصالحہ اور مرچیں اس قدر کہ الامان۔ میرے پسینے چھوٹ گئے، لیکن رفتہ رفتہ میں عادی ہو گیا۔ دو تین اتواروں کے بعد میں جب ان لوگوں میں گھل مل گیا تو میری والدہ نے مجھے بتایا کہ انہوں نے میرا رشتہ قبول کر لیا ہے۔ جب میں نے یہ سنا تو چکرا گیا۔ میں تو شادی کے اس قصے کو صرف ایک مذاق سمجھ رہا تھا۔ اس کے علاوہ مجھے قطعاً یقین نہیں تھا کہ مجھے کوئی ہوش مند انسان اپنی لڑکی دے گا۔ میرے پاس تھا ہی کیا۔ انٹرنس پاس، وہ بھی تھرڈ ڈویژن میں۔ ملازمت ایسی جگہ جہاں تنخواہ کے بجائے ایڈوانس ملتا تھا۔۔۔ اور پیشہ فلم اور اخبار نویسی۔ ایسے لوگوں کو شریف آدمی کب منہ لگاتے تھے۔ ایک غلیظ کھولی حاصل کرنے کے لئے مجھے کتنے جتن کرنے پڑے تھے۔ مالک مکان کو معلوم ہو گیا تھا کہ فلم کمپنی میں کام کرتا ہوں۔ بڑی سفارشوں کے بعد وہ انجام کار راضی ہوا تھا۔

میں سخت پریشان ہوا۔ میں یہ خبر سننے کے لئے بالکل تیار نہیں تھا۔ میرا دماغی توازن اس وقت اور بھی زیادہ بگڑ گیا، جب والدہ نے کہا کہ انہوں نے بات پکی کر دی ہے۔ میں نے ان سے کچھ نہ کہا اور دن رات اٹھتے بیٹھتے اس سوچ میں غرق رہنے لگا کہ یہ مصیبت جو میں نے خود مول لی ہے، اس سے نجات کیسے ہوگی۔ بہت سوچ بچار کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اب سوچ بچار بالکل فضول ہے۔ ہرچہ بادا باد کہہ کر مجھے اپنی کشتی اس منجدھار میں ڈال دینی چاہیئے۔ میں نے یہ فیصلہ تو کر لیا، مگر نکاح کی رسم کے لئے روپیہ کہاں سے آئے؟ یہ سوال بہت ہی پریشان کرنے والا تھا۔ کمپنی سے اب ایڈوانس ملنا بھی بند ہو گیا تھا۔ ادھر والدہ نے تاریخ مقرر کر دی تھی۔ میں نے کئی مرتبہ سوچا کہ بمبے سے بھاگ جاؤں، لیکن کسی غیر مرئی طاقت نے میرے پاؤں جکڑ رکھے تھے۔ ایک ہی صورت تھی کہ میں سیٹھ آرڈیشر سے ملوں اور ان سے اپنے نکاح کے اخراجات کے لئے کچھ روپے مانگوں۔ کمپنی کی طرف میرے قریب قریب ڈیڑھ ہزار روپے نکلتے تھے، اگر یہ مل جاتے تو سمجھئے میرا سب تردّد دور ہو جاتا۔۔۔ بلکہ عیش ہو جاتے۔

میں آرڈیشر صاحب سے ملا۔ ان کو اتنی فرصت نہیں تھی کہ میری داستان غور سے سنتے۔ ٹہلتے ٹہلتے، جو کچھ میں نے کہا، بدرجہ مجبوری سنا۔ آخر میں مجھ سے کہا، ’’دیکھو، کمپنی کی جو حالت ہے، وہ تم جانتا ہے۔۔۔ اگر حالت اچھی ہوتی تو ہم تمہاری شادی خود کر دیتے۔‘‘ یہ صحیح ہے کہ جب کمپنی کی حالت اچھی تھی تو وہ اپنے ملازموں کی بے دریغ مالی امداد کیا کرتے تھے۔ بڑے مخیر تھے، مگر اب ان کا ہاتھ اس قدر تنگ تھا کہ انہیں اس احساس سے بڑی الجھن ہوتی تھی کہ وہ کسی سائل کی مدد نہیں کر سکتے۔ میری مایوسی کا اندازہ آپ لگا سکتے ہیں۔ میں چلنے لگا تو انہوں نے مجھے آواز دی اور پاس بلا کر کہا، ’’میں صرف اتنا کر سکتا ہوں کہ تمہیں ضروری چیزیں لے دوں۔۔۔ جاؤ حافظ جی کو بلا لاؤ۔‘‘

میں حافظ جی کو ان کے پاس لے کر گیا تو انہوں نے دوکانوں کا پتہ ان کو بتایا۔ ایک چٹ پر لکھ کر دیا اور کہا، ’’منشی منٹو کو اپنے ساتھ لے جاؤ۔۔۔ اور جو کچھ اسے چا ہیئے لے دو۔‘‘ میں حافظ جی کے ساتھ ہو لیا۔ ہم موٹر میں ایک بزاز کی دکان پر پہنچے وہاں سے دو ساڑھیاں لیں، سیٹھ آرڈیشر کے ذاتی اکاؤنٹ میں۔ دوسری دکان جوہری کی تھی۔ وہاں سے ایک آدمی میرے ساتھ کر دیا گیا، کیونکہ میں چاہتا تھا کہ لڑکی خود اپنے لئے زیور پسند کر ے۔

میں اور جوہری کا آدمی دونوں ’جعفر ہاؤس‘ پہنچے۔ لڑکی کی والدہ کو جن کو میں خالہ جان کہتا تھا، جوہری کے آدمی نے کچھ زیورات دکھائے۔ انہوں نے صرف ایک ہیرے کی انگوٹھی، موتیوں کی ’بوٹیاں‘ (کانوں کا زیور) ایک پنڈنٹ، دو طلائی چوڑیاں پسند کیں۔ میں نے خالہ جان پر بہت زور دیا کہ وہ چند اور زیورات بھی رکھ لیں، مگر وہ مجھ پر زیادہ بوجھ ڈالنا نہیں چاہتے تھے۔ کاش میں نے ان سے کہہ دیا ہوتا کہ خالہ جان ایسا موقع مجھے پھر کبھی نہیں ملے گا۔ مجھے کمپنی سے ڈیڑھ ہزار روپیہ لینا ہے۔۔۔ جاتے چور کی لنگوٹی نہ چھوڑیئے، مگر افسوس کہ اس رقم سے مجھے صرف چار پانچ سو روپے ہی وصول ہوئے، کیونکہ کمپنی میرے نکاح ہونے کے فوراً بعد مرحوم ہو گئی۔

اب نذیر صاحب نے میری ماہوار تنخواہ پھر چالیس روپے کر دی، جس سے کچھ ڈھارس ہوئی کہ شام کو بیئر کی بوتل کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ’نکاح‘ میرے لئے ظاہر ہے کہ بہت ’مہلک‘ ثابت ہوا۔ کمپنی سے جو روپیہ لینا تھا وہ الگ غرق ہوا اور گھٹنا الگ زخمی ہوا۔ اس کی داستان بھی سن لیجئے۔۔۔ بمبے میں کوئی دوست تھا نہ عزیز، بہن تھی، لیکن وہاں میرا حقہ پانی بند تھا۔ مجھے سارے کام خود ہی کرنا تھے۔ چند آدمیوں کو اطلاع دینا تھی کہ میرا نکاح ہو رہا ہے۔ چھوہارے اور الائچی دانے خریدنا تھے۔ بال کٹوانے تھے اور بس پر سوار ہو کر محاذ پر جانا تھا۔ شاہجہاں محل ہوٹل کے مالک سید فضل شاہ کو رسم نکاح میں شرکت کرنے کی دعوت دے کر جب لوٹ رہا تھا تو پتھریلے فرش پر میرا پاؤں پھسلا، اس زور سے گرا کہ بے ہوش ہو گیا۔ میں زندگی میں صرف تین مرتبہ بے ہوش ہوا ہوں۔ سب سے پہلے اپنے نکاح پر سید فضل شاہ (مرحوم) کو دعوت شرکت دینے پر، دوسری مرتبہ اپنی والدہ کی اچانک موت پر، پھر اپنے لڑکے کی وفات پر۔

یہ گر کے بے ہوش ہو جانا بھی اچھا شگون تھا۔ چوٹ اس قدر شدید تھی کہ جب مجھے ہوش آیا اور میں سیڑھیاں اترنے لگا تو میری مضروب ٹانگ نے چلنے سے انکار کردیا۔ بڑی مشکل سے مارکٹ تک پہنچا۔ درد اس قدر تھا کہ ہر قدم پر بلبلا اٹھتا۔ خیر، چھوہارے اور الائچی دانے لئے اور ماہم پہنچا۔ جعفر ہاؤس کی سیڑھیاں افتاں و خیزاں طے کیں اور نکاح کی محفل میں جا پہنچا۔ پندرہ بیس اشخاص موجود تھے۔ میں گاؤتکیے کا سہارا لے کر بیٹھ گیا۔ زخمی ٹانگ دوہری نہیں ہوتی تھی۔ اس لئے اسے الگ لیٹے رہنے دیا، گو یہ بڑی بدتمیزی تھی، مگر جب قاضی مرگھے (عجیب و غریب نام ہے) نے مجھے دو زانو بیٹھنے کے لئے کہا تو جی کڑا کر کے اور درد کی ساری ٹیسیں پی کر ان کا حکم ماننا ہی پڑا۔

ایجاب و قبول کی رسم ختم ہوئی تو میری جان میں جان آئی۔ ٹانگ سیدھی کی، درد کے کئی اور گھونٹ پئے۔ مبارکبادیں وصول کیں اور لنگڑاتا لنگڑاتا اپنے گھر پہنچا۔ مٹی کے تیل کا لیمپ روشن کیا اور کھٹملوں بھری کھاٹ پر دراز ہو کر سوچنے لگا کہ آیا سچ مچ میرا نکاح ہو گیا ہے۔۔۔ میں آپ سے سچ عرض کرتا ہوں کہ جیب میں چھوہارے اور الائچی دانے ہونے اور گھٹنے کی چوٹ کے باوجود مجھے یقین نہیں آتا تھا کہ میری زندگی کا اتنا بڑا حادثہ وقوع پذیر ہو چکا ہے۔

میں قریب قریب شادی شدہ تھا۔ فرق بس صرف اتنا تھا کہ میری بیوی میری نو روپے ماہوار کی کھولی میں موجود نہیں تھی۔ قانون کی رو سے میں جب بھی چاہتا، اسے اپنے ساتھ چلنے کو کہہ سکتا تھا، لیکن اتنی ہمت کہاں تھی۔ اسے کھلاتا کہاں سے، سامنے وا لے ایرانی کے ہوٹل سے اور وہ بھی ادھار۔ رکھتا کہاں؟ کھولی میں تو ایک سے زائد کرسی کے لئے بھی جگہ نہیں تھی۔ ظاہر ہے کہ بیویاں نہاتی بھی ہیں، مگر وہاں تو کوئی غسل خانہ ہی نہیں تھا۔ دو منزلہ بلڈنگ تھی جس میں چالیس کھولیاں تھیں۔ ان سب کے ساکنوں کے باہم استعمال کے لئے صرف دو غسل خانے تھے، جن کے دروازے معلوم نہیں کب کے غائب ہو چکے تھے۔ مجھے اس احساس سے بڑی الجھن ہوتی تھی کہ میرا نکاح ہو گیا ہے اور ایک لڑکی کے ساتھ آج نہیں تو کل مجھے شوہر کی حیثیت سے زندگی گزارنا ہوگی۔ اس سے قبل میں نے ایسا کوئی تجربہ نہیں کیا تھا۔ مجھے قطعاً معلوم نہیں تھا کہ بیوی کیا ہوتی ہے اور شوہر کیا ہوتا ہے۔

میری زندگی میں دو تین لڑکیاں ضرور آئی تھیں، مگر وہ نوکرانیاں تھیں۔ ان سے میرا تصادم ایسے ہی ہوا تھا جیسے سڑک پر دوراہ چلتے اندھے ایک دوسرے سے ٹکرائیں اور چٹکیوں میں اس تصادم سے فراغت حاصل کر کے اپنی اپنی راہ لیں۔ میں بڑی ایمانداری سے محسوس کر رہا تھا کہ میں اور سب کچھ بن سکتا ہوں، لیکن شوہر نہیں بن سکتا۔ یہ مضمون نویسی اور افسانہ نگاری والا معاملہ نہیں تھا۔

وقت گزرتا گیا۔۔۔ میں نے کوشش کی اور سروج مووی ٹون، نامی فلمی کمپنی میں ایک سو روپیہ ماہوار پر ملازم ہو گیا۔ یہ کمپنی تو شاید میری آمد کی منتظر تھی۔ ابھی دو ماہ نہ گزرے ہوں گے کہ اس کا دیوالہ پٹ گیا۔ اب تو مجھے یقین ہو گیا کہ میرا نکاح میرے لئے بہت منحوس ثابت ہوا ہے۔ لیکن سورگ باشی سروج مووی ٹون کے چلتے پرزے مالک سیٹھ نانو بھائی ڈسائی نے کچھ ایسی تگڑم لڑائی کہ ایک مالدار مار واڑی کو پھانس لیا اور ’’سروج مودی ٹون‘‘ کا نام ہٹا کر ’’ہندوستان سنے ٹون‘‘ کے نام سے نئی فلم کمپنی کھڑی کر دی۔ اس کے لئے میں نے اپنی دوسری فلمی کہانی ’’کیچڑ‘‘ کے عنوان سے لکھی جوبعد میں ’’اپنی نگریا‘‘ جیسے بے ڈھنگ اور بے تکے نام سے پیش ہوئی اور کامیاب رہی۔

یہ فلم ابھی نصف بھی تیار نہیں ہوا تھا کہ مارواڑی سیٹھ چاندی کے سٹے میں اپنی ساری دولت گنوا بیٹھے، حتیٰ کہ اپنی شاندار موٹر بھی جس کا رنگ بے داغ سفید تھا۔ میں نے اس کا رشتہ بھی اپنے نکاح سے جوڑا۔ مجھے یقین تھا کہ چند دنوں ہی میں اس نئی کمپنی کا دیوالہ ضرور پٹے گا، لیکن نانو بھائی ڈسائی نے کسی نہ کسی طرح، ادھر ادھر سے قرض لے کر فلم مکمل کر ہی لیا۔

میرا نکاح ہوئے قریب قریب دس مہینے ہو چلے تھے کہ مجھے ایک نہایت شرمناک حادثے سے دوچار ہونا پڑا۔ میرا ایک بے وقوف دوست عاشق تھا۔ ان پڑھ، جاہل، خوشامدی۔۔۔ لیکن رقص کے فن کا ماہر، مجھے خوش کرنے کے لئے ایک شام اس نے مجھے بیئر پلائی، تھوڑی سی خود بھی پی اور چہکنے لگا۔ چہکتے چہکتے وہ مجھے اپنے ایک دوست کی موٹر میں بٹھا کر ایک لڑکی کے پاس لے گیا جو بقول اس کے اس کی شاگرد تھی۔ جب اس نے دروازے پر دستک دی تو اندر سے کسی نسوانی آواز نے پوچھا، ’’کون ہے؟‘‘ عاشق نے کہا، ’’عاشق!‘‘ اندر سے ایک موٹی گالی باہر نکلی، ’’عاشق کی۔۔۔‘‘ عاشق کو جو غصہ آیا تو وہ دروازہ توڑ کر اندر داخل ہو گیا۔ میں اس کے پیچھے گیا۔ وہ ایک نوکر کو بری طرح پیٹ رہا تھا۔

میں قصہ مختصر کرتا ہوں۔ دوسرے روز جب عاشق گرفتار ہوا تو اس نے پولیس والوں سے کہا، ’’میرے ساتھ ایک اور آدمی تھا۔‘‘ چنانچہ مجھے بھی گرفتار کر لیا گیا، ماہم میں میرے سسرال کو فوراً اس کا پتہ چل گیا۔ میں بہت پریشان ہوا کہ اب کس منہ سے ان لوگوں کے پاس جاؤں۔ میری منکوحہ نے میرے متعلق یقیناً بہت بری رائے قائم کی ہوگی۔۔۔ وہ ضرور روتی ہوگی کہ کس بدمعاش سے میرا پلہ باندھ دیا گیا ہے جس سے چھٹکارا حاصل کرنا بھی ممکن نہیں۔ میں نے بہت دیر تک بڑی ایمانداری سے خود کو اپنی منکوحہ کی پوزیشن میں رکھ کر غور کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ میں خالہ جان سے صاف صاف کہہ دوں کہ اگر اس واقعے کے بعد جو واقعی بہت شرمناک ہے، آپ مجھے اپنی بیٹی دینا مناسب خیال نہ کریں تو میں طلاق دینے کے لئے تیار ہوں، مگر جب میں نے ان سے اپنے ان خیالات کا اظہار کیا تو انہوں نے مجھ سے کہا، ’’تم پاگل ہو جو ایسی باتیں سوچتے ہو، ہمیں تمہاری بے گناہی کا یقین ہے۔‘‘

میرے سینے کا بوجھ ہلکا تو ہو گیا مگر میرے اس وہم میں اور اضافہ ہوا کہ نکاح میرے لئے نحوست ہی نحوست لے کر آیا ہے۔ کمپنی کی حالت بہت پتلی ہو گئی تھی۔ اب تنخواہوں کے بدلے ایڈوانس ملنا شروع ہو گیا تھا۔ میری کہانی کا حق الخدمت واجب الادا تھا، مگر کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی کہ یہ مجھے ملے گا۔ ادھر والدہ نے میرے سسرال کے اصرار پر رخصتی کی تاریخ مقرر کر دی، ایک برس کے قریب ہو گیا تھا، نکاح ہوئے۔ وہ لوگ انتظار کرتے کرتے تنگ آ گئے تھے۔ مجھے کوئی جلدی نہیں تھی، بلکہ یوں کہئے کہ میری دلی خواہش تھی کہ رخصتی کی نوبت ہی نہ آئے۔ میں خائف تھا کہ مجھ سے گھر بار نہیں چلایا جا سکے گا اور ایک شریف لڑکی کی ساری عمر بغیر کسی قصور کے عذاب میں کٹے گی۔۔۔ مگر دن مقرر ہو چکا تھا جو میرے لئے روز قیامت تھا۔

ہفتہ وار مصور، کی حالت بہت اچھی ہو گئی تھی۔ اب اس کا دفتر بہتر جگہ پر منتقل ہو چکا تھا۔ ٹیلی فون موجو دتھا۔ مسٹر نذیر کے پاس ایک چھوٹی سی کار تھی جس میں وہ ادھر ادھر گھوم کر اشتہار فراہم کرتے تھے۔ ہم دونوں کی رہائش اب اس دفتر میں تھی۔ میں ہر اتوار ماہم جاتا، کبھی کبھی دروازے کی درزوں میں سے اپنی بیوی کی ایک آدھ جھلک دیکھ لیتا اور رات کا کھانا کھا کر جب واپس گھر جاتا تو سوتے وقت اپنے آپ پر لعنت بھیجتا کہ میں نے کیوں شادی کا یہ کھیل کھیلاجبکہ مجھے اس میں اس قدر پھسڈی نکلنا تھا، مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن والا معاملہ تھا۔ رخصتی کی تاریخ میں جب صرف دس دن باقی رہ گئے تو میں چونکا۔ ایک دم اٹھا اور دفتر کے پاس ہی یعنی اسی بلڈنگ میں ایک فلیٹ پینتیس روپے ماہوار پر لے لیا۔ چالیس مجھے مسٹر نذیر سے ملتے تھے۔ میں نے ان سے کہہ دیا کہ ہر ماہ کرایہ ادا کر دیا کریں۔ اب گویا مجھے پانچ روپے ماہوار پر اپنا اور اپنی بیوی کا پیٹ پالنا تھا۔

میں نے فلیٹ کو اچھی طرح صاف کیا۔ اس کا چوبی فرش اور دروازے جو بے حد غلیظ تھے سوڈا کاسٹک سے صاف کئے اور تالا لگا کر سینے میں ایک موہوم امید لئے نانو بھائی ڈسائی کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی کہانی کے معاوضے اور اپنی تنخواہوں کے بقایا کا تقاضا کیا۔۔۔ سیٹھ صاحب نے مجھے صاف جواب دیا ہے کہ وہ مجھے ایک ڈیڑھیا (پیسہ) بھی نہیں دے سکتے۔ میں نے جب یہ ٹکا سا جواب سنا تو میں بھنا گیا۔ غصے میں آ کر میں نے سیٹھ کو گالیاں تک دیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مجھے باہر نکال دیا گیا۔۔۔ میں نے فوراً بابو راؤ پٹیل (ایڈیٹر فلم انڈیا) کو ٹیلی فون کیا۔ سارا ماجرا سنا کر میں نے ان سے کہا کہ اگر نانو بھائی نے میرا حساب نہ چکایا تو میں بھوک ہڑتال کر دوں گا۔ میرا یہ فیصلہ اٹل تھا۔

بابو راؤ جو میری ہٹ سے واقف تھا، بہت مضطرب ہوا۔ اس نے فوراً نانو بھائی کو ٹیلی فون کیا اور اس سے کہا کہ اگر منٹو نے بھوک ہڑتال شروع کی تو سارا پریس اس کا ساتھ دے گا۔ اس لئے اسے چاہیئے کہ فوراً اس کے ساتھ سمجھوتہ کر لے۔ ٹیلی فون پر تو کوئی فیصلہ نہ ہوا، لیکن جب بابو راؤ، نانو بھائی سے اس کے دفتر میں ملا تو مجھے بلایا گیا۔ نانو بھائی نے مجھ سے معافی مانگی، میرا اس سے آخر فیصلہ یہ ہوا کہ میں آدھی رقم پر راضی ہو جاؤں اس لئے کہ کمپنی کی حالت نازک ہے۔ مجھے نو سو روپے کا ایک پوسٹ ڈیٹڈ چیک دیا گیا، چند روز گزرنے کے بعد جب میں نے نانو بھائی ڈسائی کو ٹیلی فون کیا کہ تاریخ آ گئی ہے اور میں چیک کیش کرانے جا رہا ہوں تو اس نے کہا، پہلے مجھ سے مل لو۔ میں اس سے ملا تو اس نے مجھے بڑے دکھ بھرے لہجے میں کہا کہ بینک میں روپیہ نہیں ہے۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ میں پانچ سو روپے نقد پر راضی ہو جاؤں۔ میں فوراً راضی ہو گیا، حالانکہ میری حق حلال کی کمائی کے اٹھارہ سو روپوں میں سے پہلے نو سو ہوئے اور اب پانچ سو، لیکن میں مجبور تھا۔ رخصتی میں اب صرف چار دن باقی تھے۔

میں نے کمپنی کی موٹر لی، مگر اس میں صرف پٹرول پمپ تک جانے کے لئے پٹرول تھا۔ میں نے اپنی گرہ سے پٹرول ڈلوایا اور ڈرائیور سے کہا، سیدھے مارکیٹ چلو۔ پانچ سو روپے جیب میں تھے۔ میں نے ان سے اپنی دولہن کے لئے ساڑھیاں وغیرہ خریدیں۔۔۔ جب گھر پہنچا تو جیب قریب قریب خالی تھی اور گھر تو بالکل خالی تھا۔ ٹوٹی ہوئی کرسی تک نہ تھی۔

میرے وہاں ایک بزرگ دوست تھے۔ حکیم محمد ابو طالب اشک عظیم آبادی، بڑے مرنجاں مرنج آدمی تھے۔ میں نے جب ان سے ذکر کیا کہ دولہن لا رہا ہوں مگر گھر خالی ہے تو وہ مجھے فرنیچر کی ایک دکان پر لے گئے۔ اس کا مالک ان کو اچھی طرح جانتا تھا، چنانچہ مجھے آسان قسطوں پر کچھ سامان مل گیا۔ مثال کے طور پر لوہے کی اسپرنگوں والی دو چارپائیاں، برتن وغیرہ رکھنے کی ایک الماری، ایک سنگار میز (یہ سیکنڈ ہینڈ تھی) ایک لکھنے والا میز اپنے لئے، ایک کرسی وغیرہ وغیرہ۔ جب میں نے یہ سامان فلیٹ میں سجانے کی کوشش کی تو مجھے بڑی مایوسی ہوئی۔ دو جہازی سائز کے کمرے تھے۔ ان میں یہ فرنیچر دکھائی ہی نہیں دیتا تھا، چنانچہ میں نے دو مونڈھے خریدے اور وہ بھی ایک کونے میں جما دیے جو دوسرے فرنیچر کی طرح گم ہو گئے۔ ادھر ادھر سے مجھے جو چیز ملی، میں نے کہیں نہ کہیں ٹکا دی۔ ہر چیز ٹکانے کے بعد میں کمرے پر نظر ڈالتا اور خود کو یہ فریب دینے کی کوشش کرتا کہ اب فلیٹ بھرا بھرا نظر آتا ہے۔

روز محشر آخر آ پہنچا۔ صبح مصور کے دفتر میں بیٹھا تھا۔۔۔ والدہ اب میرے پاس آ گئی تھیں۔ ان سے میں یہ کہہ کر آیا تھا کہ برات کا بندوبست کرنے جا رہا ہوں۔ مسٹر نذیر نے مختلف لوگوں کے نام رقعے بھیج دیے تھے جن میں سے اکثر فلم لائن سے وابستہ تھے۔ میری برات گویا ایک فلمی برات تھی۔ میاں کاردار، ڈائریکٹر گنجالی اس زمانے کے مشہور ایکٹر، ای بلی موریا اور ڈی بلی موریا، نور محمد چاولی اور مرزا مشرف، بابو راؤ پٹیل اور پہلی رنگین فلم کی ہیروئن پدما دیوی، یہ سب شریک ہو رہے تھے۔ بابو راؤ پٹیل کو جب معلوم ہوا تھا کہ منٹو کے گھر میں صرف اس کی ماں ہے جسے اکیلی مہمانوں کی خاطر تواضع کرنا پڑے گی تو اس نے پدما دیوی کو ہمارے ہاں بھیج دیا تھا کہ وہ میری والدہ کا ہاتھ بٹائے۔ میں نے کرائے پر کرسیاں منگوا لی تھیں اور پاس والے ایرانی رستوران سے ومٹو کی بوتلیں۔ اس پر جو خرچ اٹھتا وہ میں اطمینان سے ادا کر سکتا تھا، اس لئے مجھے اس طرف سے کوئی تردد لاحق نہیں تھا، لیکن میں اس تکلیف دہ سوچ میں غرق تھا کہ گھر بار چلے گا کیسے۔

میں دفتر میں آ کر بیٹھا ہی تھا کہ ’ماہم‘ سے میری بہن کا ٹیلی فون آیا۔ اس نے مجھ سے پوچھا، کہو کیا حال ہے۔۔۔ میں نے جواب میں آغا حشر کا مشہور فقرہ دہرایا، ’’شیر لوہے کے جال میں ہے۔ عجب مخمصے میں گرفتار ہوں۔ برات کی تیاریاں کر رہا ہوں، لیکن جیب میں صرف ساڑھے چار آنے ہیں۔ چار آنے میں سگریٹ کی ڈبیا آ جائے گی۔ دو پیسے کی ماچس۔۔۔ چلو قصہ پاک۔۔۔!‘‘

میری بہن بے چاری میری مدد کرنے سے مجبور تھی، اس کے شوہر نے تو اس کو اتنی اجازت بھی نہیں دی تھی کہ وہ رخصتی کی رسم میں شریک ہوتی اور اپنے بھائی کو دولہا بنا ہوا دیکھتی، پھر بھی اس نے مجھ سے کہا، ’’سعادت، میں تمہارے واری جاؤں۔ ذرا کی ذرا اپنی موٹر میرے گھر کے سامنے روکنا۔۔۔ میں تمہیں دیکھنا چاہتی ہوں۔‘‘ میں نے اور زیادہ گفتگو نہ کی، کیونکہ وہ بہت زیادہ جذباتی ہو رہی تھی۔ ٹیلی فون کا سلسلہ منقطع کرنے کے بعد میں اٹھا اور پڑوس کے سیلون سے بال کٹوائے۔۔۔ حمام میں غسل کیا۔۔۔ یہ سب ادھار۔ شام تک میں نے سگریٹ کی ساری ڈبیا پھونک ڈالی۔ اب میری جیب میں صرف ایک ماچس تھی، وہ بھی آدھی۔ کپڑے تبدیل کر کے میں نے وہ سوٹ پہنا جو مجھے سسرال سے ملا تھا۔ ٹائی باندھی۔ آئینے میں جب میں نے اپنی شکل دیکھی تو ایک کارٹون سا نظر آیا۔ میں خوب ہنسا۔ بتیاں جلنے سے پہلے پہلے سارے براتی جمع ہوئے۔ پدما دیوی اور میری والدہ نے سب کی خاطر تواضع کی۔ اس کے بعد یہ قافلہ جو دس پندرہ موٹروں پر شامل تھا، ماہم کی طرف روانہ ہوا۔

میں مانو بھائی ڈسائی کی موٹر میں تھا۔ بغیر سہرے کے۔ سر سے ننگا، بالوں کی لمبائی معقول تھی۔ جب ہم جعفر ہاؤس کے قریب پہنچے تو میں نے ڈرائیور سے کہا تھوڑی دور آگے لے جائے۔ باہر فٹ پاتھ پر میری بہن کھڑی تھی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے۔ جب اس نے میرے سر پر محبت کا ہاتھ پھیرا، دعائیں اور مبارکباد دی تو میں جلدی سے واپس موٹر میں بیٹھ گیا اور ڈرائیور سے کہا کہ بیک کرے۔ خالہ جان نے اوپر کھلے ٹیرس پر دعوت کا انتظام کیا تھا جو بہت اچھا تھا۔ رفیق غزنوی، ڈائریکٹر نندا اور آغا خلش کاشمیری کے درمیان بڑی پرلطف نوک جھونک ہوتی رہی۔ سب نے ڈٹ کر کھایا، کیونکہ کھانا بہت عمدہ اور لذیذ تھا، کشمیریوں کی روایت کے عین مطابق۔ کھانا کھانے کے بعد خوش گپیاں شروع ہوئیں۔ آغا خلش صاحب نے ایک پرمزاح نظم پڑھی جو انہوں نے فی البدیہہ کہی تھی۔ یہ سلسلہ ختم ہوا تو مجھے نیچے بلایا گیا اور دولہن کو میرے سپرد کر دیا گیا۔

یہ سب مجھے ایک خواب سا معلوم ہوتا ہے۔ دماغ میں جانے کتنے خیالات تلے اوپر آ رہے تھے۔ دولہن میرے ساتھ تھی۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور لرزاں آواز میں کہا، ’’چلو بھئی۔‘‘ ہم نیچے اترے۔ بلی موریا نے اپنی کار پیش کی۔ والدہ میرے ساتھ تھیں۔ پہلے انہوں نے دولہن کو بٹھایا، اس کے بعد آپ بیٹھیں، پھر مجھے اندر آنے کو کہا۔۔۔ وہ میرے اور دولہن کے درمیان تھیں۔ گھٹنوں پر مخملیں جزدان میں لپٹا ہوا قرآن تھا۔ میری اور دولہن کی گردن ہاروں سے لدی پھدی تھی۔ موٹر اسٹارٹ ہوئی تو والدہ نے زیرلب کوئی آیت پڑھنا شروع کر دی۔۔۔ میں اب کسی قدر سنبھل چکا تھا، میرا جی چاہتا تھا کہ دولہن سے ذرا چھیڑ خانی کروں مگر۔۔۔ والدہ بیج میں بیٹھی تھیں اور پھر کلام پاک پڑھ رہی تھیں۔۔۔ میری یہ شریر خواہش وہیں کی وہیں سرد ہو گئی۔

مجھے معلوم نہیں راستہ کیسے اور کتنے عرصے میں کٹا۔ بس ایک دم گھر آ گیا۔ وہ بلڈنگ جو بہت پرانی وضع کی تھی، جس کی ساخت میں لکڑی زیادہ اور اینٹیں کم استعمال ہوئی تھیں، اس کے متعلق مشہور تھا کہ کسی زمانے میں یہ بمبئی کا بڑا عالی شان ہوٹل ہوا کرتا تھی، اسے ہزہائی نس سر آغا خان نے ایک دوست سے شرط میں جیتا تھا۔ والدہ دولہن کے ساتھ اوپر فلیٹ میں چلی گئیں۔ میں نے اپنے دوستوں کا شکریہ ادا کیا۔ اتنے میں مرزا مشرف اس ٹرک میں آن پہنچا جس میں دولہن کا جہیز تھا۔ کھانے کا میز، کرسیاں، اسپرنگوں والا پلنگ، تپائیاں، صوفہ سیٹ اور صندوق وغیرہ۔ یہ اسباب اتروایا تو مرزا مشرف کا ٹرک والے سے کرائے پر جھگڑا ہو گیا جو کافی دیر تک جاری رہا۔ مرزا مشرف نے اپنے مسخرے پن کا جی بھر کے مظاہرہ کیا۔ آخر جب یہ جھگڑا نپٹا اور سارا سامان فلیٹ میں پہنچ گیا اور عارضی طور پر ادھر ادھر ٹکا دیا گیا تو مرزا مشرف نے جاتے ہوئے میرے کان میں کہا، ’’منے، دیکھو، ہماری ناک نہ کٹ جائے کہیں!‘‘

میں تھک کر چور چور تھا۔ حلق سوکھ کے لکڑی ہو رہا تھا،اس لئے مسخرے مرزا کے اس مذاق کا کوئی جواب نہ دے سکا۔۔۔ دوسرے دن میں نے محسوس کیا کہ میرے وجود کا ایک چوتھائی حصہ شوہر میں تبدیل ہو چکا ہے، اس احساس سے مجھے بہت اطمینان حاصل ہوا۔۔۔ مجھے باہر بالکنی میں ایک رسی تنی نظر آنے لگی جس پر پوتڑے اور کلوٹ ٹنگے ہوئے تھے۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.