میرے اشکوں کی گئی تھی ریل ویرانے پہ کیا گزرا
میرے اشکوں کی گئی تھی ریل ویرانے پہ کیا گزرا
خبر نیں حضرت مجنوں کے کاشانے پہ کیا گزرا
ان آنکھوں کو دیا تھا دل وہ دیوانے پہ کیا گزرا
پڑا تھا بات بد مستوں کے پیمانے پہ کیا گزرا
میں اور زنار ہے تسبیح صد دانے پہ کیا گزرا
مرے کافر ہوئے سیتی خدا جانے پہ کیا گزرا
دیا دل وصل لینے کو بگاڑا غیر نے سودا
بکا اس غم کے ہاتھوں میں کہ بیگانے پہ کیا گزرا
وہ زلفیں بس رقیبوں کے دلوں کی سخت گرہیں تھیں
کہو میرے دل صد چاک کے شانے پہ کیا گزرا
نہ پوچھا بھول کر بھی فصل گل میں شیشہ خو تو نے
کہ اس پتھراؤ میں طفلوں کے دیوانے پہ کیا گزرا
پھرے آتے ہیں مستاں در گہ پیر مغاں سیتی
کیا تھا خانہ ویراں شیخ میخانے پہ کیا گزرا
ڈھکی تھی آتش گل تا سر دیوار باغ اب کے
خبر عزلتؔ کو نیں بلبل کے خس خانہ پہ کیا گزرا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |