میرے رونے پر جو رویا آدمی فہمیدہ ہے
میرے رونے پر جو رویا آدمی فہمیدہ ہے
ناصح عاقل پرانا گرگ باراں دیدہ ہے
میں بھی تو دیکھوں نکلتا ہے یہ تنکا کس طرح
چارہ گر کی آنکھ میں میرا تن کاہیدہ ہے
تو نے رکھا ہے رقیب ترش رو کے دل پہ ہاتھ
آج کیوں پھیکا ترا دست حنا مالیدہ ہے
خاک میں اس نے ملایا مجھ کو یا میں نے اسے
آج میں ہوں اور یہ میرا دل تفتیدہ ہے
زہر کھا کر مل گئے ہیں خاک میں عاشق بہت
انگلیاں ہیں دیکھ تو یا سبزۂ روئیدہ ہے
خوب آتا ہے لگا لینا نگاہ یار کو
ایک سے ان بن ہوئی تو دوسرا گرویدہ ہے
بہر نظارہ چلا ہے کوچۂ قاتل میں داغؔ
کس بلی کا ہے کلیجہ کس غضب کا دیدہ ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |