میرے لب پر کبھی تو بن کے دعا بھی آئی

میرے لب پر کبھی تو بن کے دعا بھی آئی
by ریاض خیرآبادی

میرے لب پر کبھی تو بن کے دعا بھی آئی
تجھے اے آہ مری بات بنا بھی آئی

ان سے کچھ یہ شفق شام لگا بھی آئی
کہ شب وعدہ جو آئی تو حنا بھی آئی

اتنے دن آئے ہوئے مجھ کو قفس میں گزرے
جھانکنے کو کبھی گلشن سے ہوا بھی آئی

تو ہمیشہ رہی قاتل کے کمر میں اے تیغ
تیرے صدقے تجھے قاتل کی ادا بھی آئی

درد فرقت کی اذیت کا نہ پوچھو کچھ حال
آج گھبرا کے کئی بار قضا بھی آئی

بھولتا ہی نہیں کہنا یہ کسی کافر کا
تجھے بھولے سے کبھی یاد خدا بھی آئی

اٹھ رہی تھیں اسی دن کے لئے نیچی نظریں
چٹکیاں قبر میں لینے کو حیا بھی آئی

حشر کے دن بھی رہی بات وہی آنکھ وہی
جھوٹے وعدوں سے تجھے شرم ذرا بھی آئی

شمع کے واسطے تھی جنبش دامن کافی
ان کے دامن سے لگی باد صبا بھی آئی

آ گیا شکر زباں پر جو کیا خم خالی
پیٹ اپنا جو بھرا یاد خدا بھی آئی

آئے میخانے میں جب مسجد جامع سے ریاضؔ
ساتھ ہی آپ کے قبلے سے گھٹا بھی آئی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse