میرے گلے سے آن کے پیارا جو پھر لگے
میرے گلے سے آن کے پیارا جو پھر لگے
یہ ابر یہ بہار مجھے خوب تر لگے
بن دیکھے اس پیارے کے آنکھوں نے اپنا حال
ایسا کیا ہے جیسے کہ باراں کا جھڑ لگے
مت اس ادا و ناز سے گلشن میں کر گزر
ڈرتا ہوں میں مبادا کسی کی نظر لگے
ہو چار چشم کون سکے ایسے یار سے
آنکھوں کے دیکھتے ہی پیا کی خطر لگے
ہر لیل و ہر نہار تری ذات پاک سے
کہتا ہے آفتابؔ دعائے سحر لگے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |