میر انیس اور مرزا دبیر کا موازنہ

میر انیس اور مرزا دبیر کا موازنہ
by شبلی نعمانی
319439میر انیس اور مرزا دبیر کا موازنہشبلی نعمانی

(مندرجہ ذیل تحریر علامہ شبلی کی کتاب ’’موازنۂ انیس و دبیر‘‘ سے ماخود ہے)

اردو علمِ ادب کی جو تاریخ لکھی جائے گی، اس کا سب سے عجیب تر واقعہ یہ ہوگا کہ مرزا دبیر کو ملک نے میرانیس کا مقابل بنایا اور اس کا فیصلہ نہ ہوسکا کہ ان دونوں حریفوں میں ترجیح کا تاج کس کے سر پر رکھا جائے۔ شاعری کس چیز کا نام ہے؟ کسی چیز کا، کسی واقعہ کا، کسی حالت کا، کسی کیفیت کا اس طرح بیان کیا جائے کہ اس کی تصویر آنکھوں کے سامنے پھر جائے۔ دریا کی روانی، جنگل کی ویرانی، باغ کی شادابی، سبزے کی لہک، پھولوں کی مہک، خوشبو کی لپٹ، نسیم کے جھونکے، دھوپ کی سختی، گرمی کی تپش، جاڑوں کی ٹھنڈ، صبح کی شگفتگی، شام کی دل آویزی، یا رنج وغم، غیظ وغضب، جوش ومحبت، افسوس و حسرت، عیش و طرب، استعجاب و حیرت، ان چیزوں کا اس طرح بیان کرنا کہ وہی کیفیت دلوں پر چھا جائے، اسی کا نام شاعری ہے۔ اس کے ساتھ الفاظ میں فصاحت، سلاست، روانی، بندش میں چستی اور چستی کے ساتھ بے تکلفی، دل آویزی اوربرجستگی، لطیف اور نازک تشبیہات اور استعارات، اصول بلاغت کے مراعات، ان تمام اوصاف میں سے کون سی چیز مرزا دبیر میں پائی جاتی ہے؟ فصاحت ان کے کلام کو چھو بھی نہیں گئی۔ بندش میں تعقید اور اغلاق، تشبیہات اور استعارات اکثر دور اذکار، بلاغت نام کو نہیں، کسی چیز یا کسی کیفیت یا حالت کی تصویر کھینچنے سے وہ بالکل عاجز ہیں۔ خیال آفرینی اورمضمون بندی البتہ ہے لیکن اکثرجگہ اس کو سنبھال نہیں سکتے۔ ہماری یہ غرض نہیں کہ ان کے کلام میں سرے سے یہ باتیں پائی ہی نہیں جاتیں۔ وہ نہایت پرگو تھے، ان کے اشعار کا شمار ہزاروں کیا لاکھوں تک ہے، اخیر اخیر میں وہ میر انیس کی تقلید بھی کرنے لگے تھے، اس بنا پر ان کے کلام میں جا بہ جا شاعری کے لوازم اور خاصے پائے جاتے ہیں، لیکن گفتگو قلت اورکثرت میں ہے۔ میر انیس کے بہت سے اشعار میں فصاحت و بلاغت کا حصہ بہت کم ہے، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ دونوں میں سے نسبتاً کس کا کلام شاعری کے معیار پر پورا اترتا ہے۔ میرانیس کا عیب و ہنر تم دیکھ چکے، اب مرزا صاحب کے متعلق ہم ایک ایک چیز بہ تفصیل لکھتے ہیں، فصاحت یہ امر بدیہی ہے کہ مرزا دبیر کے کلام میں وہ فصاحت اور شستگی نہیں جو میر انیس کے کلام میں ہے اور اس کے مختلف اسباب ہیں، (۱) مرزا صاحب اکثر ثقیل اورغریب الفاظ استعمال کرتے ہیں، مثلاً، مستدعی شق القمر آکر ہوئے گم راہ ہرکوہ کی آواز انا الطور انا الطور النشر کا ہنگامہ ہے اس وقت حشر میں لبیک و سعد یک تھا ورد ِملک و حور المنتہی یہ ربط یہ ضبط اس دغا میں تھے خاص الخلاصہ بنی آدم، کمال میں یارو! سنا مدائح نوشاہ کا بیاں رخ بینہ صدق کرامات پیمبر مستجمع ِجمیع فضائل، ملک سیر مستغرق روح اس نے کیا تب عسل و شیر لے کر رطب دلو دوم کہنے لگا شاہ میدانی و نقیب و عصاء دار و چوب دار عرشی فلکی بڑھ کے نقیبانہ پکارے اس قسم کے سیکڑوں الفاظ ہیں، ہم نے صرف دو تین مرثیوں سے سرسری انتخاب کیا ہے، ورنہ سیکڑوں ہزاروں تک نوبت پہنچتی۔ یہ الفاظ اگرچہ صحیح ہیں، عربی اور فارسی میں مستعمل ہیں، لیکن اردو نظم کی سلاست اور روانی ان کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ (۲) بعض الفاظ بہ جائے خود ایسے ثقیل اور گراں نہیں، لیکن مرزا صاحب جن ترکیبوں کے ساتھ ان کو استعمال کرتے ہیں، ان سے نہایت ثقل اور بھدا پن پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ امران مثالوں میں صاف واضح ہو جاتا ہے، جہاں ایک ہی لفظ یا الفاظ کو میر مرزا دونوں نے استعمال کیا ہے۔ ھل اتی (لافتی) انما، قل کفی، یہ چاروں لفظ حضرت علی کے فضائل کی تلمیحات (الیوژن) ہیں، ان تلمیحات کو ایک ایک بند میں دونوں نے باندھا ہے۔ مرزا صاحب فرماتے ہیں، اہل عطا میں تاج سرہل اتی ہیں یہ اغیار لاف زن ہیں، شہ لافتی ہیں یہ خورشید ِانورِ فلک انما ہیں یہ کافی ہے یہ شرف کہ شہ قل کفی ہیں یہ ممتاز گوخلیلؑ رسولان دیں میں ہیں کاشف ہے لو کشف، یہ زیادہ یقیں میں ہیں میر انیس کہتے ہیں، حق نے کیا عطا پہ عطا ہل آتی کسے حاصل ہوا ہے مرتبہ لافتی کسے کونین میں ملا شرف انما کسے کہتی ہے خلق بادشہ قل کفی کسے دنیا میں کون منتظم کائنات ہے کس کو کہا خدا نے کہ یہ میرا ہات ہے مرزا صاحب کے کلام میں اس قسم کی ناموزونی نہایت کثرت سے ہے، ہم صرف چند مثالوں پر اکتفا کرتے ہیں، اک شخص کمرشہ کی لگا باندھنے خورسند اک دلو بھروپانی سے اورایک رطب لو نو بت زن نُہ بام عروج فلک پیر ملبوس قلم کار نہ دوں ہے نہ پرانا سرکو عوض پارہ مدحت میں دھروں گا شرح کہن ناطقہ منسوخ کروں گا یہ صورت پیغمبر قوسین مکاں ہے ہے طلعت جلد و نفس سینہ یہ محسوس وہ برق شفق میں، تو یہ پروانہ بہ فانوس ناگاہ کھلا دشت میں بازار زد و کشت تیغیں کھنچیں یک دست، تلے گرز بھی یک مشت نہ چشم جراحت، نہ رہ فوت کو دیکھا کہتے ہیں جسے عاشق و شیدا ملک و ناس خیاط عہد طفلی شاہ انام تھے اس کی ثنا مشقت مالا یطاق ہے نانا نے تو قلم کیے جبریل کے سہ پر کفار بڑطے طیش سے ہونٹوں کو دبا کے دانتوں کے تلے بال محاسن کے دبا کے آمد ہے امام سوم ہر دوسرا کی اس سر پہ دھرے ہاتھ بہ قسمیہ اجل ہے بس ہدیہ اللہ کے قابل یہی پھل ہے بندش کی سستی اور ناہمواری میرانیس اور مرزا دبیر میں اصلی جو چیز مابہ الامتیاز ہے، وہ الفاظ کی ترکیب، نشست اوربندش کا فرق ہے۔ میرانیس کا کلام تم پڑھ چکے ہو، ان کا اصلی جوہر بندش کی چستی، ترکیب کی دل آویزی، الفاظ کا تناسب اوربرجستگی وسلاست ہے۔ یہ چیزیں مرزاصاحب کے ہاں بہت کم ہیں، ایک ہی مصرع میں ایک لفظ نہایت بلند اور شان دار ہے، دوسرا مبتذل اور پست ہے۔ بند کا ایک شعر اس زورور کا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ بادل گرجتا آ رہا ہے، دوسرا بالکل پھیکا اور کم وزن ہے۔ دو تین بند صاف اورسلیس نکل جاتے ہیں، پھرتعقید اور بے ربطی شروع ہوتی ہے۔ اکثرجگہ الفاظ بڑے دھوم دھام کے ہیں، لیکن حاصل کچھ نہیں۔ یہ باتیں اگرچہ عام طورپر ان کے تمام مرثیوں میں پائی جاتی ہیں، لیکن نمونے کے طورپر ہم چند بندان مرثیوں کے نقل کرتے ہیں جوبڑے زور کے مرثیے خیال کیے جاتے ہیں اورجن میں بعض میرانیس کے جواب میں لکھے گئے ہیں، اے دبدبہ نظم! دوعالم کو ہلا دے اے طنطہ طبع! جزو کل کو ملا دے اے معجزہ فکر! فصاحت کو جلا دے اے زمزہ نطق! بلاغت کا صلا دے اے باے بیاں! معنی تسخیر کو حل کر اے سین سخن! قاف سے تا قاف عمل کر یہ مرثیہ میرانیس کے جواب میں ہے، کس قدر زور شور کی اٹھان ہے، کیسے پر رعب الفاظ ہیں، لیکن معانی میں بہت کم ربط ہے۔ طنطنے کو جز و کل کے ملا دینے سے کیا نسبت ہے؟ زمزمہ نطق سے بلاغت کا صلہ مانگنے کے کیا معنی؟ بیان کی بے کو، تسخیرسے کیا خاص تعلق ہے؟ اسی طرح سخن کے سین کو قاف سے قاف تک عمل کرنے کے لئے کیا خصوصیت ہے؟ بولا علم خامہ فلک پر میں گڑوں گا سکے نے ندادی، زر انجم پہ پڑوں گا معنی نے کہا بیت میں آئینہ جڑوں گا مضمون پکارا میں کسی سے نہ لڑوں گا بندش یہ کھلی، دم میں فصاحت کا بھروں گی چلائی طبیعت کہ میں اصلاح کروں گی پہلے دومصرع کس قدر دھوم دھام کے ہیں۔ تیسرے میں تنزل شروع ہوا، چوتھا بالکل گر گیا، کیونکہ اوپر کے مصرعوں کی مناسبت کے لحاظ سے موقع یہ تھا کہ اس میں بھی کوئی ایجابی دعویٰ کیا جاتا۔ مضمون کا نہ لڑنا اگرچہ معنیً تعریف کی بات ہے، لیکن یہاں لڑائی سے گریز کرنے کا موقع نہیں۔ اخیر کا شعر اور خصوصاً اس کا دوسرا مصرع کس قدر پھس پھسا اورمبتذل ہے۔ طبیعت کے چلانے کا یہ کیا موقع ہے اورطبیعت کے لیے چلانا کتنا موزوں لفظ ہے۔ میں کون ہوں صاحب علم کلک جہاں گیر نوبت زن نہ بام عروج فلک پیر تاج سر لفظ وسخن و معنی و تحریر خاک قدم محتشم و مقبل شبیر سن کرنہ کرے ہاں تو شکایت بھی نہیں ہے انصاف تو کہتا ہے، خداوند یوں ہی ہے پہلے تین مصرعوں کا جو انداز ہے، چوتھا مصرع اس سے کس قدر بے گانہ ہے۔ مضمون میں نئے کرتا ہوں ایجاد ہمیشہ کہتا ہے سخن، حضرت استاد ہمیشہ کہنے میں ہے تاثیر خدا داد ہمیشہ بھولے سے بتادوں تو رہے یاد ہمیشہ بے لطف خدا، یہ ہمہ دانی نہیں آتی پرشمع صفت چرب زبانی نہیں آتی جوچیز خداداد ہے، اس کے لئے ہمیشہ کی قید حشو محض ہے۔ چوتھا مصرع، تیسرے مصرع سے بالکل بے تعلق ہے، استادی کا ذکر دوسرے مصرع میں ہے اور اس کے ساتھ اس مصرع کو ربط ہوسکتا ہے۔ ٹیپ کے دومصرع بھی باہم بالکل بے تعلق ہیں۔ تین چار بند کے بعد فرماتے ہیں، مضمون تر و تازہ ہے چستی میں یگانا ملبوس قلمکار، نہ دوں ہے نہ پرانا اس دھیان کے آنے سے کرم شاہ کا جانا خدام ولا بولے کہ ہاں ہاتھ بڑھانا لے ہدیہ تائید قدیر ازلی ہے لے خلعت تحسین حسین ابن علی ہے پہلےاوردوسرے شعر کی ترکیب اور اندازمیں باہم کس قدر تفاوت ہے۔ دوسرا شعر پہلے شعر سے بالکل الگ ہوگیا ہے۔ دوسرے شعرکی بندش ایسی ہے کہ مطلب بھی آسانی سے سمجھ میں نہیں آتا، اس دھیان کا مشار الیہ کون ہے؟ حامی جو سلیمان دوعالم نظر آئے مضمون جو عنقا تھے، وہ پر جوڑ کرآئے طاؤس تصور کی طرح دل میں در آئے شیشے میں پری زاد معانی اتر آئے یاقوت بدخشاں سے، دُر آتے ہیں عدن سے لعل اگلوں گا میں طائر سدرہ کے دہن سے حضرت سلیمان کوعنقا سے کیا تعلق ہے؟ تصورکی تشبیہ طاؤس سے کس بنا پر ہے، اور پھر اس کے کیا معنی کہ عنقائے مضمون دل میں اس طرح اتر آئے جس طرح طاؤس ہونے کی بنا پر ہے تو مضمون کا عنقا خود دل میں اترسکتا ہے، طاؤس کی مشابہت کی کیا ضرورت ہے؟ ٹیپ میں عجب بے ربطی ہے، شاعر لعل اگلے گا لیکن طائر سدرہ کے دہن سے اگلے گا، اس کے کیا معنی؟ شاید اگلنے کو، اگلوانے کے معنی میں لیا ہے، یا اپنے آپ کو طائر سدرہ قرار دیا ہے۔ کب شعلہ خس، نور کی قندیل کو پہنچے اڑ کر نہ مگس، طنطنہ فیل کو پہنچے پشے کانہ غل، صور سرافیل کو پہنچے بلبل، نہ لب وہ لہجہ جبریل کو پہنچے ارباب سخن پر جو سخن ور ہے ہمارا القاب، سخن سنج، سخن ور ہے ہمارا کس قدر بھدے الفاظ اور بھدی ترکیبیں ہیں۔ اس کے علاوہ بے ربطی کو دیکھو، شعلے کا مقابلہ قندیل سے نہیں بلکہ قندیل کی روشنی سے ہو سکتا ہے۔ پرواز کو طنطنے سے کیا نسبت ہے؟ بلبل کوجبریل سے کیا مناسبت ہے؟ لقب کے بجائے القاب باندھا ہے۔ سرکار ہے ہر مجلس شبیر ہماری مضموں کی طرح بیت ہے جاگیر ہماری آئینہ سکندر پہ ہے تسخیر ہماری ہے مہر سلیمان کی تحریر ہماری تنہا مہ و ماہی پہ نہیں سکہ پڑاہے سورج کا نگینہ بھی انگوٹھی پہ جڑا ہے بیت کا درجہ مضمون سے کم ہے، کیونکہ بیت کی جو خوبی ہے، مضمون ہی کی وجہ سے ہے، اس بنا پریہ تشبیہ کہ مضمون کی طرح بیت ہماری جاگیر ہے، بے معنی ہے۔ جب مضمون جاگیر ہوچکا تو بیت خود ہی جاگیر ہوگئی۔ ٹیپ کا اخیرمصرع بالکل بے معنی ہے۔ پہلے انگوٹھی سے کسی چیز کا استعارہ کرنا تھا، پھر سورج کا نگینہ جڑنا تھا، ورنہ ظاہر ہے کہ ہاتھ میں پہننے کی انگوٹھی پرسورج کا نگینہ جڑنا، کس قدر لغو بات ہے۔ قابل میں سخن کے ہوں، سخن ہے مرے قابل لیکن سخنِ شہرہ فگن ہے مرے قابل رضوان کو جنت یہ چمن ہے مرے قابل موتی کوصدف اوریہ عدن ہے مرے قابل شہرہ ہے یہ تائید شہ جن و ملک سے مضمون مرا گھر پوچھتے آتے ہیں فلک سے ’’سخن شہرہ فگن‘‘ نئی ترکیب ہے۔ رضوان کو جنت، یہ چمن ہے مرے قابل۔ناموزوں ترکیب ہے۔ یا تو یوں ہونا چاہئے تھا کہ رضوان کو جنت چاہئے اورمجھ کو یہ چمن۔ یایوں کہنا تھا کہ رضوان کے قابل جنت ہے اورمیرے قابل چمن۔ چوتھے مصرع کی ترکیب کا بھی یہی حال ہے۔ ٹیپ کے دونوں مصرعے قریباً باہم متناقص ہیں۔ شہرہ بھی انتہا کا ہے، اور مضمون کو گھر پوچھنے کی بھی ضرورت ہے۔ شاید یہ مراد ہو کہ صرف نام مشہور ہو چکا ہے لیکن چونکہ مضامین کو کبھی مرزا صاحب سے روشناسی نہیں ہوئی اورآستانہ مبارک تک پہنچنے کی نوبت نہیں آئی، اس لئے گھر کا پتہ پوچھنا پڑا۔ ہیں وقف ہمیشہ مرے الفاظ ومعانی ہاں قلزم شیریں کا سبھی پیتے ہیں پانی ہر بحر میں ہے بحر طبیعت کی روانی ہے زور سخن، شور پہ، موجوں کی زبانی قطرے سے مگر بحث میں میں صرف نہیں ہوں دریا ہوں سخن کا، میں تنک ظرف نہیں ہوں تیسرے مصرع کا مطلب مشکل سے سمجھ میں آ سکتا ہے، مقصد یہ ہے کہ زور سخن شور پر ہے، لیکن اس بات کو میں نہیں کہتا بلکہ موج کی زبان کہتی ہے۔ ’’بحث میں صرف ہونا‘‘ کون سا محاورہ ہے۔ ٹیپ کے دوسرے مصرع میں ’’میں‘‘ کا لفظ محض فضول ہے، پہلے مصرع میں ’’میں‘‘ کا لفظ آ چکا ہے۔ خامہ ہے فروتن مرا افراط ادب سے جھک کر شرفا اور نجبا ملتے ہیں سب سے نخوت کے معانی ہیں الگ لفظوں کے لب سے جس طرح سے بد اصل جدا نیک نسب سے دشمن سے بھی ہم قطع نہیں کرتے حیا کو مانندِ غبار اٹھتے ہیں تعظیم ِ ہوا کو پہلے مصرع میں خاکساری اور انکساری کے بجائے ادب کہا ہے، حالانکہ دونوں میں بہت فرق ہے۔ تیسرے مصرع کی ترکیب اور لفظ کے لب کا استعارہ سابق و لاحق کی سادگی وصفائی سے نہایت بے گانہ ہے۔ شیریں سخنی کا ہنر اکبر سے لیا ہے اس ذرے میں سب، مہر حسینی کی ضیا ہے بے مہری فلاک سے گو خاک بہ سر ہوں ہاں عیب بڑا یہ ہے کہ میں اہل ہنر ہوں ’’گو خاک بہ سر ہوں‘‘ کا جواب، ’’ہاں عیب بڑا یہ ہے‘‘ کس قدر بے جوڑ ہے؟ ’’میں‘‘ کا لفظ بالکل حشو ہے۔ مرزا صاحب کا ایک اور نہایت مشہور مرثیہ ہے، کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے رن ایک طرف چرخ کہن کانپ رہاہے رستم کا جگرزیر کفن کانپ رہا ہے خود عرش خداوند زمن کانپ رہاہے شمشیر بہ کف دیکھ کے حیدر کے پسر کو جبریل لرزتے ہیں سمیٹے ہوئے پر کو ہیبت سے ہیں نہ قلعہ افلاک کے دربند جلاد فلک بھی نظر آتا ہے نظربند داہے کمر چرخ سے جوزا کاکمربند سیارے ہیں غلطاں صفت طائر پربند انگشت عطارد سے قلم چھوٹ پڑا ہے خورشید کے پنجے سے علم چھوٹ پڑا ہے یہ دونوں بند اپنے اندازمیں پورے ہیں۔ اب تیسرا بند ملاحظہ ہو، خود فتنہ و شر پڑھ رہے ہیں فاتحہ خیر کہتے ہیں ’’انا العبد‘‘ لرز کر صنم ودیر جاں غیر، بدن غیر، مکیں غیر، مکاں غیر نے چرخ کا ہے چرخ، نہ سیارے کی ہے سیر سکتے میں فلک خوف سے مانند زمیں ہے جز بخت یزید، اب کوئی گردش میں نہیں ہے ’’انا العبد‘‘ کس قدر سلاست کے خلاف ہے؟ یہ مصرع۔۔۔ جاں غیر، بدن غیر، مکیں غیر، مکاں غیر۔۔۔ اس بند میں کس قدر بے گانہ واقع ہوا ہے؟ بے ہوش ہے بجلی پہ سمند ان کا ہے ہشیار خوابیدہ ہیں سب طالع عباس ہے بیدار پوشیدہ ہے خورشید، علم ان کا نمودار بے نور ہے منہ چاند کا، رخ ان کا ضیا بار سب جزو ہیں، کل رتبے میں کہلاتے ہیں عباس کونین پیادہ ہے، سوار آتے ہیں عباس یہ بند اوپر کے بند سے دفعتاً اس قدر بے تعلق ہو گیا ہے کہ مطلب سمجھنا مشکل ہے۔ ’’ان کا‘‘ مشارالیہ حضرت عباس ہیں، لیکن چونکہ حضرت عباس کا ذکر صرف پہلے بندوں میں آیا تھا، جس سے تین بندوں کا فاصلہ ہے، اس لئے ذہن اس طرف جلدی منتقل نہیں ہوتا۔ مضمون کی بے ربطی کی یہ کیفیت ہے کہ ایک طرف توہل چل کی وجہ سے بجلی کوبے ہوش قرار دیا ہے، دوسری طرف فرماتے ہیں کہ سب خوابیدہ ہیں۔ ٹیپ کی بندش کی سستی خود ظاہر ہے۔ چمکا کہ مہ و خور، زر و نقرہ کے عصا کو سر کاتے ہیں پیر فلک پشت دو تا کو عدل آگے بڑھا، حکم یہ دیتا ہے قضا کو ہاں باندھ لے ظلم وستم و جور و جفا کو گھر لوٹ کے بغض و حسد و کذب و ریا کا سرکاٹ لے حرص و طمع و مکر و دغا کا ان استعارات میں جو لطافت ہے، وہ ظاہر ہے۔ ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ ایک مشہور اور معرکے کے مرثیے کے متعدد بند اس موقع پرنقل کریں، جس سے مرزاصاحب کی طرز بندش کے تمام محاسن و معائب کا پورا اندازہ ہو سکے۔ یہ مرثیہ وہ ہے جس کو مرزا صاحب کے نام ور معتقدین اکثر مجالس میں بڑے فخر کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ پرچم ہے کس علم کا شعاع آفتاب کی؟ پانی ہے کس پھر ہرے سے ہمت سحاب کی؟ یہ شان ہے نشان رسالت مآب کی چوب علم کلید ہے جنت کے باب کی نقشہ علم کے پنجے میں اللہ کا ملا بندوں کو اس نشاں سے نشان خدا ملا صبح جہاد شاہ ثریا جناب ہے فوج حسین بن کے ظفر ہم رکاب ہے مشرق سے واں علم، علم آفتاب ہے یاں نور کا نشاں، علم بوتراب ہے روشن علم سے آئینہ مشرقین ہے مشرق میں شمس، عکس نشان حسین ہے طوبا کی شاخ تیشہ قدرت نے کی قلم اور نور نخل طور بھرا اس میں یک قلم کی صادقوں کی راستیِ قول اس میں ضم بے پردہ ہو کے عفو بنی پوشش علم جب باندھ کر پھرہرے کوسیدھا علم کیا صانع نے پردے میں ید طولا علم کیا دامن ہے کبریا کا سر ا پردہ جلال ماہی مراتب اس سے ہے شاہوں کا پایمال بپھرا ہوا ہے شیر پھرہرے کا بے جدال شیر فلک کو دیکھ کے ہوتا ہے لال لال تسخیر غرب و شرق اسے کیا محال ہے پنجہ ہے آفتاب، تو ناخن ہلال ہے نور خدا سے قالب خیرالامم بنا سایہ نبی کا ہوکے مجسم علم بنا واں ابر چترفرق نبی بر قدم بنا یاں پوشش علم وہ سحاب کرم بنا سب کام بند ہوں، جو پھرہرا نہ وا رہے سچ ہے خدا کے فیض کا چشمہ کھلا رہے اب رایت زبان سے مضمون علم کروں اورمعنی بلند کالشکر بہم کروں مجلس میں ذکر شقہ حال علم کروں رایت میں سلک نظم کے پرچم کوضم کروں مشاقوں کو زیارت رایت ضرور ہے اس رایت نبی کی درایت ضرور ہے جب شاہ انبیا کو ہوئی خواہش علم آئی ندا فلک سے ابھی بھیجتے ہیں ہم جاری ہوا یہ حکم خداوند محترم ہاں قدسیو! علم کی درستی کرو بہم تیار مرے دوست کی خاطر نشاں کرو یعنی علم کی فکر سے خاطر نشاں کرو تعقید مرزا صاحب کے کلام کی ایک خصوصیات تعقید بھی ہے۔ وہ جہاں معنی آفرینی اور دقت پسندی پر زیادہ توجہ کرتے ہیں، کلام میں پیچیدگی پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ نہایت دقیق اور بلند مضامین پیدا کرتے ہیں، لیکن مناسب الفاظ ہاتھ نہیں آتے، اس لئے مضمون ایک گورکھ دھندا ہو کر رہ جاتا ہے۔ تلوار کی تعریف مد نگہ چشم نیام اوج بر آیا اور صاف ہر اک فرد بشر کو نظر آیا خط کھینچنے کو کلک دوات ظفر آیا یا دوڑ کے ظلمت کی گلی سے خضر آیا واں شور تھا پیدا مہ نو سے مہ نو ہے یاں غل تھا جدا شمع سے یہ شمع کی لو ہے آمد کی دھوم خود ابر ِفلک گرد سواری میں گھرے ہیں دریا میں عدو ڈوب کے دوزح میں ترے ہیں یوں کانپ کے سرداروں کے منہ رن سے پھرے ہیں بت حرص کے طاقِ دلَ اعدا سے گرے ہیں رعشہ ہے فقط، ہاتھ نہیں پاؤں نہیں ہے دہشت کے سبب دھوپ نہیں چھاؤں نہیں ہے سراپا معراج پیمبر کی تو روشن ہے حقیقت یاں دیکھو تہ عرش جبیں چشم کی زینت اترا ہے نبی کے لئے یہ کاسہ رحمت ہم صحبت و ہم کاسہ ہیں معبود سے حضرت اس کاسے میں رتبہ ہے یہ پلکوں کی ثنا کا اک ہاتھ نبی کا ہے اور اک ہاتھ خدا کا اب مومنوں کوعالم بالا کی خبر دوں حل عقدہ مدح سر ا قدس کو بھی کردوں گردوں کومیں نسبت سر پرنور سے گردوں یہ عرش ہو اور عرش بنے رشک سے گردوں اک قامت احمدؐ ہے اسے فوق جہاں پر خورشید سے اک نیزہ سوا ہوگا سناں پر گوغنچہ ہے گوشِ پسرسید خوش خو قربِ ختن زلف سے پر نافے کی ہے بو اور حلقہ گیسو کہ ہے اک نافہ آہو ہے کان کی نکہت سے رگ غنچہ ہراک مو نافے کا شرف غنچے کو کاکل نے دیا ہے اور گوش کے نافے کو یہاں غنچہ کیا ہے خطِ حسن کی خاطر ہے خزاں کا خط فرماں یاں حلقہ خطِ حسن کو ہے چشمِ نگہ باں صرصر سے ہے ایمن یہ چراغ رخ تاباں عارض کو کیا خط نے چراغ تہ داماں گلشن ہے غلط اورغلط ابر بہاری رخ باغ بہاری ہے یہ خط ابر بہاری ایک اورمرثیے میں فرماتے ہیں، نامِ جبیں ہے مشرقِ خورشیدِ ہر امید یاں پھول سرو کو ملیں پھل ہو نصیبِ بید ہے صبح صادق اس کی گواہی سے روسپید مہرقبول کے اثرِ سجدہ سے نوید اکبر نشان سجدہ جبیں پردکھاتے ہیں یاسرنوشت نیر اکبر دکھاتے ہیں کیا شاہ بیت ابروے اکبر کی ہو ثنا یکتا مطالعے میں ہے یہ مطلعِ رسا بیت القصیدہ ہے خم ابروے مصطفا کیا بیت بحثی ان سے کرے ماہِ نو بھلا پیش نگہ یہ بیت ہے اٹھارہ سال سے آتی ہے بوے شیر دہان ہلال سے تشبیہات و استعارات مرزا صاحب کے کلام کا خاص جوہر تشبیہات اور استعارات ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ وہ اپنی دقت آفرینی سے ایسی عجیب اورنادر تشبیہات اور استعارات پیدا کرتے ہیں، جن کی طرف کبھی کسی کا خیال منتقل نہیں ہوا ہوگا لیکن اس زورمیں وہ اکثر اس قدربلند اڑتے ہیں کہ بالکل غائب ہو جاتے ہیں مثلاً، شمشیر نے جل تھل جو بھرے قاف سے تا قاف پریاں ہوئیں مرغابیاں، گرداب بنا قاف چھپنے کے لئے خوف سے اس درجہ گھٹا قاف جو بیچ میں سیمرغ کی منقار کے تھا قاف کیا جانے کدھر لے کے خزانہ وہ بہا تھا قاروں کو عذاب ابدی ڈھونڈھ رہا تھا تیغ عباس جو دامان زرہ میں تھی نہاں یا شبستاں میں وہ خوابیدہ تھا مار دو زباں چمکا وہ ہلال ابروے یوسف کا کنویں سے یا برق جدا ہوگئی بادل کے دھویں سے مد نگہ چشم نیام اوج پر آیا اور صاف ہر اک فرد بشر کو نظرآیا خط کھینچنے کو کلک دوات ظفر آیا یا دوڑ کے ظلمت کی گلی سے خضر آیا گرمی پہ شرر تیغ شر ردم کے جو آئے جوہر نے کنویں قعر جہنم کے جھنکائے تھے مرغ نگہ پردوں میں، پر اس نے جلائے عنقائے تصور کے کباب اس نے لگائے ظلمات میں یہ فتح پہ قبضہ کیے پھری یونس کو جیسے بطن میں مچھلی لیے پھری چہرے سے بینیِ صفِ لشکر بھی دورکی بت خانے سے شباہتِ ممبر بھی دور کی کاف شگاف بن کے درون جگر گئی مانند میم مرگ میان کمر گئی لفظ شکم میں دینے کو زیر و زبر گئی مانند پیش ہر جز و کل سے گزر گئی رن کی صفوں کا خوف سے ستھراؤ ہوگیا پانی ہوئے یہ زہرے کے چھڑکاؤ ہوگیا بینی جبین و لب سے حسینؑ و خلیلؑ ہے سر پر ہے عرش زیر قدم سلسبیل ہے نبضیں چھٹیں شرر کی سقر کانپنے لگے شعلے زباں نکال کے خود ہانپنے لگے نہیبِ تیغ سے خالی سبھوں کے قالب تھے پیالہ ہائے فلک روحوں سے لبالب تھے گیا جو فوق سے تحت الثری کو آب حسام بنا خزانہ قاروں خرابہ حمام فلک نے تختہ یوناں رکھا زمیں کا نام ہوا رطوبت اطراف سے زمیں کو زکام دماغ خاک پہ نزلہ بہ صد وفور گرا کیا جوعطسہ تو قاروں نکل کے دور گرا جوہر میں طرفہ ہیبتِ تیغِ دلیر ہے مچھلی کے جال میں یہ مگر کوئی شیر ہے بادل کی طرح جوہر شمشیر جو چھائے سایے نے تڑپ کر دہل رعد بجائے چار آئینے نے اور ہی صورت دکھائی ہے پر آئینہ نہیں ہے سند ہم نے پائی ہے زائل زرہ کی آنکھوں سے جو روشنائی ہے آنکھوں نے چار چشمے کی عینک لگائی ہے ڈر ڈر کے آبِ تیغ سے سب کوچ کر گئے غصے سے ہوکے چیں بہ جبیں کچھ ٹھہرگئے پُل بن گئے وہ چین جبیں سر اُتر گئے اک وار میں فرات سے پار ان کے سر گئے پر ذوالجناح صاف دھویں سے نکل گیا باروت تھا کہ اڑ کے کنویں سے نکل گیا تھا طوطیِ خط پشتِ لب لعل پہ گویا دیکھو کہ دھواں آتشِ یاقوت سے نکلا تھا چاہ ذقن میں چہ نخشب کا تجلا اس چاہ کی کشتی نے تو پانی بھی نہ مانگا جلوے لب و دنداں کے عجب پیش نظر تھے دروازے پہ یاقوت تھے اور گھر میں گہر تھے حاشا نہیں تجلی ماہ آسمان پر مچھلی اچھالتی ہے کلاہ آسمان پر چشم ِضیا فشاں سے نمود چراغ ہے پلکیں نہ سمجھو ہالہ دودِ چراغ ہے پیدا کمر سے کہنہ جناب الہ ہے یہ بال چشم ِناف کا تارِ نگاہ ہے پتلی ہے کوہ طور تجلی کبریا سنتے تھے تل کی اوٹ پہاڑ اب نظر پڑا جب تک یہ پلکیں دست نگہ میں نہ دیں عصا موسی کی بھی نگہ نہ ہو اس چشم تک رسا اک جلوہ دے یہ چشم جسے اپنے نور کا وہ خاک کے بھی مول نہ لے سر مہ طور کا سجنے لگا سلاحِ دغا پھر وہ پُر دغا کی خود نے (؟) خودنمائی سے زیب سر جفا یا ماہ آفتاب کو گویا گہن لگا یا دارِ قد پہ کفر کا بخت سیر جڑا اسلام میں جو ڈالے ہیں رخنے یزید نے ان رخنوں کو کیا زرہ تن پلید نے پاؤں میں پہنے موزہ گم راہی جہاں کج فہمی معاویہ کی اس نے لی کماں اور تیغ ہند ہند جگر خوارہ کی زباں فرد ِسپر تھی نامہ اعمالِ شامیاں چار آئینہ وہ رنگ بھرا اس پلید کا دل شمروشیت و ابن زاد و یزید کا مضمون بندی و خیال آفرینی میر انیس اور مرزا دبیر میں اصلی مابہ الامتیاز جو چیز ہے وہ خیال بندی اوردقت پسندی ہے اور یہی چیز مرزا صاحب کے تاج کمال کا طرہ ہے۔ اس میں کچھ شبہ نہیں کہ مرزا کی قوت متخیلہ نہایت زبردست ہے۔ وہ اس قدر دور کے استعارات اور تشبیہات ڈھونڈھ کر پیدا کرتے ہیں کہ وہاں تک ان کے حریفوں کا طائر وہم پرواز نہیں کر سکتا۔ راست نما اور دل فریب (لیکن غلط) استدلال جو شاعری کا ایک جزو اعظم ہے، ان کے ہاں نہایت کثرت سے پایا جاتا ہے۔ وہ قوت متخیلہ کے زور سے نئے نئے اورعجیب دعوے کرتے ہیں اور خیالی استدلال سے ثابت کرتے ہیں۔ مبالغے کے مضامین جو پہلے شعرا باندھ چکے تھے اور بہ ظاہر نظر آتا تھا کہ اب اس کی حدہوچکی، ان کووہ اس قدر ترقی دیتے ہیں کہ پہلے مبالغے ان کے مقابلے میں ہیچ ہو جاتے ہیں۔ مختصر یہ کہ خیال آفرینی، دقت پسندی، جدت استعارات، اختراع تشبیہات، شاعرانہ استدلال، شدت مبالغہ میں ان کا جواب نہیں، لیکن اس زور کو وہ سنبھال نہیں سکتے، اس وجہ سے کہیں خامی پیدا ہوجاتی ہے، کہیں تعقید اور اغلاق ہو جاتا ہے۔ تشبیہات کہیں پھبتیاں بن جاتی ہیں اور کہیں محض فرضی خیال رہ جاتی ہیں۔ تاہم اس سے انکار نہیں ہوسکتا کہ جہاں ان کا کلام فصاحت و بلاغت کے معیار پر بھی پورا اتر جاتا ہے، نہایت بلند رتبہ ہوجاتا ہے۔ اس موقع پرہم ان کی ہرقسم کی عمدہ مضمون آفرینی کی متعدد مثالیں نقل کرتے ہیں، جب 1 سرنگوں ہوا علم کہکشان شب خورشید کے نشاں نے مٹایا نشان شب تیر شہاب سے ہوئی خالی کمان شب تانی نہ پھر شعاع قمر نے سنان شب آئی جو صبح زیور جنگی سنوار کے شب نے زرہ ستاروں کی رکھ دی اتار کے شمشیر مشرقی جو چڑھی چرخ پر شتاب پھر تیغ مغربی نے دکھائی نہ آب و تاب تھا بس کہ گرم خنجرِ بیضائے آفتاب باقی رہا نہ چشمہ نیلو فری میں آب محتاج ماہ تاب ہوا آب وتاب کا باغ جہاں میں پھول کھلا آفتاب کا تھی جوش خوں کے عارضے میں مبتلا شفق فُصادِ صبح آیا لیے نشتر و طبق کھولی شفق کی صبح تو رنگ افق تھا فق گل رنگ تھا صحیفہ گردوں ورق ورق خون شفق میں سرخ قضا نے قلم کیا اور خط و خال روز شہادت رقم کیا (ایضاً) پیدا شعاع مہر کی مقراض جب ہوئی پنہاں درازیِ پرِ طاؤسِ شب ہوئی اورقطع زلفِ لیلی زہرہ لقب ہوئی مجنوں صفت قبائے سحر چاک سب ہوئی فکر رفو تھی چرخ ہنر مند کے لیے دن چار ٹکڑے ہوگیا پیوند کے لیے یوسف غریقِ چاہِ سیہ ناگہاں ہوا یعنی غروب ماہ تجلی نشاں ہوا یونس دہان ِماہی شب سے عیاں ہوا یعنی طلوع نیر مشرق ستاں ہوا فرعون شب سے معرکہ آرا تھا آفتاب دن تھا کلیم اور ید بیضا تھا آفتاب تھی صبح یا کہ چرخ کا جیب دریدہ تھا یا چہرہ مسیح کا رنگِ پریدہ تھا خورشید تھا کہ عرش کا اشک چکیدہ تھا یا فاطمہ کا نالہ گردوں رسیدہ تھا کہیے نہ مہر، صبح کے سینے پہ داغ تھا امید اہل بیت کا گھر بے چراغ تھا نکلا افق سے عابد روشن ضمیر صبح محرابِ آسماں ہوئی جلوہ پذیر صبح کھولا سپیدی نے جو مصلائے پیر صبح ہر سجدہ گاہ بن گیا مہرمنیر صبح کرتی تھی شب غروب کا سجدہ ر دود کو سیارے ہفت عضو بنے تھے سجود کو ظلمت جہاں جہاں تھی وہاں نور ہوگیا پھر مشک شب جہان سے کافور ہوگیا گویا کہ زنگ آئینے سے دور ہوگیا باطل رسالہ شب دیجور ہوگیا کیا پختہ روشنائی تھی قدرت کے خامے میں مضمون تھا آفتاب کا ذروں کے نامے میں (ایضاً) گلگونہ شفق جو ملا حور صبح نے اسپند مشک شب کو کیا نور صبح نے گرمی دکھائی روشنی طور صبح نے ٹھنڈے چراغ کردیے کافور صبح نے لیلاے شب کی رات کو دولت جو لٹ گئی افشاں جبیں سے مہر درخشاں کی چھٹ گئی پیدا ہوا سپیدہ طلعت نشان صبح سلطان صبح نے کیا قصد اذان صبح باندھا عمامہ نور کا پہنا کتان صبح چرخ چہار میں پہ گیا خطبہ خوان صبح منہ سب کے سوئے قبلہ امید ہوگئے سرگرم سجدہ عیسی و خورشید ہوگئے آیا جو تیغ روز لیے شاہ نیم روز ماہی شکار شیر سوار و جہاں فروز باندھے کمر میں خنجر بیضائے کینہ سوز پھر دیو ہفت سر ہوا صید عقاب روز مہتاب لشکرِ شہ خاورمیں گھر گیا ارہ شعاع کا سر انجم پہ پھر گیا بڑھ کر نقیب نور پکارا سحر سحر ذروں میں نور مہر در آیا قمر قمر فرمان نور بدر کو پہنچا بدر بدر لوٹا سحر نے معدن شبنم گہر گہر برقع جو اٹھ گیا تھا رخ آفتاب کا پردہ تھا فاش صبح ملمع نقاب کا تلوار شاخ نیام سے ہوا اس طرح پھل جدا پیروں کے قد سے جیسے جوانی کا بل جدا ہستی جدا زمین پہ تڑپی اجل جدا خنجر جدا فلک پہ گرا اور زحل جدا غل تھا کہ اب مصالحہ جسم و جاں نہیں لو تیغ برق دم کا قدم درمیاں نہیں ڈوبی سپر میں گر کے نئی چال ڈھال سے پاکھر کے بیچ میں یہ بڑھی سیدھی چال سے اٹھ کرزرہ میں آئی شکوہ و جلال سے اک جال میں تڑپ کے گئی ایک جال سے گزری جو چار آئینے سے منہ کو موڑ کے غل تھا پری نکل گئی شیشے کو توڑ کے کاٹا پلک میں آنکھ کو پتلی میں نور کو پاؤں میں کج روی کو سروں میں غرور کو سینے میں بغض و کینہ کو دل میں فتور کو نیت میں معصیت کو طبیعت میں زور کو ذات اک طرف مٹا دیا بالکل صفات کو کیسی زباں، زباں میں یہ کاٹ آئی بات کو سب کے گلوں سے ملتی تھی لیکن رکی ہوئی جوہر یہ تھا کہ بوجھ سے خود تھی جھکی ہوئی ولہ ظرف تنک میں تھی نہ جگہ اس کی آب کی بندھتی تھی اورکھلتی تھی مٹھی حباب کی دریائے خوں تھا تیغ سبک رو کی ناؤ پر پر، یوں رواں تھی جیسے کہ کشتی بہاؤ پر ولہ اللہ ری شناور شمشیر آب دار دکھلا دیے صفائی کے سب ہاتھ ایک بار تیرا وہ جوئے زخم میں گہ وار گاہ پار جوہر کا ایک بال بھی ڈوبا نہ زینہار اک وجد حر کو بھی یہ صفا دیکھ کرہوا ہاتھ اک طرف نہ تیغ کا ناخن بھی تر ہوا جس مورچے میں لیلیِ تیغ دوسر گئی چنگے بھلوں کو سایے سے دیوانہ کرگئی ہر صف نے خاک اڑائی ادھر سے ادھرگئی پھریہ نہانہا کے لہو میں نکھر گئی عالم نہ پوچھو قطرہ فشانی کے حسن کا جو بن ٹپک رہا تھا جوانی کے حسن کا آگے کبھی بڑھی کبھی پیچھے کو پھر پڑی سرپر جو لڑکھڑائی تو شانے پہ گر پڑی ولہ اٹھی گری بلند ہوئی پست ہوگئی پی پی کے مے کشوں کا لہو مست ہوگئی ولہ نیزے تنے تواس نے کہا دیکھے بھالے ہیں بحثی نہ خنجروں سے کہ گودی کے پالے ہیں برسے جو تیر سمجھی کمانوں کے نالے ہیں چمکے جو گرز بولی یہ منہ کے نوالے ہیں ننگ اپنا جان کرنہ کسی سے بگڑتی تھی ہر پھر کے آپ اپنی طبیعت سے لڑتی تھی بے جرم معرکے میں وہ خار اشگاف تھی لشکر کا خوں کیا تھا مگر پاک وصاف تھی ولہ قبضہ تو رہا دست جناب شہ دیں میں پھل جاکے لگا شاخ سرِ گادِ زمیں میں ولہ اس قہر مجسم پہ اجل نے جو نظر کی مجرا تو فقط کر لیا اور پیچھے کو سر کی غصے سے چڑھی بھوں جو ادھر تیغ دو سر کی پھرنے لگی پتلی سپر فوج عمر کی باقی تھا نہ دم خوف سے تیغیں یہ گھٹی تھیں تیغیں نہ کہو نبضیں نیاموں کی چھٹی تھیں ولہ خود رفتہ تھا ہر تیر پہ رفتار نئی تھی انگڑائی کا لینا بھی کمال بھول گئی تھی ولہ تھی راست گو وہ تیغ یہ روشن جہاں پہ تھا جتنا لہو پیا تھا وہ جاری زباں پہ تھا ولہ کٹتے تھے سر نہ تیغ امام عراق سے بت گر رہے تھے خاک پہ کعبے کے طاق سے ولہ سر کونہ وصلِ تیغ سے اصلا ًدریغ تھا کیا سب کی سرنوشت میں مصراعِ تیغ تھا ولہ رک رک کے قدم رکھتی تھی ہر سر پہ ادب سے جھک جھک کے مثال شرفا ملتی تھی سب سے ولہ جوہر کے نگہ بانوں کو بیدار جو پایا زخموں نے بھی اس تیغ کا پانی نہ چرایا ولہ ہوتی تھیں صفیں آب دم تیغ سے بے دم پانی جو کھڑے ہوکے پیو ہوتا ہے سن کم حل کرتی تھی ہر مسئلہ تیغ شہ عالم ہے خون نجس اس میں بہ آلودہ تھی ہر دم پر اس پہ نجاست کا گماں ہو نہیں سکتا یعنی کہ نجس آب رواں ہو نہیں سکتا اللہ رے دماغ اس کا کسی سر پہ نہ بیٹھی سر ایک طرف گنبد مغفر پہ نہ بیٹھی (کذا) بالائے سپر پھولوں کے بستر پہ نہ بیٹھی یہ بیٹھنا کب تھا ادھر آئی ادھر آئی جس سر پہ رکھا پاؤں زمیں پر اتر آئی اسی طرح گھوڑے کی سرعت، فوج کی ہل چل، آمد کی دھوم وغیرہ وغیرہ مضامین میں سیکڑوں، ہزاروں نئی تشبیہیں، استعارات اور باریکیاں پیدا کی ہیں۔ ہم نے اس خیال سے صرف نمونے پراکتفا کیا کہ جو شخص ایک تلوار کے متعلق اس قدر بے شمارمضامین کا مینہ برسا سکتا ہے اس کی قوت متخیلہ کی کیا حد ہوسکتی ہے۔ بلاغت یہ وہ چیز ہے جہاں انیس اور دبیر کی شاعری کی سرحدی بالکل الگ ہو جاتی ہیں۔ مرزا صاحب کی شاعری میں بالفرض گو اور تمام اوصاف پائے جاتے ہوں، لیکن بلاغت کا تو شائبہ بھی نہیں پایا جاتا۔ تم اوپر پڑھ آئے ہوکہ ہر چیزکی بلاغت الگ ہے۔ مضمون کی الگ، قصے کی الگ، قصیدے کی الگ، شعر کی الگ، لیکن مرزاصاحب کے کسی قسم کے کلام میں یہ وصف پایا نہیں جاتا۔ وہ اگر کسی واقعے کا خاکہ تیار کرتے ہیں تو اس قسم کی باتیں بیان کرتے ہیں جو خود شہادت دیتی ہیں کہ واقعہ وجود میں نہیں آسکتا تھا۔ نوحہ و غم، فخر و ادعا، طنز وتشنیع، ہجو و بدگوئی، سوال وجواب، گلہ وشکایت، غرض کسی مضمون کو وہ متقضائے حال کے موافق نہیں لکھ سکتے۔ ہم چند مثالیں نمونے کے طور پر لکھتے ہیں۔ مثال (۱) ایک مرثیے میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہات پر حضرت شہربانو کا جو نوحہ لکھا ہےاس میں لکھتے ہیں، تم جانو جہاں سے شہ عالی کو لے آؤ اکبر سے میں گزری مرے والی کو لے آؤ ’’تم جانو جہاں سے۔‘‘ اس محاورے کے ابتذال سے قطع نظر کر کے یہ امر کس قدر خلاف متقضائے حال کے ہے کہ کوئی شریف عورت یہ کہے کہ میں اپنے بیٹے سے درگزری، میرے شوہر کو جہاں سے ممکن ہو پیدا کرو۔ مثال (۲) ناگہاں بالی سکینہ نے مچل کر یہ کہا میرے کرتے کا گریباں بھی کرو چاک چچا خوب ملبوس یہ ہے پہنیں گے ہم بھی ایسا روٹھ جاؤں گی نہ مانوگے جو میرا کہنا آپ جب خیمے میں آئیں گے تو چھپ جاؤں گی پھر مجھے گود میں لوگے تو نہ میں آؤں گی روئے نادان کی تقریر پہ عباس کمال اور کہا دل سے کہ اس کا بھی کرو رد نہ سوال بے پدر ہوگی کوئی آن میں یہ نیک خصال چاک اس کا بھی گریباں کیا با حزن و ملال پیار جو آگیا بنت شہ دیں کے اوپر بو سے دے دے کے ملی خاک جبیں کے اوپر واقعہ یہ باندھا ہے کہ حضرت عباس جب میدان میں جانے لگے تو اپنے بیٹے کا گریبان چاک کر دیا کہ یتیمی کی علامت ہے۔ یہ دیکھ کر سکینہ (حضرت امام حسین علیہ السلام کی صاحب زادی) نے کہا کہ میرے کرتے کا گریبان بھی چاک کر دو، مجھ کوبھی یہ وضع اچھی معلوم ہوتی ہے۔ حضرت عباس نے اس خیال سے کہ آخر حضرت امام حسین بھی کچھ دیر میں شہید ہوں گے اورحضرت سکینہ بھی یتیم ہوجائیں گی، اس لئے ان کا گربیان بھی چاک کردیا۔ حضرت عباس کو امام علیہ السلام سے جوعشقیہ محبت تھی اور جس کا اظہار ہرجگہ مرزا صاحب نے بھی کیا ہے، اس کے لحاظ سے یہ امر نہایت خلاف عقل اور خلاف عادت ہے کہ وہ حضرت امام حسین کو قبل از وقت شہید فرض کرلیں اور اس بنا پر ان کے بچے کو یتیم فرض کر کے اس کا گریبان چاک کردیں۔ مثال (۳) یہ کہتی تھی کہ آئی قریں بنت مرتضا تسلیم کر کے بانو نے سر کوجھکا لیا زینب پکاری بیٹھو ادب میرا ہوچکا جس کی نہ بات پوچھیے تعظیم اس کی کیا سب جانتے ہیں بنت جناب امیر ہوں گھرمیں تمہارے رہتی ہوں اس سے حقیر ہوں حضرت زینب کو اس بات کی شکایت ہے کہ علی اکبر کو شہربانو نے میری بغیر اطلاع کے لڑائی میں جانے کی کیوں اجاز ت دی۔ اس بنا پر وہ حضرت شہربانو سے کہتی ہیں کہ جب میری بات نہیں پوچھی جاتی تو تعظیم سے کیا فائدہ۔ لیکن اس مقصد کے اظہار کے لئے مرزا صاحب نے جوطریقہ اختیار کیا وہ کس قدرسفیہانہ اورعامیانہ ہے۔ یہ خیال کہ چونکہ میں اپنا گھر چھوڑکر تمہارے گھر میں رہتی ہوں، اس لئے تم لوگ مجھ کوحقیر سمجھتے ہو، نہایت پست اورمبتذل خیال ہے جو ہرگز حضرت زینب کی متانت اور وقار کے شایاں نہیں۔ مثال (۴) محبوب ہوں خداے ذوی الاحترام کا نانا ہوں میں حسین علیہ السلام کا یہ شعر جناب رسول خدا کی زبان سے ادا کیا ہے، لیکن مرزا صاحب کو یہ خیال نہیں رہا کہ کیا آں حضرت بھی امام حسین علیہ السلام کا نام، علیہ السلام کہہ کر لیتے تھے! مثال (۵) یہ بات سن کے بنڑی نے گھونگھٹ الٹ دیا عباس کو حسین کو اکبر کو دی صدا صدقے میں تم پہ، یاں سے سرک جاؤ ذرا تم سب کے آگے روتے ہوئے آئے گی حیا ماتم کا ہے ہجوم دل پاش پاش پر جی بھر کے رو لے یہ بنے قاسم کی لاش پر سر کے وہاں سے اکبر وعباس و شاہ دیں لاشے کے گرد پھرنے لگی وہ دلہن حزیں زینب سے پوچھنے یہ لگی پھر وہ مہ جبیں اب اختیار دل پہ مرے مطلقاً نہیں نوشاہ ایک رات کے جوقتل ہوتے ہیں بتلاؤ اے پھوپھی! انہیں کیا کہہ کے روتے ہیں یہ ملحوظ رکھنا چاہئے کہ مرزا صاحب اور دیگر تمام مرثیہ گویوں نے اہل حرم کی عادات اور مراسم، ہندوستان کے شرفا کی مستورات کے مطابق فرض کیے ہیں۔ چنانچہ عروسی، شادی اورمیت کے متعلق جس قسم کے مراسم وعادات یہاں ہیں وہی تمام مرثیوں میں مذکورہیں۔ اس بنا پر حضرت کبری کا اپنے باپ، چچا اور بھائی سے یہ کہنا کہ تم لوگ یہاں سے سرک جاؤ، میں اپنے شوہر پرنوحہ کرنا چاہتی ہوں، کس قدر بے حجابی اور بے شرمی ہے۔ طرہ یہ کہ یہ بھی کہتی ہیں کہ تم سب کے آگے روتے ہوئے شرم آئے گی، لیکن یہ کہتے ہوئے شرم نہ آئی۔ مرزا صاحب نے اسی واقعے کو ایک اورمرثیے میں لکھا ہے اور وہاں تو حد کردی ہے، فرماتے ہیں، ناگاہ شہ نے لاش اٹھائی بہ صد بکا کبری نے ہاتھ باندھ کے تب شاہ سےکہا ہم کچھ کہیں جو مانیے اے شاہ کربلا احسان ہوگا لاش کو رکھ دیجئے ذرا بالیں پہ پلٹیں سر پہ ذرا خاک ڈال لیں ہم بھی کچھ اپنے دل کی تمنا نکال لیں میرانیس نے اسی واقعہ کو کس خوبی سے ادا کیا ہے، رو کر بہن سے کہنے لگے شاہ بحر و بر اس بے نصیب رانڈ کو لے آؤ لاش پر بیٹی لٹے گی یوں ہمیں اس کی نہ تھی خبر اب شرم کیا ہے دیکھ لے دولہا کو اک نظر زخمی بھی ہے شہید بھی ہے بے پدر بھی ہے دولہا ہے نام کو بھی چچا کا پسر بھی ہےاس بلاغت کو دیکھو کہ چونکہ حضرت امام حسین کا بھی یہ کہنا کہ اب شرم کیا ہے، دولہا کو دیکھ لے، ایک گونہ رسمی حیا کے خلاف تھا، اس لئے ان کی زبان سے یہ الفاظ ادا کیے کہ وہ برائے نام دولہا ہے ورنہ چچا کا بیٹا اور بھائی ہے۔ حضرت یہ کہہ کے ہٹ گئے با چشم اشک بار پیٹی یہ سر کہ غش ہوئی بانوے دل فگار چادرسپید اڑھا کے دلہن کوبہ حال زار گودی میں لائی زینب غمگین و سوگوار چلائی ماں یہ گر کے تن پاش پاش پر قاسم بنے اٹھو، دلہن آئی ہے لاش پر ہے ہے بنے قاسم کا ہوا شور جو در پر بانو نے کہا، لٹ گئی لوگو مری دختر فرزند کے لاشے سے لپٹنے لگی مادر سر پیٹتی دوڑی شہ مظلوم کی خواہر پھر کون رہے بنت علی جب نکل آئے خیمے میں دلہن رہ گئی اور سب نکل آئے مثال (۶) کہا سجاد سے کبری نے یہ اس دم رو رو بھائی صاحب! مرے دولہا کو ابھی دفن کرو تا مجاورمیں بنوں کھول کے اپنے سر کو کہا کبری سے یہ سجاد حزیں نے کہ چلو ٹکڑے لاشوں کے بہم بادل غمناک کریں قاسم ابن حسن کو بھی تہ خاک کریں ایک رات کی بیاہی ہوئی عورت کا اپنے بھائی سے یہ کہنا کہ میرے دولہا کوابھی دفن کرو، کس قدر خلاف عادت ہے۔ مثال (۷) حضرت سکینہ کو قید خانے میں غش آگیا ہے۔ ان کی ماں حضرت شہربانو کوخیال ہوا کہ مرگئیں، انہوں نے نوحہ شروع کیا۔ حضرت زینب ان کوسمجھاتی ہیں، اس واقعہ کو مرزا صاحب اس طرح ادا کرتے ہیں، زینب نے روکے بانو ے مغموم سے کہا بے آس ہو نہ بھابھی، غش میں یہ مہ لقا اورمرگئی تو خیر جو اللہ کی رضا اب اس کے رفع غش کی یہ اس وقت ہے دوا ہے عاشق حسین یہ پیاری حسین کی اب غل کرو کہ آئی سواری حسین کی تسکین اور تسلی دینے میں یہ کہنا کہ ’’خیر مرگئی تو کیا کروگی، جو اللہ کی رضا۔‘‘ کس قدر ناموزوں ہے اور خلاف آدمیت ہے۔ یہاں ہم نے اجمالاً صرف چند مثالیں لکھ دیں۔ اس کے بعد متحد المضمون مرثیوں کا جوعنوان ہے، اس سے تفصیلاً معلوم ہوگا کہ مرزا صاحب بلاغت کی راہوں سے کس قدر نا آشنا ہیں۔ میر انیس اور مرزا دبیر کے متحد المضمون مرثیے میر انیس اورمرزا دبیر کے موازنے کا صحیح تر اورآسان طریقہ یہ ہے کہ دونوں صاحبوں کے ہم مضمون مرثیوں کا مقابلہ کیا جائے۔ چونکہ مرثیے کا موضوع صرف چند معین واقعات ہیں، اس لئے اگرچہ دونوں صاحبوں کا انداز شاعری بالکل الگ الگ ہے، تاہم واقعات اور مضامین میں ہر جگہ اشتراک پیدا ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی نظر آتا ہے کہ دونوں حریفوں نے اکثر مرثیے اور بند اور متفرق اشعار ایک دوسرے کے مقابلے میں لکھے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض بعض بندوں میں مضمون، ردیف اور قافیے تک مشترک ہیں۔ افسوس ہے کہ ان موقعوں پر یہ پتا نہ چل سکا کہ ابتدا کس نے کی اور جواب کس نے لکھا، تاہم بعض بعض قرائن سے (جیسا کہ ہم دیباچے میں لکھ آئے ہیں) ثابت ہوتا ہے کہ مرزا دبیر صاحب زیادہ تر مقابلے کا قصد کرتے تھے۔ مثلا ًایک مرثیے میں میر انیس نے فخریہ کے ساتھ زمانے کی ناقدری کی شکایت کی تھی، اس کے ایک بند کی ٹیپ یہ ہے، عالم ہے مکدر کوئی دل صاف نہیں ہے اس عہد میں سب کچھ ہے پر انصاف نہیں ہے اسی بحر میں مرزا صاحب کا بھی مرثیہ ہے، اس میں بھی فخریہ ہے اور ایک بند کی ٹیپ یہ ہے، دل صاف ہو کس طرح کہ انصاف نہیں ہے انصاف ہو کس طرح کہ دل صاف نہیں ہے دونوں شعروں کو دیکھ کر ہر شخص فیصلہ کر سکتا ہے کہ کس نے کس کا جواب لکھا ہے۔ میرانیس اکثرشعروں میں مرزا دبیر پر سرقے اورخوشہ چینی کی چوٹ کرتے ہیں، مثلاً، لگا رہا ہوں مضامین نو کے پھر انبار خبر کرو مرے خرمن کے خوشہ چینوں کو پیاسو! سبیل ہے نذر حسین کی ممکن نہیں دزدان معانی سے نجات سچ ہے کہ مگس سے کب شکر بچتی ہے بھلا تردد بے جا سے اس میں کیا حاصل اٹھا چکے ہیں زمیں دار جن زمینوں کو نوا سنجیوں نے تری اے انیس ہر اک زاغ کو خوش بیاں کردیا مضمون انیس کا نہ چربا اترا لیکن مرزا دبیر نے میر انیس پر کہیں سرقے کی تعریض نہیں کی ہے، بلکہ صرف اپنی برائت ظاہر کی ہے، مثلاً، واللہ بری ہوں سرقہ مضمون غیرسے ہے استفادہ مجھ کو احادیث و سیرسے شکر خدا کے سرقے کی حد سے بعید ہوں ہر مرثیے میں موجد طرز جدید ہوں بہرحال، کم سے کم ہم کو یہ فرض کر کے دونوں میں سے کوئی سرقے کا مجرم نہیں، صرف یہ دیکھنا چاہئے کہ اس مضمون کو کس نے خوبی سے ادا کیا ہے۔ چنانچہ ہم دونوں کے متحد المضمون مرثیے اور اشعار ذیل میں درج کرتے ہیں، پردے کا اہتمام انیس،بیت الشرف خاص سے نکلے شہ ابرار روتے ہوئے ڈیوڑھی پہ گئے عترت اطہار فراشوں کوعباس پکارے یہ بہ تکرار پردے کی قناتوں سے خبردار خبردار! باہر حرم آتے ہیں رسول دوسرا کے شقہ کوئی جھک جائے نہ جھونکوں سے ہوا کے لڑکا بھی جو کوٹھے پہ چڑھا ہو وہ اتر جائے آتا ہو ادھر جو وہ اسی جا پہ ٹھہر جائے ناقے پہ بھی کوئی نہ برابر سے گزر جائے دیتے رہو آواز جہاں تک نظر جائے مریم سے سوا حق نے شرف ان کو دیے ہیں افلاک پہ آنکھوں کو ملک بند کیے ہیں درباں عصا اٹھا کے بڑھے جانب یسار دہنی طرف نقیب گئے باندھ کر قطار آ آکے در پہ لونڈیاں چلائیں بار بار آئے ادھر نہ اب نہ کوئی جائے ہوشیار! آواز غیرسن کے وہ اندیشہ کرتی ہے آہستہ بولو دختر زہرا اترتی ہے عفت کے جتنے مرتبے خیر النسا نے پائے وہ ماں کے بعد دختر مشکل کشا نے پائے ہاں ہاں مسافرو نہ کوئی غل مچانے پائے ناقے پہ بیٹھ کر نہ ادھر کوئی آنے پائے حسن ادب یہی ہے کہ حق کو پسند ہو وہ بیٹھ جائے جس کا کہ قامت بلند ہو دونوں بزرگوں نے عورتوں کے پردے کے اہتمام کا سماں باندھا ہے لیکن میر صاحب نے اس مضمون کو اس فصاحت و بلاغت سے ادا کیا ہے اور اس طرح واقعے کی تصویر کھینچ دی ہے کہ اس کے سامنے مرزا صاحب کے اشعار کا پیش کرنا بھی، میر صاحب کی نا قدردانی ہے۔ روانی، شستگی، خوبی محاورہ، چستی بندش کے علاوہ بلاغت کے نکتوں پرلحاظ کرو، میرصاحب نے پردے کے اہتمام اور لوگوں کے ہٹانے اور روکنے کوحضرت عباس کی طرف منسوب کیا ہے جس سے حضرت زینب کی عظمت و شان کے اظہار کے علاوہ اصلی واقعے کی مطابقت ہوتی ہے، کیونکہ تمام معزز خاندانوں میں پردے کا اہتمام، خود خاندان کے ممبر کیا کرتے ہیں۔ بہ خلاف اس کے مرزا صاحب نے یہ کام بالکل دربانوں، نقیبوں اور لونڈیوں کے سپرد کر دیا ہے، جس سے بہ ظاہر مفہوم ہوتا ہے کہ یا تو گھر میں کوئی مرد تھا ہی نہیں، یا تھا تو اس کوعورتوں کی چنداں پروا نہ تھی۔ پردے کے اہتمام میں نقیبوں کا کیا کام ہے؟ لونڈیوں کے غل مچانے سے ثابت ہوتا ہے کہ ادب و شائستگی نہیں پائی جاتی۔ ذیل کےیہ دونوں مصرعے بالکل ہم مضمون ہیں، لیکن دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے، انیس، ناقے پہ بھی کوئی نہ برابر سے گزرجائے دبیر، ناقے پہ بیٹھ کر نہ ادھر کوئی آنے پائے صغری کی آزردگی دبیر، صغری نے کہا صاحبو! کیا کرتے ہو گفتار اک بات پکڑ لی کہ یہ بیمار ہے بیمار شاید کہ سفر ہی میں شفا دے مجھے غفار یاں کون خبر لے گا مری یہ در و دیوار! اتنی بھی توطاقت نہیں جو اٹھ کے کھڑی ہوں اے لوگو! میں کیا آپ سے بیمار پڑی ہوں واقعہ یہ ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام تمام اہل حرم کوساتھ لیے جاتے ہیں لیکن حضرت صغری کو بیمار ہونے کی وجہ سے چھوڑے جاتے ہیں، اس پر وہ گریہ و زاری کرتی ہیں۔ حضرت امام حسین اور گھر کی عورتیں سمجھاتی ہیں کہ تم بیمار ہو، سفر کے مصائب برداشت نہیں کر سکتی ہو۔ صغری جواب دیتی ہیں۔ اسی مضمون کو میر انیس صاحب ادا کرتے ہیں، کیا خلق میں لوگو! کوئی ہوتا نہیں بیمار ہے کون سی تقصیر کہ سب ہوگئے بے زار زندہ ہوں پہ مردے کی طرح ہوگئی دشوار کیوں بھاگتے ہیں سب مجھے ہے کون سا آزار حیرت میں ہوں باعث مجھے کھلتا نہیں اس کا وہ آنکھ چرا لیتا ہے منہ تکتی ہوں جس کا مرزا صاحب نے بھی عمدگی سے اس واقعہ کو ادا کیا ہے، لیکن میر صاحب کے طرز بیان میں جو حسرت، رنج اور بے کسی ہے وہ مرزا صاحب کے ہاں نہیں۔ ’’اک بات پکڑ لی‘‘ عامیانہ اور سوقیانہ طرز گفتگو ہے۔ ٹیپ کے دونوں مصرعوں میں کوئی ربط نہیں، اور یہ کہنا کہ مجھ کواٹھنے کی بھی طاقت نہیں، صغری کی خواہش پر ناکامی کا اثر پیدا کرتا ہے، کیونکہ جب اٹھنے کی طاقت نہیں تووہ سفر کیوں کر کر سکتی ہیں۔ اسی بنا پر میر انیس نے جہاں یہ واقعہ باندھا ہے، صغری کی زبان سے یہ کہا ہے، قربان گئی اب تو بہت کم ہے نقاہت تپ کی بھی ہے شدت میں کئی روز سے خفت بستر سے میں خود اٹھ کے ٹہلتی بھی ہوں حضرت! پانی کی بھی خواہش ہے غذا کی بھی ہے رغبت حضرت کی دعا سے مجھے صحت کا یقیں ہے اب تو مرے منہ کا بھی مزہ تلخ نہیں ہے دیکھو حضرت صغری کس کس طرح سے بیماری کی تخفیف اور قریب الصحت ہونے کو ثابت کرتی ہیں۔ اصغرسے خطاب دبیر، پردے کو اٹھا کر یہ کہا بانو نے رو رو صدقے گئی فال ایسی تومنہ سے نہ نکالو سب جیتے ہیں بے کس نہ ابھی آپ کو سمجھو شبیر ہو دنیا ہو ترا کنبہ ہو تو ہو کب میں نے کہا یہ، نہیں اصغر ہے تمہارا لو شوق سے دیکھو، یہ برادر ہے تمہارا پھر ہاتھوں پہ اصغر کو رکھا، کر کے یہ زاری لٹکا دیے ہاتھ اس نے ہمک کر کئی باری ماں نے کہا لو گود میں یہ آتے ہیں داری اصغر کی طرف ہاتھ اٹھا کر وہ پکاری پھرجیتی ملوں یا نہ ملوں تجھ سے بلا لوں آ چھوٹے مسافر، تجھے چھاتی سے لگا لوں صغرا کا رخصت کے وقت علی اور اصغر کو حسرت اورپیار سے دیکھنا نہایت دردانگیز سماں ہے اور اکثر مرثیوں میں یہ سماں نہایت مؤثر طریقے سے دکھایا جاتا ہے لیکن مرزا صاحب ایسے درد انگیز واقعے کو بھی تاثیر کا رنگ نہ دے سکے۔ دیکھو میرصاحب اسی بات کو کس لہجے سے ادا کرتے ہیں۔ ماں بولی یہ کیا کہتی ہے صغرا! ترے قرباں گھبرا کے نہ اب تن سے نکل جائے مری جاں بے کس مری بچی! ترا اللہ نگہ باں صحت ہو تجھے، میری دعا ہے یہی ہرآں کیا بھائی جدا بہنوں سے ہوتے نہیں بیٹا! کنبے کے لیے جان کوکھوتے نہیں بیٹا! میں صدقے گئی بس نہ کرو گریہ و زاری اصغر مرا روتا ہے صدا سن کے تمہاری وہ کانپتے ہاتھوں کو اٹھا کر یہ پکاری آ آمرے ننھے سے مسافر! ترے واری چھٹتی ہے یہ بیمار بہن، جان گئے تم اصغر! مری آواز کو پہچان گئے تم تم جاتے ہو اور ساتھ بہن جا نہیں سکتی تپ ہے تمہیں چھاتی سے بھی لپٹا نہیں سکتی جو دل میں ہے لب پر وہ سخن لا نہیں سکتی رکھ لوں تمہیں اماں کو بھی سمجھا نہیں سکتی بے کس ہوں مرا کوئی مددگارنہیں ہے تم ہو سو تمہیں طاقت گفتار نہیں ہے اس واقعے کا نہایت درد انگیز پہلو، صغری کا خود اصغر سے مخاطب ہونا اور جوش محبت میں چھے مہینے کے بچے سے اپنا درد دل کہنا تھا۔ مرزا صاحب صرف یہ کہہ کر رہ گئے، آ چھوٹے مسافر! تجھے چھاتی سے لگا لوں۔ میر صاحب نے پورا درد دل کہا اورکس مؤثر طریقے سے کہا۔ مرزا صاحب کا یہ مصرع، اصغر کی طرف ہاتھ اٹھا کر وہ پکاری دبیر صاحب کے اس مصرع کے جواب میں ہے، وہ کانپتے ہاتھوں کو اٹھا کر یہ پکاری۔ لیکن دونوں میں کوئی نسبت نہیں۔ میرصاحب کے ہاں ہاتھ کے ساتھ کانپنے کی قید نے کس قدر بلاغت پیدا کردی ہے۔ ذیل کے ان دونوں مصرعوں میں بھی زمین آسمان کا فرق ہے، آ آمرے ننھے سے مسافر! ترے واری آچھوٹے مسافر! تجھے چھاتی سے لگالوں ’’چھوٹا مسافر‘‘ مرزا صاحب کا ایجاد ہے۔ اعلیٰ و ادنی کا مقابلہ کچھ خار مغیلاں گل تر ہو نہیں جاتا قلعی سے کچھ آئینہ قمر ہو نہیں جاتا ہر قطرہ ناچیز گہر ہو نہیں جاتا مس پر جو ملمع ہو تو زر ہو نہیں جاتا جس پاس عصا ہو، اسے موسی نہیں کہتے ہر ہاتھ کو عاقل ید بیضا نہیں کہتے میر انیس کا یہ مشہور بند ہے۔ مرزا صاحب نے اس کے جواب میں بڑی کوشش کی، مختلف بحریں اختیارکیں۔ بہت سی نئی نئی تشبیہیں ڈھونڈھیں، لیکن وہ بات پیدا نہ ہوسکی۔ مرزا صاحب فرماتے ہیں، احکام یزید اور ہیں اور اپنے امور اور باطل کا نمود اورہے اورحق کا ظہور اور نمرود کی آگ اور ہے اور آتش طور اور زنبور کا غل اور ہے الحان زبور اور سمجھو توسہی تم کہ بشر کیا ہے ملک کیا بت کیا ہے، خدا کیا ہے، زمیں کیا ہے، فلک کیا ساماں سے کوئی صاحب ایماں نہیں ہوتا ہر اہل عصا موسی عمراں نہیں ہوتا پہنے جو انگوٹھی وہ سلیماں نہیں ہوتا آئینہ گر اسکندر دوراں نہیں ہوتا لاکھ اوج ہو پشے کا ہما ہو نہیں جاتا بت سجدہ کافر سے خدا ہو نہیں جاتا یہ تشبیہات کافی نہ ہوئیں توایک اورمرثیے میں بہت سی تشبیہیں جمع کیں، ہر سبز پوش خضر نہیں عز و جاہ میں سر سبز حیدری ہیں جناب الہ میں یوسف نہ ہوگا لاکھ گرے کوئی چاہ میں دن رات کا ہے فرق سفید و سیاہ میں کوئی یتیم فاطمہ سا خوش گہر نہیں ہر اک یتیم در یتیم اے عمر نہیں چاہے زرہ بنا کے جو داؤد کا وقار واللہ جعل ساز ہے کیا اس کا اعتبار ہربخیہ گر نہ ہو کبھی ادریس نام دار ہر ناخدا کو نوح کہے گا نہ ہوشیار کیا جاہلوں کے عیش کا سامان ہوگیا بیٹھا جو تخت پر وہ سلیمان ہوگیا حر کا واقعہ حر پہلے یزید کی طرف تھا، لیکن خدا نے ہدایت دی اور معرکہ جنگ شروع ہونے سے پہلے، وہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی فوج میں چلا آیا۔ اس کا آنا، معانی کا خواستگار ہونا، لڑنے کی اجازت طلب کرنا، زخمی ہو کر گرنا، امام علیہ السلام کا اس کے پاس جانا، اس کا انتقال کرنا، یہ واقعات اکثرمرثیوں میں دونوں نے لکھے ہیں، لیکن ایک مرثیے میں بحر اور قافیے تک مشترک ہیں۔ ان دونوں مرثیوں کے مقابلہ کرنے سے دونوں حریفوں کے مدارج کا پورا اندازہ ہو جاتا ہے۔ مرزا دبیر، کہہ کہ یہ گھوڑوں پہ غازی ہوئے دونوں سوار پہنچے نزدیک شہ دیں تو پکارا احرار اور چلے شاہ کی جانب کو بڑھا کر رہوار بخش دے جرم شہنشاہ نجف کے دل دار روئے الطاف کو ہم سے نہ پھرانا آقا! نہیں اس در کے سوا کوئی ٹھکانا آقا! میرانیس، ذکر یہ تھا کہ صدا دور سے آئی اک بار مجرم ایسا ہوں کہ عصیاں کا نہیں جس کے شمار الغیاث اے جگر و جان رسول مختار عفو کر عفو کر، اے چشمہ فیض غفار پار دریائے خطا سے مری کشتی ہو جائے دوزخی بھی ترے صدقے میں بہشتی ہو جائے مرزا دبیر، واسطہ احمد و زہرا و حسن کا اے شاہ! بخش دو، عفو کرو، بندہ عاصی کا گناہ نذر سر لایا ہوں مقبول ہو اے عرش پناہ اور بتاؤ مرے بیٹے کوبھی فردوس کی راہ حر عوض آپ کے مقتول جفا ہوئے گا اوراکبر پہ مرا لال فدا ہوئے گا میرانیس، کئی روزوں سے تلاطم میں ہوں اے شاہنشاہ! مدد اے نوح غریباں میرا بیڑا ہے تباہ دست و پا گم ہیں کچھ ایسے کہ نہیں سوجھتی راہ شور کرتا ہوں کہ بتلائے کوئی جائے پناہ ’’ابر رحمت کی طرف جا‘‘ یہ صدا دیتے ہیں سب ترے دامن دولت کا پتا دیتے ہیں مرزا دبیر، پیشوائی کو چلے حر کی شہنشاہ زمن ہاتھ کھولے پسر عقدہ کشا نے فوراً کانپ کر پائے مبارک پہ جھکا سر افگن سر اٹھا کر کیا سرور نے یہ بھائی سے سخن گو سر حرپہ ہے خالق کے کرم کا سایہ آن کر تم بھی کرو اس پہ علم کا سایہ انیس، استغاثہ یہ کیا حر نے جو بادیدہ نم جوش میں آ گیا اللہ کا دریائے کرم خود بڑھے ہاتھوں کو پھیلا کے شہنشاہ امم حر کو یہ ہاتف غیبی نے صدا دی اس دم شکر کر سبط رسول الثقلین آتے ہیں اے برادر! ترے لینے کو حسین آتے ہیں حر نے دیکھا کہ چلے آتے ہیں پیدل شبیر دوڑ کر چوم لیے پائے شہ عرش سر یر شہ نے چھاتی سے لگاکر کہا اے با توقیر میں نے بخشی مرے اللہ نے بخشی تقصیر میں رضامند ہوں کس واسطے مضطر ہے تو مجھ کو عباس دلاور کے برابر ہے تو دبیر، حر نے فرزند پیمبر سے یہ اس وقت کہا سایہ دامن رایت تو ہے ظل طوبا آپ کی بندہ نوازی پہ فدا اے آقا رخ کیا جب سے ادھر کا یہ ہے الطاف خدا مرحبا فاطمہ زہرا مجھے فرماتی ہیں سایہ چادر کا مرے سر پہ کیے آتی ہیں انیس، حر پکارا ’’بابی انت و امی‘‘ یا شاہ قابل عفو نہ تھے بندہ آثم کے گناہ مجھ سے گم راہ کو اک آن میں مل جائے یہ راہ! سب ہے صدقہ انہی قدموں کا خدا ہے آگاہ مہر ذرے پہ جوہو نیر تاباں ہو جائے آپ جس مور کو چاہیں وہ سلیماں ہو جائے دبیر، عرض کی پھر شہ والا سے بہ جوش رقت کرتے ہیں دشمن دیں جنگ پہ اس دم سبقت عفو تقصیر ہوئی اب ہو عنایت رخصت دیکھنے کی نہیں بندے میں ذرا اب طاقت گر رضا پائے تو سر اپنا کٹائے فدوی زخم شمشیر و سناں سینے پہ کھائے فدوی انیس، لائے اس عزت و حرمت سے جو مہماں کو امام بولے عباس کمر کھول اب اے نیک انجام شہ نے فرمایا، مناسب ہے کوئی دم آرام عرض کی حر نے کمر خلد میں کھولے گا غلام فاتحہ پڑھ کے یہ شمشیر و سپر باندھی ہے آج اس عزم پہ خادم نے کمر باندھی ہے ہے بہت شمر و عمر سے مجھے لڑنے کی امنگ ایک ہی وار میں دونوں کو کروں گا چورنگ لشکر شام سے پیہم چلےآتے ہیں خدنگ شاہ زادوں کی سپر ہوں کہ عبادت ہے یہ جنگ کہیں ایسا نہ ہو بچہ کوئی بے جاں ہو جائے پہلے یہ تازہ غلام آپ پہ قرباں ہوجائے دبیر، پسر حر کے معرف علی اکبر تھے کہ واہ! حر کو دیتے تھے صدا شاہ کہ سبحان اللہ! دونوں تسلیم کناں صرف وفا تھے ذی جاہ مژدہ گلشن جنت انہیں پہنچا ناگاہ دونوں یک مرتبہ بے زار ہوئے جینے سے نیزہ ظلم و ستم پار ہوئے سینے سے انیس، بڑھ کے فرماتے تھے عباس زہے عزت وجاہ! بارک اللہ کی دیتا تھا صدا دل برشاہ! کہتے تھے ابن حسن واہ حر غازی واہ! شاہ ہر ضرب پہ فرماتے تھے سبحان اللہ اپنی جاں بازی کا غازی جو صلہ پاتا تھا مسکراتا ہوا تسلیم کو جھک جاتا تھا دبیر، اس گھڑی فاطمہ کے لال سے حر نے یہ کہا آپ کے صدقے سے یہ رتبہ ہوا خادم کا شبیر حق میرے سرہانے ہیں کھڑے اے مولا! جام کوثر لیے کہتے بہ صد لطف وعطا لے اسے پی کہ بہت تشنہ دہن ہے اے حر! جلد آ دیکھ یہ جنت کا چمن ہے اے حر! ان سے میں عرض کرتا ہوں کہ اے شاہ زماں پسر فاطمہ پیاسا ہے مجھے پیاس کہاں صبح سے جھولے میں بے ہوش ہے اصغر ناداں تشنہ لب ہے کئی دن سے علی اکبر ساجواں پیاسا ہوں اس پہ بھی پانی نہ پیوں گا مولا! جام کوثر نہ بن آقا کے پیوں گا مولا! انیس، نیم وا چشم سے حر نے رخ مولا دیکھا زیر سر زانو ے شبیر کا تکیا دیکھا مسکرا کر طرف عالم بالا دیکھا شہ نے فرمایا کہ اے حر جری! کیا دیکھا عر ض کی حسن رخ حور نظر آتا ہے فرش سے عرش تلک نور نظر آتا ہے مجھ کو لینے چلے آتے ہیں فرشتے یا شاہ! ملک الموت بھی کرتا ہے محبت کی نگاہ خلد سے شیر خدا نکلے ہیں اللہ اللہ! لو برآمد ہوئے شبر بھی پدر کے ہم راہ ننگے سر احمد مختار کی پیاری آئی دیکھیے آپ کے نانا کی سواری آئی دبیر، مڑ کے عباس دلاور کو پکارے سرور روک لو تم کہ سکینہ چلی آتی ہے ادھر گئے عباس ادھر یاں ہوا برپا محشر حر بھی فرزند بھی حر کا ہوا گویا رو کر غش پہ غش تشنہ دہانی کے سبب آتے ہیں الفراق! اب چمن خلد کو ہم جاتے ہیں انیس، قبلہ رو کیجے لاشہ مرا اے قبلہ دیں پڑھیے یٰسین کہ اب ہے یہ دم باز پسیں کوچ نزدیک ہے اے بادشہ عرش نشیں لیجے تن سے نکلتی ہے مری جان حزیں بات بھی اب تو زباں سے نہیں کی جاتی ہے کچھ اڑھا دیجے مولا مجھے نیند آتی ہے کہہ کہ یہ گود میں شبیر کی لی انگرائی آیا ماتھے پہ عرق چہرے پہ زردی چھائی شہ نے فرمایا ہمیں چھوڑچلے کیوں بھائی! چل بسے حر جری، پھر نہ کچھ آواز آئی طائر روح نے پرواز کی طوبا کی طرف پتلیاں رہ گئیں پھر کرشہ والا کی طرف میر انیس کے اشعار میں بلاغت کی جو باریکیاں اور دقائق ہیں، ان سے ہم اس موقع پربحث نہیں کرتے، یہاں صرف یہ دکھانا ہے کہ حسن بندش سے کلام میں کس قدر صفائی، برجستگی اور زور پیدا ہو جاتا ہے۔ قیدخانے کے واقعات قیدخانے کا حال اور ہند کے آنے کا واقعہ دونوں نے لکھا ہے، اورایک بحر میں لکھا ہے۔ میر انیس کا مطلع ہے، جب قیدیوں کو خانہ زنداں میں شب ہوئی۔ اور مرزا صاحب کا مطلع ہے، جب قیدیوں کو راہ میں ماہ صفر ہوا۔ میرانیس نے تفصیلی حالات نہایت مؤثر پیرایے میں لکھے ہیں۔ مرزا صاحب کے ہاں صرف ۳۶ بند ہیں، لیکن بعض مضامین مشتر ک ہیں، وہ ملاحظہ ہوں، دبیر، راوی نے حال خانہ زنداں ہے یوں لکھا وحشت میں مثل قبر اور آفت میں کربلا آئی جو شب اسیروں کو صدمہ بڑا ہوا نہ فرش تھا نہ سایہ تھا نہ پانی نہ غذا شمعوں کی روشنی نہ چراغوں کی روشنی بس ماتم حسین کے داغوں کی روشنی انیس، کیجے شکستگی خرابہ کا کیا بیاں ثابت نہ جس میں سقف نہ در اور نہ سائباں وحشت کا گھر ہراس کی جا خوف کا مکاں وہ شب کہ الحذر وہ اندھیرا کہ الاماں! ظلمت سرائے گور تھی زنداں کا گھرنہ تھا حجرے یہ تنگ تھے کہ ہوا کا گزر نہ تھا دبیر، ناگاہ مشعلوں کی ہوئی روشنی نمود اورغل ہوا کہ ہند کا زنداں میں ہے ورود زینب کے دل پہ صدمہ سبھوں سے ہوا فزود غربت سے کانپنے لگی وہ خاصہ ودود سر زانوؤں کے بیچ میں شرما کے دھرلیا اوربیڑیوں کو خاک میں پوشیدہ کرلیا بچوں سے پھر یہ بولی وہ آفت کی مبتلا اب نام لیجیو نہ مرا تم پہ میں فدا ناگاہ آئی قیدیوں میں ہند با وفا زنجیر پہنے دیکھ کے عابد کو دی ندا بیداد اہل ظلم سے یا رب دہائی ہے! اس ناتواں کو آہ یہ بیڑی پنہائی ہے! انیس، نکلی محل سرا سے یہ کہہ کر وہ خوش سیر تھیں ساتھ ساتھ چند خواصیں بھی نوحہ گر پہنچی جناب حضرت زینب کو یہ خبر رنگ اڑ گیا یہ کہنے لگیں سر کو پیٹ کر اپنا نہیں خیال بزرگوں کا پاس ہے ہے ہے کہاں چھپوں وہ مری روشناس ہے ہے شرم کی جگہ کہ میں ہوں خواہر امام غمگین و سوگوار و پریشان و تشنہ کام ہم ہیں فقیر ہم میں امیروں کا کیا ہے کام لوگو بتا نہ دیجو کہیں اس کو میرا نام پوچھے جو وہ کسی سے کہ زینب کدھر گئی کہہ دیجیو کہ بھائی کے ہم راہ مرگئی دبیر، زینب کو بھی سکوت کا یارانہ پھر رہا بولی نہ ان سے پوچھ یہ زینب کا ماجرا کیا جانیے کہ بعد حسین اس پہ کیا ہوا قدموں پہ ہند گر پڑی پہچان کر صدا رو کر کہا قسم مجھے رب قدیر کی زینب تمہی ہو بیٹی جناب امیر کی انیس، یہ سن کے ہند رونے لگی تب بہ اشک و آہ پھر مڑ کے روے حضرت زینب پہ کی نگاہ منہ سے ہٹائے بال تو حالت ہوئی تباہ بے ساختہ کہا کہ زہے قدرت الہ! ہرگز غلط نہیں جو مجھے اشتباہ ہے زینب تمہیں ہو، خالق اکبر گواہ ہے میر انیس اور مرزا دبیر کے موازنہ میں عموماً میر انیس کی ترجیح ثابت ہوگی، لیکن ہر کلیے میں مستثنیٰ ہوتا ہے۔ بعض مو قعوں پر مرزا دبیر صاحب نے جس بلاغت سے مضمون کو ادا کیا ہے، میر انیس سے نہیں ہوسکا۔ چنانچہ ذیل کی مثال سے اس کی تصدیق ہوگی۔ حضرت علی اصغر کے لئے پانی مانگنا واقعات کربلا میں یہ واقعہ نہایت درد انگیز ہے کہ تمام اعزہ کی شہادت کے بعد حضرت امام حسین علیہ السلام اپنے شش ماہہ بچے (علی اصغر) کو دشمنوں کے سامنے لے جا کر اس بات کے ملتجی ہوئے کہ یہ بچہ پیاس سے مرتا ہے، اس کے گلے میں پانی کی ایک بوند ٹپکا دو۔اس واقعہ کو میر ضمیر سے لے کر آج تک نئے نئے مؤثر پیرایوں میں ادا کیا جاتا ہے۔ میر انیس صاحب نے مختلف مرثیوں میں یہ واقعہ لکھا ہے اور ہر جگہ نیا پہلو اختیار کیا ہے۔ ایک مرثیے میں جو سب سے بہتر ہے، فرماتے ہیں، بولے دکھا کے بچے کو شاہ فلک سریر مرتا ہے پیاس سے یہ مرا کودک صغیر پانی ملا ہے کل سے، نہ ممکن ہوا ہے شیر للہ اس غریب پہ کر رحم اے امیر! مہماں ہے کوئی آن کا ہونٹوں پہ جان ہے اس کا قصور کیا ہے یہ بے زبان ہے برپا ہے اہل بیت محمدؐ میں شور وشین در پر پھپھی بلکتی ہے ماں کر رہی بین آنکھیں پھرائے دیتا ہے اب تویہ نور عین لایا ہے اس عطش میں ترے پاس اب حسین تجھ کو قسم ہے روح رسالت مآب کی ٹپکا دے اس کے حلق میں اک بوند آب کی لیکن مرزا دبیر نے اس واقعے کے بیان میں جو بلاغت صرف کی ہے اور جو درد انگیز سماں دکھایا ہے، کسی سے آج تک نہ ہو سکا، فرماتے ہیں، دبیر،ہر اک قدم پہ سوچتے تھے سبط مصطفا لے تو چلا ہوں فوج عمر سے کہوں گا کیا نہ مانگنا ہی آتا ہے مجھ کو نہ التجا منت بھی گر کروں گا توکیا دیں گے وہ بھلا پانی کے واسطے نہ سنیں گے عدو مری پیاسے کی جان جائے گی اور آبرو مری پہنچے قریب فوج تو گھبرا کے رہ گئے چاہا کریں سوال پہ شرما کے رہ گئے غیرت سے رنگ فق ہوا تھرا کے رہ گئے چادر پسر کے چہرے سے سرکا کے رہ گئے آنکھیں جھکا کے بولے کہ یہ ہم کو لائے ہیں اصغرتمہارے پاس غرض لے کے آئے ہیں گر میں بہ قول عمر و شمر ہوں گناہگار یہ تو نہیں کسی کے بھی آگے قصور وار شش ماہہ بے زبان نبی زادہ شیرخوار ہفتم سے سب کے ساتھ پیاسا ہے بے قرار سن ہے جو کم تو پیاس کا صدمہ زیادہ ہے مظلوم خود ہے اور یہ مظلوم زادہ ہے یہ کون بے زباں ہے تمہیں کچھ خیال ہے درنجف ہے بانوے بے کس کا لال ہے لو مان لو تمہیں قسم ذوالجلال ہے یثرب کے شاہ زادے کا پہلا سوال ہے پوتا علی کا تم سے طلب گار آب ہے دے دو کہ اس میں نام وری ہے ثواب ہے پھر ہونٹ بے زبان کے چومے جھکا کے سر رو کر کہا، جو کہنا تھا وہ کہہ چکا پدر باقی رہی نہ بات کوئی اے مرے پسر سوکھی زبان تم بھی دکھا دو نکال کر پھیری زباں لبوں پہ جو اس نورعین نے تھرا کے آسمان کو دیکھا حسین نے اسلوب بیان کی بلاغت کو دیکھو، امام علیہ السلام اصغر کو لے کر پانی مانگنے کو نکلے تو سہی، لیکن غیرت کے اقتضا سے ہر قدم پر ٹھہر جاتے ہیں کہ سوال کیوں کر کروں، اور کروں بھی تو نتیجہ کیا ہوگا۔ پھر فوج کے قریب پہنچ کر سوال کرتے ہوئے شرمانا، تھرا کے رہ جانا اور سب سے بڑھ کر بچے کے چہرے سے چادر سرکا کے رہ جانا، کس قدر قیامت انگیز سماں ہے۔ پھر سوال بھی کرتے ہیں تو علی اصغر پررکھ کر، اصغر تمہارے پاس غرض لے کے آئے ہیں۔ واجب الرحم ہونے کی وجہیں کس قدر لاجواب ہیں اور سب ایک ہی مصرع میں ادا ہوگئی ہیں، یعنی شش ماہہ ہے، بے زبان ہے، نبی زادہ ہے، شیرخوار ہے۔ ان سب پر قیامت یہ کہہ کر جب سب کچھ کہہ چکے تو بچہ کی زبان حال سے بھی کہلوایا اور بچے نے کہہ بھی دیا۔ کیونکہ بچہ پیاس کی شدت سے لبوں پر زبان پھیرا کرتا تھا، اب بھی اس نے ایسا ہی کیا تو یہ زبان حال سے کہنا تھا۔ متحد المضمون اشعار اس قسم کے اشعاربعض تو بالکل ہم مضمون ہیں، بعض اس قسم کے ہیں کہ ایک نے ایک خیال کو ادا کیا تھا، دوسرے نے اس کو ترقی دینا چاہا۔ بعض ایسے ہیں کہ صرف اصل واقعہ مشترک ہے اور دونوں کی طرز ادا الگ الگ ہے۔ چنانچہ ہم ہرقسم کی متعدد مثالیں نقل کرتے ہیں۔ دبیر، مثل تنور گرم تھا پانی میں ہر حباب ہوتی تھیں سیخ موج پہ مرغابیاں کباب انیس، پانی تھا آگ گرمی روز حساب تھی ماہی جو سیخ موج تک آئی کباب تھی یہ مضمون دونوں کے ہاں مشترک ہے کہ گرمی کی شدت یہ تھی کہ موج، سیخ بن گئی تھی اور جب کوئی جانور اس کے پاس جاتا تھا تو جل کر کباب ہو جاتا تھا۔ بندش اور الفاظ کی نشست میں جو فرق ہے وہ خود ظاہر ہے۔ لیکن معنوی حیثیت سے بھی میر انیس کا شعر بڑھا ہوا ہے۔ میر انیس صاحب کے ہاں گرمی کا مبالغہ، جو شعر کی جان ہے، زیادہ پایا جاتا ہے۔ یعنی یہ کہ مچھلی سیخ موج تک آنے کے ساتھ فورا ًکباب ہوجاتی تھی۔ مرزا صاحب کے ہاں یہ بات نہیں پائی جاتی۔ وہ کہتے ہیں کہ موج کی سیخ پر مرغابیوں کا کباب لگایا جاتا تھا، اس سے فوراً کباب ہو جانے کا خیال نہیں پیدا ہوتا۔ دبیر، چاہوں توبیٹھے بیٹھے اک انگلی سے زین پر گردوں کی ڈھال چیر کے رکھ دوں زمین پر انیس، طاقت اگر دکھاؤں رسالت مآبؐ کی رکھ دوں زمیں پہ چیر کے ڈھال آفتاب کی مرزا صاحب کے شعر کا پہلا مصرع نہایت بد ترکیب ہے، اس کے علاوہ ایک انگلی سے چیرنا نہیں ہوتا بلکہ کھونچا دینا ہوتا ہے۔ ڈھال کی تشبیہ آفتاب سے بہ نسبت آسمان کے زیادہ موزوں ہے۔ دبیر، دہشت سے جواں بھاگتے تھے تیر کی مانند تھا نیزوں کو رعشہ قدم پیر کی مانند انیس، چلنے میں نیزے کانپتے تھے مثل پائے پیر میرصاحب کا مصرع زیادہ فصیح اور صاف ہے۔ ان الفاظ سے ’’کانپتے تھے‘‘ جو تصویر خیال میں کھنچ جاتی ہے، وہ رعشے کے لفظ سے پیدا نہیں ہوتی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ جب تک چلنے کی قید نہ مذکور ہو، پوری تشبیہ نہیں ہوتی۔ کیونکہ بوڑھے آدمی کے پاؤں چلنے ہی کی حالت میں کانپتے ہیں۔ اس کے ساتھ چونکہ چلنے کا اطلاق پاؤں اورنیزہ دونوں پر ہوتا ہے، اس لئے یہ لفظ اس موقع پر نہایت موزوں ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ کہ نیزہ چلانے کی حالت میں نیزے کو لچک ہوتی ہے، اس لئے اس کو کانپنے سے تعبیر کر سکتے ہیں اوراس لحاظ سے یہ کہنا کہ نیزہ چلنے کی حالت میں خوف سے کانپتا تھا، نہایت لطیف حسن التعلیل ہے۔ بہ خلاف اس کے مرزا صاحب نے چونکہ نیزے کی جنبش اور حرکت کا ذکرنہیں کیا، اس لئے رعشے کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا۔ دبیر، چلائے ہاتھ مل کے جلاجل کہ الاماں انیس، ہوگیا جوڑ کے ہاتھوں کو جلاجل خاموش۔ جلاجل کے دونوں حصے جو بجانے میں مل جاتے ہیں، اس کی تعبیر دونوں بزرگوں نے دوطرح پر کی ہے۔ مرزا صاحب کہتے ہیں کہ جلاجل چلا کر الامان کہتا تھا اور ہاتھ ملتا تھا۔ لیکن چلانے کو ہاتھ ملنے سے کوئی تعلق نہیں۔ اس لئے گو تشبیہ صحیح ہے لیکن ہاتھ ملنے کی کوئی توجیہہ نہیں ہوسکتی۔ میرصاحب کہتے ہیں کہ حضرت امام حسین کا رعب اس قدر غالب ہوا کہ جلاجل ہاتھ جوڑکے چپ ہوگیا۔ رعب اور خوف کی حالت میں ہاتھ جوڑنا اکثر ہوتا ہے اور چونکہ جلاجل کے دونوں حصے جب مل جاتے ہیں توپھرجب تک جدا نہ ہوں، آواز نہیں دے سکتے، اس لئے یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ وہ ہاتھ جوڑ کر چپ ہوگیا۔ دبیر، یوں جسم رعشہ دار سے جانیں ہوئیں رواں جیسے مکاں سے زلزلے میں صاحب مکاں انیس، یوں روح کے طائر تن و سر چھوڑ کے بھاگے جیسے کوئی بھونچال میں گھر چھوڑ کے بھاگے اصل مضمون یہ ہے کہ روحیں جسم سے اس طرح بھاگ گئیں جس طرح بھونچال میں کوئی گھر چھوڑ کے بھاگ جاتا ہے۔ لیکن بندش کی صفائی اور برجستگی نے میر انیس صاحب کے مضمون کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔ اس کے علاوہ صاحب مکاں کی تخصیص بالکل بے کار ہے۔ زلزلہ جب آتا ہے تو صاحب مکاں کی کوئی تخصیص نہیں، ہر شخص مکان چھوڑ کے بھاگ جاتا ہے۔ جسم رعشہ دار کی ترکیب نامانوس ہے اور اس قید سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ صرف ان لوگوں کی روحیں نکلیں جن کے جسم رعشہ دار تھے۔ میر صاحب کا پہلا مصرع بھی کچھ اچھا نہیں، سرکار لفظ بالکل حشو بلکہ موقع کے لحاظ سے غلط ہے، روح سر میں نہیں رہتی اور نہ سر سے اس کو کوئی خصوصیت ہے۔ دبیر، وہ رخش پہ یا دیو تھا سوار پری پر غل رن میں اٹھا کوہ چڑھا کبک دری پر کس قدر بے ہودہ تشبیہ ہے۔ دشمن کو کوہ اور گھوڑے کو کبک دری کہنا، مضائقہ نہیں، لیکن کوہ کا کبک دری پرچڑھنا کس قدر مہمل ہے۔ میر انیس صاحب نے بھی یہی مضمون یعنی دشمن کا گھوڑے پر سوار ہونا متعدد موقعوں پر باندھا ہے اور کس خوبی سے باندھا ہے، ع، گھوڑے پہ تھا شقی کہ پہاڑی پہ دیو تھا ع، گھوڑے پہ تھا شقی کہ ہوا پر پہاڑ تھا دبیر، رن میں جو گھرا ابر غلیظ اہل سقر کا بجلی سا کڑکنے لگا کڑکیت عمر کا (ایضاً) گرد عباس کے کثرت تھی ستم گاروں کی منہ تو تیروں کا تھا اور برق تھی تلواروں کی پہلے شعر کا یہ مطلب ہے کہ دشمن جواہل سقر تھے ان کی صفوں کا دل ابر غلیظ تھا، اوراس ابر میں کڑکیت کا کڑکنا،بجلی کا کام دیتا تھا۔ دوسرے شعر کا مطلب ظاہر ہے۔ اسی مضمون کو میر انیس صاحب نے باندھا ہے، اک گھٹا چھا گئی ڈھالوں سے ستم گاروں کی برق ہرصف میں چمکنے لگی تلواروں کی مرزا صاحب کا پہلا شعر تو بالکل بھدا اور بدترکیب ہے۔ دوسرا ذرا صاف ہے لیکن میر انیس صاحب کے شعر سے اس کو بھی کچھ نسبت نہیں ہے۔ صفائی اور برجستگی کے علاوہ ’’چمکنے لگی‘‘ کے جملہ فعلیہ نے جو حالت پیدا کی وہ ’’برق تھی‘‘ سے کہاں پیدا ہو سکتی ہے۔ انیس، عالم ہے کہ مکدر، کوئی دل صاف نہیں ہے اس عہد میں سب کچھ ہے پر انصاف نہیں ہے دبیر، دل صاف ہو کس طرح کہ انصاف نہیں ہے انصاف ہو کس طرح کہ دل صاف نہیں ہے انصاف سے دیکھو، مرزا صاحب نے، میر صاحب ہی کے لفظوں کو الٹ پلٹ کیا ہے، لیکن کس بری طرح سے کہ محض لفظی گورکھ دھندہ رہ گیا ہے۔ دبیر، کس نے نہ دی انگوٹھی رکوع و سجود میں انیس، سائل کو کس نے دی ہے انگوٹھی نماز میں دونوں مصرعوں کی شستگی، برجستگی اور صفائی میں جو فرق ہے وہ ایک بچہ بھی سمجھ سکتا ہے۔ دبیر، کس آب و تاب سے یہ سر فوج پر گئی پانی کا گھونٹ بن کے گلے سے اتر گئی انیس، سب نشہ غرور جوانی اتر گیا تلوار تھی کہ حلق سے پانی اتر گیا ان دونوں شعروں کا فرق بھی ظاہر ہے۔ دبیر، یوں متصل رسن سے بندھے تھے وہ دل فگار رشتے میں جیسے دانہ تسبیح آب دار اہل حرم جو ایک ہی رسی میں قید کیے گئے ان کو تسبیح کے دانے اور رشتہ تسبیح سے تشبیہ دی ہے اوریہ تشبیہ بجائے خود بری نہیں لیکن میرصاحب کی تشبیہ دیکھو، گردنیں بارہ اسیروں کی ہیں اور ایک رسن جس طرح رشتہ گل دستہ میں گل ہائے چمن تشبیہ کی لطافت اور نزاکت کے علاوہ اصل تشبیہ میں کس قدر فرق ہے، وہ ظاہر ہے۔ اس کے علاوہ مرزا صاحب کے ہاں ’’آبدار‘‘ کا لفظ محض بے کار ہے۔ دبیر، بے جرم معرکے میں وہ خارا شگاف تھی لشکر کا خوں کیا تھا مگر پاک صاف تھی مرزا صاحب نے اس مضمون کو نہایت خوبی اور صفائی سے ادا کیا ہے۔ میر انیس صاحب نے اس مضمون کو کئی طرح سے پلٹا، لیکن انصاف یہ ہے کہ وہ بات نصیب نہ ہوئی، میر صاحب کہتے ہیں، انیس، اب سب کے بعدمنہ کو جو دیکھا تو صاف تھا۔ ایضاً، جو چاہے دیکھ لے مرا منہ پاک صاف ہے انیس، دم میں نہ وہ غرور، نہ وہ خود سری رہی مجرم وہی رہا، یہ خطا سے بری رہی مرزا دبیر، روکش خدا کی فوج سے چھوٹے بڑے ہوئے سجادے سے امام زمن اٹھ کھڑے ہوئے میر انیس، تیار جان دینے پہ چھوٹے بڑے ہوئے تلواریں ٹیک ٹیک کے سب اٹھ کھڑے ہوئے دبیر، روشن پدر کا زور ہے دنیا و دین پر ششدر تھے جبرئیل کٹے جب کہ تین پر انیس، خیبرمیں کیا گزر گئی روح الامین پر کاٹے ہیں کس کی تیغ دو پیکر نے تین پر دبیر، بندھتی تھی اور کھلتی تھی مٹھی حباب کی انیس، کھلتی تھیں اور جھپکتی تھیں آنکھیں حباب کیحاشیہ (۱) اس کے مقابلے میں میر انیس کی صبح دیکھو۔


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.