مینار سکوت

مینار سکوت
by یوسف ظفر
330924مینار سکوتیوسف ظفر

وقت کو صحرا کہوں یا بحر بے ساحل کہوں
رات ہے ریگ رواں کی لہر یا کہ موج آب زندگی
تارے جگنو ہیں کہ موتی پھول ہیں یا سیپیاں
کہکشاں ہے دھول تاروں کی کہ موج پر خروش و در فشاں

سوچ کی چنگاریاں اڑتی ہیں یوں
جیسے دل پر چوٹ پڑتی ہو کسی احساس کی
جیسے میں تنہا نہیں
وقت کے صحرا میں جیسے ان گنت سائے ابھر کر میری جانب
دوڑتے آتے ہوں

سائے
بیتی صدیاں جیسے پر پھیلائے اٹھیں گول گول
اپنی لاشیں چھوڑ کر میری طرف آئیں
کہ جیسے نوچ کھائیں گی مجھے
اور پھر مردہ لاشیں یک بیک وحشی بگولوں کی طرح
رقص کرتی چار سو
ڈھول تاشوں اور نقاروں کی ہیبت ناک آوازوں پہ رقص
کھڑکھڑاتی ہڈیاں خود شعلے بن کر ناچتی ہیں چار سو
اور اک زرتشت سجدہ ریز ہو کر
ان کی ہیبت ان کی عظمت ان کی بے رحمی کو کرتا ہو سلام
اور وہ
اس کو اپنی گل فشاں آغوش میں لے کر اٹھیں
جیسے ماں
اپنے بچے کو اٹھائے
اور میں
وقت کے بے رحم ہاتھوں میں ہوں جیسے گدھ کے چنگل میں کوئی زندہ پرند
بیتی صدیاں شب کے سناٹے میں شب خوں مار کر
اس طرح یلغار کرتی ہیں کہ جیسے میں نہتا ہوں
مرے ترکش کے تیر
میرے ہی سینے میں ہیں پیوست
میں زندہ نہیں
زندہ نہیں

دیکھ اے چشم خیال
سار کے تاروں پہ اٹھلاتی ہوئی وہ جوئے نغمہ بوئے گل
وہ عروس آرزو وہ چاندنی کے پیرہن میں حسن رقصاں موج مے
وہ بہاروں کا تبسم وہ جوانی کا غرور
تتلیوں کی خامشی گنگناتی راگنی
آ رہی ہے میری جانب ہاتھ پھیلائے ہوئے
حسن جس کے لوچ سے ہے سنگ مرمر میں گداز
حسن جس کے روپ سے آہن ہوا آئینہ ساز
حسن انگڑائی میں جس کی سیکڑوں قوموں کا راز
حسن جس کے ابروؤں کا جلوہ محراب نماز
حسن جس کا رس بھرا سینہ ہزاروں گنبدوں پر سرفراز
کیا ہوا وہ حسن وہ دوشیزہ وہ میرے
خیالوں کی دلہن
کھو گئی اپنی نمو کے پردۂ رنگیں کے پیچھے کھو گئی
وقت کے صحرا میں ایوانوں کی عظمت سنگ سازوں کی تراش
حجلۂ سیمیں کی رعنائی کا افسوں ہو گئی
حسن پتھر بن گیا فن کی رگوں کا گرم خوں
مردہ صدیوں کے شبستانوں میں اپنی آرزو سے جی اٹھا
اور سورج کی طرح روشن ہوا

دن ڈھلے تک میری آنکھوں میں رہا بیتی ہوئی صدیوں کا نور
میرا سرمایہ تھا سورج کی محبت کا فسوں
میرے ہونٹوں پر ترانے تھے کہ میرے ذہن میں
گیت بن بن کر ابھرتا تھا فضاؤں کا سکوت
یادیں پھولوں کی طرح
دل کے ہر گوشے کو مہکاتی تھیں اور میرے خیال
شام تک
آج کی شب کی تمنا میں رہے
نیم شب کی سرد تاریکی میں یہ ماضی کے بھوت
ناچتے ہیں ہر طرف
جیسے یہ اک اور دنیا سے در آتے ہیں یہاں
جیسے میں ان دشمنوں میں گھر گیا ہوں جن کی بھوک
میرے خوں سے بجھ گئی تو بجھ گئی

خشک ہیں لب دم نکلتا جا ہے دم بدم
بے حسی چھائے چلی جاتی ہے اب میں کیا کروں
کیا کروں
وقت کے صحرا کا اک ذرہ ہوں میں
بیتی صدیوں نے جسے پالا مگر
آج میں ہوں ان کی آنکھوں وہ خار
جس کو اس صحرا پہ کوئی حق نہیں
کاش وقت
وسعت صحرا میں لائے بحر جولاں کا خروش
اور میں اپنے ماضی کی مراد
ٹوٹ کر اک اور ہی صحرا کا ماضی بن سکوں


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.