مینا بازار/آٹھواں باب: بندگی بیچارگی


آٹھواں باب

بندگی بیچارگی


جہاں پناہ اس نازنین کی دکان سے نکل کے تشریف لے گئے تو اس کی عجیب حالت تھی۔ ہوش و حواس بجا نہ تھے۔ دم بخود تھی اور فکروں کے دریا میں غوطے کھا رہی تھی۔ آخر اُٹھ کے خلوت کے کمرے میں جا کے اپنی اس عزیز خاتون کو بلایا جو اس کی بچپن کی سہیلی اور ہم دم و ہم راز تھی۔ وہ جیسے ہی پاس آ کے بیٹھی، کہا: “شوکت آرا! بڑا غضب ہوا۔ جہاں پناہ چلتے وقت اپنے یہاں دعوت دے گئے ہیں۔ رعب شاہی سے میں انکار نہ کر سکی اور آنے کا اقرار کر لیا۔ اب تھوڑی ہی دیر میں مجھے لے جانے کو فنس آتی ہوگی”۔

شوکت آرا (ہنس کر): تو پھر فکر کس بات کی؟ جاؤ، مزے کرو۔ ہمیں نہ بھول جانا۔ میں پہلے ہی کہا کرتی تھی کہ تمھارا حُسن شاہی محلوں کے قابل ہے۔ خدا نے میری وہ تمنا پوری کر دی۔

نازنین: یہ بنانے اور چٹکیوں میں اُڑانے کی بات نہیں ہے۔ میں پوچھتی ہوں کہ میرا حشر کیا ہوگا؟ بادشاہ کے یہاں نہ جاؤں مجال نہیں۔ چھپنے والی بات ہے نہیں کہ گھر میں خبر نہ ہو۔ آج ہی سارے بازار میں مشہور ہو جائے گا۔ اُدھر میرے میاں اس مزاج کے آدمی ہیں کہ میرے یہاں آنے کے بھی روادار نہ تھے۔ کچھ بادشاہ کے حکم سے کچھ اپنی ماں بہنوں کے اصرار سے اس کو جبراً منظور کر لیا اور اس میں بھی یہ شرط لگا دی کہ تم میرے ساتھ رہو اور ہر وقت دیکھتی رہو کہ میں کسی سے بات اور اشارے تو نہیں کرتی۔ اب میرے محل میں جانے کا حال سنیں نے تو کیا ہوگا؟ سپاہی آدمی ہیں۔ دربار کے بڑے معزز امیروں میں شمار کیے جاتے ہیں اور عزت و ناموس کا اس قدر خیال ہے کہ میری ناک کاٹ لیں، چوٹی کاٹ لیں، مار ڈالیں جو نہ کر گذریں تعجب ہے۔

یہ نازنین دربار شاہجہانی کے پنج ہزاری منصب دار اور نامی رسالدار جمال خان کی بیوی تھی۔ اصلی نام گلرخ بیگم تھا۔ ایک معزز دولت مند گھرانے کی بیٹی تھی اور جمال خان اس کی صورت کا ایسا عاشق زار تھا کہ جس دن بیاہ کے آئی اسی روز اس کا نام “جمال آرا” قرار دے دیا۔ اس فریفتگی کے ساتھ غیرت و حسد اس درجہ بڑھا ہوا تھا کہ بیوی کو کسی امیر کے یہاں نہ جانے دیتا۔ مینا بازار کے آنے کے بھی خلاف تھا۔ مگر نواب سعد اللہ خان وزیر سلطنت نے باہر اور خود اس کی ماں نے اندر سمجھایا کہ یہ بالکل نامناسب ہے۔ بادشاہ سے پردہ ہی کیا اور پھر وہاں تو چہروں پر نقاب ڈالنے کی عام اجازت ہے۔ اس اجازت پر بھی تم نے بیوی کو مینا بازار میں نہ بھیجا تو نواب ممتاز الزمانی بیگم کو ملال ہوگا اور پھر حضرت جہاں پناہ کے دل میں بھی میل آ جائے گا”۔ وزیر سلطنت کے کہنے کا تو اُس پر کچھ اثر نہ ہوا مگر ماں کے کہنے سے مان گیا، اور بیوی کو چلتے چلاتے تاکید کر دی کہ تم بغیر نقاب کے بادشاہ کا سامنا نہ کرنا۔ مگر یہاں آنے پر تمام امیروں کی بیویوں نے جو بازار میں موجود تھیں اور خود اس کی چچیری بہن شوکت آرا نے اسے مجبور کیا کہ بادشاہ سے پردہ نہ کرنا چاہیے اور جب ساری عورتوں میں اکیلی تم ہی نقاب دار ہوگی تو بادشاہ خواہ مخواہ نقاب اُلٹوانے کا حکم دیں گے۔ رہا میاں کا حکم تو ان سے کہنے کون جائے گا۔ غرض سب کے کہنے سے غریب گلرخ بادشاہ سے بے نقاب ملی اور اب محل میں حاضر ہونے کا حکم ہوا تو حواس جاتے رہے۔

شوکت آرا اُس کی گفتگو سُن کر دیر تک کچھ جواب نہ دے سکی۔ پھر بولی: “ہے تو حقیقت میں بڑے غضب کی بات، مگر اب اس کا علاج ہی کیا ہو سکتا ہے؟ تمھیں جانا ضرور پڑے گا اور اب اتنا وقت نہیں ہے کہ نواب جمال خان کو خبر کی جائے”۔

گلرخ بیگم: پھر میں تو کہیں کی نہ رہی؟ اگر جھوٹوں بھی سُن لیا کہ میں محل میں گئی تھی تو بے جان لیے نہ رہیں گے۔

شوکت آرا: مگر اس میں تمھارا قصور ہی کیا ہے؟

گلرخ بیگم: یہ قصور نہیں ہے کہ بے نقاب بادشاہ کے سامنے ہو گئی؟ تم ہی نے مجھے خراب کیا۔

شوکت آرا: جب تک انھیں خبر ہو، تم محل میں پہنچ چکو گی۔ میرے نزدیک تو جس طرح انُ کی بغیر اجازت کے بادشاہ کا سامنا کیا، محل میں بھی چلی جاؤ اور جہاں تک بنے بہت جلد واپس چلی آنا۔ اگر نواب جمال خان کو خبر ہو گئی تو اپنی مجبوری کو ظاہر کر دینا اور نہ خبر ہوئی تو جانو کہ بلا ٹل گئی۔

یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ ایک شاہی محل دار فنس لے کے آ گئی اور تقاضا کرنےلگی کہ جلدی سوار ہو۔ جہاں پناہ محل میں پہنچتے ہی تم کو پوچھیں گے اور موجود نہ ہوئیں تو ہم سب پر قیامت آ جائے گی۔

اب گلرخ بیگم عرف جمال آرا کے اور ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ شوکت آرا کو پشت کے کمرے میں لے جا کے کہا: “میں تو قیدیوں کی طرح جاتی ہوں۔ مگر تم اتنا کرو کہ اسی وقت گھر میں آدمی بھیج کے انھیں خبر کر دو۔ یہ چھپنے والی بات نہیں ہے، صبح تک سارے شہر میں مشہور ہو جائے گا اور انھیں دوسروں سے معلوم ہوگا تو میرے لیے عذر خواہی اور مجبوری ظاہر کرنے کی بھی گنجائش نہ رہے گی۔ میری اچھی بہن! اس میں دیر نہ لگانا۔ اگر ذرا بھی دیر ہوئی تو میں جانوں گی کہ تم بہن نہیں، میری دشمن ہو”۔ اتنا کہا اور بغیر جواب کا انتظار کیے دوڑ کے فنس میں سوار ہو گئی۔

جہاں پناہ جو محل میں پہنچے تو فوراً نواب ممتاز الزمانی بیگم کو بُلوا کے پاس بٹھایا پھر سب کو ہٹا دیا اور کہا: “آج میں نے ایک ایسی حرکت کی کہ تم سے معافی مانگنے کی ضرورت ہے”۔

تاج محل: وہ کیا؟ حضرت ارشاد تو فرمائیں اور مجھ سے معافی مانگنے کی ضرورت نہیں کیونکہ جو حضرت کی مرضی اور خوشی ہو وہی میری ہے۔

جہاں پناہ: آج مینا بازار میں ایک ایسی پری جمال ماہ وَش نظر سے گذری کہ بے اختیار دل ہاتھ سے جاتا رہا۔ میں نے اپنی طبیعت کو بہت روکنا چاہا مگر دل قابو سے باہر تھا۔ حیرت و فریفتگی سے اُس کا رخ زیبا دیکھا اور باتیں کرنے لگا۔ اس کے بعد جہاں پناہ نے وہ تمام باتیں بیان کیں جو اس نازنین سے ہوئی تھیں اور جو جو واقعات پیش آئے تھے سب بلا کم و کاست ظاہر کر دیے۔ پھر آخر میں جب یہ بیان کیا کہ “میں اُسے اسی وقت رات کو اپنے ساتھ دسترخوان پر کھانا کھانے کے لیے بُلا آیا ہوں” تو نواب ممتاز محل حیران رہ گئیں اور گھبرا کے پوچھا: “اور حضرت نے یہ بھی دریافت کر لیا کہ وہ کون ہے؟ کس خاندان کی ہے؟ کسی کی جورو ہے یا بیٹی ہے؟”

جہاں پناہ: وفور شوق میں اس کے پوچھنے کی نوبت ہی نہیں آئی۔ اُس کی دکان سے نکلا تو اُس کی خیالی تصویر اس طرح آنکھوں کے سامنے پھرتی اور اپنے کرشموں میں لبھا رہی تھی کہ راہ میں مجھے کسی اور سے بھی دریافت کرنے کا موقع نہ ملا۔

تاج محل: لیکن حضرت نے یہ بڑی بے احتیاطی کی، خدا جانے وہ کون ہے؟ اگر کسی کی جورو ہوئی تو بڑے غضب کی بات ہوگی۔ ممکن ہے کہ اس کا شوہر غیرت کے جوش میں خودکشی کر لے یا اور کوئی ایسی حرکت کر گذرے جس میں بدنامی ہو۔

جہاں پناہ: مگر میں نے اسے کسی بُرے ارادے سے نہیں بلایا ہے۔ دعوت کے بہانے فقط اتنا چاہتا ہوں کہ دو گھڑی اُس سے اطمینان کے ساتھ باتیں کروں۔ کیا کسی کی دعوت کرنا بھی گناہ ہے؟

تاج محل: کسی غیر کی جورو کو دعوت میں اپنے یہاں بلا لینا حضرت کے نزدیک چاہے معمولی بات ہو مگر اُس کے شوہر کے لیے تو ڈوب مرنے کا مقام ہے۔

جہاں پناہ: تمھارے لیے کوئی بد گمانی کا محل نہیں ہے۔ تمھارے اطمینان ہی کے واسطے میں نے اس کو یہیں بلوایا ہے تاکہ پہلے تم اس سے ملو اور اپنے ساتھ میرے پاس لے آؤ۔ اس میں یہ بھی مصلحت ہے کہ جب وہ ہر وقت تمھارے پاس رہے گی اور بغیر تمھاری موجودگی کے میں اُس سے نہ ملوں گا تو جس تمھیں بد گمان ہونے کا حق نہیں ہے، اُسی طرح اُس کے شوہر کو بھی کسی طرح کی بد گمانی نہ کرنی چاہیے۔

تاج محل: مجھے تو کسی حال میں بد گمانی نہ ہوگی چاہے حضور میرے سامنے ملیں یا اکیلے میں، مگر اس کے شوہر کو اطمینان ہو یہ مشکل ہے۔ اُس کی رسوائی کے لیے تو اتنا ہی کافی ہے کہ اس کی جورو حضور کے محل میں آئی۔

جہاں پناہ: تمام وزیروں اور امیروں کی بیویاں برابر یہاں آتی اور مجھ سے ملتی ہیں۔ کسی کی بے حرمتی نہیں ہوتی۔ صرف اُسی شخص کی عزت جاتی رہے گی؟

اتنے میں محل دار نے آ کے اطلاع کی کہ جن بیوی کو حضرت نے مہمان بلایا ہے وہ آ گئیں۔ سنتے ہی جہاں پناہ نے نواب ممتاز الزمانی بیگم سے فرمایا: “تم پہلے اپنے سامنے بلا کے اس عورت سے ملو۔ اس کو بھی دریافت کر لو کہ کون ہے اور کس درجے کی ہے اور گو کہ شوق کے ہاتھوں بے تاب ہو کر اُسے محل میں بُلوا لیا، لیکن تم کو اختیار دیتا ہوں کہ چاہو مجھ سے ملاؤ یا نہ ملاؤ”۔

تاج محل: جو چیز حضرت کے شوق کی ہو اس کو پورا کرنا میرا فرض ہے۔ میں جاتی ہوں، اُس سے سب باتیں پوچھ کر لے آؤں گی اور لا کے حضرت کے پاس دسترخوان پر بٹھا دوں گی۔ جہاں پناہ نے جو وعدہ کر کے بلایا ہے اس کو ضرور پورا ہونا چاہیے۔

یہ کہہ کے نواب ممتاز الزمانی بیگم اُٹھ کے اپنے خاص دیوان خانے میں گئیں اور محل دار کو حکم دیا کہ اُسے لے آئے۔ سامنے آتے ہی جمال آرا گلرخ بیگم آداب بجا لائی اور ملکہ ٔ جہان نے بلا کے اپنے قریب بٹھا لیا اور باتیں کرنے لگیں۔ مگر دیکھا کہ وہ نہایت خوف زدہ اور سہمی ہوئی سی ہے۔ پوچھا: تم گھبراتی کیوں ہو؟ جہاں پناہ کو تمھاری باتیں اچھی معلوم ہوئیں، اس لیے بلا لیا۔ اس میں کوئی اندیشے کی بات نہیں ہے۔

گلرخ بیگم: حضرت ظل سبحانی کی عنایت و مرحمت سے مجھے کسی بات کا اندیشہ نہیں ہے۔ مگر اپنے شوہر سے ڈرتی ہوں جن کی اجازت کے بغیر یہاں چلی آئی۔

تاج محل: کیا تمھارے شوہر تمھارے یہاں آنے کو پسند نہیں کرتے؟

گلرخ بیگم: کیا جانوں کہ وہ اس کو پسند کریں گے یا نہیں؟ مگر ہیں بڑے بد گمان اور وہمی طبیعت کے آدمی۔ میں تو سمجھتی ہوں کہ حضور تک رسائی ہونے اور حضرت شہنشاہ کی خدمت میں باریاب ہونے سے میری عزت ہو گئی اور سر افتخار آسمان پر پہنچ گیا۔ مگر نہیں جانتی کہ وہ کیاخیال کریں گے، خاص کر جب کہ میں نے آج تک کبھی کوئی کام بغیر اُن سے پوچھے اور اُن کی مرضی لیے نہیں کیا ہے۔

تاج محل: اُن کا نام تو بتاؤ۔ شاید میں جانتی ہوں۔

گلرخ بیگم: حضور ہی کے غلاموں میں ہیں، ملکۂ جہاں نے ضرور اُن کا نام سنا ہوگا۔ (پھر شرما کے اور آنکھیں نیچی کر کے کہا) دربار کے اعلیٰ منصب داروں میں ایک پنج ہزاری امیر ہیں جمال خان جو رسالداری کے عہدے پر بھی سرفراز ہیں۔ 

تاج محل: ہاں جانتی ہوں۔ تم گھبراؤ نہیں۔ میں اُن کے پاس کہلا بھیجوں گی کہ مینا بازار میں تم سے خوش ہو کر جہاں پناہ نے تمھیں دو گھڑی باتیں کرنے کے لیے محل میں بلا لیا اور اپنے ساتھ خاصے پر بٹھا کے تمھیں اور تمھاری بیوی کو سرفراز کیا۔

گلرخ بیگم: جو حضور کی مرضی ہو۔ خدا کرے اس سے اُن کا اطمینان ہو جائے اور اب تو جو ہونا ہے ہوئے ہی گا۔

تاج محل: اس کی فکر نہ کرو، جو کچھ ہوگا بہتر ہوگا اور جمال خان کی اتنی مجال نہیں کہ جہاں پناہ کے پاس آنے پر تمھیں الزام دیں۔ اگر یہ باتیں انھیں گوارا نہ تھیں تو مینا بازار میں کیوں بھیجا تھا؟ اور تمھارا نام کیا ہے؟

گلرخ بیگم: میرا گھر کا نام تو گلرخ ہے مگر سسرال میں جمال آرا کے لقب سے مشہور ہوں۔

تاج محل: معلوم ہوتا ہے تمھارے میاں کو تم سے بڑی محبت ہے۔ اس محبت ہی کی وجہ سے انھوں نے اپنا اور تمھارا نام ایک ہی کر لیا۔

گلرخ بیگم: تھا تو ایسا ہی۔ مگر اب دیکھیے کیاہوتا ہے؟

تاج محل: کچھ نہ ہوگا اور جیسی محبت تم میں آج تک رہی بعد بھی رہے گی۔ خیر اب چل کے حضرت جہاں پناہ کے پاس بیٹھو۔

یہ کہتے ہی نواب تاج محل گلرخ بیگم کو ساتھ لے کے جہاں پناہ کے پاس تشریف لے گئیں اور گلرخ بیگم کو پیش کیا، جو سامنا ہوتے ہی نقیبہ کی صدائے تادیب سُن کر بہت جھک کے آداب بجا لائی۔ اور جہاں پناہ نے فرمایا: “تم آ گئیں؟ میں منتظر تھا۔ آؤ بیٹھو” کہہ کے اپنے قریب بٹھا لیا اور نواب تاج محل نے کہا: “یہ آپ کے پنج ہزاری منصب دار اور بہادر سپہ سالار جمال خان کی بیوی گلرخ بیگم ہیں مگر ان کے میاں ان کو جمال آرا کے لقب سے یاد کرتےہیں”۔

جہاں پناہ: جمال خان کی بیوی ہیں! اُن کا اصلی نام یوسف خان تھا، میں نے جمال خان کا خطاب دیا۔

تاج محل: اور انھوں نے اپنے ساتھ ان کو جمال آرا بنا کے حضرت کی سرفرازی میں شریک کر لیا۔

جہاں پناہ: اور یہ ہر طرح اس خطاب کی اہل تھیں۔ ان کے میاں بھی بڑے خوبصورت آدمی ہیں۔ دربار کے امرا میں کوئی اتنا خوش رُو اور وجیہ نہیں ہے اور یہی دیکھ کر میں نے انھیں جمال خان کا خطاب دیا۔ مگر یہ اب معلوم ہوا کہ جیسے خوبصورت وہ ہیں ویسی ہی پری جمال بیوی بھی انھیں مل گئی۔

اب نواب ممتاز الزمانی بیگم نے یہ خیال کر کے کہ جب تک میں یہاں ہوں، جہاں پناہ اس حور وَش خاتون کے ساتھ آزادی اور بے تکلفی سے باتیں نہ کر سکیں گے، اُٹھ جانے کا ارادہ کیا۔ یہ دیکھ کر بادشاہ نے روکا اور کہا: “بیگم کہاں چلیں؟ تم سے مجھ سے اقرار ہے کہ ان سے جو کچھ باتیں کروں گا تمھارے سامنے کروں گا”۔

تاج محل: ابھی آئی، ایک ضروری کام کو جاتی ہوں۔

یہ کہہ کے نواب تاج محل اٹھ کے چلی گئیں اور جہاں پناہ نے گلرخ بیگم کی طرف متوجہ ہو کر کہا: “مجھے تمھارا انتظار تھا اور تمھارے آنے سے بڑی خوشی ہوئی۔ آج مینا بازار میں تمھاری باتوں اور اداؤں نے میرے دل پر کچھ ایسا اثر کیا کہ بغیر تمھارے کھانے میں مزہ نہ آتا”۔

گلرخ بیگم: حضرت کی عنایت و شفقت کا شکریہ ادا ہونا غیر ممکن ہے اور لونڈی کی یہ بڑی خوش نصیبی ہے۔ مگر لونڈی کی قسمت اس کے قابل نہیں ہے۔

جہاں پناہ: تم تو بڑی خوش نصیب ہو۔ اس حُسن و جمال پر خدا کا شکر کرو جس کی بدولت تم سے زیادہ خوش نصیب دنیا بھر میں کوئی نہیں ہے۔

گلرخ بیگم: اور اس آستان دولت تک باریاب ہونا اس سے بھی بڑی خوش نصیبی ہوتی مگر۔۔۔۔۔

مگر کہہ کے چپ ہو گئی اور چہرے پر حسرت برسنے لگی۔ جہاں پناہ پہلے ہی دل میں کہہ رہے تھے کہ یہاں اس نازنین میں وہ شوخ ادائی نہیں ہے جو مینا بازار میں دیکھتی تھی اور اب جو اُس کا حسرت بھرا چہرہ دیکھا تو فرمایا: “شاید تمھیں اندیشہ ہے کہ جمال خان کو تمھارا یہاں چلا آنا ناگوار ہوگا۔ ایسا نہیں ہو سکتا۔ اس کی اتنی مجال نہیں کہ میرے ساتھ کھانا کھانے پر ناراض ہو۔ میں نے تم کو کسی بُری نیت سے نہیں بلایا ہے۔ فقط اتنا چاہتا ہوں کہ دو تین دن تم کو محل میں روک کے تمھاری باتوں سے لطف اٹھاؤں اور تمھاری پیاری صورت ملکۂ جہاں ممتاز الزمانی بیگم کو دکھاؤں۔ تم سمجھ سکتی ہو کہ ذرا بھی بُرائی خیال میں ہوتی تو تم کو ممتاز الزمانی بیگم سے نہ ملاتا۔

گلرخ بیگم: بے شک مجھے حضرت کی نیک نفسی و پاکبازی پر پورا بھروسا ہے۔ مگر خدا کرتا اسے بھی اطمینان ہوتا جس سے میرا سابقہ ہے۔

جہاں پناہ: اس کی اتنی مجال نہیں کہ مجھ پر یا تم پر کسی قسم کی بد گمانی کرے۔

اتنے میں نواب تاج محل نے آ کے دسترخوان بچھانے کا حکم دیا، اور اُس پر تمام الوان نعمت چنے جا چکے تھے کہ ایک محل دار دوڑتی ہوئی آئی اور عرض کیا: “حضور شاہزادی جہاں آرا بیگم کی طبیعت کچھ ناساز ہو گئی ہےا ور حضرت ملکۂ جہاں کو یاد فرماتی ہیں”۔ یہ سنتے ہی نواب تاج محل نے جہاں پناہ سے عرض کیا کہ حضور خاصہ نوش فرمائیں، میں دم بھر کو اُس سے جا کے مل آؤں۔

جہاں پناہ: تو کھانا کھا کے جانا۔

تاج محل: نہیں اس وقت میں نہ کھاؤں گی۔

جہاں پناہ: تو وہاں پہنچتے ہی خیریت کہلا بھیجنا اور جو حال ہو اُس کی خبر کر دینا۔

تاج محل: میں ابھی کہلائے بھیجتی ہوں۔ یہ کہہ کے وہ اُٹھ کے چلی گئیں۔ اصل میں شاہزادی کو کسی قسم کی شکایت نہ تھی مگر تاج محل صاحبہ خود ہی یہ بہانہ پیدا کر کے چلی گئیں تاکہ جہاں پناہ آزادی سے اپنی نئی محبوبہ گلرخ کے ساتھ باتیں کریں اور ملیں اور اُسے بھی آزادی سے باتیں کرنے کی جرأت ہو۔ بادشاہ اس کو بخوبی سمجھ گئے مگر مصلحت جان کر زبردستی نہیں روکا بلکہ دل ہی دل میں چلے جانے پر اُن کے شکر گزار ہوئے۔

خاصے پر آخر تک یہ حالت رہی کہ جہاں پناہ چھیڑ چھیڑ کے گلرخ بیگم سے باتیں کرتے اور اُسے بے باک و بے تکلف بنانا چاہتے مگر وہ خاموش تھی اور ہر بات کا سیدھا سادہ جواب دے دینے کے سوا اور کوئی بات نہ کرتی۔ آخر جہاں پناہ نے فرمایا: “رات کو تم نے جو الماس میرے ہاتھ بیچا تھا وہ مجھے بہت عزیز ہے۔ مگر اب تمھاری بے رُخیاں یہ غضب نہ ڈھائیں کہ کسی سے اس کے کھا لینے کے سوا کوئی تدبیر نہ بن پڑے۔

گلرخ بیگم: وہ الماس حضور کو ایسی شکر گزار و پاکدامن لونڈی کے ہاتھ سے ملا ہے کہ بجائے (خدانخواستہ) زہر کا اثر دکھانے کے نوش جان بن جائے گا۔

جہاں پناہ: اس میں اگر زہر کا اثر نہ ہو تو بھی تمھاری کج ادائیاں پیدا کر دیں گی۔

اس جواب پر گلرخ بیگم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور جہاں پناہ نے گھبرا کے کہا: “یہ کیوں؟ یہ کیوں؟ کیا میں نے کوئی ایسی بات کی جو تمھیں ناگوار گذرے؟ یا اُس سے تمھاری عزت و آبرو میں فرق آئے؟

گلرخ بیگم: حضور کی بھلا کیا شکایت ہو سکتی ہے؟ رونا فقط اپنی قسمت کا ہے۔ ایک طرف تو میں اتنی بڑی خوش نصیب ہوں کہ کوئی عورت نہ ہوگی۔ اس درگاہ تک باریابی ہوئی، حکومت و دولت اور عزت سب لونڈیوں کی طرح سامنے ہاتھ باندھے کھڑی ہیں اور شہر کی کوئی امیر زادی نہیں ہے جو حسد نہ کر رہی ہو۔ دوسری طرف خدا نے اس قدر نالائق و نا اہل پیدا کیا ہے کہ ان عزتوں میں سے کوئی مجھے نفع نہیں بخش سکتی۔

جہاں پناہ: کیوں نہیں نفع بخش سکتی؟

گلرخ بیگم: اس لیے کہ دوسرے کے لیے پیدا کی گئی ہوں اور دوسرے کے بس میں ہوں۔

جہاں پناہ: تو میں کب تمھیں اُس شخص کے بس سے باہر نکالنا چاہتا ہوں۔ میں نے تمھیں فقط دو گھڑی دل بہلانے اور باتیں کرنے کے لیے بلایا ہے۔

گلرخ بیگم: مگر میرے شوہر کو میرا کسی دوسرے کے پاس بیٹھنا اور باتیں کرنا بھی گوارا نہیں ہے۔ محبت والا شوہر تھا اور مجھے ہر قسم کا آرام پہنچاتا تھا۔ مگر افسوس میں اس قابل بھی نہ تھی۔ اب میرے یہاں آنے کو سُنے گا تو خدا جانے دل میں کیا کہے گا اور کیا کرے گا۔

جہاں پناہ: اگر تمھارے ساتھ اُس نے بُرا سلوک کیا تو سخت ترین سزا پائے گا۔ تمھارا میرے یہاں آنا، مجھ سے ملنا اور میرے پاس بیٹھنا نہ شرعاً گناہ ہے، نہ اخلاقی جرم ہے۔ پھر تمھیں وہ کس بات کا الزام دے سکتا ہے۔ نہیں، اس کی مطلق پروا نہ کرو اور اطمینان کے ساتھ بیٹھ کے ہنسو بولو۔ اس کا میں ذمہ دار ہوں کہ وہ تم پر کوئی بد گمانی نہ کرے گا اور اگر ایسا بد گمان شخص ہے کہ میرے کہنے سے بھی اُس کا اطمینان نہ ہوگا تو بے شک وہ سخت سزا کا مستوجب ہے۔

گلرخ بیگم: اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بڑے غیور بلکہ اس بارے میں وہمی ہونے کے درجے تک پہنچ گئے ہیں۔ مگر مجھے یہ ہر گز نہیں گوارا ہو سکتا کہ میری وجہ سے انھیں آزار پہنچے۔

جہاں پناہ: بہر حال اب تو تم یہاں آ چکیں اور میرے کہنے سے آئیں۔ لہذا یہ بات تو کسی طرح نہیں مٹ سکتی۔ مگر کل صبح کو میں دربار میں پہلا یہ کام کروں گا کہ جمال خان کو بلا کے کہہ دوں گا کہ میرے کہنے سے لوگ تمھاری بیوی کو ملکۂ زماں نواب ممتاز الزمانی بیگم کے پاس لے آئے اور میں بھی اُن سے ملا مگر تمھاری عزت و آبرو کو اپنی آبرو تصور کر کے اُن کی عصمت و پاکدامنی کا پورا احترام کیا ہے، اور یہ کہہ کے ان سے اقرار کرا لوں گا کہ اُن کے دل میں کسی قسم کی بد گمانی نہیں رہی۔ اور تم سے میری خواہش ہے کہ آئی ہو تو تین روز تک ممتاز الزمانی بیگم کے پاس رہو اور دونوں وقت دسترخوان پر ساتھ کھانا کھایا کرو۔

گلرخ بیگم: میری عزت افزائی کے لیے یہ کافی ہے۔

جہاں پناہ: تو پھر اب شگفتگی کے ساتھ باتیں کرو۔

گلرخ بیگم: مینا بازار میں حضور سے جو دو باتیں کیں اُن کا تو یہ اثر ہوا کہ یہاں کھینچ بلائی گئی۔ زیادہ باتیں کیں تو خدا جانے حضور ظل سبحانی مجھے کیا حکم دیں گے؟

جہاں پناہ: اُن باتوں سے میرا دل بے قرار ہوگیا تھا اور اب ان باتوں سے اس کو قرار آئے گا اور تسکین ہوگی۔

گلرخ بیگم: کسی ایک ہی چیز میں ایسی دو خاصیتیں کیسے ہو سکتی ہیں جو ایک دوسرے کی ضد ہیں؟

جہاں پناہ (مسکرا کر): یہی تو تمھارےحُسن اور تمھاری اداؤں کا معجزہ ہے۔

گلرخ بیگم: اور مجھے اس کا دھڑکا ہے کہ پہلی گفتگو نے تو میرے شوہر کو بد گمان کر دیا ہوگا۔ یہ دوسری باتیں حضور ملکۂ آفاق کو بھی بد گمان نہ کر دیں کہ پھر دین و دنیا میں کہیں میرا ٹھکانہ نہ لگے۔

جہاں پناہ: اس کا مطلق اندیشہ نہیں۔ میری انیس و ہمدم ملکہ تمھارے شوہر کی طرح وہمی اور بد گمان نہیں ہیں۔

غرض خاصے کے ختم تک یہی باتیں رہیں اور اس کے بعد بھی آدھی رات تک انھیں کا سلسلہ جاری رہا۔ گلرخ بیگم جبر کر کے اپنے آپ کو شگفتہ اور بشاش بناتی تھی اور آورد کی شوخیاں کرتی تھی۔ جہاں پناہ بار بار کوئی چھیڑ کا فقرہ کہہ کے اس کی اس کوشش کو اُبھار دیتے۔ مگر باوجودیکہ وہ بہ ظاہر شوخیاں کرتی، دل خون ہو رہا تھا جس کے جذبات بعض اوقات چہرے پر بھی نمایاں ہو جاتے اور ان کی جھلک پر جہاں پناہ کی نظر پڑ جاتی۔ اب رات زیادہ آ چکی تھی۔ جہاں پناہ نے آرام فرمایا اور گلرخ بیگم فوراً نواب تاج محل کے کمرے میں پہنچا دی گئی جہاں اس کے سونے کا انتظام کر دیا گیا تھا۔تاج محل صاحبہ اس وقت تک جاگتی تھیں مگر عاقلانہ احتیاط سے کام لے کر انھوں نے گلرخ بیگم سے اشارۃً بھی اس کو نہیں پوچھا کہ جہاں پناہ سے کیا باتیں ہوئیں۔ صبح کو جہاں پناہ نے گلرخ بیگم کو ناشتہ پر بلوایا۔ نواب تاج محل خلاف معمول خود ناشتہ پر نہیں گئیں، فقط گلرخ بیگم کو خواصوں کے ساتھ بھیج دیا۔ کچھ دیر انتظار کر کے بادشاہ نے پوچھا: “بیگم نہیں آئیں؟ رات کو واپس آئیں یا جہاں آرا کے یہاں رہی تھیں؟”

ایک خواص: حضور رات ہی کو آ گئی تھیں مگر اس وقت حضرت آرام فرما چکے تھے۔ ساتھ ہی ایک خواص دوڑتی ہوئی گئی اور نواب تاج محل کو بلا لائی۔ سامنا ہوتے ہی جہاں پناہ نے پوچھا: جہاں آرا کیسی ہے؟ تاج محل نے اطمینان دلایا کہ اچھی ہے۔ رات کو طبیعت ذرا سست ہو گئی تھی، مجھے زیادہ ٹھہرنے کی ضرورت بھی نہ تھی مگر باتوں میں دیر ہو گئی۔

جہاں پناہ: خیر آؤ بیٹھو، تم نے اس وقت آنے میں کیوں دیر لگائی؟

تاج محل: دیر میں آنکھ کھلی۔

جہاں پناہ: یہ تو نہیں ہے کہ تم گلرخ بیگم کے سامنے میرے پاس آنے میں تامل کرتی ہو؟ اگر ایسا ہے تو یہ تمھاری غلطی ہے۔ میں تم سے کہے دیتا ہوں کہ میں نے گلرخ بیگم کو زیادہ تر تمھاری دلچسپی کے لیے بلایا ہے کہ ان کی وضع و صورت اور ان کی باتوں سے جو لطف میں نے مینا بازار میں اٹھایا تھا تم بھی محل کے اندر میرے سامنے اُٹھاؤ اور اسی سبب سے تم سے کہہ دیا تھا کہ جب تک یہ میرے پاس رہیں، تم بھی موجود رہا کرو۔ رات کو اتفاقاً ایسا واقعہ پیش آیا کہ تم کو مجبوراً چلا جانا پڑا، مگر اس وقت تمھارے دیر میں آنے سے مجھے شُبہ ہوتا ہے کہ شاید تم ان کی موجودگی میں میرے پاس بیٹھنے سے گریز کرتی ہو۔

تاج محل (ہنس کر): حضرت کا گمان ایک حد تک صحیح بھی ہے مگر ایسا تو اِن کے آنے کے بعد بھی اس وقت تک کبھی نہیں ہوا کہ حضرت نے یاد فرمایا ہو اور میں نہ آئی ہوں۔

جہاں پناہ: مگر میں چاہتا ہوں کہ بے بلائے اپنے معمول کے مطابق چلی آیا کرو۔ تمھارا آنا دو باتوں سے خالی نہیں ہے، یا تو تم میری نسبت بُرا گمان رکھتی ہو اور یا اِن کو تنہار چھوڑ کے ان کے شوہر جمال خان کو ان سے بد گمان کرنا چاہتی ہو۔

تاج محل: دونوں باتیں نہیں ہیں، لیکن ہاں یہ ضرور چاہتی ہوں کہ گلرخ بیگم سے باتیں کرنے میں حضرت آزاد رہیں۔ کیونکہ میرے سامنے ممکن ہے کوئی بات حضرت جہاں پناہ کے دل میں آئے اور اُس کا زبان سے نکالنا نامناسب ہو۔

جہاں پناہ: یہ تمھیں کیونکر معلوم ہوا کہ کوئی ایسی بات میرے خیال میں آئے گی؟ اسی کو میں بد گمانی کہتا ہوں۔ اگر اس قسم کے جذبات میرے دل میں ہوتے تو میں ان کو محل میں بُلا کے تم سے نہ ملاتا بلکہ کہیں اور مل لیتا۔ اصل یہ ہے کہ میں نے انھیں بلایا ہی تم سے ملانے کو ہے۔

تاج محل: جہاں پناہ کی اس مرحمت کی شکر گزار ہوں۔

اب نواب تاج محل بھی بادشاہ کے پاس بیٹھ گئیں اور باہم لطف و محبت کی باتیں ہونے لگیں۔ ممتاز الزمانی اگرچہ نہایت ہی متین اور خاموش بیوی تھیں مگر شوہر کی دلچسپی کے لیے شوخی اور مذاق کی باتیں کرتیں تاکہ گلرخ بیگم کو بھی ویسی ہی باتیں کرنی پڑیں اور جہاں پناہ اس کی باتوں سے لطف حاصل کریں۔

اس کے بعد نواب تاج محل ہر وقت بادشاہ اور گلرخ بیگم کی باتوں میں شریک رہیں۔