مینا بازار/ساتواں باب: ایک شوخ ادا دُکاندارن


ساتواں باب

ایک شوخ ادا دُکاندارن


جہاں پناہ محل میں رونق افروز ہوئے تو نواب ممتاز الزمانی بیگم انتظار ہی کر رہی تھیں۔ صاحب تاج و دیہیم شوہر کے آتے ہی دوڑتی ہوئی آئیں اور پاس بیٹھ کے کہنے لگیں: “حضرت کو بازار کی سیر میں بڑی دیر ہو گئی”۔

جہاں پناہ: اور اس دیر ہونے پر بھی آدھے بازار کی سیر کر سکا۔ وہ کوئی معمولی سیر کی جگہ نہیں ہے۔ ہر قدم پر یہ حالت تھی کہ کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا اینجا ست۔ ہر دکان اور ہر بیچنے والی میں ایسی دلربائی و دلکشی تھی کہ بڑے جبر سے قدم آگے بڑھایا جاتا تھا۔ وہ تو ایسا مقام ہے کہ جس دکان میں جائیے بس وہیں کے ہو جائیے۔

تاج محل: اور سارے گھر بار کو چھوڑ دیجیے۔

جہاں پناہ (ہنس کر): میرا منشا یہ نہ تھا۔ بلکہ یہ کہنا مقصود تھا کہ جس دکان میں جائیے، دن بھر وہیں کی خوبیاں دیکھتے رہیے اور دوسری دکان میں جانے کا نام نہ لیجیے۔ یعنی دن بھر میں انسان ایک کے سوا دوسری دُکان کی سیر نہیں کر سکتا۔

تاج محل: تو پھر کیا ہے۔ بارہ سو دکانیں ہیں اور سال میں کتنے دن ہوتے ہیں؟ ہاں تین سو ساٹھ دن۔ تو کچھ کم اڑھائی برس تک ان دکانوں کی سیر میں مصروف رہیے۔ سلطنت اور گھر بار کا خدا حافظ ہے۔

جہاں پناہ: کیوں؟ کیا رات کو بھی گھر نہ آؤں گا؟

تاج محل: تو یہ میرے حال پر مہربانی ہوئی۔ سلطنت کا انتظام کیسے چلے گا؟

جہاں پناہ: اس کام کو وزرائے سلطنت انجام دیں گے۔ میں کہتا ہوں تمھیں بات بات پر بد گمانی کیوں ہوتی ہے؟ ایک بات کہی تھی کہ تمھاری کوشش سے یہ بازار ایسا پُرلطف اور دلکش ہوگیا ہے کہ جہاں ٹھہر جائیے وہاں سے ہٹنے کو جی نہیں چاہتا۔

تاج محل: حضرت فرماتے ہیں کہ بازار پُرلطف اور دلکش ہوگیا ہے۔ پُرلطف ہونے میں مضائقہ نہیں، حضرت کے لیے ہر چیز کو پُرلطف ہونا چاہیے۔ مگر دلکش نہ کہیے۔ یہ بڑا خطرناک لفظ ہے۔

جہاں پناہ: اس لفظ کو میں نے اُن معنوں میں نہیں کہا تھا جن میں تم لیتی ہو۔ اس لیے کہ میرے خیال میں پُرلطف اور دلکش کا ایک ہی مطلب ہے۔ لیکن اگر تم کو یہ لفظ ناپسند ہے تو لو میں اسے چھوڑے دیتا ہوں۔

تاج محل: بس میرے اطمینان کے لیے یہ کافی ہے۔ خیر اب یہ بتائیے کہ آج حضرت کو اُن تمام مہ جبینوں میں سے جو وہاں جمع ہیں کون زیادہ پسند آئی؟

جہاں پناہ: یہ بڑا مشکل سوال ہے۔ فقط اتنا کہہ سکتا ہوں کہ سب ہی زیادہ پسند آئیں اور کوئی نہیں ہے جو کم پسند آئی ہو۔

تاج محل: یہ بڑے اطمینان کی بات ہے۔

جہاں پناہ: کیوں؟

تاج محل: خطرہ جب ہی ہوتا ہے کہ سب کے مقابل میں کوئی ایک پسند آئے اور جب ہزارہا عورتیں ایک ہی درجہ تک پسند آئیں اور یکساں نظر آئیں تو کوئی اندیشہ کی بات نہیں ہو سکتی۔

جہاں پناہ: تم نے بڑی معقول بات کہی اور واقعی اب میں تمھارے کہنے سے غور کرتا ہوں تو نظر آتا ہے کہ اگرچہ وہاں ایک سے ایک بڑھ کے گل رخسار و پری جمال مہ وَشیں جمع تھیں مگر میں کسی کی صورت کا نقش اپنے دل پر نہیں لایا۔ بہ ظاہر اس کی وجہ یہ بیان کی جا سکتی ہے کہ سب عورتیں ایسی خوبصورت تھیں کہ دل پر ایک کا جو اثر پڑتا اس کو دوسری حور وَش کی صورت مٹا دیتی اور کسی کا بھی خیال دل میں جم کر نہ بیٹھتا۔ مگر میں تو اس کا اصلی سبب اس کو خیال کرتا ہوں کہ تمھاری محبت اور تمھاری خوبیوں کا ایسا گہرا نقش میرے دل میں موجود ہے کہ کوئی اعلیٰ سے اعلیٰ حسن و جمال بھی اس کی جگہ نہیں لے سکتا۔

بادشاہ کا یہ فقرہ سُن کے ملکۂ زمانہ کے خوبصورت چہرے پر شرم و ندامت ملے فخر و ناز کے آثار نمودار ہوئے۔ پھر اُن جذبات کو دبا کے بولیں: “حضرت کی اس محبت و مرحمت پر مجھے فخر و ناز ہے اور یہی اطمینان ہے جس نے شوق دلایا کہ آپ کا شوق پورا کرنے کے لیے اس مینا بازار کو حُسن و جمال کا بہترین خزانہ بنا دوں۔ پہلے دن بازار کو سجا ہوا دیکھ کر آئی ہوں تو بعض اُمرا کی بیویوں نے مشورہ دیا کہ فلاں فلاں عورتوں کو جو حُسن و خوبی میں جواب نہیں رکھتیں، اس بازار میں نہ آنے دوں۔ اُن کا خیال تھا کہ حضرت ظل سبحانی ان کی صورت دیکھتے ہی سب کو بھول جائیں گے۔ مگر میں نے یہی کہا کہ مجھے حضرت کی پاکبازی و نیک نفسی پر اتنا اطمینان ہے کہ ایسی احتیاطوں کی ضرورت نہیں۔ بلکہ اُن کے مشورے کے خلاف کوششیں کیں کہ جن جن عورتوں کی خوبصورتی کی شہرت ہے وہ سب سے پہلے بلائی جائیں اور کوئی عورت جو جمیلہ و شکیلہ سمجھی جاتی ہو اس بازار میں دکاندار بننے سے رہ نہ جائے”۔

جہاں پناہ: میں تمھارے اس ایثار نفس کا بہت ہی شکر گزار ہوں اور ہمیشہ سے جانتا ہوں کہ میرے لیے اپنے مٹا دینے میں تم کو تامل نہیں ہوتا۔

بادشاہ بیگم: دکاندارنوں کے علاوہ یقین ہے کہ غالباً سیر کو آنے والیوں کا بھی بڑا مجمع ہوگا۔ اُن کی کیا حالت تھی؟

جہاں پناہ: وہ بھی ایسی خوبی سے اور ایسے ایسے انداز سے بن سنور کے آئی تھیں کہ ہر ایک دلہن بنی ہوئی تھی۔ مگر میں اجمالی نظر ڈالنے کے سوا انھیں اچھی طرح نہیں دیکھ سکا۔ بعض ایسی خوبرو و شوخ ادا نظر آتی تھیں کہ جی چاہتا تھا اُن سے کچھ باتیں کروں، مگر خلاف مصلحت نظر آیا۔

تاج محل: افسوس اُمرائے دربار کے ساتھ ہونے کی وجہ سےمیں حضرت کے ہمراہ نہ جا سکی۔ ورنہ جہاں پناہ کے اس شوق کو بھی پورا کر دیتی۔ میں انھیں بُلا کے پاس کھڑا کر دیتی اور جب تک جی چاہتا حضرت اُن سے باتیں کرتے۔

جہاں پناہ: مگر تمھاری موجودگی میں غیر ممکن تھا کہ میں انھیں آنکھ بھر کے دیکھتا۔

تاج محل: تو یہ بہت اچھا ہوا کہ میں نہ تھی اور حضرت نے جسے دل چاہا جی بھر کے دیکھا اور خوش ہوئے۔

جہاں پناہ: تمھارے اس فقرے میں بھی طعنے کی بو آتی ہے۔

تاج محل: نہیں۔ میں نے طعن و تشنیع سے نہیں کہا بلکہ دل سے یہی چاہتی ہوں کہ حضرت مینا بازار کی سیر جی بھر کے اور نہایت آزادی سے کریں۔ خیر اب ارشاد ہو کہ بازار کا جتنا حصہ دیکھنے کو باقی رہ گیا ہے وہ کب ملاحظہ ہوگا؟

جہاں پناہ: کل ہی۔ میں نے اس کا آنے سے پہلے ہی اعلان کر دیا اور کل آنے کا اقرار کر کے آیا ہوں۔ بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ ایسی شوق و دلچسپی کی چیز کو زیادہ زمانے تک اٹھا رکھتا؟

تاج محل: میں سمجھی تھی کہ اب حضرت دو تین دن کا وقفہ دے کر تشریف لے جائیں گے۔

جہاں پناہ: نہیں، اس بازار کی سیر میں ایسا لطف آیا کہ جو حصہ دیکھنے سے رہ گیا اس کے دیکھنے کے شوق کو میں ایک دن سے زیادہ زمانے تک نہیں ٹال سکتا۔ اگرچہ میں تھک گیا تھا مگر شوق اس قدر حد سے گذرا ہوا تھا کہ اگر بازار والی نازنینوں کی تکلیف کا خیال نہ ہوتا تو میں رات بھر بازار ہی کی سیر کرتا رہتا۔

تاج محل: اسی شوق کو دیکھ کے میں دل ہی دل میں دعا کرتی رہتی ہوں کہ خدا اس بازار اور اُس کی سیر کو خیر خوبی سے گذران دے۔

اب رات زیادہ آ چکی تھی اور حضرت جہاں پناہ تھکے ہوئے تھے، لہذا مسہری پر لیٹ کے آرام فرمایا۔

صبح کو اٹھ کر نماز سے فارغ ہوتے ہی بادشاہ نے ناشتے کے وقت تاج محل سے پھر مینا بازار کا تذکرہ چھیڑا اور فرمایا: “آج رات بھر میں اسی بازار کے خواب دیکھتا رہا۔ بار بار آنکھ کھلتی تھی اور پھر اُسی میں پہنچ جاتا تھا”۔

تاج محل: تو یوں فرمائیے کہ حضرت رات بھر اُسی مینا بازار میں رہے۔

جہاں پناہ: بے شک وہیں رہا اور خوب خوب سیریں کیں۔

تاج محل: تو اس رات کی سیر کا دلچسپ حال بھی پورا پورا ارشاد ہو۔ دن کی سیر میں تو کوئی اندیشے کی بات نہیں پیش آئی۔ بلکہ اگر کسی قدر اندیشہ تھا بھی تو حضرت کے بیان سے جاتا رہا۔ اس لیے کہ اتنی پری جمال عورتوں کے مجمع میں جانے پر بھی کسی کا خیال دل میں نہ جم سکا۔ ممکن ہے کہ رات کی سیر میں کوئی ایسی حور طلعت نظر آ گئی ہو جو بھولتی نہ ہو۔

جہاں پناہ: اب تمھیں خواب کی باتوں پر بھی بد گمانی ہے؟ فرض کیجیے کہ خواب میں کوئی ایسی دلربا نظر سے گذری بھی جس کا خیال سامنے سے نہ ہٹتا ہو تو اُس سے کس بات کا اندیشہ ہو سکتا ہے؟ نہ زندگی میں وہ کبھی اور کہیں ملے گی اور نہ تم کو اُس کی رقابت کا دھڑکا ہو سکتا ہے۔

تاج محل: کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خواب میں ایک دلفریب صورت دیکھی اور صبح کو وہ کہیں نظر بھی آ گئی تو پھر بات سب سے زیادہ اندیشہ ناک ہو جاتی ہے۔ ممکن ہے کہ حضرت جہاں پناہ نے رات کے خواب میں کسی مہ جبین معشوقہ کو دل دے دیا ہو اور مینا بازار کی سیر میں آج اُس پر نظر پڑ جائے۔ ایسا ہوا تو قیامت ہی ہو جائے گی۔ اس لیے مجھے فقط اتنا بتا دیجیے کہ جس طرح دن کی سیر میں کسی کی صورت دل میں نہیں قائم ہوئی تھی، ویسا ہی رات کو بھی ہوا۔ یا خواب میں کسی ایسی پری جمال کو دیکھ لیا جس کی پیاری شکل کو آنکھیں اس وقت تک ڈھونڈھ رہی ہیں۔

جہاں پناہ: جو کچھ دیکھا سب ہی آنکھوں کے سامنے پھر رہا ہے۔ ایسا کچھ دیکھا کہ آنکھوں کو تمنا رہ گئی۔

تاج محل: تو کوئی فکر کی بات نہیں ہے۔ یہی میں بھی چاہتی ہوں کہ حضرت جو کچھ دیکھیں خواب میں ہو یا بیداری میں سب کا سب آنکھوں کے سامنے رہے۔ یہ نہ ہو کہ کوئی ایک صورت خیال میں بس جائے اور سب چیزیں بھول جائیں۔ یہ کتنی بڑی بات ہے کہ رات کی دیکھی شکلوں میں سے کوئی ایسی نہیں ہے جسے دن کو حضور کی آنکھیں ڈھونڈتی ہوں۔

جہاں پناہ: لیکن بیگم! میری آنکھیں کسی شکل کو ڈھونڈھیں یا نہ ڈھونڈھیں، مگر تمھیں ہر وقت اس کا دھڑکا نہ لگا رہنا چاہیے۔ خصوصاً جبکہ میں عہد و پیمان کر چکا ہوں کہ کسی کو بُری نگاہ سے نہ دیکھوں گا۔

تاج محل: حضرت جو چاہیں فرمائیں، جب تک یہ بازار قائم ہے اُس وقت تک تو یہ دھڑکا میرے دل سے نہیں جا سکتا۔ خیر اس کو جانے دیجیے اور یہ ارشاد ہو کہ مینا بازار میں سواری کب جائے گی؟ دیر ہو رہی ہے اور میں نہیں چاہتی کہ حضرت کا شوق پورا ہونے میں خلل انداز ہوں۔

جہاں پناہ: تیسرے پہر کو جاؤں گا جس وقت کل گیا تھا۔ یہی وہاں کہہ بھی آیا ہوں۔

تاج محل: تو حضرت نے دل پر بڑا جبر کیا۔ شوق کا تقاضا تو یہ تھا کہ صبح ہوتے ہی روانہ ہو جاتے۔

جہاں پناہ: میں شوق کے پیچھے اپنے فرائض کو نہیں بھولتا۔ ابھی مجھے دربار کرنا ہے۔ دربار سے واپس آ کے کچھ دیر سوؤں گا، پھر اطمینان سے مینا بازار جاؤں گا۔

تاج محل: بہت مبارک۔ اچھا تو میں حضور کے تشریف لے جانے سے پہلے جا کے دیکھ آؤں گی کہ سب چیزیں قرینے سے ہیں اور کوئی ایسی بات تو نہیں جو حضرت کو ناپسند ہو۔

جہاں پناہ: ضرور جاؤ اور اس کا بھی پتہ لگانا کہ کل میرے جانے کا بازار والیوں پر کیا اثر ہوا۔ خاص کر جن کی دکانوں میں مَیں گیا تھا، اُن کو کسی قسم کی شکایت تو نہیں ہے؟

تاج محل: دراصل میں اسی غرض کے لیے جانا چاہتی تھی۔ میں ان باتوں کو بخوبی دریافت کر کے حضرت سے بیان کر دوں گی۔

اس کے بعد جہاں پناہ باہر دربار میں تشریف لے گئے اور نواب ممتاز الزمانی بیگم مع شہزادیوں اور مصاحب عورتوں کے سوار ہو کر مینا بازار میں تشریف لے گئیں۔ آج وہاں پہر دن چڑھے ہی بڑا مجمع ہوگیا تھا اور چونکہ سب کو یقین تھا کہ آج بھی جہاں پناہ تشریف لائیں گے لہذا تمام اُمرائے دربار اور معززین شہر کی خاتونیں جمع تھیں۔ جو فرش سڑکوں اور گذرگاہوں پر بچھا تھا بدلا جا رہا تھا اور کوشش ہو رہی تھی کہ بازار کی رونق آج کل سے کچھ زیادہ ہی ہو۔

ممتاز محل صاحبہ اُن سڑکوں پر جن کا حضرت جہاں پناہ کل معائنہ فرما چکے تھے تشریف لے گئیں اور ہر ہر دکان پر جا کے دکان رکھنے والیوں سے پوچھا کہ کل جہاں پناہ سے ان سے کیا کیا باتیں ہوئیں، اُن کا مال کس قدر بکا اور انھیں اپنی امید کے مطابق اس سودے میں فائدہ ہوا یا نہیں۔ سب نے خوشی اور شکرگزاری کا اظہار کیا، بادشاہ سے جو کچھ گفتگو ہوئی تھی بیان کی۔ غرض سب کو خوش و خرم پایا اور معلوم ہوا کہ جہاں پناہ کی شفقت و مرحمت نے سب کو نہال کر دیا ہے اور سب شاہی عنایت و توجہ کا کلمہ پڑھ رہی ہیں۔

پھر نواب تاج محل اُن دو سڑکوں پر تشریف لے گئیں جہاں کی حضرت ظل سبحانی آج سیر کرنے والے تھے۔ غور سے ملاحظہ کیا کہ ان دکانوں والیاں کس شکل و شمائل کی ہیں، ان کے لباس اور انداز کیسے ہیں، ان کے پاس مال کتنا اور کس قسم کا ہے۔ ان دکاندارنوں کو سمجھایا: “آج جہاں پناہ تمھاری دکان میں تشریف لائیں گے، ان کے سامنے کسی کی زبان سے کوئی بدتمیزی کا کلمہ نہ نکلے۔ اپنے ناز و انداز اور اپنی زیبائی و رعنائی دکھانے میں کوتاہی نہ کرنا۔ اس کے ساتھ تمھاری متانت اور سنجیدگی میں فرق نہ آئے۔ ممکن ہے کہ حضرت کسی کے ساتھ کوئی شوخی کریں، تم بھی اُسی کے مناسب شوخ جواب دینا۔ مگر ایسا نہ ہو کہ شوخی میں بے باکی اور بے حیائی پیدا ہو جائے”۔

سب کو مناسب نصیحتیں کر کے تھوڑی دیر اپنی کوشک میں ٹھہریں اور بارہ بجے سے پہلے محل میں داخل ہو گئیں۔ اندر قدم رکھتے ہی معلوم ہوا کہ جہاں پناہ دربار سے فارغ ہو کر محل میں تشریف لا چکے۔ فوراً پاس جا بیٹھیں اور پوچھا “حضرت خاصہ تناول فرما چکے؟”

جہاں پناہ: نہیں۔ تمھارے آنے کا انتظار کر رہا تھا۔ دسترخوان بچھانے کا حکم دو اور بتاؤ کہ تم مینا بازار کو دیکھ آئیں؟

تاج محل: جی ہاں دیکھ آئی۔ ہر چیز اپنی اعلیٰ بہار دکھانے کے لیے حضور کا انتظار کر رہی ہے۔

جہاں پناہ: میرے کل کے طرز عمل سے کوئی شاکی تو نہیں ہے؟

تاج محل: کوئی نہیں۔ بلکہ ہر دکان والی اور ہر سیر کرنے والی شکر گزار ہے کہ حضرت نے ان کی عزت افزائی فرمائی اور ہر عورت کی زبان پر ہے کہ رعایا کی عزت و آبرو کے نگہبان تاجدار کو ایسا ہی ہونا چاہیے جیسے کہ حضرت ظل سبحانی ہیں۔

جہاں پناہ: اور سچ بتاؤ تم نے وہاں کوئی ایسی بات تو نہیں سُنی کہ تمھارے دل میں مجھ سے شکایت پیدا ہوئی ہو؟

تاج محل: ایسی کوئی بات نہیں سُنی اور سنتی بھی تو مجھے شکایت نہ ہوتی۔

جہاں پناہ: میں تمھاری اس محبت کا شکر گزار ہوں اور تم سی ملکہ ملنے پر اکثر خدا کا شکر کیا کرتا ہوں۔ مگر یہ بتاؤ کہ میرے ساتھ جو بہت سے امرا و معزز اہل دربار اندر گئے تھے، عورتوں کو اُن کا سامنے ہونے کی شکایت تو نہیں ہے؟ یا اُن میں سے کسی نے کوئی ایسی حرکت تو نہیں کی جو کسی خاتون کو ناگوار گذری ہو؟ اگرچہ میں اُن کی وضع و حالت کو غور سے دیکھتا رہتا تھا۔ مگر اکثر یہ ہوا کہ میں دکانوں کے اندر جا کے دکان والیوں میں مشغول ہوا اور وہ سب باہر کھڑے رہے یا کسی دوسری دکان میں چلے گئے۔ میری نظر سے باہر ہونے کے بعد ممکن ہے کہ کسی سے کوئی نالائق حرکت سرزد ہو گئی ہو۔

تاج محل: اس کی بھی کسی نے شکایت نہیں کی۔ میں نے کُرید کُرید کے ایک ایک سے پوچھا اور کسی کو بھی شاکی نہیں پایا۔ جب آپ سارے ہمراہیوں کو تاکیدی حکم فرما چکے تھے کہ کوئی کسی عورت کو ناجائز شوق کی نگاہ سے نہ دیکھے تو بھلا کس کی مجال تھی کہ کسی کی طرف آنکھ اُٹھا کے بھی دیکھتا؟ بعض عورتوں کا بیان ہے کہ وہ لوگ اس طرح نظریں نیچی کیے ہوئے تھے کہ اس میں شک ہے کہ انھوں نے کسی عورت کو غور سے دیکھا بھی یا نہیں۔

جہاں پناہ: تم نے مجھے خوش کر دیا اور الحمد للہ کہ میں اس کوشش میں کامیاب ہوا۔

اب دسترخوان بچھ چکا تھا۔ حضرت صاحب قران ثانی اور ملکہ ممتاز الزمانی بیگم صاحبہ نے کھانا کھایا اور ہاتھ دھوتے ہی جہاں پناہ ہوا دار پر بیٹھ کے برآمد ہوئے۔ امرائے دربار و معززین باریاب حاضر تھے۔ فوراً جہاں پناہ عماری میں رونق افروز ہو کر اُسی کل کے کر و فر اور شان و شکوہ سے مینا بازار کی طرف روانہ ہوئے۔ اُسی شوکت اور دبدبے سے اندر داخل ہو کے چند منٹ کوشکِ شاہی میں قیام فرمایا اور پھر پاپیادہ بازار کی سیر میں مصروف ہو گئے۔

سہ پہر کے آغاز میں سیر شروع کی تھی اور دو گھڑی دن رہے تیسری سڑک کو ختم کر کے چوتھی سڑک میں قدم رکھا۔ اس سڑک کے شروع ہی پر ایک دکان نظر آئی جو سب دکانوں سے زیادہ سجی ہوئی تھی۔ جہاں پناہ نے اندر قدم رکھا تو ایک ماہ وَش، آفت روز گار، گل اندام ایسے ناز و انداز اور ادائے معشوقانہ سے جھک کےآداب بجا لائی کہ بادشاہ حیران رہ گئے۔ اُس کی وضع دیکھی تو ایسے بانکپن کی سجاوٹ کبھی نہ دیکھی تھی۔ صورت دیکھی تو ایسی ماہرو گلبدن کبھی نظر سے نہ گذری تھی۔ پھر اس کی میز کی طرف نظر دوڑائی تو اس میں بغیر کسی سامان کے ایسی بلا کی صفائی اور سادگی تھی کہ ہزار زینتیں اس پر قربان ہیں۔ یہ مہ جبین بجُز کانوں میں دو زمرد کے آویزوں اور گلے میں ایک نہایت نفیس جڑاؤ چمپا کلی کے کوئی زیور نہیں پہنے تھی۔ بلکہ معلوم ہوتا کہ اپنا سارا زیور اتار کے میز پر خوبصورتی سے آراستہ کر دیا ہے۔

جہاں پناہ نے اُس کی وضع و لباس، شکل و شمائل اور بانکی اداؤں کو بے مثال پایا تو جی چاہا کہ اُس کے انداز گفتگو کو بھی ملاحظہ فرمائیں۔ میز پر جو زیور رکھا تھا اس کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: “یہ زیور بجائے میز کے تمھارے جسم پر ہوتا تو اس سے زیادہ خوبصورت نظر آتا”۔

نازنین: کیا میری صورت کو اس کی ضرورت ہے؟

جہاں پناہ: ضرورت تو نہیں، مگر اس کی رونق بڑھ جاتی۔

نازنین: مجھ سے تو کہا گیا تھا کہ چہرے کی آب و تاب کے آگے اس کی جلا ماند پڑھ جائے گی اور جہاں پناہ کو پسند نہ آئے گا۔

جہاں پناہ: اس میں شک نہیں۔ مگر میں تو جب ہی اس کی قدر کروں گا جب تمھارے پنڈے پر ہو۔

نازنین: مجھے پہن کے دکھانے میں عذر نہیں، مگر اس زیور کے ساتھ لونڈی بھی پسند آ گئی تو قیامت ہو جائے گی۔

جہاں پناہ (سوچ کر): بے شک قیامت آ جائے گی، مگر صرف اس کے لیے جو تمھیں اس زیور میں دیکھے گا، تمھارے واسطے کوئی اندیشہ کی بات نہیں۔

نازنین: حضرت کی یہی مرضی ہے تو کیا عذر ہو سکتا ہے؟ اتنی اجازت ہو کہ اس زیور کو اُدھر پردے میں جا کے پہن آؤں۔

جہاں پناہ نے اجازت دے دی اور وہ سارا زیور چلمن کے اُدھر لے جا کے پہننے لگی اور جب تک وہ غائب رہی ایک دوسری خاتون جو اس کے قرابت داروں میں تھی بادشاہ کے سامنے مؤدب و دست بستہ کھڑی رہی مگر جہاں پناہ نے اس سے کوئی بات نہیں کی۔ چند ہی منٹ بادشاہ کو انتظار کرنا پڑا ہوگا کہ وہ حور وَش نازنین عروس چہاردہ سالہ کی طرح اس انداز سے چمک کر چلمن سے برآمد ہوئی کہ گویا چودھویں رات کا چاند یکایک پردۂ ابر میں سے نکل آیا۔ رخِ زیبا کے ساتھ جواہرات نے ایک ساتھ کچھ ایسی چمک دمک دکھائی کہ بادشاہ کی نظر جھلملا گئی۔ پھر اس پر سر سے پاؤں تک نظر ڈال کے فرمایا: “اب بے شک یہ زیور نہایت قیمتی ہے اور اس سے اچھا محل اس کے لیے دنیا بھر میں نہیں ہو سکتا”۔

نازنین: یہ زیور تو لونڈی کو عطا ہوگیا۔ اب میرے پاس کیا رہا ہے جو حضرت کی نذر کروں؟

جہاں پناہ: اس کو تمھارے جسم پر دیکھنے کی قیمت خود اس کی قیمت سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی چیز بھی تمھارے پاس فروخت کے لیے ہے؟

نازنین: ایک الماس کا نہایت ہی قیمتی نگینہ اور ہے، بشرطیکہ کہ حضور کو پسند آئے۔

جہاں پناہ: لاؤ دکھاؤ۔ تمھاری نظر میں قیمتی ہے تو بے بہا ہوگا۔

یہ سنتے ہی نازنین بجلی کی طرح چمک کے چلمن کے پیچھے سے ایک سونے کی ڈبیا اٹھا لائی۔ اُسے کھول کے بڑی احتیاط سے ایک الماس کا سا بڑا کنول نکالا اور ہتھیلی پر رکھ کے نذر کے انداز سے حضرت شاہنشاہ عالی جاہ کے سامنے پیش کیا۔ بادشاہ نے اُس کو اُٹھا کے غور سے دیکھا، پھر دکان کے باہر آ کے روشنی میں ملاحظہ فرماما۔ اس کے بعد مسکراتے ہوئے ہوئے اندر آئے اور فرمایا: “بے شک بے مثل نگینہ ہے۔ ایسا الماس کسی نے نہ دیکھا ہوگا اور لطف یہ کہ تمھارے لبِ شیریں اور ادائے شیریں کی پوری صفتیں اس میں جمع ہو گئی ہیں۔ قیمت کیا ہے؟”

نازنین (مسکرا کر): ایک لاکھ روپیہ۔

جہاں پناہ: بہت سستا ہے، میں نے خوشی سے لیا۔

اور پلٹ کے خزانچی کو بلا کے دکھایا، پھر واپس لے کر جیب میں رکھ لیا اور حکم فرمایا کہ اسی وقت اس خاتون کو دو لاکھ روپیہ دے دو۔ پھر اُس نازنین کی طرف متوجہ ہو کر ارشاد کیا: “ایک لاکھ روپیہ اس کی قیمت ہے کہ اس زیور کو تمھارے جسم پر دیکھا اور ایک لاکھ روپیہ اس نگینہ کی”۔ نازنین جھک کے آداب بجا لائی، اور بادشاہ اُس سے کچھ اور کہنے کو تھے کہ خزانچی نے بڑھ کے کان میں عرض کیا: “حضور یہ تو مصری کی ڈلی ہے جس کو کسی ہوشیار نگینہ تراش نے الماس کا کنول بنا دیا ہے”۔ سنتے ہی بادشاہ نے بے اختیار قہقہہ مار کے کہا: “تم اتنے بڑے جوہری ہو اور آج تک جواہرات کا پہچاننا نہ آیا۔ یہ سب سے زیادہ قیمتی ہیرا ہے جو تمھاری نظر سے کبھی نہیں گذرا۔ جاؤ ابھی روپیہ ادا کرو، نگینوں کا پہچاننا سیکھو اور پھر ایسی غلطی نہ کرنا”۔

اس کے جانے کے بعد جہاں پناہ نے اس نازنین کی طرف پھر توجہ کی۔ اس کے چہرے اور اُس کی وضع و لباس کو غور سے دیکھا اور اُس کا ہاتھ پکڑ کے فرمایا: “میری تم سے ایک درخوست ہے، اُمید ہے کہ قبول کرو گی”۔

نازنین: لونڈی کو بھلا کسی حکم کے بجا لانےمیں عذر ہو سکتا ہے؟

جہاں پناہ: تمھاری باتوں سے ابھی جی نہیں بھرا۔ چاہتا ہوں کہ پاس بیٹھ کے ذرا اطمینان سے باتیں کروں۔ اس لیے آج شب کو میرے ساتھ کھانا کھاؤ اور میری دعوت قبول کرو۔

نازنین: لونڈی کی کمال عزت افزائی ہے اور خوشی سے حاضر ہوگی۔

جہاں پناہ: میں سواری کا حکم دیے دیتا ہوں۔ میرے سوار ہونے کے دو گھڑی بعد روانہ ہو کے محل میں پہنچ جانا۔

نازنین: لونڈی ضرور حاضر ہوگی۔

اب جہاں پناہ اور دکانوں کی سیر میں مصروف ہوئے۔ مگر دل کی یہ حالت تھی کہ کسی دکان میں دل نہ لگتا۔ اس نازنین کی صورت دل میں بسی ہوئی تھی اور جس دکان میں تشریف لے جاتے، آنکھوں کے سامنے آ کے اپنی طرف متوجہ کر لیتی۔ جس طرح بنا جلد جلد دکانوں میں پھر کے اور وضعداری کے لیے سب جگہ خریداری کر کے مغرب سے پہلے ہی سوار ہو کے محل کی طرف روانہ ہو گئے۔