مینا بازار/نواں باب: جمال آرا کا شوہر جمال خان


نواں باب

جمال آرا کا شوہر جمال خان


اس کے بعد جہاں پناہ نے برآمد ہو کے دربار کیا تو تمام اُمرائے دربار پر بار بار نظر ڈالتے کہ جمال خان بھی ہے یا نہیں مگر اُسے نہ دیکھا۔ کچھ دیر تک دل ہی دل میں اُس کی حاضری کا انتظار کیا مگر جب دیر ہو گئی اور اُس کی صورت نہ نظر آئی تو فرمایا: جمال خان رسالدار نہیں آیا؟ وزیر اعظم نے ہر طرف نظر دوڑا کے عرض کیا کہ وہ تو معلوم ہوتا ہے نہیں حاضر ہوئے۔ ساتھ ہی چوبداروں اور ہرکاروں نے دوڑ کے جمال خان کو خبر کی کہ تمھاری یاد ہوئی ہے۔

اُسے رات ہی کو اپنی بیوی کے محل میں جانے کی اطلاع ہو چکی تھی کیونکہ شوکت آرا نے گلرخ بیگم کی تاکید کے بموجب اُسی وقت گھر میں آدمی دوڑا کے اس کی اطلاع کر دی تھی۔ سُنتے ہی غیرت کی آگ میں جلنے لگا اور رات بھر پلنگ پر لوٹتے اور کروٹیں بدلتے گذری۔ کبھی دل میں آتا کہ خودکشی کر لے اور دنیا کو اپنی صورت نہ دکھائے۔ مگر پھر کہتا: نہیں اس میں جلدی نہ کرنا چاہیے، اس بے حیا عورت کو سزا دے لوں تو اپنی جان دوں۔ پھر دل ہی دل میں باتیں کرتا کہ دیکھیے اب وہ محل سے نکل کے آتی بھی ہے یا نہیں؟ ایک دل کہتا ہے کہ وہ آئے اور میں اُسے سزا دوں، دوسرا دل یہ کہتا ہے کہ اب یہی اچھا ہے کہ اُس بے عزت کی صورت نہ دیکھوں۔ انھیں خیالوں میں ساری رات کٹی۔ صبح کو نماز پڑھ کے بیٹھا ہی تھا کہ پڑوس کے ایک معزز دوست جان سپار خان آ گئے جو ترکمانی الاصل سردار فوج اور معززین دربار میں سے تھے۔ انھوں نے آ کے خیریت پوچھی اور ساتھ ہی جمال خان کے چہرے پر نظر ڈالی تو رات کی بیداری اور بے قراری کے آثار چہرے پر نمایاں نظر آئے۔ پوچھا: “خیریت تو ہے؟ مزاج کیسا ہے؟”

جمال خان: زندہ ہوں اور نہیں جانتا ہوں کہ کیوں زندہ ہوں؟

جان سپار خان: آخر کس بات کی تکلیف ہے کہ چہرے پر حسرت برس رہی ہے؟

جمال خان: اسی بات کی کہ کیوں زندہ ہوں۔

جان سپار خان: کچھ بیان تو کیجیے کہ کیوں آپ زندگی سے بیزار ہیں؟

جمال خان: کیا آپ نے نہیں سُنا؟ سارے شہر میں میری بے عزتی طشت از بام ہو گئی اور آپ کو خبر نہیں؟

جان سپار خان: بخدائے لایزال میں نے کچھ نہیں سُنا۔ آپ بیان تو فرمائیں، اگر کوئی ایسی ہی بات ہے تو ہم بھی آپ کے ساتھ جان دینے کو تیار ہیں۔

جمال خان (آبدیدہ ہو کر): میری بیوی رات کو مینا بازار سے بادشاہ کے محل میں پہنچ گئی۔

جان سپار خان یہ سُن کر کچھ دیر سرنگوں رہا پھر پوچھا: “وہ خود سے چلی گئیں یا بادشاہ نے زبردستی بلوایا؟”

جمال خان: زبردستی بلائی گئی۔

جان سپار خان: تو آپ کو غصہ بیوی پر ہے یا بادشاہ پر؟

جمال خان:کس کی مجال ہے کہ جہاں پناہ پر غصہ کرے؟ سارا غصہ اُس بے غیرت و بے عزت عورت پر ہے۔

جان سپار خان: تو پہلے اُن کا قصور ثابت کیجیے، پھر غصہ کیجیے گا۔

جمال خان: یہی قصور کافی ہے کہ اُس کی آبرو میں داغ لگ گیا۔

جان سپار خان: اس وقت آپ جوش اور طیش میں کہہ رہے ہیں۔ مگر انسان کو انصاف کبھی ہاتھ سے نہ دینا چاہیے۔ ذرا سکون و صبر سے کام لیجیے اور خوب اچھی طرح دریافت کیجیے کہ وہ وہاں کیسے گئیں؟ کس لیے بلائی گئیں؟ محل کے اندر کیسے اور کس حال میں رہیں؟ ان باتوں کے معلوم ہونے کے بعد جو مناسب جانیئے گا، کیجیے گا اور میں بخدائے لایزال جان و مال سے آپ کا شریک رہوں گا۔

جمال خان: ان باتوں کا پتہ لگانے سے حاصل؟ وہاں وہ کسی حال میں رہی ہو، میرے ہاتھ سے گئی۔ کیا اس کے بعد بھی میں اُس کے ناپاک پنڈے کو ہاتھ لگا سکتا ہوں؟

جان سپار خان: یہ آپ کی سراسر زیادتی ہے۔ اگر ان کو نواب ممتاز الزمانی بیگم نے اپنے کسی کام کے لیے یا کسی خاص ضرورت سے بلایا ہو تواس میں کیا آبرو جا سکتی ہے؟ یا بادشاہ ہی نے صرف باتیں کرنے یا کسی اور عزت و آبرو کے کام کے لیے بلا لیا ہو تو کون مضائقہ کی بات ہے؟ ہمارے یہاں تمام شریفوں کی عورتیں اپنے سرداروں اور خواتین سے مل سکتی ہیں اور بخدائے لایزال وہ سب شریف ہیں اور ہندوستان کے لوگوں سے زیادہ شرفت کی دعویدار ہیں۔

جمال خان: آپ کے یہاں ہو، ہمارے یہاں اگر عورت کسی غیر گھر میں چلی جائے تو ناک کٹ جاتی ہے۔

جان سپار خان: اگر بدنیتی کے ارادے سے جائے، ورنہ کیا عورتیں کہیں آتی جاتی نہیں ہیں؟ آپ کی آبرو کیا پیمبر زادیوں کی آبرو سے بھی بڑھ گئی؟ خدا انصاف کر تاہے اور مسلمانوں سے بھی ہر بات میں انصاف چاہتا ہے۔

یہی باتیں ہو رہی تھیں کہ شاہی چوبدار نے آ کے کہا: جلدی چلیے، جہاں پناہ یاد فرماتے ہیں۔ جمال خان کے دل میں اس وقت کچھ ایسے پُر جوش خیالات بھرے ہوئے تھے کہ دربار میں جانا نہیں پسند کرتا تھا مگر مجبور تھا۔ اور اُسے کسی قدر متامل دیکھ کر جان سپار خان نے کہا: “اچھا ہوا کہ جہاں پناہ نے یاد فرمایا۔ سب باتیں اسی وقت صاف ہو جائیں گی بلکہ میں بھی تمھارے ساتھ چلتا ہوں۔ اسی بہانے سلام ہو جائے گا”۔

غرض دونوں نے درباری لباس پہنا۔ معمولی ہتھیار لگائے اور گھوڑوں پر سوارہو کے قلعۂ شاہی کی راہ لی۔ اطلاع ہوتے ہی دونوں بُلا لیے گئے۔ سامنا ہوتے ہی نقیب نے نعرہ بلند کیا: “نگاہ روشن” اور شہنشاہ جہاں پناہ کی نظر اُٹھتے ہی دونوں جھک کر آداب بجا لائے۔ بادشاہ نے سلام کے جواب میں ہاتھ اُٹھا دیا اور نواب سعد اللہ خان کی طرف متوجہ ہو کر مینا بازار کی تعریف میں کچھ باتیں کرنے لگے۔ انھیں باتوں کے سلسلے میں جمال خان کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھا اور قریب بلا کے فرمایا: “جمال خان! کل مینا بازار میں مَیں نے تمھاری بیوی کو دیکھا اور بہت خوش ہوا۔ تم کو اپنے تمام اہل دربار میں زیادہ وجیہ و خوش رُو دیکھ کے میں نے جمال خان کے خطاب سے سرفراز کیا تھا۔ تمھارے حُسن و جمال کی اس قدردانی کے بعد جب مجھے یہ نظر آیا کہ تمھیں انیس زندگی بھی ایسی ملی جو خوبصورتی میں بے مثال ہے تو گویا اپنے اس خطاب دینے کی بہت ہی سچی داد مل گئی اور بعد ازاں جب یہ معلوم ہوا کہ اُس کو جمال آرا بیگم کا خطاب دے کر اپنی خوش اقبالی میں شریک کر لیا تو اور لُطف آیا۔ تمھاری بیوی کو میں نے مینا بازار کی دو ہی چار باتوں میں خوبروئی کے ساتھ ایسا خوش بیان و شیرین زبان، دانا و ہوشیار اور عاقل و سلیقہ شعار پایا کہ بے اختیار جی چاہا ان کو ملکۂ زماں نواب ممتاز محل سے ملاؤں تاکہ وہ بھی اُن کی خوش گوئی و تہذیب کو دیکھ کر خوش ہوں۔ اُن کے محل میں بلائے جانے سے شاید تمھارے دل میں کوئی تشویش پیدا ہو گئی ہو، لہذا میں اطمینان دلاتا ہوں کہ اُن کی عزت و آبرو کی حفاظت مجھ پر فرض ہے اور تم جانتے ہو کہ میں نے اپنی رعایا میں سے کبھی کسی عورت کو بُری نگاہ سے نہیں دیکھا۔ جس طرح تمام اُمرائے دولت کی بیویاں نواب ممتاز محل سے ملنے کو حاضر ہوا کرتی ہیں اسی طرح تمھاری بیوی بھی اُن کی مہمان ہیں۔ وہ اُن کے حال پر نہایت ہی شفقت فرماتی ہیں اور دسترخوان پر جب میرا سامنا ہوتا ہے تو میں بھی اُن کی مہذب اور پاکیزہ باتوں سے خوش ہوا کرتا ہوں”۔

جمال خان جھک کے پھر آداب بجا لایا اور عرض کیا: “فدوی کا سر افتخار آسمان پر پہنچ گیا مگر وہ کنیز اس قابل نہ تھی کہ اس کو مشکوئے معلیٰ تک باریابی کا موقع دیا جاتا”۔

جہاں پناہ: اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تمھیں اُس پری جمال و حور خصال عورت کی قدر نہیں۔ وہ نہایت ہی قابل اور لائق و فائق ہے اور بات ایسے سلیقے سے کہتی ہے کہ سُن کر جی خوش ہو جاتا ہے۔ اگر ابھی تک تمھیں اُس کی قدر نہ تھی تو میں کہتا ہوں کہ اب قدر کرو۔

جمال خان: آئندہ فدوی اُس کی بڑی قدر کرے گا اور اس ادب آموزی پر دل و جان سے بندگان خسروی کا شکر گزار ہے۔

جہاں پناہ: وہ تین روز تک نواب ممتاز محل کی مہمان رہے گی اور چوتھے دن ایک بے بہا امانت کی طرح تمھارے پاس پہنچا دی جائے گی۔

جمال خان نے حضرت ظل سبحانی کے اس ارشاد پر اظہار عقیدت و اطاعت کیا اور جہاں پناہ دربار برخاست فرما کے محل میں تشریف لے گئے جہاں سب سے پہلے گلرخ بیگم کو طلب کر کے فرمایا: “میں نے تمھارے شوہر کو بُلا کے کہہ دیا کہ تم نواب تاج محل کی مہمان ہو اور میں نے تم کو انھیں سے ملانے کے لیے بلایا ہے۔ ہر طرح سے انھیں اطمینان دلا دیا ہے اور کہہ دیا ہے کہ چوتھے دن تمھاری امانت تمھارے گھر پہنچ جائے گی”۔

گلرخ بیگم نے زبان سے تو کچھ نہیں کہا مگر چہرے نے اظہار شکر گزاری کر دیا۔ نواب تاج محل بھی موجود تھیں، پوچھنے لگیں: “حضرت نے اُن سےکیا ارشاد فرمایا؟” جہاں پناہ نے وہ ساری گفتگو فرما دی جو جمال خان سے ہوئی تھی۔ سُن کر تاج محل نے پوچھا: “انھوں نے زبان سے اقرار کیا کہ اب انھیں ان پر کسی قسم کی بد گمانی نہیں ہے؟”

جہاں پناہ (ہنس کر): جس طرح اِنھوں نے اس وقت شکرگزاری کو ظاہر کیا، اُسی طرح جمال خان نے اپنے اطمینان کا اظہار کیا تھا۔

تاج محل: خیر یہ بھی کافی ہے۔

اب خاصے کا وقت آ گیا تھا۔ دسترخوان بچھا۔ ملکۂ جہاں اور گلرخ دونوں نے جہاں پناہ کے ساتھ بیٹھ کے کھانا کھایا اور اب بہ ظاہر گلرخ بیگم کو گونہ اطمینان تھا۔ تین دن تک ایوانِ شہریاری میں خوش و خرم رہی، اپنی شوخ ادائیوں اور تہذیب کے ساتھ اپنی پُر معنی باتوں سے جہاں پناہ اور تاج محل دونوں کو خوش کرتی۔ نواب تاج محل کے دل میں اگر جہاں پناہ کی گرویدگی اور گلرخ بیگم کے عدیم المثال حسن و جمال کی وجہ سے کسی قسم کی رقابت کا خیال پیدا بھی ہوا تھا تو مٹ گیا اور دل ہی دل میں اپنے صاحب تاج و تخت شوہر کے زہد و اتقا اور اُن کی پارسائی و پاک نظری کی قائل اور شکر گزا ر تھیں۔

چوتھے روز صبح کو جہاں پناہ نے دربار کے لیے باہر آتے وقت گلرخ بیگم کو خلعت و انعام کے ساتھ بہت سا قیمتی زیور دے کر رخصت فرمایا اور ارشاد ہوا کہ میں تمھارے آنے سے بے حد خوش ہوا اور اگرچہ تمھاری باتوں سے ابھی سیری نہیں ہوئی مگر اپنے اقرار کے مطابق تمھیں جانے کی اجازت دیتا ہوں لیکن اب تم محل میں آ چکی ہو تو کبھی کبھی ممتاز الزمانی بیگم سے ملنے کو ضرور چلی آیا کرو۔

گلرخ بیگم: لونڈی برابر حاضر ہوا کرے گی اور اس دامن مرحمت کو بھلا اب چھوڑ سکتی ہے؟

جہاں پناہ: مجھے اس کی بھی خبر دینا کہ جمال خان کا تم سے کیسا برتاؤ رہا۔

گلرخ بیگم: اب تو حضرت کا دامن پکڑا ہے اور کس کے پاس فریاد لے کے جاؤں گی؟

اس گفتگو کے بعد جہاں پناہ باہر تشریف لے گئے اور گلرخ بیگم ملکۂ زمانہ نواب تاج محل سے رخصت ہو کر اور پھر آنے کا وعدہ کر کے شاہی سکھ پال پر سوار ہو کے اس شان کے ساتھ واپس چلی کہ دو کہاریاں ادھر اُدھر سکھ پال کا پایہ پکڑے ہوئے تھیں اور بہت سے چوبدار اور ہرکارے ہٹو بچو کرتے ہوئے آگے آگے جا رہے تھے۔