مینا بازار/پانچواں باب: مینا بازار کا افتتاح


پانچواں باب

مینا بازار کا افتتاح


موسم بہار کا درمیانی زمانہ ہے اور جمعہ کا دن، صاحب قران ثانی حضرت شاہجہاں بادشاہ غازی اپنی نئی تعمیر کی ہوئی عدیم المثا ل جامع مسجد سے نماز پڑھ کے ایوان شہر یاری یا قلعۂ سُرخ میں واپس تشریف لائے ہیں۔ آج مسجد میں خلقت کا اتنا ہجوم تھا کہ اس سے پیشتر نہیں دیکھا گیا تھا۔ اس لیے کہ دور دور کے صوبوں اور گرد کے قصبات و نواح سے تمام معزز خاندانوں کی خاتونیں مینا بازار کی شرکت کے لیے جو شہر میں آ گئی ہیں تو ان کے ساتھ مردوں کا بھی اتنا انبوہ کثیر جمع ہوگیا ہے کہ شہر کی آبادی دونی تگنی معلوم ہوتی ہے۔

اگرچہ پیشتر سے برابر اعلان ہوتا رہا تھا، مگر آج نماز جمعہ کے بعد پھر جامع مسجد میں ایک مؤذن نے بیرونی منبر اذا ن پر کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ آج ہی ہماری محذرۂ عظمیٰ ملکۂ زمانہ نواب ممتاز الزمانی بیگم صاحبہ اپنے مینا بازار کا افتتاح فرمائیں گی۔ تمام اعلیٰ و ادنیٰ خاندانوں کی عورتوں کو اُس میں شریک ہونا چاہیے۔ یہ زنانہ بازار عورتوں ہی کے فائدے اور اُن کی اخلاقی و معاشرتی اصلاح کے لیے قائم کیا گیا ہے۔

نماز جمعہ کے بعد ہی باہر کے اور شہر کے تمام لوگ اُن سڑکوں پر جمع ہو گئے جدھر سے نواب ارجمند بانو بیگم اور اُن کی شاہزادیوں کی سواریاں بڑے شان و شکوہ اور کر و فر سے نکلنے والی تھیں۔ مینا بازار کی اہمیت ظاہر کرنے کے لیے آج سواری کے جلوس میں بھی بڑا اہتمام کیا گیا تھا۔ سواروں اور پیادوں نے نئی وردیاں پہنی تھیں اور خاص شاہی لشکر کے بعد صدہا زمیندار اپنی اپنی جمعیتوں اور اعزازی خصوصیتوں یعنی ہاتھیوں، میانوں اور ماہی مراتب وغیرہ کے ساتھ اپنے اپنے جھنڈے بلند کیے ہوئے جلو میں تھے۔

جس وقت تک وہ بازار میں پہنچی ہیں، سِوا خاص محل کی اہتمام کرنے والی عورتوں کے اور کوئی عورت سیر یا خریداری کے لیے اندر نہ جانے پائی۔ ہاں دکانیں سج گئی تھیں، اُن میں فروخت کے لیے مال تجارت مرتب ہوگیا تھا اور ماہ وَش بیچنے والیوں نے آ کے اس کو اپنے مذاق اور شوق کے مطابق آراستہ کر دیا تھا۔ پہر دن باقی ہوگا کہ ملکہ ممتاز الزمانی بیگم بازار میں داخل ہوئیں، تھوڑی دیر تک اپنی آراستہ و پیراستہ شاندار کوشک میں بیٹھ کے دم لیا۔ بلند اقبال دونوں شاہزادیاں بھی ان کے ساتھ تھیں۔ پھر اُٹھ کر انھوں نے کوشک کے گرد نہر کے حلقے اور پُلوں کو دیکھا۔ پھر بازار میں پھر کے ایک ایک دکان کی حالت و شان کو ملاحظہ کیا، حوضوں اور ان کے اوپر والے کلس دار بُرجوں کو دیکھا، بعد ازاں مرغزار میں تشریف لے گئیں اور متحیر تھیں کہ مہتممانِ تعمیر نے کتنی جلدی زمین کو مسطح کر کے اس پر ہری گھانس لگا دی اور اس تفرج گاہ کو کس خوش اسلوبی سے جنت اراضی بنا دیا ہے۔

خوبصورت و نازک اندام دکاندارنیوں میں سے اکثر ملکۂ زمانہ کے ہمراہِ رکاب تھیں۔ اسی تفرج گاہ کے ایک وسیع چبوترے پر صدر میں مسند بچھی تھی جس پر نواب ارجمند بانو بیگم بیٹھ گئیں اور ان کے داہنے بائیں دونوں شاہزادیاں جلوہ فرما ہوئیں۔ محتشم الیہا نے ان تمام عورتوں کو جو ساتھ تھیں بلا کے سامنے بٹھایا۔ بہت سی عورتوں نے ادب سے بڑھ کر نذریں دکھائیں مگر انھوں نے اُن بیویوں کی خوشی کے لیے نذر پر ہاتھ رکھ کے فرمایا: “خاتون یہ کوئی دربار نہیں، بلکہ ایک عام بازار ہے۔ یہاں ہم دکانداروں اور خریداروں کی حیثیت سے جمع ہوئے ہیں اور سب کا درجہ ایک ہے۔ محل میں آنا تو نذریں دکھانا، اس جگہ اس کی ضرورت نہیں۔ یہاں میں چاہتی ہوں کہ سب بیویاں آپس میں عزیزوں اور بہنوں کی طرح ملیں۔ درباروں میں یہ ہوتا ہے کہ امیروں کو غریبوں پر فوقیت ہوتی ہے مگر یہاں غریبوں کو امیروں پر فوقیت ہونی چاہیے۔ اس لیے یہاں امیر زادیوں کا فرض ہے کہ غریب بیویوں کا احترام کریں بجائے اس کے کہ اُن سے ادب و تعظیم کی امیدوار ہوں۔ میں روز دو گھڑی دن رہے یہاں آ کر بیٹھا کروں گی اور ادنیٰ و اعلیٰ عورتوں میں سے جو آئے گی اس سے بڑی خوشی اور مسرت سے ملوں گی اور اسی کی توقع آپ سب خاتونوں سے ہے کہ سب سے بہ لطف و محبت ملیں اور کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ میں نے اس بات کو خاص کر اس لیے بیان کیا کہ عورتوں خاص کر امیر زادیوں میں غرور و تبختر اور اِترا پن زیادہ ہوا کرتا ہے، تھوڑی عزت و دولت پر اترانے لگتی ہیں۔ یہ بہت بُری بات ہے اور اس بازار کا اصلی مقصد یہی ہے کہ یہ عیب عورتوں سے دور ہو اور بجائے اپنی عزت اپنے کپڑوں اور اپنے زیور پر اترانے کے دوسروں سے ملنا اور ایک دوسرے کی عزت کرنا سیکھیں۔ اب دیر ہوتی ہے اور ضرورت ہے کہ اسی وقت بازار کا افتتاح کیا جائے یعنی شہر کے خاص و عام کو اندر آنے کی اجازت دی جائے۔ میں اس رسم کے ادا کرنے کے لیے اپنے کوشک میں جاتی ہوں، اور آپ سب بیویاں اپنی اپنی دکانوں میں جا کے ٹھہریں اور جو عورتیں ان سے بہ اخلاق ملیں اپنا فروخت کا مال دکھائیں اور غریب و امیر کسی عورت کے ساتھ کوئی کج ادائی نہ کرے”۔

سب عورتوں نے ملکۂ جہاں کی عنایت کا شکریہ ادا کیا، وعدہ کیا کہ ان کے حکم کے خلاف نہ ہوگا اور وہ بازار کی تمام سیر کرنے والیوں سے بہ خندہ جبینی ملیں گی۔

اب ملکہ یہاں سے اُٹھ کر اپنی کوشک میں گئیں، تمام بیویاں جو موجود تھیں اپنی دکانوں میں گئیں اور فوراً حکم ہوا کہ بازار کا پھاٹک کھول دیا جائے اور جو خاتونیں آئیں ان کو آنے دیا جائے۔ پھاٹک پر ملکۂ جہاں کی بہت سی مصاحبیں اور وزرا و اُمرا کی بیویاں کھڑی ہو گئیں کہ جو عورتیں آئیں ان کو بہ اخلاق شاہی کوشک کی طرف سے لا کے بازار میں لے جائیں۔

دروازے پر ہزارہا عورتوں کا ہجوم تھا۔ مختلف سواریوں پر معزز اور امیر عورتیں منتظر کھڑی تھیں کہ پھاٹک کھلتے ہی اندر داخل ہوں۔ اگر مردوں کا آنا ہوتا تو یقیناً اتنی کشمکش اور بھیڑ ہوتی کہ گذرنا دشوار ہو جاتا۔ مگر عورتیں چونکہ سب سواریوں پر تھیں اس لیے ان کے اُتارنے کا انتظام ایسی خوش اسلوبی سے کیا گیا کہ تکلیف دہ بھیڑ نہ ہونے پائی۔ جو عورت اترتی اس کو کوئی نہ کوئی معزز بیوی اپنے ساتھ کوشک شاہی تک لے جاتی جہاں ملکۂ ممتاز الزمانی بیگم زینے کے پاس کھڑی تھیں اور خود اپنی زبان سے خیر مقدم ادا فرماتیں۔

اسی طرح شام تک برابر عورتوں کے آنے کا سلسلہ جاری رہا اور غروب آفتاب کے ساتھ ہی بازار کے ہر حصے میں نہایت ہی نفیس روشنی ہو گئی۔ جدھر دیکھیے فانوس اور کنول روشن تھے۔ ہر ہر حوض کے پاس مشعلچنیں مشعلیں روشن کیے کھڑی تھیں جو اکثر گذرنے والیوں کے ساتھ ہو کے بازار کی سیر کراتیں۔ دکانوں کے نہایت قیمتی جھاڑوں میں شمعیں روشن تھیں۔ یہ معلوم ہوتا تھا کہ سارے بازار میں دن ہوگیا ہے اور جدھر نظر اُٹھائیے عالم نور نظر آتا ہے۔ خاص کر شاہی کوشک میں جھاڑوں کے کنولوں میں کافوری شمعیں روشن تھیں جن کا جلوہ سب سے زیادہ پرلطف تھا۔

سارا بازار پرستان بنا ہوا تھا۔ اگر خریداری اور سیر کرنے والیاں خوب خوب بن سنور کے آئی تھیں تو دکاندارنوں کا حُسن و جمال اور بانکپن و انداز ان سے بڑھا چڑھا تھا۔ بازار نہ تھا، معلوم ہوتا کہ حُسن کی عظیم الشان نمائش گاہ ہے جس میں ہندوستان نے اپنا سارا حُسن و جمال لا کے جمع کر دیا ہے۔ گُل اندام نازنینیں ایسا بناؤ چناؤ کر کے آئی تھیں کہ دیکھنے والیاں محو حیرت ہو جاتیں۔ مشاطۂ فلک نے شاہدانِ فلک کے نکھار میں اور مشاطۂ بہار نے عروسانِ چمن کی زیب و زینت میں کبھی وہ کمال نہ دکھایا ہوگا جو زمین کی ہنرمند مشاطاؤں نے انسانی مہ جبینوں کا حُسن چمکانے میں یہاں دکھا دیا۔

بازار تو جواہر کا تھا مگر اس میں پُرشوق نگاہوں کے سامنے ایسا حُسن فروشی کا بازار قائم ہوگیا جس نے بازار مصر کو بے مزہ کر دیا، خوبصورت چہروں کی آب و تاب کے آگے قیمتی جواہرات جو بکنے آئے تھے ماند پڑ گئے اور کافوری شمعوں کے چہروں پر ہوائیاں اُڑنے لگیں۔ ایسا مجموعہ حسن آج تک کبھی نہیں دیکھا گیا تھا اور ایسی ایسی عدیم المثال مہ وَشیں خرام ناز میں مصروف تھیں یا دکانوں کے اندر جواہرات کو پیش کر رہی تھیں کہ ملکۂ جہاں اور شاہزادیاں عش عش کر رہی تھیں۔

جب بازار عورتوں سے خوب بھر گیا تو ملکۂ جہاں نے پھر ایک چکر لگایا۔ اس مرتبہ وہ ہر ہر دکان پر زیادہ ٹھہرتیں اور ماہ طلعت بیچنے والیوں، اُن کے فروخت کے مال اور پری جمال گاہکوں کو غور سے دیکھتیں اور دل میں حیران ہوتیں کہ ہندوستان دولت و حُسن دونوں چیزوں سے کس قدر مالا مال ہے۔بیچنے والیاں مسکرا کے موتی پیش کرتیں تو ملکہ اس پس و پیش میں پڑ جاتیں کہ اُن کے دُرِ دنداں کو دیکھیں یا دُرِ شاہوار کو۔ وہ لعل بے بہا کو دکھاتیں اور ملکہ کی متحیر نظر بجائے اس لعل کے اُن کے لعلِ لب پر جم جاتی۔ کوئی مرصع زیور نہ تھا جو ناز آفرینوں کے چہرے کی آب و تاب کے سامنے ماند نہ پڑ جاتا ہو۔

آخر ملکہ بازار کی خوب سیر کر کے اور ایک ایک دکاندار نازنین اور سیر کرنے والی پری وَش سے مل کے تھکی ہوئی اپنی کوشکِ ناز میں واپس آئیں۔ ساتھ والیوں نے دیکھا کہ کسی قدر خاموش ہیں مگر کسی کی مجال تھی کہ اس کا سبب پوچھتا۔ اُن کے دل پر اس بازار نے عجیب اثر ڈالا۔ وہ دل میں کہہ رہی تھیں کہ “اس بازار حُسن کو اُن کے صاحب تاج و سریر شوہر نے دیکھا تو خدا ہی ہے جو دل ہاتھ میں رہے اور نیت ڈانوا ڈول نہ ہو جائے۔ عورتیں جب ان خوبرو پری جمالوں کو دیکھ کے حیران ہیں تو مردوں کا دل کیسے قابو میں رہ سکتا ہے؟ پھر ان کے ساتھ تمام شاہزادے اور اُمرا اس جلوہ گاہ حُسن کی سیر کریں گے تو اُن کا کیا حال ہوگا۔ ایسا تو نہ ہوگا کہ یہ مینا بازار جس کو میں نے کھولا ہے، دنیا کے لیے ایک بڑا بھاری فتنہ و فساد بن جائے اور میں خواہ مخواہ کو گنہ گار ہوں۔ میرے باوفا شوہر نے مجھ سے عہد کیا ہے کہ اُن کے قدم کو لغزش نہ ہوگی۔ ممکن ہے کہ وہ اپنے اس عہد و پیمان کا خیال کریں۔ مگر اُن کے ساتھ جو شاہزادے اور اُمرا آئیں گے اُن میں سے کس نے پاک نگاہی کا اقرار کیا ہے؟ ان میں سے اکثر کی یہ حالت ہو جائے گی کہ اس بازار حُسن کے دیکھتے ہی اپنی بیویوں کو بھول جائیں گے۔

سوچتے سوچتے دل میں کہا: “کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ میں ان سب دکاندارنیوں کو ایک ایک سے مل کر تاکیدی حکم دے دوں کہ جس وقت جہاں پناہ اور اُن کے رفقا آئیں چہروں پر خوب اچھی طرح نقاب ڈال لیں اور کسی کو اپنی صورت نہ دکھائیں؟ مگر میں ہزار حکم دوں، اس پر عمل کوئی نہ کرے گا۔ برقع کی اجازت عام طور پر دے ہی دی گئی ہے مگر عورتوں کی عجیب حالت ہے۔ حسین عورت کو اپنا حُسن دکھانے کا شوق ہوتا ہے۔ پردہ شرعی چیز ہے اور اس حکم کی وجہ سے عورتیں گھروں کے باہر نہیں نکلتی ہیں۔ مگر اس شرعی حکم کی پابندی اُسی وقت تک ہوتی ہے جب تک عورتیں گھر کے اندر بند ہیں۔ باہر نکلنے میں ہمیشہ یہ عجیب تماشا نظر آتا ہے کہ اس شرعی حکم کی وجہ سے بوٖڑھی عورتیں تو خوب گہرا پردہ کرتی ہیں اور ممکن نہیں کہ کوئی ان کی صورت دیکھ لے، مگر جوان عورتیں اور کم سن لڑکیاں اپنی شوخ مزاجی اور چلبلے پن سے بے تاب ہو ہو کے ہر طرف جھانکتی اور اپنی صورت دکھاتی رہتی ہیں، اور کسی سے چار آنکھیں ہو کے جو مُنہ چھپاتی ہیں تو وہ چھپنا صورت دکھانے سے زیادہ کرشمہ خیز اور خطرناک ہوتا ہے۔ لہذا اگر پردے کا تاکیدی حکم ہوا بھی تو بُڑھیاں جو یہاں بہت ہی کم ہیں بے شک پورا پردہ کریں گی مگر جوانوں سے ممکن نہیں کہ کسی نہ کسی انداز سے اپنی صورت نہ دکھا دیں اور وہ مُنہ دکھانا بے نقاب رہنے سے زیادہ اندیشہ ناک ہوگا۔ علاوہ بریں ایسا حکم جاری کرنا حضرت جہاں پناہ کے خلاف بھی ہو گا۔ چاہے میرے خیال سے ظاہر نہ کریں مگر دل میں ضرور بُرا مانیں گے۔ مینا بازار خاص ان کی تحریک اور ان کے شوق سے کھولا گیا ہے اور اس میں عورتوں کا مالی و اخلاقی جو کچھ فائدہ ظاہر کیا جاتا ہے فقط بات بنانے اور دھوکا دینے کے لیے ہے۔ اصلی منشا ان کا یہی ہے کہ حسن و جمال کا تماشا دیکھیں اور اندازہ کریں کہ ملک میں کیسی کیسی حسین و نازنین عورتیں موجود ہیں”۔

غرض ملکہ نے ہر پہلو پر نظر ڈالی مگر اس مضرت سے بچنے کی کوئی صورت نہ نظر آئی۔ اسی اُدھیڑبن میں انھوں نے محل میں واپس جانے کا ارادہ کیا اور روانگی سے پہلے حکم جاری کر دیا کہ غالباً کل یا پرسوں حضرت ظل اللہ جہاں پناہ اپنے شاہزادوں اور اہل دربار کے ساتھ مینا بازار کی سیر کو رونق افروز ہوں گے۔ لہذا اُن کے ورود سے پیشتر کوئی بیوی کسی کے ہاتھ کوئی چیز نہ فروخت کرے۔ اُس وقت دُکاندار بیویوں کو اور نیز سیر کے لیے آنے والیوں کو اختیار ہے کہ چاہیں تو اپنے چہرے پر نقاب ڈال لیں۔

یہ حکم جاری کرانے کے بعد نواب ممتاز الزمانی بیگم اور شاہزادیاں سوار ہو کر محل کو تشریف لے گئیں اور بازار میں آدھی رات تک بڑی چہل پہل رہی۔ جس کے بعد تمام سیر کو آنے والیاں اور بہت سے دکاندار خاتونیں بھی اپنی دکانوں کی حفاظت کا انتظام کر کے اپنے گھروں کو گئیں اور جن دکان والیوں نے چاہا، دکانوں ہی میں رات گذاری۔ سواری گھر میں پہنچی تو شاہزادیاں اپنی اپنی محل سراؤں میں تشریف لے گئیں اور تاج محل بادشاہ جہاں پناہ کے برابر تخت پر جا کے بیٹھ گئیں۔ وہ انتظار ہی کر رہے تھے۔ صورت دیکھتے ہی کہنے لگے: “کہو دیکھ آئیں؟ مینا بازار کا افتتاح خیر و خوبی سے ہوگیا؟ میں اسی شوق میں بیٹھا تھا کہ تم آؤ تو پوچھوں۔ بتاؤ افتتاح کس شان سے ہوا؟ کتنی عورتیں آئیں؟ کیسی اور کس درجے کی تھیں؟ دُکانداروں کا کیا حال ہے؟ مال کتنا اور کس کس قسم کا ہے؟ دکان رکھنے والیوں کی شکلیں اور صورتیں کیسی ہیں؟ جو عورتیں سیر کو آئی ہیں وہ کیسی ہیں؟ اور تفصیل سے بیان کرو کہ تم نے وہاں پہنچ کے اول سے آخر تک کیا کیا؟”

تاج محل: پناہ! حضرت نے تو اکٹھا اتنے سوال کر دیے کہ مجھے یاد بھی نہیں رہ سکتے۔ اپنی منشیہ کو بُلا کے لکھوا لوں تو جواب دوں۔

جہاں پناہ (ہنس کر): ہاں میرا دل اس قدر لگا تھا کہ جو جو باتیں پوچھنا تھیں، سب کو ایک ہی رَو میں کہہ گیا۔ کسی لکھنے والی کے بلانے کی ضرورت نہیں، تم بیان کرنا شروع کرو۔ جو بات رہ جائے گی میں دوبارہ پوچھ لوں گا۔

تاج محل: مجھے تو سوالوں کی بھر مار نے سب بُھلا دیا۔ یہ بھی نہیں یاد آتا کہ جہاں پناہ نے پہلے کون سی بات پوچھی تھی۔ ہاں یاد آ گیا۔ حضرت نے پوچھا تھا کہ افتتاح کس شان سے ہوا، تو سنیے۔ میں جس وقت گئی ہوں، بازار پوری طرح آراستہ و پیراستہ ہوگیا تھا۔ سب دکانوں والیاں اپنی اپنی دکان میں پہنچ گئی تھیں مگر کوئی سیر کرنے والی اندر نہیں جانے پائی تھی۔ میں جاتے ہی پہلے سیدھی اپنی شاہی کوشک میں گئی۔ پھر اُٹھ کر بازار کی سیر کی۔ ایک ایک دُکان کو غور سے دیکھا اور نظر آیا کہ عورتوں نے اپنی دکانوں کے سجنے میں بہت اچھا سلیقہ دکھایا ہے۔ دکانوں کو بنا چنا کے دلہن آپ ہی نے بنا دیا تھا، اب انھوں نے اُن کو ایسے زیور سے سنوارا ہے کہ دیکھ کے میں حیران رہ گئی۔ بازار اور اُس کے تفرّج گاہ کو دیکھ لینے کے بعد میں پھر اپنی کوشک میں چلی آئی اور حکم دیا کہ بازار کا پھاٹک کھول دیا جائے اور جو عورتیں باہر جمع ہیں انھیں اندر داخل ہونے کی اجازت دی جائے۔ میری مصاحب بیویاں اور وہ سب جو محل میں ملازم ہیں اور اُن کے ساتھ اکثر امیروں کی خاتونیں خاص کر تمھارے وزیر سعد اللہ خان کی بیوی اور بیٹیاں میرے حکم سے بازار کے دروازے پر جا کھڑی ہوئیں۔ اور جو عورتیں سواریوں سے اُتریں اُن سے بہ اخلاق مل کے میرے پاس لے آئیں۔ اس طرح عورتیں اُترنا شروع ہوئیں اور میں نے کوشک کے زینے کے پاس کھڑے ہو کر ہر آنے والی کا خیر مقدم کیا۔

جہاں پناہ: واقعی تم نے میرے خیال سے بڑی بے نفسی سے کام لیا۔ ورنہ معمول تو یہ ہے کہ تم اپنی مسند پر رونق افروز رہو اور جو عورتیں آئیں تو نقیبہ کے نگاہ روشن کہنے پر تم اُس کی طرف نگاہ اُٹھاؤ۔

تاج محل: یہ تو میں نے پہلے ہی ظاہر کر دیا تھا کہ یہ دربار نہیں بازار ہے۔ اس میں بڑے چھوٹے سب کو برابری کے طریقے سے اور نہایت اخلاق کے ساتھ ملنا چاہیے۔ عام عورتوں پر اثر ڈالنے کے لیے میں نے یہ طریقہ اختیار کیا۔ ورنہ محل کے اندر بھلا یہ بات کیسے ممکن تھی؟

جہاں پناہ: اس پر مَیں تمھارا شکر گزار ہوں۔ خیر بتاؤ کہ پھر کیا ہوا؟

تاج محل: اور میرے اس طرح ملنے سے میں دیکھتی تھی کہ سب آنے والیاں نہایت خوش تھیں اور گو زبان سے بہت کم کسی کو بات کرنے کی جرأت ہوئی مگر اُن کے چشم و ابرو کہہ رہے تھےکہ نہایت شکر گزار ہیں۔

جہاں پناہ: ہونا ہی چاہیے۔ تمھیں کچھ اندازہ ہے کہ آج پہلے روز افتتاح میں کتنی عورتیں آئی ہوں گی؟

تاج محل: دکان رکھنے والیوں کی تعداد میرے نزدیک چار پانچ ہزار عورتوں کے درمیان ہوگی۔ بارہ سو دکانیں ہیں اور ہر معزز و دولت مند دکاندارنی دو تین عورتیں اپنے ساتھ ضرور لائی ہے، اسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ پانچ ہزار کے قریب عورتیں ہوں گی۔ اور جو دیکھنے اور سیر کرنے والیاں آج آئیں، اُن کا شمار دو ہزار سے زیادہ نہ ہوگا۔ پھر میری طرف سے چار سو عورتیں اہتمام و انتظام کے لیے مقرر ہیں۔ غرض اچھا خاصا مجمع ہے اور بازار بڑی رونق پر ہے۔ شام ہوتے ہی روشنی ہوئی تو عجب عالم نور نظر آتا تھا اور ایسی بہار تھی کہ مجھ سے بیان نہیں ہو سکتی۔ اس کے بعد حضرت نے کیا پوچھا تھا؟ مجھے تو خاک نہیں یاد رہا۔


جہاں پناہ: میں نے شاید یہ پوچھا تھا کہ کیسی اور کس حیثیت اور درجے کی عورتیں تھیں۔

تاج محل: آج تو کوئی غریب اور کم درجے والی عورت وہاں نہیں دکھائی دی۔ بیچنے والیاں سب بڑے بڑے امیروں اور سرداروں کی بیویاں یا بیٹیاں ہیں۔ سیر کو آنے والیاں بھی آج سب بڑے بڑے مرتبے کی بیویاں اور اکثر اُنھیں دکاندارنیوں کی عزیز و قرابت دار تھیں۔ مجھے تو وہاں کوئی بھی معمولی عورت نہیں دکھائی دی۔

جہاں پناہ: اس کے بعد میرا یہ سوا ل تھا کہ دکاندارنوں کا کیا حال ہے اور اسی کے ساتھ یہ بھی پوچھا تھا کہ مال کتنا اور کس قسم کا ہے؟

تاج محل: دکاندارنوں کا حال کچھ تو میں بتا چکی۔ باقی یہ ہے کہ سب نہایت خوش ہیں اور اس طرح بن سنور کے اور ایسے بانکپن اور شانداری سے دکانوں میں بیٹھی ہیں کہ بجز ان کے چہروں کے کسی کی نظر ان کے مال یا دکان کی آرائش پر نہیں پڑتی۔ جی چاہتا ہے کہ انسان انھیں گھنٹوں کھڑا دیکھا کرے۔ پھر سیر کرنے والیاں بھی دیکھنے کے ساتھ اپنے دکھانے کا بھی شوق پورا کرنے کو آئی ہیں۔ دونوں نے مل کے بازار کو پرستان بنا دیا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ کوہ قاف کی ساری پریاں لا کے یہاں جمع کر دی گئی ہیں۔ مگر دکانوں میں مال بہ ظاہر اتنا نہیں معلوم ہوتا ہے۔ زیادہ تر عورتیں جواہرت بیچنے کو آئی ہیں جن سے ایسا نہیں ہو سکتا کہ دکان مال سے بھر جائے۔ مگر جو عورتیں اپنی صنعت و دستکاری کی چیزیں لائی ہیں، ان کی دکانیں البتہ خوب بھری اور رونق پر نظر آتی ہیں۔

جہاں پناہ: مگر جواہرات والیوں کی دکانوں کو خاص طور پر سجنا چاہیے۔ تم کل وہاں جا کے خاص طور پر اس کا اہتمام کرنا۔

تاج محل: ہاں میں اس کا بھی بندوبست کروں گی۔ مگر بغیر اس کے بھی وہ دکانیں اس قدر آباد اور رونق پر ہیں کہ جو دیکھتا ہے، عش عش کر جاتا ہے۔

جہاں پناہ: اب بتاؤ میں نے کیا پوچھا تھا؟

تاج محل: اس کے بعد جو کچھ حضرت نے پوچھا اس کو میں کبھی نہ بھولوں گی۔ پوچھا تھا کہ دکانیں رکھنے والیوں کی شکلیں اور صورتیں کیسی ہیں؟ بھلا یہ بھی بھولنے والی بات تھی؟ اگرچہ اس میں گذشتہ باتوں کے سلسلے میں بھی بیان کر چکی ہوں۔ مگر آپ کا شوق پورا کرنے کے لیے پھر بتاؤں گی۔ ایک سے ایک بڑھ کر پری جمال و حور خصال ہے۔ اسے مینا بازار یا جواہرات کا بازار نہ کہنا چاہیے، اصل میں وہ حُسن کا بازار ہے اور پُرشوق آنکھیں خریدار ہیں۔ اور میں سمجھتی ہوں کہ یہی حضرت کا اصلی مقصد بھی تھا جو بہت ہی اچھی طرح اور امید سے زیادہ پورا ہوا۔ جہاں پناہ دیکھیں گے تو حیرت میں رہ جائیں گے۔

جہاں پناہ: لیکن اگر میری یہی نیت ہو تو کیا اس میں کچھ مضائقہ ہے؟ کیا اچھی صورتیں دیکھنا گناہ ہے؟

تاج محل: گناہ تو دیکھنے والے کی نگاہ اور اس کے دل خیالات سے تعلق رکھتا ہے۔ جو بُری نگاہ سے دیکھے گا اور بری نیت رکھے گا گنہگار ہوگا اور جس کی نیت پاک ہو اس کے لیے کوئی گناہ نہیں۔ مگر غور کرنے کی یہ بات ہے کہ ایسے حسینوں کے مجمع اور پری جمالوں کے جھرمٹ میں انسان کہاں تک اپنے دل پر قابو رکھ سکتا ہے۔

جہاں پناہ: تو کیا تم کو مجھ پر کسی قسم کی بد گمانی ہے؟

تاج محل: حضرت تو صاف لفظوں میں اقرار کر چکی ہوں کہ کسی عورت پر بُری نگاہ نہ ڈالیں گے اور یہ سب کے اطمینان کے لیے بخوبی کافی ہے۔ مگر یہ ارشاد ہو کہ حضور کے ساتھ جو نوجوان شاہزادے اور تمام اُمرا و امیر زادے اس بازار حُسن میں جائیں گے، اُن کا کیا حال ہوگا؟ ان سبھوں نے تو کوئی عہد و پیمان نہیں کیا ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ حضرت کی پہلی ہی سیر خریداری میں سیکڑوں آفتیں اُٹھ کھڑی ہوں گی۔ میں نے اس بات کو خوب غور کر کے دیکھا کہ اُن آفت روزگار ماہ وَ شوں پر نگاہ پڑنے کے بعد بہت کم ایسے ہیں جن کی نیت ڈانوا ڈول نہ ہو جائے۔

جہاں پناہ: ان شاء اللہ نہ ہوگی۔ میں ان کی خوب نگرانی رکھوں گا اور جاتے وقت سب کو سمجھا دوں گا اور سب سے اقرار لے لوں گا کہ میرے ساتھ جو کوئی اندر جائے کسی عورت کو بُری نگاہ سے نہ دیکھے، اور جس کو اپنے نفس پر قدرت نہ ہو اندر قدم نہ رکھے۔ کیا تم سمجھتی ہو کہ میرے اس حکم اور اقرار لے لینے کا کوئی اثر نہ ہوگا؟

تاج محل: ضرور ہوگا۔ میں اس پر اطمینان کیے لیتی ہوں اور بجز اس کے اور ہو ہی کیا سکتا ہے؟ اگر خدانخواستہ اس بازار کی وجہ سے کوئی فتنہ اُٹھ کھڑا ہوا تو میں منہ دکھانے کے قابل نہ رہوں گی اور حضرت کو بھی لوگ پیٹھ پیچھے اچھا نہ کہیں گے۔ اسی لیے میری عرض ہے کہ حضرت اس کا خاص طور پر اطمینان کر لیں اور ہر وقت اس کی نگرانی فرماتے رہیں۔

جہاں پناہ: میں نگرانی میں کوئی بات اُٹھا نہ رکھوں گا۔ خیر تم نے سب حالات تو بیان کر دیے مگر ایک بار پھر کہو کہ تم نے آج وہاں جا کے اول سے آخر تک کیا کیا۔ اس طرح شاید کوئی بات رہ گئی ہو تو وہ بھی مجھے معلوم ہو جائے گی۔

تاج محل: مَیں جاتے ہی دم بھر کو اپنی کوشک میں ٹھہری۔ پھر ساتھ والیوں کو ہمرا ہ لے کر بازار کا چکر لگا کے دیکھا کہ دکانوں اور دکاندارنوں کی کیا حالت ہے۔ اکثر دکان والیاں جن کی دکان کو میں دیکھ چکتی میرے ساتھ ہو جاتیں۔ اس طرح عورتوں کا ایک بڑا بھاری گروہ میرے ہمراہ ہوگیا جس کو لے کر میں تفرج گاہ کے مرغزار میں پہنچی۔ وہاں جا کے مسند پر بیٹھ گئی، جہاں آرا و روشن آرا میرے داہنے بائیں بیٹھ گئیں اور جتنی عورتیں ساتھ تھیں ان سب کو بھی میں نے بلا کے پاس بٹھا لیا۔ بعض عورتوں نے بڑھ کے نذریں دکھائیں، میں نے اُن پر ہاتھ رکھ دیا اور سب سے کہا یہ دربار نہیں بازار ہے۔ یہاں ہم سب برابر کا درجہ رکھتے ہیں اور محبت و شفقت کے ساتھ ایک دوسرے سے ملنے کو آئے ہیں۔ درباروں میں امیروں کی عزت زیادہ ہوتی ہے مگر یہاں غریبوں کا مرتبہ بڑا ہے۔ اس لیے سب امیرزادیوں کو چاہیے کہ غریب بیویوں سے اپنے مرتبے کے موافق آداب و تعظیم کی امید رکھنے کے عوض خود اُن کی تعظیم و تکریم کریں اور کسی کی دل شکنی نہ ہونے پائے۔ میرے اس کہنے کا بڑا اثر ہوا۔ غریب عورتوں کے چہرے تو شکر گزاری کی جلا سے چمک اُٹھے ہی، معزز اور امیر عورتوں کو بھی میں دیکھتی تھی کہ خوش ہیں اور انھیں ناگوار نہیں ہوا۔

جہاں پناہ: ہاں اس وقت تو خوش ہو گئی ہوں گی اور دل سے خوش ہوں گی۔ مگر جب اس اصول پر عمل کرنا پڑے گا تو امیر زادیاں خوش نہیں رہ سکتیں۔ ان کو اس میں اپنی بے عزتی نظر آئے گی۔ لیکن انھیں چاہے جیسا نظر آئے تم نے آج وہاں پورا شاہی فن اور ملکۂ جہاں ہونے کا حق ادا کر دیا۔ سلطنت دنیا میں صرف اس لیے ہے کہ اُمرا ذی اثر اور دولتمند لوگ ماتحتوں اور غریبوں پر کوئی زیادتی نہ کرنے پائیں۔ یہ دنیا میں ممکن نہیں کہ سب لوگ ایک ہی مرتبے اور درجے کے رہیں۔ اپنی محنت، لیاقت، بہادری اور عہدوں اور خدمتوں کے لحاظ سے بعض لوگ بڑھ ہی جاتے ہیں اور پھر وہ اپنے اقتدار اور اثر سے مغرور بن کے دوسروں پر زیادتی اور غریبوں کی توہین کرنے لگتے ہیں، اور تمام لوگوں پر ظلم ہونے لگتا ہے۔ انھیں مظلوموں کی داد رسی کے لیے خدا نے سلطنت کو بنایا ہے۔ خارجیوں اور بہت سے پُرانے گروہوں نے غلطی سے فرض کر لیا کہ سلطنت میں کوئی شخص بادشاہ بن کے سب سے بڑھ جاتا ہے اور یہ انسانی مساوات کے خلاف ہے۔ چنانچہ وہ سلطنت ہی کے دشمن بن گئے اور ہر بادشاہ سے بغاوت کرنے لگے، مگر یہ نہ خیال کیا کہ بادشاہ محض اس لیے پیدا کیا گیا ہے کہ نوع انسان میں مساوات پیدا کرے۔ اگر کوئی بادشاہ ظالم و مغرور ہو جائے اور اپنا اصلی فرض ادا نہ کرے تو رعایا کو شرعاً و اخلاقاً حق ہے کہ بغاوت کر کے اُسے تخت سے اتار دے اور دوسرا عادل و حق آگاہ بادشاہ منتخب کر لے۔ بہر حال تم نے آج جہاں بانی کا اصلی حق ادا کر دیا۔

تاج محل: میں حق اور فرض کیا جانوں اور نہ اتنی عقل ہے کہ حضرت کی طرح ایسی علمی باتیں میرے ذہن میں گذریں۔ مگر ہاں جو بات اچھی اور مصلحت کی معلوم ہوتی ہے اس پر عمل کرنے کو تیار ہو جاتی ہوں۔ خیر عورتوں کو یہ باتیں سمجھانے کے بعد میں نے اپنی کوشک میں آ کر مینا بازار کو کھولا اور جیسا کہہ چکی ہوں آنے والیوں کا خیر مقدم کیا۔ شام کو جب بہت سی سیر کرنے والیاں آ گئیں تو میں نے پھر بازار کا ایک چکر لگایا۔ دکانداروں اور آنے والیوں کے باہمی برتاؤ اور اُن کی حالت اور مال وغیرہ کو دیکھ کے کوشک میں واپس آئی۔ پھر اعلان کرا دیا کہ کل یا پرسوں حضرت جہاں پناہ مع اُمرا اور شاہزادوں کے اس بازار میں رونق افروز ہوں گے اور بہ نفس نفیس خریداری فرمائیں گے۔ پھر چلی آئی۔

جہاں پناہ: تو تم نے اس کی بھی لوگوں کو اطلاع دے دی۔ خیر تو کل تم جا کے دیکھنا کہ عام عورتوں پر اس کا کیا اثر ہوا اور تم نے جو کل یا پرسوں کہا، یہ بہت اچھا ہوا۔ سب کو خیال ہوگیا ہوگا کہ ممکن ہے میں کل ہی آ جاؤں۔ لہذا جو عورتیں اس کو بے پردگی سمجھیں گی، کل نہ آئیں گی۔ کل تم وہاں پہنچ کے سب سے پہلے اس کا اندازہ کرنا کہ آج عورتوں کا مجمع کم ہے یا زیادہ۔ زیادہ ہو تو جانو کہ سب کو میرا آنا خوشی سے منظور ہے اور اس میں اپنے بے پردگی یا بے حرمتی نہیں تصور کرتی ہیں، اور کم ہو تو سمجھ لو کہ وہ اپنے دل سے میرے آنے کے خلاف ہیں۔ تم اگر زیادہ مجمع دیکھنا تو بلا تامل اعلان کر دینا کہ میں آج کے چوتھے دن یعنی دو شنبہ کو مینا بازار کی سیر کروں گا، اور اگر کم دیکھنا تو کسی بات کا اعلان نہ کرنا۔ جب ہم تم مل کے بخوبی غور کر لیں گے کہ کیا کیا جائے اور کیونکر عورتوں کو اطمینان دلایا جائے، اس کے بعد میں اپنے جانے کے متعلق جو طرز عمل مناسب جانوں گا اختیار کروں گا۔

اسی قرارداد پر یہ کارروائی ختم ہوئی اور بادشاہ کو ان باتوں میں اس درجہ محویت تھی کہ روز کے مقابل آج دیر کو عشا کے لیے موتی مسجد میں تشریف لے گئے۔