مینا بازار/پہلا باب: دربار شاہجہانی

پہلا باب

دربار شاہجہانی


دولت مغلیہ کا پانچواں شہنشاہ شاہجہاں بادشاہ دیوان خاص میں اپنے عدیم النظیر سریرِ شہریاری یعنی تخت طاؤسی پر جلوہ فرما ہے۔ مرصع تخت کے سونے کی آب و تاب اور اُس کے جواہرات کی چمک دمک اہل دربار کی آنکھوں کو خیرہ کر رہی ہے۔ اور ان کا عکس علی مردان خان کی نہر کے نزاکت سے بہنے والے پانی پر عجیب عجیب شوخیوں اور بے قراریوں کا انداز دکھا رہا ہے۔

سامنے اُمرائے دربار لمبے دامنوں کے جامے پہنے، چھجے دار پگڑیاں باندھے، کمروں میں تلواریں اور پٹکوں میں پیش قبض لگائے دست بستہ کھڑے ہیں جن میں زیادہ ممتاز سعد اللہ خان وزیر سلطنت، حکیم رُکنائے کاشی، سعید ائے گیلانی، حکیم مسیح الزمان علامی افضل خان جو بڑے عالم تھے اور مُلا علاء الملک تولی میر سامان ہیں۔

اتنے میں حکیم رکنائے کاشی بڑھ کے زمیں بوس ہوئے اور کمال خوش الحانی سے اپنا ایک نو تصنیف قصیدہ سُنانے لگے۔ حاضرین داد دیتے جاتے تھے اور بادشاہ جہاں پناہ جن میں دینداری نے نہایت سادگی اور بے نفسی پیدا کر دی تھی، اگرچہ اپنے چشم و ابرو سے اور آہستہ آہستہ زبان سے بھی شاعر کی طباعی و سخن آفرینی کی داد دے رہے تھے مگر ساتھ ہی اپنی تعریف سننے سے نادم بھی ہوتے جاتے تھے۔ فرشتۂ ہدایت اُن کے کان میں کہتا کہ تعریف کے قابل صرف خدائے واحد ذو الجلال کی ذات ہے، اَور زیادہ نادم ہو جاتے۔ اس کا انجام یہ ہوا کہ ادھر رُکنائے کاشی نے قصیدہ ختم کیا، اُدھر شاہجہاں تخت ہی پر خدا کے سامنے سجدے میں گر پڑا اور درگاہِ خداوندی میں عرض کیا: الٰہ العالمین! میں کسی قابل نہیں ہوں مگر تیری رحمت و بندہ نوازی ہے کہ مجھے ایسی عزت و حکومت عطا کی کہ یہ شعرا میری مدح سرائی کر رہے ہیں۔

اب بادشاہ نے سجدے سے سر اُٹھا کے حکم فرمایا کہ رکنائے کاشی کو سونے میں تول کے سونا اُس کے حوالے کرو۔ وہ سونے میں تُل رہا تھا اور بادشاہ کہہ رہا تھا: “الحمد للہ کہ ہمارے دربار میں ایسے ایسے نازک طبع و خیال آفریں شاعر موجود ہیں جیسے اور کسی دربار میں نہیں ہیں”۔

اس پر علامی افضل خان نے جو اپنے زمانے کے علمائے بے بدل میں سے تھے، ہاتھ جوڑ کے عرض کیا: “ہندوستان میں اور دربار ہی کون ہے جو اس آستان فلک تواَمان کا مقابلہ کر سکے گا۔ میرا خیال تو یہ ہے کہ آج ممالک فارس و خراسان میں بھی کوئی ایسا صاحب کمال شاعر نہیں موجود ہے جس کو ایران کی دولت صفویہ ہمارے سامنے پیش کر سکے۔ وہاں جو شاعر شہرت و نمود حاصل کرتا ہے، وطن چھوڑ کے یہاں چلا آتا ہے۔ اور اگرچہ ہمارے ملک کی عام زبان فارسی نہیں ہے مگر اس دربار گُہر بار کی اقبال مندی نے ہمیں شعر و سخن میں اہل زبان پر فوقیت عطا کر دی ہے”۔

حکیم مسیح الزمان: ہمارے دربار کے علم و فضل اور ہمارے شعرا کے کمالات نے ہند کو زمین عجم بنا دیا ہے۔ ایران کے آئے ہوئے شعرا اور ہندی مسلمانوں کی سخن سنجی درکنار، یہاں بعض ہندو ایسے خوش گو شاعر ہیں کہ دربار عجم کے شعرا پر فوقیت لے گئے ہیں۔ داتا رام جو برہمن تخلص کرتا ہے فی الحال دہلی میں موجود ہے، فارسی کا ایسا اچھا شاعر ہے کہ اُس کا کلام سُن کر کوئی بے داد دیے نہیں رہ سکتا، بے اختیار زبان سے واہ نکل جاتی ہے۔

یہ سنتے ہی بادشاہ جو تکیے سے پیٹھ لگائے بیٹھا تھا سیدھا ہوا اور کہا: “ہاں میں نے بھی برہمن کی بڑی تعریف سُنی ہے۔ کیا آج کل وہ یہیں ہے؟”

مسیح الزمان: حضور یہیں ہے۔ شہر بھر میں دھوم مچی ہوئی ہے۔ لوگ بڑے ذوق و شوق سے اُس کا کلام سننے کو جانتے ہیں اور بعض لوگ دعوت کے بہانے اپنے یہاں بُلوا کے اُس کا کلام سنتےہیں۔

بادشاہ (ملا عطاء الملک میر سامان کی طرف دیکھ کر): تو اُسے اسی وقت بُلواؤ۔ مجھے اُس کے اشعار سننے کا بڑا شوق ہے۔

ملّا صاحب جو بالذات فرید زمانہ علمائے نامدار میں سے تھے اور میر سامانی و داروغگیِ محل کے عہدے پر سرفراز تھے “بہت خوب” کہہ کے باہر گئے اور داتاؔ رام کے لانے کے لیے ایک ہرکارے کو دوڑا کے واپس آئے۔

اب جہاں پناہ نے سعیدائے گیلانی کی طرف متوجہ ہو کر کہا: “جب تک یہ ہندو برہمن آئے، تم کچھ اپنا کلام سُناؤ۔ مگر قصیدہ خوانی کی ضرورت نہیں اپنی غزلیں پڑھو”۔

سعیدائے گیلانی نے اپنے اشعار سُنانا شروع کیے جن کو بادشاہ دلچسپی اور شوق سے سُن رہے تھے۔ اکثر اشعا پر داد دیتے اور پھر پڑھواتے۔ اس صحبت کو گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ گذرا ہوگا کہ معلوم ہوا داتاؔ رام آ گیا۔ ملا عطاء الملک اُسے جا کے باہر سے لے آئے۔ وہ تخت کے سامنے آیا ہی تھا کہ نقیب نے اس کی طرف متوجہ ہو کر کڑک کے کہا “ادب سے ملاحظے سے!” اور ساتھ ہی دوسرے نے آواز لگائی “نگاہ روشن!” بادشاہ کی نظر اُس کی طرف اُٹھی اور وہ نذر دکھانے کے لیے بڑھا۔ چوبداروں نے بڑھ کر دونوں بازو پکڑ لیے۔ ایک نے بڑھ کے اپنا ہاتھ اُس کے دونوں ہاتھوں کے آگے اڑا دیا کہ زیادہ ہاتھ نہ بڑھا سکے۔ اس شان اور ہیئت سے داتاؔ رام تخت کے قریب پہنچا اور پانچ اشرفیاں پیش کیں۔ بادشاہ نے اُن پر ہاتھ رکھ دیا اور وہ پلٹ کے امرائے دربار کے آخر میں فاصلے پر جا کھڑا ہوا۔

اب بادشاہ نے خندہ جبینی سے اُس کی طرف متوجہ ہو کر کہا: “داتاؔ رام! میں بہت دنوں سے تمھارا نام سُن رہا ہوں اور تمھارے دیکھنےکا شوق تھا۔ میرے قریب آ کے کھڑے ہو اور اپنا کچھ کلام سُناؤ”۔

داتاؔ رام جھک کر آداب بجا لایا، حسب معمول زمین دوز ہو کے سات سلام کیے اور تخت کے قریب آ کے سعد اللہ خان کے برابر کھڑا ہوگیا۔ اب اُس نے اپنا کلام سنانا شروع کیا۔ اُس کی طبیعت میں عاشقانہ جوش تھا اور مذاق میں صوفیانہ رند مشربی، جس کو اُس زمانے کے قدر دانان سخن بے انتہا پسند کرتے تھے۔ بادشاہ اُس کے اشعار سُن کے خوش ہوتے۔ جن اشعار پر زیادہ لطف آتا، آہستہ سے داد دیتے۔ کبھی سعد اللہ خان وزیر کی طرف داد کی نگاہیں ڈال کے اُن سے بھی داد چاہتے اور سارے دربار میں واہ وا کا غلغلہ بلند ہو جاتا۔

بہت سے اشعار سُنانے کے بعد داتاؔ رام نے اپنا یہ شعر پڑھا ؂

مرا دلی است بہ کُفر آشنا کہ چندیں بار

بہ کعبہ بُردم و بازش برہمن آوردم


رُکنائے کاشی نے چونک کے بے اختیار کہا “وہ! وہ! چہ خوش گفتی، بارش بخواں”، اُس نے دوبارہ پڑھا اور اب جو دیکھتے ہیں تو بادشاہ کا مزاج برہم ہے اور کبیدہ خاطری سے سعد اللہ خاں پر غیظ کی نگاہیں ڈال رہے ہیں۔ اس مذاق و خیال کو شعرائے سلف خصوصاً صوفیوں نے فارسی میں بہت عام کر دیا ہے۔ مولانائے روم ملاؔ جامی اور دیگر اساتذۂ سخن کے کلام میں یہ خیال بہ کثرت موجود ہے۔ مگر ایک دیندار بادشاہ کو ایسی مذہبی آزادی سخت ناگوار گذری۔ یہی شعر اگر کسی مسلمان شاعر کی زبان سے سنا جاتا تو اُسے بہت داد ملتی، مگر ایک ہندو شاعر کی زبان سے مسلمان تاجدار کو ناگوار گذرا۔

مزاج شناس و حاضر طبع وزیر سعد اللہ خان نے مسکرا کے دست بستہ عرض کیا: “جہاں پناہ! اس کا جواب تو حضرت مصلح الدین سعدی شیرازی پہلے ہی دے گئے ہیں”۔

بادشاہ: کیا جواب دے گئے ہیں؟ 

سعد اللہ خان: فرماتے ہیں؂

خرِ عیسیٰ اگر بمکہ رود

چوں بیاید ہنوز خر شد


یہ شعر سنتےہی بادشاہ پھڑک اُٹھے۔ وزیر کی حاضر جوابی کی داد دی اور سارے دربار نے قہقہہ لگایا۔ داتاؔ رام کو ایک مسلمان بادشاہ کے سامنے ایسا شعر پڑھنے پر بہت ندامت ہوئی اور سر جھکا کے خاموش کھڑا ہوگیا۔

بادشاہ (کمال شگفتگی کے ساتھ): رُک کیوں گئے۔ کوئی اور غزل پڑھو۔

اس نے سات سلام کرکے عفوِ تقصیر کی درخواست کی اور پھر اپنا کلام سنانے لگا۔ دیر تک سنتے رہنے کے بعد بادشاہ نے اُسے خلعت مرحمت کیا، ایک ہزار اشرفیاں عطا کیں۔ انعام و اکرام سے سرفراز ہو کر داتا رام شکریہ کا آداب بجا لایا اور اپنی جگہ پر کھڑا ہوگیا۔ اب علامی افضل خان نے جو ایک عہدہ دار درباری ہونے کے ساتھ فاضل گراں پایہ اور مقتدائے دین سمجھتے جاتے تھے بارگاہ شاہی میں عرض کیا: “داتاؔ رام حضرت عرش آشیانی (اکبر بادشاہ) کے عہد میں ہوتا تو بڑا شخص ہوتا”۔

بادشاہ (ہنس کر): بے شک وہ اس کے سچے قدردان ہوتے۔ مگر شریعت اسلامیہ کی ایسی توہین تو انھیں بھی گوارا نہ ہوتی اور ہندو عہدہ داروں اور بہادروں کی جیسی قدر و منزلت اُ ن کے زمانے میں ہوتی تھی اب بھی ہوتی ہے۔

افضل خان: بے شک بلکہ اُس سے زیادہ بڑے بڑے عہدوں پر ممتازہیں۔ اپنی جاگیروں اور ریاستوں پر نہایت عزت کے ساتھ قابض و متصرف ہیں۔ فوجی افسروں میں اُن کا مرتبہ اور شمار مسلمان سپہ سالاروں سے کم نہیں ہے۔ عرش آشیانی نے جو قرابت کے تعلقات ہندو راجاؤں کے ساتھ پیدا کیے تھے آج تک بڑھتے جاتے ہیں اور پہلے ہندو اگر دربار کے معزز سردار تھے تو آج ہمارے قرابت دار اور عزیز ہیں۔

بادشاہ: اور میں اِن تعلقات کو زیادہ بڑھانا چاہتا ہوں۔ مجھے یہ سُن کر خوشی ہوتی ہے کہ راجستھان میں عام ہندو مسلمانوں میں شادی بیاہ کا طریقہ جاری ہوگیا جس کے باعث ہم ہندوؤں سے اور ہندو ہم سے زیادہ قریب ہوتے جاتے ہیں۔

سعد اللہ خان: عرش آشیانی کا کوئی کام مصلحت سے خالی نہ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ انھیں ہندوؤں سے زیادہ اُنس تھا۔ بے شک تھا اور صرف اس لیے کہ وہ ہندو مسلمانوں کو ملا کے ایک خیال اور ایک دین پر کر دینا چاہتے تھے۔

افضل خان: اور اس میں بہت اندرونی اور گہرا راز یہ تھا کہ کوئی مسلمان چاہے ہندوؤں کی کتنی ہی رسمیں اختیار کر لے اور اُن کے طریقوں پر چلنے لگے، ہندو نہیں ہو سکتا۔ بخلاف اس کے ہندو جب مسلمانوں سے ملے گا اور اُن کی وضع اختیار کرے گا خواہ مخواہ مسلمان ہو جائے گا۔ ہندو اپنے مذہب پر قائم ہیں مگر کسی غیر مذہب والے کو ہندو نہیں بنا سکتے اور مسلمان ہر فرد بشر کو اپنے دین میں شامل کرنے کو تیار ہیں۔ لہذا اس میں ذرا شک نہیں کہ دونوں گروہوں میں جتنا میل جول بڑھتا جائے گا، اُسی قدر مسلمانوں کا شمار زیادہ ہوتا جائے گا۔ لہذا میرے خیال میں ان باتوں میں حضرت آشیانی کا اصلی مقصد اشاعت اسلام تھا۔

بادشاہ: میرا بھی یہی خیال ہے۔ بعض ناسمجھ مؤرخین نے ان کے دین اور عقائد پر حملے کیے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے جو تم نے کہی کہ اپنے اس طرز عمل سے وہ سارے ہندوستان کو مسلمان کر لینا چاہتے تھے۔ اور یہ انھیں کی برکت ہے کہ ہندوستان میں آج اتنے اہل اسلام موجود ہیں۔

سعد اللہ خان: اسی پر موقوف نہیں، انھوں نے جتنے کام کیے سب کسی بڑی مصلحت پر مبنی تھے۔ مثلاً انھوں نے ایک مینا بازار قائم کیا۔ علمائے ظاہر خیال کرتے ہیں کہ اس میں مسلمان خاتونوں کی بے حُرمتی و رسوائی منظور تھی۔ لیکن حقیقت کا پتہ لگائیے تو صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ اس میں اُن کا اصلی مقصد یہ تھا کہ پردے میں میں رہنے والی عورتیں جو دنیا و مافیہا سے بے خبر ہیں اور قیدیوں کی طرح اپنے گھروں میں اکیلی پڑی رہتی ہیں ایک دوسرے سے ملیں جلیں، زمانے اور حالات زمانہ سے واقف ہوں۔ ہندو مسلمان عورتیں جو الگ تھلگ رہتی ہیں آپس میں مل جُل کے ایک دوسرے کے اوضاع و اطوار اختیار کریں۔ مسلمان خاتونیں ہندو عورتوں کی شوہر پرستی و خود فراموشی سیکھیں اور ہندو عورتیں مسلمان بیویوں سے شائستگی، خوش اخلاقی، وضعداری اور سلیقہ شعاری کا سبق لیں۔

افضل خان: اور میں کہتا ہوں کہ اس میں بھی تمام مصلحتوں کے دامن میں چھپی ہوئی سب سے بڑی مصلحت یہ تھی کہ ہندو عورتیں مسلمان عورتوں سے مل کے اُن کی دنیوی خوبیوں کے ساتھ اُن کا سچا دین اور اُن کی توحید و رسالت کو بھی سیکھ کے مسلمان ہو جائیں اور پھر اپنے اثر سے اپنے مردوں کو مسلمان بنا لیں۔

بادشاہ: یقیناً اس میں بھی عرش آشیانی کا یہی مقصد تھا کہ اسلام کو ترقی ہو۔ مگر یہ مینا بازار کیا تھا اور کیسا تھا؟ میں نے محل کی عورتوں میں بارہا اس کا ذکر سنا ہے اور تمام عورتوں کو اُس کا شائق پاتا ہوں۔

سعد اللہ خان: یہ ایک زنانہ بازار تھا، جس میں تمام اُمرا و معززین کی عورتیں دُکانیں رکھ کے اپنے جواہرات اور دوسری نادر چیزیں فروخت کرتی تھیں۔ خود حضرت عرش آشیانی، کُل شہزادے اور تمام امرائے دربار اُس بازار میں جا کے خریداری کرتے اور عورتیں جو دام مانگتیں دیتے۔ مردوں کے علاوہ عام عورتیں بھی سیر و تفریح کے لیے اُس بازار میں آتیں اور عجیب لطف کا مجمع ہوتا۔

بادشاہ: تو عورتیں خریدار امیروں سے پردہ نہ کرتی تھیں؟

سعد اللہ خان: قدیم الایام سے شرفائے ترک و تاجیک اور عرب و عجم کے معززین میں یہ رواج چلا آتا ہے کہ بادشاہ ظل اللہ سب کے پدر مشفق مانے جاتے ہیںاور کوئی عورت اُن سے پردہ نہیں کرتی۔ رہے شاہزادے اور اُمرائے دربار، اُن کے سامنے انھیں اختیار تھا کہ چاہیں تو چہرے پر زرتار نقاب ڈال لیں۔ لیکن سنا جاتا ہے کہ عرش آشیانی کے مینا بازار میں کسی مسلمان عورت کے چہرے پر نقاب نہ تھی۔

بادشاہ: تو کیا تمام اُمرا و شرفا کی عورتیں آنے پر مجبور کی گئی تھیں؟

سعد اللہ خان: مجبور کوئی نہیں کیا گیا تھا۔ مگر اس بازار کی شرکت میں بادشاہ کی خوشنودی کے علاوہ اس قدر زیادہ فائدے کی امید تھی کہ کوئی شریف گھرانا نہ تھا جس کی عورتیں نہ آئی ہوں اور سیر دیکھنے کو عوام و خواص کی سبھی عورتیں آتی تھیں۔

بادشاہ:اُس بازار کی وجہ سے لوگوں میں کوئی ناراضی اور شکایت تو نہیں پیدا ہوئی؟

سعد اللہ خان: مطلق نہیں۔ آج تک لوگ اس کو خوشی اور شکر گزاری کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔

بادشاہ: جی چاہتاہے کہ میرے زمانے میں بھی ایک ایسا بازار ہو۔ تمھارا کیا خیال ہے؟

سعد اللہ خان: بہت مناسب ہے۔ تمام خاندانوں میں زندہ دلی پیدا ہو جائے گی اور چونکہ عورتوں میں اس کا بہت شوق ہے اور حضرت عرش آشیانی کے عہد والے مینا بازار کے حالات کہانیوں کی طرح بیان کیا کرتی ہیں، لہذا بہت خوش ہوں گی اور نہایت شوق سے آئیں گی۔

بادشاہ: میں اپنے عہد کے مینا بازار کے لیے اُس کے مناسب ایک خاص عمارت تعمیر کراؤں گا تاکہ مدتوں کے لیے اُس کی بنیاد قائم ہو جائے اور ہر سال مناسب وقت پر چند روز تک یہ لطف قائم رہا کرے، لیکن چونکہ عورتوں کا معاملہ ہے اس لیے پہلے بادشاہ بیگم سے مشورہ کر لوں۔ اگر انھوں نے پسند کیا تو کل ہی سے اس کی عمارت تعمیر کرانا شروع کر دوں گا۔

سعد اللہ خان: اس عالی شان کام کو انھیں کے مبارک ہاتھوں سے انجام پانا چاہیے۔ بلکہ یہ بہتر معلوم ہوتا ہے کہ اس بازار کو وہی اپنے حکم سے قائم کریں۔ اُن کا حکم ہوا تو ساری عورتیں بغیر کسی خرخشے کے چلی آئیں گی۔

بادشاہ: میں انھیں آمادہ کروں گا کہ اس مینا بازار کا اعلان اپنے حکم سے کریں اور انھیں کے حکم سے اس کی عمارت بھی تعمیر ہو۔

سعد اللہ خان: نہایت مناسب ہے۔

اب چونکہ دیر ہو گئی تھی لہذا حضرت جہاں پناہ دربار برخاست کر کے محل میں تشریف لے گئے اور اُمرائے دولت نے اپنے اپنے گھروں کی راہ لی۔