مینا بازار/چودھواں باب: انجامِ نیک

چودھواں باب

انجامِ نیک


اب ہوا دار پر سوار ہو کر جہاں پناہ دربار میں برآمد ہوئے۔ نقیب نے نعرۂ تادیب بلند کیا اور تمام اُمرا و اہل دربار جھک جھک کے آداب بجا لائے۔ لوگ اس خیال میں تھے کہ چونکہ جمال خان کا معاملہ پیش ہونے والا ہے، لہذا حضور نہایت ہی برہم ہوں گے۔ مگر خلاف امید حضرت ظل سبحانی کا مسرور و بشاش چہرہ دیکھ کر سب کو تعجب ہوا۔ خصوصاً جان سپار خان کو نہایت ہی حیرت تھی جو اب گلرخ بیگم کے شوق میں جمال خان کے مارے جانے کا آرزو مند تھا۔

تخت پر اطمینان سے بیٹھ لینے کے بعد جہاں پناہ نے کوتوال کی طرف جو دست بستہ کھڑا تھا، نظر اٹھا کے فرمایا: “کل تم نے اطلاع کرائی تھی کہ جمال خان مجھے سے کچھ کہنا چاہتا ہے اور مابدولت و اقبال نے قتل کے حکم کو ملتوی کر کے ہدایت کی تھی کہ کل دربار میں حاضر کیا جائے۔ اس حکم کے مطابق وہ حاضر ہے؟”

کوتوال (ہاتھ جوڑ کے): حاضر ہے، سامنے بلوایا جائے؟

جہاں پناہ: بلواؤ۔ حکم کے ساتھ ہی کوتوالی کے سپاہی جمال خان کو اس حیثیت سے سامنے لائے کہ نہ سر پر دستار تھی، نہ بدن پر درباری قبا۔ معمولی کُرتا پائجامہ پہنے تھا اور سر سے پاؤں تک طوق و سلاسل میں جکڑا ہوا تھا۔ آتے ہی جھک کے آداب بجا لایا اور اُسے اس حال میں دیکھ کر تمام اہل دربار کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔

جہاں پناہ: بتاؤ تم مجھے سے کیا کہنا چاہتے ہو؟

جمال خان: غلام کو جو کچھ عرض کرنا ہے اس کو تنہائی میں عرض کرے گا۔

جہاں پناہ: شاید تم اپنی برات ثابت کرنا چاہتے ہوگے مگر یہ بیکار ہے۔ علما نے فتویٰ دے دیا۔ رہی مجھ سے رحم و جان بخشی کی خواہش تو جس شخص کو اپنے بادشاہ کے کہنے کا اعتبار نہ ہو وہ ایسی درخواست نہیں کر سکتا۔

جمال خان: فدوی سے تو ایسی نالائقی نہیں ہوئی کہ حضرت ظل اللہ کے فرمانے کا اعتبار نہ کرے۔

یہ سُن کر جہاں پناہ نے اپنی نظر تمام حاضرین کے چہروں پر سے گذران کے جان سپار خان کی صورت پر جما دی اور فرمایا: “تمھیں خبر لائے تھے کہ جمال خان نے اپنی بیوی کو گالیاں دیں، زانیہ و بدکار بنایا اور طلاق بائن دے دی”۔

جان سپار خان (ہاتھ جوڑ کر): بے شک۔ اِنھوں نے میرے سامنے اُس پاکدامن بیوی کو بدکار بتایا۔ صاف لفظوں میں کہا کہ حضرت جہاں پناہ اگرچہ اس کی برأت فرماتے ہیں مگر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ جس خوبصورت عورت کو بادشاہ شہر کی ساری عورتوں میں سے چھانٹ کے محل میں لے جائیں، تین روز اپنے یہاں رکھیں اور وہ ان کےہاتھ سے بچ کے پاکدامن چلی آئے۔

جہاں پناہ (جمال خان سے): اس سے صاف ثابت ہوا کہ تم نے اپنی بیوی کو زنا کی تہمت لگائی، مجھے زانی بتایا اور چونکہ میں نے کہہ دیا تھا کہ میں اور ملکۂ جہاں دونوں اس کی آبرو کے محافظ ہیں، لہذا تم نے ہم دونوں کی بے اعتباری کی۔

جمال خان: اس کا جواب تنہائی میں عرض کروں گا۔

جہاں پناہ: خیر تم جواب دینا اور میں سنوں گا۔ (جان سپار خان سے) مگر تم بتاؤ ان پر حد شرع جاری ہونا چاہیے؟

جان سپار خان: ضرور جاری ہو بلکہ یہ اس سے بھی سخت سزا کے قابل ہیں۔

جہاں پناہ: تمھارے نزدیک ان کی کیا سزا ہے؟

جان سپار خان: وہی جس کا حہاں پناہ حکم فرما چکے ہیں۔

جہاں پناہ: اور ان کی بیوی کو اپنی پاکدامنی و نیک نفسی کا کیا معاوضہ ملنا چاہیے؟

جان سپار خان: یہ کہ حضرت کسی ذی مرتبہ امیر کے ساتھ اُ ن کا عقد کرا دیں۔

جہاں پناہ: کون ذی مرتبہ امیر گلرخ بیگم کو اپنی جورو بنانے کا آرزو مند ہے؟

جان سپار خان: یہ آرزو سب سے زیادہ اس فدوی کے دل میں ہے اور فدوی وعدہ کرتا ہے کہ اُس نازنین کو نہایت ہی محبوب معشوقہ کی طرح عیش و آرام سے رکھے گا۔

جہاں پناہ: کیا تم اس عورت پر عاشق ہو؟

جان سپار خان: جب سے اُس کی شادی جمال خان کے ساتھ ہوئی اُسی وقت سے، پھر میں نے جمال خان ہی کی زبان سے اس کے حسن و جمال اور اس کی خوبیوں کی تعریف سُنی اور اُسی کی تعریفیں سننے کے لیے ان سے ملاقات بڑھائی۔

جہاں پناہ: تو معلوم ہوتا ہے کہ تم نے جو سب سے پہلے آ کر مجھے سے جمال خان کی شکایت کی تو یہ اسی دُھن میں تھا۔

جا ن سپار خان: جہاں پناہ کا فرمانا بجا ہے۔ اصلی بات یہ تھی کہ گلرخ بیگم کے ساتھ انھوں نے جو سلوک اور اس غریب پر جیسا ظلم کیا اس سے مجھے سخت تکلیف ہوئی اور چاہا کہ اُس بے گناہ خاتون کا انتقام اِن سے لے لوں۔

جہاں پناہ: گویا اسی وقت کا انتظار کر رہے تھے؟

یہ سوال جہاں پناہ نے کچھ ایسے لہجے میں کیا کہ جان سپار خان کے دل میں ایک قسم کا خوف سا پیدا ہوگیا اور عرض کیا: “مگر اس واقعے سے پہلے مجھے جمال خان سے مخالفت نہ تھی۔ میں ان کا سچا دوست اور خیر خواہ تھا۔ چنانچہ جب انھوں نے اپنی بیوی کے ایوان خسروی میں آنے پر ناراضی ظاہر کی تو میں نے انھیں ہر طرح ان کی بیوی کی عصمت و عفت کا یقین دلایا اور طلاق اور ہر قسم کی بدسلوکی سے برابر روکتا رہا۔

جہاں پناہ: تمھارے بیان سے معلوم ہوا کہ تم جمال خان کے دوست صرف اس کی بیوی کے خیال سے تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ وہ اس کے ساتھ کوئی بدسلوکی کرے۔ پھر جب اس نے بدسلوکی کی تو فوراً یہاں دوڑے آئے کہ جمال خان کو معتوب کرا کے اس کی بیوی پر قبضہ کرو۔ ہے نا؟

جان سپار خان (جس کا چہرہ خوف سے زرد پڑ گیا تھا): بجا ارشاد ہوا۔

جہاں پناہ: تو ایسے بدنیت دوستوں کی سزا کیا ہے؟

جان سپار خان: جو مرضیِ مبارک ہو۔ غلام ہر طرح خطاوار ہے۔

جہاں پناہ: میں تمھیں فقط اتنی سزا دوں گا کہ اپنی یہ خطا ہمیشہ یاد رکھو۔

یہ کہہ کے تمام حاضرین دربار پر نظر دوڑا کے نور خان گُرز بردار سے جو شانے پر گُرز رکھے اور کمر میں خنجر لگائے کھڑا تھا، غصے کے ساتھ کہا: “جان سپار خان کو لے جا کے اس کا داہنا کان کاٹ لو اور کل حاضر کرنا کہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں کہ ایک کان غائب ہے”۔

اس کے بعد تمام اہل دربار ہٹا دیے گئے اور جب جہاں پناہ نے دیکھا کہ جمال خان کے علاوہ جو طوق و سلاسل پہنے تھا، اور کوئی نہیں باقی ہے تو اس کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: “کہو کیا کہتے ہو؟”

جمال خان: مجھے کس جرم کی پاداش میں سزائے قتل دی گئی ہے؟

جہاں پناہ: تمھیں اپنا جرم ابھی تک نہیں معلوم ہوا؟ تم نے اپنی پاکدامن بیوی کو زنا کی تہمت لگائی۔ اسی کو نہیں مجھے بھی زنا کاری سے متہم کیا اور ملکۂ جہاں نواب ممتاز الزمانی بیگم پر یہ الزام عائد کیا کہ جن عورتوں کو وہ اپنی حفاظت میں رکھیں یا اپنا مہمان بنائیں ان کی عصمت محفوظ نہیں ہے۔ تمھارے یہی جرم ہیں جن پر علمائے شرع نے تم کو واجب القتل قرار دیا اور میرے نزدیک بھی یہی سزا ہونی چاہیے، کیونکہ تم نے عام رعایا کے دلوں سے بادشاہ وقت اور ان کی ملکہ کا اعتبار اٹھا دیا اور اس مینا بازار کو بدنام کر دیا جس کو بادشاہ بیگم صاحبہ نے بڑی شوق اور بڑی احتیاط کے ساتھ عورتوں کی نفع رسانی کے لیے کھولا ہے۔

جمال خان: ان سب جرموں کا کوئی ثبوت بھی ہے یا محض افواہی باتوں پر غلام کو سزا دی جاتی ہے؟

جہاں پناہ: جان سپار خان گواہی دیتا ہے۔ خود تمھاری بیوی کا بھی یہی بیان ہے۔

جمال خان: ان دونوں نے بہ حلف شہادت دی کہ میں نے اپنی بیوی کو یا ظل اللہ کو زانی بتایا یا ملکۂ زمانی کے بارے میں بد گمانی کی؟

جہاں پناہ: اُن سے حلف تو نہیں لی گئی مگر کیا تمھیں ان باتوں سے انکار ہے؟

جمال خان: قطعاً۔ اتنا صحیح ہے کہ اپنی بیوی کے تین دن محل میں رہنے سے میرے دل میں بد گمانیاں پیدا ہوئیں اور اسی بنا پر میں نے اسے طلاق دے دی جس کا شرعاً مجھ کو حق حاصل تھا۔

جہاں پناہ: تم نے اپنی بیوی سے ایسے فقرے کہے جن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ تمھیں اس کے زانیہ ہونے کا یقین ہے۔

جمال خان: شک کے جملے بے شک کہے مگر میں نے یہ ہرگز نہیں کہا کہ مجھے اس کی بدکاری کا یقین ہے۔

جہاں پناہ: اگر یقین نہ تھا تو تم نے اسے طلاق کیوں دی؟

جمال خان: طلاق دینے کے لیے معمولی بد گمانی یا کوئی اور مصلحت بھی کافی ہو سکتی ہے۔

جہاں پناہ: اس میں اور کون سی مصلحت ہو سکتی ہے؟

جمال خان: اصلی مصلحت اور طلاق دینے کی وجہ یہ تھی کہ جس عورت پر حضرت ظل السبحانی کی نظر پڑی اور حضرت نے اسے خوبصورت و صاحب جمال تصور فرمایا، اس پر کسی اور کا خصوصاً اس کا جو ایک ادنیٰ غلام کی حیثیت رکھتا ہو، نظر ڈالنا اور اپنے تصرف میں لانا میرے عقیدے میں حرام ہے۔ میں نے اس عورت کے مرتبے کو حضرت کی نگاہ میں پسندیدہ ہونے کے بعد اپنے رتبے سے زیادہ جانا اور اس کو کمال گستاخی تصور کیا کہ بیوی کی طرح گھر میں رکھوں۔ اب میں اس کا ادب و احترام کرتا ہوں، اسے اپنی آقا اور اپنا سرتاج جانتا ہوں۔

جہاں پناہ: تو تمھیں اقرار ہے کہ تم نے اس کو زنا کی تہمت نہیں لگائی؟

جمال خان: بے شک۔ بلکہ میں نے جو اسے طلاق دی صرف اس خیال سے کہ اب اس کا مرتبہ اپنے سے زیادہ جانتا تھا۔

جہاں پناہ: مگر تم نے ایسے الفاظ ضرور کہے جن سے مجھ پر بد گمانی کا شائبہ ہوتا ہے، جس کی سزا ضرور ہونی چاہیے۔

جمال خان: تو کیا دل میں کوئی بُرا خیال پیدا ہونے کی سزا قتل ہے؟

جہاں پناہ: نہیں۔ تمھاری جان بخشی ہوگی مگر اتنی سزا ضرور ہونی چاہیے کہ آئندہ کے لیے تم اپنے عہدے، منصب اور تمام اعزاوں اور خطابوں سے معزول و محروم کیے گئے۔

جمال خان: یہ سزا جس سے حضرت کی ناراضی ظاہر ہوتی ہے غلام کے لیے موت سے بدتر ہے۔

جہاں پناہ: اس سزا سے تم نہیں بچ سکتے۔ اب ایسی صورت پیدا ہونے والی ہے کہ آئندہ تمھاری آقا اور تمھارے حال پر مہربان ہونے والی گلرخ بیگم ہوں گی۔ انھیں راضی و خوش کرو گے تو ممکن ہے کہ پھر وہی عزت و عہدہ حاصل ہو جائے۔ تم اصلی مجرم انھیں کے ہو اور وہی تمھارا قصور معاف کر سکتی ہیں۔

اس کے بعد جہاں پناہ نے تمام اہل دربار کو سامنے بلا کے اعلان کر دیا کہ جمال خان کی جان بخشی کی گئی مگر اپنے عہدے اور اعزازوں سے برطرف کیا گیا۔ جمال خان فوراً شکر گزاری میں زمین بوس ہو کر آداب بجا لایا۔

اب جہاں پناہ دربار برخاست کر کے محل میں تشریف لائے اور اسی وقت گلرخ بیگم کو بلا کے ارشاد فرمایا: “تمھاری خاطر سے جمال خان کا قصور معاف کیا گیا اور اسے بتا دیا گیا کہ تمھاری کھوئی ہوئی عزت کا پھر حاصل ہونا اس خاتون کی نظر عنایت پر موقوف ہے جس کے دل کو تم نے آزار پہنچایا”۔

عدت کا زمانہ گذرتے ہی جہاں پناہ نے گلرخ بیگم سے نکاح کر کے اسے اپنی محبوبہ بیوی بنا لیا اور جب تک نواب ممتاز الزمانی بیگم زندہ رہیں، وہ انھیں کے پاس ان کی ایک ادنیٰ خادمہ کی حیثیت سے رہی اور اس کوشش میں مصروف رہی کہ بادشاہ بیگم کا اثر جہاں پناہ پر روز بروز بڑھتا رہے، مگر جب ممتاز الزمانی بیگم نے انتقال کیا تو وہی بادشاہ کی سب سے بڑی محبوبہ اور اندر باہر کی مالک تھی۔

جمال خان نے شوکت آرا کی خوشامد اور اس سے سفارش کرا کے گلرخ بیگم سے اپنا قصور معاف کرایا۔ پھر چند ہی روز میں پہلے سے زیادہ عزت و شوکت حاصل کر لی اور اکثر اس کے دل میں یہ سوال پیدا ہوا کرتا کہ میں نے جو گلرخ بیگم کو طلاق دی یہ اچھا ہوا یا بُرا؟ اور آخر یہی فیصلہ کرنا پڑتا کہ اگرچہ گلرخ بیگم کی قدر نہیں جانی، مگر ان کا چھوڑنا ہی میرے حق میں بہتر ہوا۔