مینا بازار/گیارھواں باب: بادشاہ کو خبر


گیارھواں باب

بادشاہ کو خبر


شوکت آرا کے یہاں ڈولی سے اترتے ہی گلرخ بیگم نے کہا: “بہن! دیکھا تم نے مردوں کی محبت کا حال؟ یہ ان میاں کا حال ہے جو محبت کا دم بھرتے تھے، صورت کے عاشق تھے اور ہر وقت جان فدا کرنے کو تیار رہتے تھے؛ اور جن بیچاریوں کے شوہروں کو ان سے زیادہ محبت نہیں ہے، ان کی مظلومی کی تو کوئی انتہا ہی نہ ہوگی”۔

شوکت آرا : ہاں بہن دیکھا اور سمجھ میں نہیں آتا کہ ان کی عقل کو کیا ہوگیا؟ ان کے یہاں جیسے انصاف ہئی نہیں ہے۔

گلرخ بیگم: اور جہاں پناہ کہتے تھے کہ انھوں نے ان کو بلا کے خوب سمجھا دیا اور ان کے دل کے شک مٹا دیے۔ انھیں بادشاہ کے کہنے کا بھی اعتبار نہ ہوا تو اور کسی کا کیا اعتبار ہوگا؟

شوکت آرا: اب تم اپنا دل نہ کُڑھاؤ اور آرام سے بیٹھو۔ وہ انصا ف نہ کریں، خدا تو دیکھتا ہے۔ ان کو زیادہ شک تھا عالموں سے فتوی لے لیتے، دوستوں سے مشورہ کرتے مگر وہ مجنون سے معلوم ہوتے ہیں اور جب بعد کو غور کریں گے تو اپنے کیے پر بہت پچھتائیں گے۔

گلرخ بیگم: اب پچھتانے سے کیا ہو سکتا ہے؟ میری قسمت میں جو لکھا تھا، پورا ہوا اور منہ کو جو کالک لگنا تھی لگ گئی۔

شوکت آرا: تم تو بے گناہ ہو۔ سچ پوچھتی ہو تو کالک انھیں کے منہ کو لگی اور وہی ذلیل ہوئے۔

ان باتوں کے بعد گلرخ بیگم پلنگ پر منہ لپیٹ کے پڑ رہی۔ اپنی مصیبت و حالت کو یاد کرتی تھی اور زار و قطار روتی تھی۔ دل میں آتا تھا کہ اپنے میکے میں چلی جائے مگر پھر کہتی کہ وہاں کیا منہ لے کے جاؤں؟ اور کیسے منہ دکھاؤں؟پھر خیال آتا کہ نواب تاج محل کے پاس جا کے اپنی مصیبت بیان کرے اور بادشاہ کے آگے فریادی ہو۔ مگر دل اس کو بھی نہ گوارا کرتا اور کہتی بادشاہ سنیں گے تو انھیں سخت سزا دیں گے اور وہ میرے ساتھ جو چاہیں کریں میں اُن کا نقصان نہیں چاہتی، اور ان کو سزا ملنے سے مجھے کیا مل جائے گا؟ میری قسمت میں جو ذلت اور تباہی ہے نہیں دور ہو سکتی۔

انھیں خیالات میں تیسرا پہر ہوگیا اور شوکت آرا نے آ کے کہا: “لے چل کے کھانا تو کھا لو”۔ گلرخ بیگم نے ہزار کہا کہ مجھے بالکل بھوک نہیں ہے مگر شوکت آرا نے نہ سُنا اور زبردستی لے جا کے کھانا کھلایا۔ کھانے کے بعد دونوں بہنیں تنہا بیٹھیں تو شوکت آرا نے پوچھا: “بہن! تم نے کچھ غور کیا کہ اب کیا کرنا چاہیے؟”

گلرخ بیگم: کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی۔

شوکت آرا: کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی! اے کل ہی جا کے بادشاہ کے سامنے فریاد کرو۔

گلرخ بیگم: فریاد کرنے سے فائدہ؟ کوئی لڑائی ہوتی تو وہ سمجھا بجھا کے ملا دیتے۔ طلاق کا وہ کیا علاج کر سکتے ہیں؟ میرے درد کا علاج دنیا بھر میں کسی کے پاس نہیں۔ بڑے مہربان ہوئے تو کسی امیر کے ساتھ میرا دوسرا نکاح کرا دیں گے او ریہ مجھے منظور نہیں ہے۔ طلاق میں کون سی ذلت اُٹھ رہی ہے کہ اب دوسرے مرد کی صورت دیکھوں؟ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مجھے اب مردوں کی صورت سے نفرت ہو گئی، ان میں نہ رحم ہے نہ انصاف، نہ خدا کا خوف ہے اور نہ رسول سے شرم۔ ایک ہی نے کیا کم نہال کر دیا کہ دوسرے کی صورت دیکھوں؟

شوکت آرا: تم دوسرا نکاح نہ کرنا مگر بادشاہ اور ملکہ سے اپنا درد دل بیان تو کرنا چاہیے اور نہیں تو تمھارے بسر ہی کی کوئی صورت پیدا ہو جائے گی۔

گلرخ بیگم: انھیں چار پانچ روز میں جتنی دولت مجھے جہاں پناہ کی مہربانی سے مل گئی وہ میری زندگی بسر ہونے کے لیے بہت ہے۔ اب میرے وہاں جا کے فریاد کرنے کا اس کے سوا کوئی انجام نہیں ہے کہ بادشاہ خفا ہو کے انھیں سخت سزر دیں۔ اس سے مجھے کیا مل جائے گا؟ اور میں چاہتی بھی نہیں کہ میری وجہ سے انھیں کچھ آزار پہنچے۔ وہ جانتے ہیں کہ میں اگر بادشاہ کے سامنے روؤں گی تو ان سے سخت باز پُرس کریں گے لیکن انھوں نے چاہے کیسا ہی سلوک کیا ہو، میں ایسا کوئی کام نہ کروں گی جس سے ان کو نقصان پہنچے۔ زندگی بھر یاد کریں گے کہ انھوں نے میرے ساتھ کیا کیا اور میں نے ان کے ساتھ کیا کیا۔

شوکت آرا: آخر کیا کرو گی؟

گلرخ بیگم: کچھ نہیں۔ ان کے وہاں سے نکال ہی دی گئی۔ میکے میں بھی جا کے اپنی منحوس صورت نہ دکھاؤں گی۔ اگرچہ تمھارا گھر بھی میکے ہی میں شامل ہے مگر اتفاق سے یہاں آ گئی۔ اگر تم نے پڑا رہنے دیا تو اس گھر سے قدم نہ نکالوں گی، یہیں رہوں گی اور یہیں مروں گی۔ اور اگر تمھیں میرا یہاں رہنا منظور نہ ہو تو اپنے میاں سے کہہ کے مجھے کوئی مکان خرید دو جو کسی سنسان مقام اور خاموش محلے میں ہو۔ اتنے دنوں بندوں کی اطاعت و خدمت کر لی، اب مرتے دم تک خدا کی عبادت کروں گی۔

شوکت آرا: ایسی باتیں نہ کرو۔ نہ تمھارا یہاں رہنا کسی کو گراں گذر سکتا ہے اور نہ تمھاری آزادیوں میں کوئی فرق ڈال سکتا ہے۔ مگر میں کہتی ہوں کہ نہ تم اس طرح اکیلی اور خاموش بیٹھ سکتی ہو اور نہ بیٹھنے پاؤ گی۔

گلرخ بیگم: کیوں؟ اب کون ہے جو میری آزادی میں فرق ڈالے یا میرے معاملات میں دخل دے گا؟

یہی باتیں ہو رہی تھیں کہ ایک ماما نے آ کے کہا: “نواب جان سپار خان دروازے پر کھڑے ہیں اور پردے کی آڑ میں آپ سے دو باتیں کرنا چاہتے ہیں”۔

شوکت آرا: کس سے؟ اُن سے یہاں کسی سے تعلق؟

ماما (گلرخ بیگم کی طرف اشارہ کر کے): آپ سے۔

گلرخ بیگم: ہاں وہ ان کے بڑے دوست ہیں اور روز انھیں کے پاس بیٹھے رہا کرتے ہیں۔ ایک آدھ دفعہ مجھ سے بھی دو ایک باتیں ہو چکی ہیں۔ مگر میرے پاس ان کے آنے کی وجہ؟ (ماما سے) جا کے کہہ دو کہ آپ کے دوست نے مجھے طلاق دے کے گھر سے نکال دیا اور میں نے ان کے ساتھ ان کے دوستوں کو بھی چھوڑا۔ جب تک میں جورو تھی ان کے دوستوں سے ملنا اور ان کی خدمت کرنا اپنا فرض جانتی تھی۔ اب مجھ سے آپ سے کوئی تعلق نہیں رہا۔

ماما گئی اور تھوڑی دیر کے بعد جواب لائی کہ وہ کہتے ہیں: “آپ کے بارے میں مجھ سے ان سے تین دن برابر بحث ہوتی رہی، میں آپ کی بے قصوری ثابت کر کے انھیں قائل و معقول کرتا رہا مگر ان کی سمجھ ایسی الٹی ہے کہ قائل ہو گئے مگر قبول نہ کیا۔ آج بھی میں صبح کو آپ کے آنے کے وقت تک سمجھاتا رہا اور تاکید کر دی کہ بغیر میرے مشورے کے کوئی ایسی کارروائی نہ کریں جو سخت ہو۔ مگر اس وقت گیا تو وہ باہر نہ آئے مگر آپ کے گھر کی لونڈی سے سُنا کہ انھوں نے بے سوچے سمجھے کمال حماقت سے طلاق دی دے، اس گھڑی سے میں نے ان کی دوستی چھوڑ دی اور آپ کا دوست ہوں اور ہر قسم کی خدمت بجا لانے کو تیار ہوں”۔

گلرخ بیگم: جاؤ کہہ دو۔ نامحرم مرد اور عورت کی دوستی ہی کیا؟ اس لفظ کو پھر زبان سے نہ نکالیے گا۔ کیا آپ مجھے اس گھر میں بھی آرام سے نہ بیٹھنے دیں گے! میرے حال پر آپ جو مہربان ہوئے، اس کی شکر گزار ہوں مگر میرا کوئی ایسا کام نہیں ہے کہ آپ کو تکلیف دوں۔

اس کا جواب ماما یہ لائی کہ میں نے دوست کا لفظ کسی بُرے معنوں میں نہیں کہا تھا۔ لیکن آپ کو نہیں پسند ہے تو پھر کبھی میری زبان سے نہ سنیے گا۔ تاہم بعض ایسی باتیں ہیں جو آپ ہی سے کہنے کی ہیں۔ میں کل صبح حضرت جہاں پناہ کے دربار میں جاؤں گا، اس سے آپ کو اندازہ ہو سکتا ہے کہ میں کس قسم کی خدمت بجا لا سکتا ہوں۔

گلرخ بیگم نے یہ سُن کے کہلا بھیجا: “بادشاہ کے محل میں میں بھی جا سکتی ہوں مگر میں ان کے سامنے شکایت نہیں کرنا چاہتی۔ میں نے کچھ بھی کہا تو حضرت جہاں پناہ اور ملکۂ عالم دونوں ان سے خفا ہو جائیں گے اور خدا جانے غصے میں کیا حکم دے دیں۔ مگر اس سے مجھے کیا فائدہ ہوگا؟ پھر ان سے مل نہیں سکتی اور کسی اور مرد کی صورت دیکھنے کی مجھے آرزو نہیں۔ لہذا شکایت سے کیا حاصل؟ انھوں نے میرے ساتھ جو چاہے کیا ہو، میں ان کی برائی نہیں چاہتی۔ اتنے دنوں مجھے آرام سے رکھا، اس کی زندگی بھر احسان مند رہوں گی”۔

اس کا جواب جان سپار خان سے یہ ملا کہ آپ کے نیک بیوی ہونے میں کوئی شبہ نہیں اور یہ ان پر آپ کا بڑا احسان ہے کہ باوجود قدرت ہونے کے ان سے انتقام لینا نہیں چاہتیں۔ مگر کیا یہ معاملہ حضرت جہاں پناہ سے چھپا رہے گا؟ آج ہی خبر ہو گئی ہو تو تعجب نہیں۔ شاہی مخبر ایسی خبروں کا پتہ لگاتے پھرتے ہیں۔

گلرخ بیگم نے کہلا بھیجا: “جہاں پناہ تک یہ بات پہنچ گئی تو جو مناسب جانیں گے کریں گے۔ میں محل کے اندر فریادی بن کے نہ جاؤں گی۔ لہذا آپ اب تشریف لے جائیں اور اپنے دوست کو میری طرف سے اطمینان دلا دیں کہ میں دنیا ترک کیے دیتی ہوں۔ نہ محل میں جاؤں گی اور نہ کسی اور کو صورت دکھاؤں گی۔ لہذا میری طرف سے انھیں مطلق تکلیف نہ پہنچے گی۔

اس جواب پر جان سپار خان چلے گئے مگر کہتے گئے کہ میں اب ان کا دوست نہیں۔ جس گھڑی انھوں نے آپ پر ظلم کیا، اُسی گھڑی سے میں نے ان کی دوستی کو خیر باد کہہ دی اور اسی خیال سے میں کیا کہوں کہ کیسی دلچسپ امیدیں دل میں لے کے یہاں آیا تھا۔ لیکن اتنا عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ جب ترک دنیا کے خیال سے باز آئیں تو اپنے اس خادم کو نہ بھولیں۔ میں آپ کا خادم ہوں اور آپ کی نظر مرحمت کا امیدوار۔

اس آخری پیام نے گلرخ بیگم کو چونکا دیا اور طیش کے ساتھ بولیں: “خوب۔ ابھی ایک آفت سے پوری طرح چھٹکارا نہیں ہوا تھا کہ دوسری بلا میں پھنسنے کے پیام آنے لگے۔ میں چاہے مر جاؤں کسی مرد کی صورت نہ دیکھوں گی”۔

جان سپار خان آخری پیام پہنچا کے واپس چلے تو دل میں کہتے جاتے تھے کہ واہ کیسی نیک اور پارسا بیوی ہے۔ حُسن و جمال کا یہ عالم کہ چار آنکھیں ہوتے ہی بادشاہ جمجاہ کا دل ہاتھ سے جاتا رہا۔ محبت و الفت، خوش سلیقگی اور وفا شعاری کی یہ حالت ہے کہ ایک طرف جہاں پناہ مداح ہیں ، دوسری طرف مینا بازار کے واقعے سے پیشتر تک جمال خان بھی اس کا دم بھرا کرتا تھا اور گھنٹوں میرے سامنے اس کی تعریفیں کیا کرتا تھا۔ حقیقت میں جمال خان بڑا بدنصیب ہے کہ ایسی بے نظیر جورو خود ہی اپنے ہاتھ سے کھو دی۔ کاش یہ مجھے مل جاتی تو زندگی کیسے مزے اور عیش و آرام میں کٹتی۔ اگرچہ میری ایک بیوی موجود ہے، مگر میں دونوں سے نباہ لیتا اور گلرخ بیگم ایسی نیک اور عقلمند عورت ہے کہ میری پہلی بیوی کو خود ہی راضی کر لیتی اور ہمیشہ خوش رکھتی۔ افسوس اُس نے شریفانہ بے رخی کی جس کی مجھے شکایت نہیں۔ وہ دنیا کے ترک کرنے پر آمادہ ہے۔ مگر بھلا دنیا اُسے کیوں چھوڑنے لگی؟ جس عالی مرتبہ امیر کو خبر ہوگئی شادی کرنے پر آمادہ ہو جائے گا اور یہ باتیں اُسے مجبور کر کے ترک دنیا کے خلوت کدے سے نکالیں گی۔ اس وقت غصہ ہے اور دنیا سے نفرت ۔ دو چار روز میں غصہ اُترے گا تو خود ہی سمجھ جائے گی کہ میری سی حسین و پری جمال عورت جس کا عین شباب کا زمانہ ہو تارک الدنیا نہیں ہو سکتی۔

پھر کچھ دیر غور و فکر میں رہنے کے بعد بولا: “اس کے قابو میں لانے کی سب سے اچھی تدبیر یہ ہے کہ میں جہاں پناہ کے دربار میں جا کے بیان کر دوں کہ جمال خان نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں۔ چونکہ یہ محل میں آنے کی وجہ سے ہوا، لہذا وہ سخت برہم ہو کے جمال خان کو مناسب سزا دیں گے اور گلرخ بیگم کے ساتھ ہمدردی کرنے کو تیار ہو جائیں گے۔ میں مشورہ دوں گا کہ کسی معزز سردار کے ساتھ اس کی شادی کر دی جائے اور جیسے ہی جہاں پناہ اس تجویز کو قبول فرمائیں گے، میں اپنے کو پیش کر دوں گا اور اقرار کروں گا کہ زندگی بھر اسی کا عاشق رہوں گا اور نہایت ہی عزت و حرمت سے رکھوں گا۔ یقیناً بادشاہ راضی ہو جائیں گے اور ان کے حکم پر اسے بھی انکار کرتے نہ بنے گی۔ پھر دربار میں اس سے بڑے کام نکلیں گے”۔

یہ تدبیر جان سپار خان کو بہت ہی اچھی بلکہ تیر بہ ہدف نظر آئی اور دوسرے ہی دن یہ منصوبہ کر کے دربار میں پہنچا۔ جب تک بادشاہ ادھر اُدھر کی باتوں میں مصروف رہے، دست بستہ خاموش کھڑا رہا۔ یہاں تک کہ دربار کے برخاست ہونے کا وقت آ گیا۔ یہ دیکھ کر کہ اب جہاں پناہ اٹھنے ہی کو ہیں جان سپار خان دو قدم آگے بڑھا اور ہاتھ جوڑ کے عرض کیا: “اقبال شہر یارِ جہاں بلند۔ جمال خان نے کل اپنی جورو گلرخ بیگم کے ساتھ بہت بُرا سلوک کیا”۔

جہاں پناہ (ہمہ تن متوجہ ہو کر): کیا؟

جان سپار خان: جیسے ہی اس نیک بیوی نے گھر میں قدم رکھا، بہت بگڑا، سخت برآفروختہ ہوا، غریب کو بدکار فاحشہ کہا اور طلاق دے دی۔

جہاں پناہ: طلاق دے دی! بڑا غضب کیا۔ میرے سمجھانے اور اطمینان دلانے کا بھی اس پر کچھ اثر نہ ہوا! اس پاکدامن اور نیک عورت کو تہمت لگائی تو گویا مجھ کو تہمت لگائی اور پھر اس نے نہ مابدولت و اقبال کا اعتبار کیا اور نہ ملکۂ جہاں کا۔

یہ فرما کے جہاں پناہ کچھ دیر خاموش ہو کر غور فرماتے رہے اور بعد سر اٹھا کے نواب سعد اللہ خان کو حکم فرمایا: “اس کو اسی وقت جا کے پکڑ لاؤ اور اپنی حراست میں رکھو۔ کل دربار میں سب سے پہلے اس کے معاملے کو میرے سامنے پیش کرنا”۔

جمال خان کی گرفتاری کا حکم دیتے ہی جہاں پناہ محل میں تشریف لے گئے اور اسی وقت نواب تاج محل کو بلا کے فرمایا: “تم نے کچھ اور سُنا۔ جمال خان کی بیوی گلرخ کو میں نے بلا کے تین دن تمھارے پاس رکھا تو اس پر اسے اس قدر طیش آیا کہ بیوی کو گالیاں دیں، زانیہ و حرام کار کہا اور طلاق دے دی۔ میں نے خود بلا کے سمجھایا تھا اور ہرح اطمینان دلا دیا تھا۔ مگر اس نابکار نے اس کا بھی خیال نہ کیا”۔

تاج محل: واقعی اس نے بڑا غضب کیا اور گلرخ بیگم پر سخت ظلم ہوگیا۔

جہاں پناہ: جمال خان نے اُس غریب پر زنا کی تہمت لگائی تو اس کے ساتھ ہی مجھ پر بھی لگائی۔ گلرخ کو نہیں مجھے زانی و بدکار کہا اور جب یہ معلوم تھا کہ وہ تمھاری مہمان اور تمھاری حفاظت میں تھی تو تم کو بھی یہ تہمت لگائی کہ تمھاری حفاظت میں جو عورتیں رہیں، ان کی عزت و آبرو محفوظ نہیں ہے۔

تاج محل: بے شک بڑی گستاخی کی اور سخت سزا کا کام کیا۔

جہاں پناہ: تم چوبداروں اور اپنی محل دار کو بھیج کے گلرخ بیگم کو اسی وقت بلاؤ۔ میں اس سے پوچھ کے بخوبی تحقیقی کر لوں تو مناسب انتظام کروں اور جب تک اس کا پورا تدارک نہ کر لوں گا مجھے چین نہ آئے گا۔ تم سمجھ سکتی ہو کہ اس ایک واقعہ سے کتنی خرابیاں پیدا ہو گئیں۔ گلرخ بیگم کی بے حرمتی ہوئی، اس پر زنا کی تہمت لگائی گئی، رعایا میں میری بدنامی و بے اعتباری ہوئی، تم پر الزام آیا کہ خوبصورت عورتوں کو مہمان رکھ کے بدکاری کے لیے میرے سامنے پیش کر دیتی ہو۔اس مینا بازار کی بدنامی ہو گئی جس کو تم نے کھولا ہے اور وہاں عورتوں کی عصمت کی حفاظت کا اطمینان دلانے کے لیے جو کچھ تدبیریں تم نے کیں سب کو خاک میں ملا دیا۔ جب تک پوری تحقیقات کر کے اس کو سخت ترین سزا نہ دی جائے، میں نہ دربار میں اُمرا کے سامنے چار آنکھیں کر سکتا ہوں اور نہ رعایا میں میرا اعتبار قائم رہ سکتا ہے۔

تاج محل: میں گل رخ بیگم کو ابھی بلواتی ہوں مگر حضرت جمال خان پر اتنے برہم نہ ہوں۔ بے شک اس نے قصور کیا ہے مگر حکم سے سرتابی و بغاوت نہیں کی۔

جہاں پناہ: اس کو میں بغاوت و نافرمانی ہی سمجھتا ہوں کہ میں نے سمجھایا اور اُسے میرا اعتبار نہ آیا۔ تاہم کوئی سزا مفتیانِ شرع سے فتوی لیے بغیر نہ دوں گا۔

تاج محل: یہ کارروائی سب کے اطمینان کے لیے کافی ہوگی اور اب میں جاتی ہوں، گلرخ بیگم کو بلواؤں۔

یہ کہتے ہی وہ اپنے دیوان خانے میں آ کے بیٹھیں اور محل دار کو بلوا کے حکم دیا کہ اسی وقت جا کے گلرخ بیگم کو لے آؤ۔ گھر پر ہوں تو وہاں سے لانا اور وہاں نہ ہوں تو جہاں پتہ لگے وہاں جا کر تلاش کرنا اور جس طرح بنے اسی وقت سوار کرا کے لے آنا۔

محل دار فوراً چوبداروں اور بہت سے آدمیوں کو ساتھ لے کے جمال خان کے مکان پر پہنچی اور خود اندر جا کے جمال خان سے پوچھا: گلرخ بیگم صاحب کہاں ہیں؟ حضور ملکۂ عالم نے یاد فرمایا ہے اور مجھے حکم ہوا ہے کہ اسی وقت سوار کرا کے لے آؤں۔

جمال خان: وہ میرے یہاں نہیں ہیں۔

محل دار: آپ کے یہاں نہیں تو کہاں ہیں؟ آپ کی بیوی ہیں اور آپ کو خبر نہیں؟

جمال خان: اب وہ میری بیوی نہیں۔ مجھ سے ان سے کچھ سروکار نہیں رہا۔

محل دار: آخر یہ تو بتائیے کہ کہاں گئیں؟

جمال خان: اپنی ایک چچیری بہن شوکت آرا کے ساتھ گئی ہیں۔ غالباً ان کے مکان پر ہوں گی یا ان کو معلوم ہوگا کہ کہاں ہیں۔

یہ کہہ کے جمال خان نے شوکت آرا کے مکان کا پتہ بتا دیا۔ اتفاق سے شاہی چوبداروں کا ہجوم دیکھ کر جان سپار خان اپنے گھر سے نکل آئے اور پوچھا “کیا ہے؟”

چوبدار: بادشاہ محل صاحبہ نے جمال خان کی بیوی کو یاد فرمایا ہے، انھیں کے لینے کو آئے ہیں۔ محل دار اندر گئی ہیں۔

جان سپار خان: وہ یہاں نہیں ہیں۔ ان کا پتہ چلو میں بتا دوں۔

اتنے میں محل دار یہ کہتی ہوئی اندر سے نکلی کہ بیگم صاحب تو یہاں نہیں ہیں۔ ان کے میاں نے جہاں کا پتہ بتایا ہے چلو۔ میں نے پتہ تو پوچھ لیا ہے مگر دیکھوں وہاں تک پہنچتی ہوں یا نہیں۔

جان سپار خان: کہاں کا پتہ بتایا ہے؟

محل دار: کوئی ان کی بہن شوکت آرا بیگم ہیں، ان کے گھر کا پتہ بتایا ہے۔ مگر اچھی طرح میری سمجھ میں نہیں آیا۔

جان سپار خان: ہاں وہیں ہیں۔ چلو میں ان کے دروازے پر پہنچا دوں۔

یہ کہہ کے اپنے سائیس کو بلا کے گھوڑا لانے کا حکم دیا۔

سب گھوڑے کا انتظار کر رہے تھے کہ کوتوال اپنے سپاہیوں کے بڑے بھاری گروہ کے ساتھ آ گیا اور مکان کو ہر طرف سے گھیر کے جمال خان کو باہر بلوایا۔ ان کے قدم باہر نکالتے ہی سبھوں نے نرغہ کر کے گرفتار کر لیا اور کہا: “محکمۂ وزارت سے آپ کی گرفتاری کا حکم ہے۔نواب سعد اللہ خان کے پاس چلیے”۔

جمال خان: میں کپڑے تو پہن آؤں۔

کوتوال: نہیں، جس حال میں ہیں، اسی حال میں چلیے۔

جمال خان: آخر میرا کچھ قصور تو معلوم ہو۔

جواب ملا یہ وزیر صاحب سے پوچھیے گا۔

اس کے بعد کوتوال جمال خان کو نواب سعدا للہ خان کے وہاں لے گئے اور نواب ممتاز محل کی ڈیوڑھی کے لوگوں نے جان سپار خان کے ہمراہ شوکت آرا بیگم کے مکان کی راہ لی۔ جان سپار خان دروازے تک پہنچا کے واپس چلے آئے اور محل دار اندر گئی تو سامنے ہی گلرخ بیگم اور شوکت آرا بیگم بیٹھی باتیں کر رہی تھیں۔ سامنا ہوتے ہی محل دار جھک کے گلرخ بیگم کو آداب بجا لائی اور ادب سے ہاتھ جوڑ کے عرض کیا کہ جلدی چلیے بادشاہ بیگم صاحب یاد فرما رہی ہیں۔

گلرخ بیگم: کیوں؟ خیریت تو ہے؟ اے میں ابھی کل ہی تو آئی ہوں۔

محل دار: کوئی کام ہوگا۔ مجھ سے یہ نہیں ارشاد فرمایا کہ کس لیے بلاتی ہیں۔

گلرخ بیگم: اچھا تو تم چلو، میں آتی ہوں۔

محل دار: مجھے تاکیدی حکم ہے کہ اپنے ساتھ سوار کرا کے لے آؤں۔ سُکھ پال ساتھ آئی ہے۔

یہ سُن کے شوکت آرا بیگم نے چپکے سے کہا معلوم ہوتا ہے وہاں خبر ہو گئی۔ اس کے جواب میں گلرخ بیگم بولیں بے شک خبر ہو گئی، خدا جانے کس نے وہاں جا کے لگا دیا۔ تم سچ کہتی تھیں کہ میں کمبخت کونے میں بھی نہ بیٹھنے پاؤں گی۔ (محل دار سے) اس وقت تم میری طرف سے جا کے کچھ عذر کر دیتیں تو بڑا احسان ہوتا۔

محل دار: بیوی! لونڈی کی اتنی مجال نہیں ہے، حضور جلدی سوار ہوں ملکۂ عالم راہ دیکھ رہی ہوں گی۔

شوکت آرا (گلرخ بیگم سے): اب بسم اللہ کر کے سوار ہو۔ کسی کی مجال ہے کہ حضرت بادشاہ بیگم کا حکم بجا لانے میں ایک پل کی بھی دیر لگائے؟

گلرخ بیگم: جانا ہی پڑے گا مگر میرا جی نہیں چاہتا۔ اول تو اس بدقسمتی اور رو سیاہی کے بعد انھیں کیا منہ دکھاؤں؟ دوسرے بڑی خرابی یہ ہے کہ وہاں مجھے سچ سچ حال بیان کر دینا پڑے گا، اس میں ان کو نقصان پہنچ جائے گا اور میں خدا جانتا ہے کہ انھیں آزار پہنچانا نہیں چاہتی۔ مگر جو قسمت میں لکھا ہے، بے پورا ہوئے نہیں رہتا۔

محل دار: بیوی! خدا کے لیے جلدی سوار ہوجیے، ورنہ میرا سر مُنڈ جائے گا۔

آخرمجبور ہو کر گلرخ بیگم سُکھ پال میں سوار ہوئیں اور کہار اور چوبدار ہٹو بچو کرتے ہوئے ایوان خسروی کی طرف لے چلے۔ قصر شاہی میں قدم رکھتے ہی گلرخ بیگم کو محل دار ملکۂ جہاں کے سامنے لے گئی۔ وہ ادب سے جھک کر آداب بجا لائی اور ملکہ نے مسکرا کے کہا: “تم سے جلدی پھر ملاقات ہوئی۔ بغیر تمھارے میرا دل بھی نہ لگتا تھا اور شاید خدا ایسا کرے کہ میں تمھیں اپنی مصاحب عورتوں میں رکھ سکوں”۔

گلرخ بیگم: لونڈی کی اس سے بڑی عزت کیا ہو سکتی ہے۔

اب نواب تاج محل نے بلا کے پاس بٹھا لیا اور سب کو ہٹا کے پوچھا: “سچ سچ بتاؤ کہ کل یہاں سے گھر جا کے تمھیں کیا واقعات پیش آئے؟”

گلرخ بیگم (ہاتھ جوڑ کے): حضور اُن باتوں کو نہ پوچھیں، جن میں میری بے عزتی ہے اور حضور کو سُن کر ملال ہوگا۔

تاج محل: تم سے مجھے اتنی محبت ہو گئی ہے کہ تمھارے کسی راز کو مجھ سے پوشیدہ نہ رہنا چاہیے، اسی خیال سے میں نے سب کو یہاں سے ہٹا دیا۔ رہا ملال تو اگر تمھیں ملال نہیں ہوا تو مجھے بھی نہ ہوگا۔

گلرخ بیگم: حضور جہاں پناہ سے بیان کر دیں گی اور میں انھیں منہ دکھانے کے قابل نہ رہوں گی۔

تاج محل: جہاں پناہ سے بے شک میں کسی بات کو نہیں چھپا سکتی۔ مگر چھپانے سے فائدہ ہی کیا، جب انھیں اور مجھے سارا حال پہلے ہی معلوم ہو چکا ہے۔

گلرخ بیگم: تو حضور یہ بھی ارشاد فرمائیں کہ میرے گھر کی خبروں کو یہاں تک کس نے پہنچایا؟

تاج محل: یہ میں نہیں جانتی۔ مگر جہاں پناہ نے مجھ سے بیان کیا کہ تم جیسے ہی اپنے گھر پہنچیں، جمال خان نے تمھیں گالیاں دیں، بدکار و حرام کار کہا اور طلاق دے دی۔

گلرخ بیگم: حضرت نے جو کچھ سنا بالکل سچ ہے۔ میرے شوہر نے میری کوئی ذلت اور بے آبروئی اٹھا نہیں رکھی۔ میں نے کہا طلاق دینے سے اچھا ہے کہ مجھے مار ڈالو، اس کا اُن سے یہ جواب ملا کہ جن کے پاس تین دن رہ کے آئی ہو، ان کے آگے بے بس ہوں ورنہ یہی کرتا۔ میں نے سوا خوشامد اور عاجزی کے کچھ نہیں کہا مگر وہ اپنے آپے سے باہر تھے۔ یہاں تک کہ تین طلاقیں دیں اور گھر سے نکال دیا۔

تاج محل: تو اب جہاں پناہ کے پاس چلو اور جو کچھ وہ پوچھیں صاف صاف کہہ دو۔ اس وقت تم انھیں کی بُلائی ہوئی آئی ہو اور تمھارا انتظار کر رہے ہوں گے۔

گلرخ بیگم: میں چاہتی تھی کہ یہ باتیں ان تک نہ پہنچتیں۔ میں اپنے میاں سے کسی قسم کا بدلہ لینا نہیں چاہتی۔ میں ارادہ کر چکی ہوں کہ دنیا کی لذتوں کو چھوڑ کے ایک کونے میں بیٹھ رہوں اور باقی ماندہ زندگی خدا کی یاد میں صرف کر دوں۔

تاج محل: اور بسر کیسے کرو گی؟ اچھا اگر تمھیں اس کا شوق ہے تو میں کافی مقدرا میں ایک وظیفہ تمھارے نام جاری کر دوں گی مگر میں زیادہ خوش ہوتی اگر تم میرے پاس رہتیں۔

گلرخ بیگم (شکر گزار ہو کر): حضور کا جب حکم ہوگا، دو چار روز کے لیے حاضر ہو جایا کروں گی۔ رہا وظیفہ تو اس کی مجھے ضرورت نہیں۔ جہاں پناہ نے جو کچھ مجھے مینا بازار میں دیا تھا اور جو کچھ اس کے بعد یہاں رخصت کرتے وقت عطا فرمایا اس ساری رقم کو میرے میاں نے میرے پاس یہ کہہ کے بھجوا دیا کہ لو اپنی یہ تین دن کی بدکاری کا انعام۔ اس شرمناک اُجرت کا ایک حبہ بھی میں اپنے پاس نہ رکھوں گا۔ وہ اتنی بھاری رقم ہے کہ میری زندگی بھر کے لیے کفایت کرے گی۔

تاج محل: جمال خان بڑا نالائق اور شریر آدمی معلوم ہوتا ہے۔ اس کا تو صاف مطلب ہوا کہ وہ جہاں پناہ کو تہمت لگاتا ہے۔ خیر اب اپنے بادشاہ کے پاس چلو، وہ جو مناسب جانیں گے حکم دیں گے۔

یہ کہہ کر نواب ممتاز الزمانی بیگم گلرخ بیگم کو لے کر جہاں پناہ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ گلرخ بیگم آداب بجا لائی اور تاج محل نے کہا: “حضرت کو جو خبر پہنچی، بالکل صحیح ہے۔ میں نے ان سے پوچھا اور انھوں نے بتا دیا۔ مگر یہ اس کو ظاہر کرنا اور حضرت تک پہنچانا نہ چاہتی تھیں اور حیران ہیں کہ حضرت کو خبر کیسے ہو گئی”۔

جہاں پناہ: کل مجھ سے دربار کے آخر وقت جان سپار خان نے بیان کیا۔

گلرخ بیگم: بے شک انھوں نے کہا ہوگا۔ پڑوس میں رہتے ہیں اور میرے شوہر کے دوست ہیں۔ انھیں بہت سمجھاتے اور روکتے رہے اور کل جب ان کو یہ حال معلوم ہوا تو پتہ لگا کے میرے پاس پہنچے اور کہا اس وقت سے میں تمھارے شوہر کا نہیں، بلکہ تمھارا دوست ہوں۔ یہ سب باتیں جہاں پناہ کی خدمت میں حاضر ہو کے عرض کر دوں گا۔ میں نے منع کر دیا تھا مگر انھوں نے نہ مانا اور عرض کر ہی دیا۔

جہاں پناہ: یہ نہ چھپنے والی بات تھی اور نہ چھپانے کی ضرورت ہے۔ مگر جمال خان بڑا نالائق شخص ہے اور نہایت سخت سزا کا سزاوار ہے۔

گلرخ بیگم (جہاں پناہ کے قدموں پر گر کے): جہاں پناہ! میرے ساتھ انھوں نے جو کچھ کیا اس کا حق رکھتے تھے۔ انھیں اختیار تھا کہ مجھے چاہیں گھر میں رکھیں اور چاہیں نکال دیں اور اگر اس میں ان سے بے رحمی اور بے انصافی ہوئی بھی تو میں نے اس کو معاف کیا۔ وہ میرے شوہر رہ چکے ہیں۔ مجھے نہایت ہی عزت و محبت سے مدت تک رکھا ہے، اب اگر ان سے کوئی بدسلوکی ہوئی بھی تو میں نے معاف کیا۔ میں نہیں چاہتی کہ ان کو میرے ہاتھ سے کسی قسم کا نقصان پہنچے۔ اگرچہ وہ اب مجھے اپنی بیوی نہیں جانتے، مگر میں مرتے دن تک انھیں کو اپنا شوہر اور اپنی عزت و آبرو سمجھوں گی، انھیں کے نام پر جیوں گی اور انھیں کی جورو کہلاؤں گی۔

جہاں پناہ (کچھ دیر متامل رہ کر): تمھاری شرافت و عصمت میں شک نہیں۔ تم ایسی نیک بیوی ہو کہ ساری خوبیاں تمھاری ذات میں جمع ہو گئی ہیں۔ یہ بھی تمھارا کمال شرافت ہے کہ ایسے بے رحم، وہمی اور ناقدر شوہر کا سارا قصور معاف کر دیا۔ مگر جمال خان اکیلا تمھارا گنہگار نہیں ہے، اس نے تم سے بدسلوکی کرنے کے ساتھ مجھ پر تہمت لگائی، اپنی ملکہ کو بدنام کیا اور ہمارے اس مینا بازار کی رسوائی کی۔ اس نے ہمارا معاشرتی نظام درہم و برہم کر دیا اور ساری رعایا میں یہ خیال پھیلا دیا کہ میرا اور بادشاہ بیگم کا اعتبار نہ کیا جائے۔ تمھارے معاف کر دینے سے یہ سب الزام اس کے سر سے نہیں اٹھ سکتے، نہ میں معاف کروں گا اور نہ بادشاہ بیگم معاف کریں گی۔ اور بالفرض ہم بھی معاف کر دیں تو ہمارے معاشرتی نظام کو جو اس نے بگاڑا ہے، اس کا تدارک بغیر اس کو سزا دیے نہیں ہو سکتا۔

گلرخ بیگم (ہاتھ جوڑ کر): اگر حضرت چاہیں تو ان کے سب قصور معاف ہو سکتے ہیں اور لونڈی کے دل میں امید ہے کہ میری التجا کا لحاظ فرمائیں گے۔

جہاں پناہ: اور سب گناہ معاف ہو سکتے ہیں، مگر سیاسی امور میں کسی کا کہنا نہیں مانا جا سکتا۔ یہ غیر ممکن ہے کہ ایک مجرم شرع کو میں معاف کر دوں۔ مَیں اِس میں کبھی کسی کا پاس ولحاظ نہیں کرتا۔

گلرخ بیگم شوہر کی سفارش میں کچھ اور کہنا چاہتی تھی مگر ممتاز الزمانی بیگم بادشاہ کے حضور سے اس کو ہٹا لائیں اور اپنے کمرے میں لا کے سمجھانے لگیں کہ اب اس امر میں کچھ کہنا سننا بیکار ہے اور زیادہ اصرار سے جہاں پناہ کے ناراض ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ کیونکہ ایسے ملکی معاملوں میں وہ کسی کی نہیں سنتے۔ میری بھی مجال نہیں ہوتی کہ لب ہلا سکوں۔ اب یہ معاملہ عالموں کے ہاتھ ہے۔ ان کا جو فتویٰ ہوگا، اس پر عمل فرمائیں گے۔

گلرخ بیگم (یاس کے لہجے میں): تو خدا جانے ان کو کیا سزا ملے گی۔

تاج محل: یہ خود حضرت کے اختیار میں ہے۔ علما سے فتوی ملنے کے بعد جو حکم مناسب جانیں گے ، دیں گے۔

گلرخ بیگم مجبوراً خاموش ہو رہی اور پھر رات کو اگرچہ شاہی دسترخوان پر کھانا کھایا، مگر اس بارے میں کوئی لفظ زبان سے نہ نکالا۔