میں افسانہ کیسے لکھتا ہوں؟

میں افسانہ کیسے لکھتا ہوں؟
by مرزا عظیم بیگ چغتائی
319583میں افسانہ کیسے لکھتا ہوں؟مرزا عظیم بیگ چغتائی

میں افسانہ ایسے لکھتا ہوں کہ غالباً آپ یقین نہ کریں گے۔ ایک ذرا سی بات ہے جس پر غور کریں تو میری افسانہ نویسی کی حقیقت آشکار ہو جائے گی۔ میں افسانہ عموماً اس طرح لکھتا ہوں کہ کوئی دلچسپ بات کسی سے سنی، کوئی مزے دار واقعہ یا حادثہ کسی پر گزرا، یا خود دیکھا یا کسی دوست پر گزرا تو اس کو دل میں رکھ لیا اور دوچار احباب کو سنایا کہ بھئی ایک مزہ دار بات سنو۔ اگر دوست احباب اور سننے والوں نے اس قابل سمجھا کہ سنیں تو سنا دیا، ورنہ وہیں کا وہیں ختم کیا۔

جب میں اس طرح کوئی مزیدار واقعہ دوست احباب کو سناتا ہوں تو بعض اوقات تو من و عن سناتا ہوں اور بعض اوقات موقعہ محل کو دیکھتے ہوئے اس میں اس طرح رد و بدل یا نمک مرچ ملا دیتا ہوں کہ لطف دوبالا ہو جائے۔ جب اس واقعے کو دس پانچ مرتبہ دوست احباب کے مجمع میں سنا لیتا ہوں تو میں عموماً دیکھتا ہوں کہ قصہ نئی ترتیب اختیار کر رہا ہے۔ قصہ وہی رہتا ہے مگر ہر نئی دفعہ اس میں کوئی مزید رد و بدل ہو جاتا ہے، حتی کہ قصہ تیار ہو جاتا ہے۔ اٹھاکر ایک دم سے لکھ دیا۔ چلیے افسانہ تیار ہوگیا۔ آپ خود خیال کیجیے کہ اس طرح تیار شدہ قصہ لکھنے میں دیر ہی کیا لگ سکتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ بغیر کسی خاص محنت کے میں نے دو سال میں اتنے زیادہ افسانے لکھ دیے جتنے شاید ہی کسی نے لکھے ہوں۔

بعض اوقات لکھنے میں مجھے عجیب و غریب انہماک ہوتا ہے، ایسا کہ دیکھ رہا ہوں کہ غلط لکھ رہا ہوں مگر اس کو صحیح کرنےکے لیے ٹھہرنا ظلم معلوم ہوتا ہے۔ حد ہو گئی کہ صفحات پر نمبر ڈالنا مصیبت معلوم ہوتا ہے، جس کے سبب وہ دشواریاں پڑتی ہیں کہ اوراق ایسے گھل مل جاتے ہیں کہ بسا اوقات دو دو تین تین گھنٹے سلجھانے میں لگ جاتے ہیں، مگر لطف یہ کہ اب بھی صفحوں کے نمبر دینا ناممکن ہے۔

مجھے سخت حیرت ہوتی ہے کہ افسانہ نویس خود پلاٹ کی تلاش میں حیران رہتے ہیں۔ ایک صاحب بے حد حیران تھے اور اسی میں خود انہوں نے مجھے ایک واقعہ اپنے دوست کا ایسا دلچسپ سنایا جس سے میں نے ایک عمدہ افسانہ تیار کر لیا۔ میں نے ان سے کہا بھی کہ اس پر لکھو مگر ان کی سمجھ ہی میں نہ آیا اور جب میں نے لکھ کر دکھایا تو کہنے لگے جھوٹ۔ ایسا ہوا ہی نہیں۔ وہ موجود ہیں پوچھ لو۔

میں ممکن الوقوع اور غیر ممکن الوقوع واقعات کے چکر ہی میں نہیں پڑتا۔ میرے افسانے کے واقعہ کے لیے شرط ہے کہ ممکن الوقوع ہو یا نہ ہو، وقوع پذیر ہو چکا ہے اور اگر نہیں تو میرے نزدیک چھوڑ دینے کے قابل ہے۔ لازمی ہے کہ جو واقعہ میں لکھوں وہ وقوع پذیر ہو چکا ہے۔ یعنی کم از کم مجھے یقین آ جائے کہ ایسا ہوا، چنانچہ اسی بنا پر میرا اصول ہے کہ ’’جو دیکھو وہ لکھو اور جو دکھائی دے وہ لکھو۔‘‘ ورنہ مت لکھو۔ یہی وجہ ہے کہ میرے تمام افسانوں کے ہیرو بفضلہٖ بقید حیات ہیں اور قریب قریب سب خفا ہیں اور میں نے کسی کو نہیں چھوڑا ہے، نہ چھوٹوں کو نہ بڑوں کو۔ میری سمجھ میں آج تک نہ آیا کہ افسانہ لکھنے میں مشکل ہی کیا پڑتی ہے۔ یہی حال کم و بیش ناولوں کا ہے اور آج مجھے پیٹ کا دھندا نہ ہوتا اور کوئی شارٹ ہینڈ لکھنے والا مل جائے تو روز دو یا کم از کم ایک ناول لے لیجیے۔ ثبوت اس کا یہ کہ آئیے سامنے میں فی البدیہ افسانہ بولتا ہوں۔ ہمت ہو تو لکھئے۔

چنانچہ سوائے دو ایک تخلیقی افسانوں کو چھوڑ کر جیسا کہ میرا افسانہ ’’سوانہ کی روحیں‘‘ ہے، بقیہ ہر ایک افسانے کے بارے میں عرض ہے کہ مجھ سے پوچھ لیجیے کہ ہیرو اور خاص کیریکٹر کون ہیں اور کہاں کا واقعہ ہے۔ لفظ ’’ہرایک‘‘ پر غور کیجیے گا۔ یہ دعویٰ خیالی نہیں ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ بعض کا جواب تحریری نہیں دے سکتا، زبانی دوں گا مگر جن کا تحریری نہیں دے سکتا ان کا دوسرا ناقابل تردید ثبوت موجود ہے۔

میں افسانہ لکھتا ہوں تو اس میں اتنی کاٹ پھانس ہوتی ہے کہ کاتب ہی خوب جانتے ہیں۔ سطریں اور بعض اوقات آدھے صفحے مقدم و مؤخر کرنے کے سبب جگہ جگہ چپکانے پڑتے ہیں اور میری دانست میں میری افسانہ نگاری کا دار و مدار واقعات کے رد و بدل اور تسلسل میں ہے اور میری دانست میں افسانہ بعض واقعات کے تسلسل میں تقدم و تاخر کی ترکیب سے بنتا ہے، میرے افسانوں میں سارا کھیل اسی کا ہوتا ہے۔

اب ظاہر ہے کہ جب حقیقت یہ ٹھہری تو نہ تو میرے اوپر الہامی حالت طاری ہوتی ہے اور نہ دل کش منظر اثر رکھتا ہے۔ چنانچہ دیکھ لیجیے کہ چیف کورٹ کے کمرے میں بیٹھے، اردگرد وکیل جمع ہیں، روبرو چیف جسٹس کسی مقدمے میں منہمک ہیں، اور بے کار بیٹھے یہاں کسی مسل مقدمہ کے خالی ورق پر کسی افسانے کے پلاٹ کی پچی کاری ہو رہی ہے۔ یا پلاٹ قلم بند ہو رہا ہے۔ اردو پڑھنے والا کوئی آیا تو چھپا لیا۔ ورنہ یہی سمجھتے ہیں کہ یہ کچھ اپنا کام کرتا ہوگا۔ ایک مرتبہ ایک اپیل کے کاغذ پر افسانے کا پلاٹ لکھ گیا۔ دوسری طرف عذرات اپیل تھے۔ اپیل مع افسانہ پیش ہوگئی۔ بہت تلاش کیا نہ ملا۔ عرصے بعد ایک دفعہ اسی مسل کا معائنہ کرنا پڑا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اپیل کی پشت پر افسانہ موجود ہے۔

یہ ہے میری افسانہ نویسی کی حقیقت کہ جو سنا اور دیکھا اس میں جوڑ توڑ کر کے رد و بدل کر کے لکھ دیا اور غالباً یہی وجہ میری نام نہاد کامیابی کا باعث ہوئی۔ ذرا غور کیجئے کہ نہ میں نے کبھی افسانے پڑھے تھے، نہ شوق تھا۔ ایک صاحب افسانے پڑھنے لگے، میں نے منع کیا کہ کیا فضولیات پڑھا کرتے ہو۔ واہیات ہے۔ انہوں نے زبردستی سنایا اور تعریف کی، میں نے کہا لا حول و لا قوۃ۔ ہم ایسے خود دس لکھ دیں۔ بحث ہوئی اور یہ طے ہوا لکھو۔ منٹوں میں ایک لکھ دیا۔ پہلے انہوں نے کہا خراب ہے مگر بعض نے کہا اچھا ہے۔ پھر کہا کہیں پڑھا اور یاد ہوگا۔ لہٰذا دو اور لکھ دیے اور ان دو میں سے دوسرا افسانہ وہ ہے جو ’’انگوٹھی کی مصیبت‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔

شائع ہونے کو جو بھیجے تو معلوم ہوا کہ عموماً بیشتر سنائے ہوئے جو افسانے لکھتا ہوں تو کوئی بھی (خواہ وہ قابل ہو خواہ ناقابل) برا بتادے تو پھاڑ کر پھینک دیتا ہوں۔ کوئی ایڈیٹر افسانہ واپس کردے تو بہت شکریہ ادا کرتا ہوں اور پھاڑ ڈالتا ہوں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی دلچسپ واقعہ ہم سنائیں اور لوگ پسند نہ کریں۔ لہٰذا صاف ثابت ہے کہ ضرور یہ خراب افسانہ ہے۔ افسانہ لکھ کر تو بہت جلد تیار ہو جاتا ہے لیکن بعد تیاری، رد و بدل اور تقدم و تاخر اور کاٹ پھانس اور عبارت کی تصحیح اور الفاظ کی اور جملوں کی درستی کالا متناہی سلسلہ ایسا شروع ہوتا ہے کہ اگر افسانہ پڑا رہے تو مہینوں اس میں پچی کاری ہوتی رہے گی لیکن میری بہترین چیز عموماً اس پچی کاری کی محتاج کم رہی ہے۔

افسانہ لکھتے وقت میں اکثر رک کر مکالمے کو خود بولنے لگتا ہوں۔ یہ تنہائی میں ہوتا ہے۔ اور کوئی صاحب دیکھ پاتے ہیں تو ہنستے ہیں۔ عموماً افسانے آپ بیتی کے طرز پر لکھتا ہوں۔ یہ بھی خیال رکھتا ہوں کہ حتی الوسع افسانے میں نام نہ آئیں، خواہ وہ اشخاص ہوں خواہ مقامات۔ اس کا بھی خیال رکھتا ہوں کہ جہاں تک ہو سکے ’’افراد افسانہ‘‘ یعنی وہ شخص جن کا میں افسانوں میں ذکر کروں بہت کم ہوں۔ یہی سبب ہے کہ میرے ناولوں میں اکثر اوقات صرف ایک یا دو نام ملیں گے۔ اردو ادب کی خدمت کا جذبہ ضرور رکھتا ہوں۔ زبان کی صحت یا عدم صحت کی طرف دنیا کی کوئی قوت توجہ نہیں دلا سکتی۔ بعد میں درستی کر کے زبان ٹھیک ہوسکتی ہے مگر جو افسانہ دیر تک قبضے میں نہیں رہتا اس میں زبان کی غلطیاں رہ جاتی ہیں۔ کبھی یہ خیال نہیں رکھتا کہ افسانے سے کوئی نصیحت یا نتیجہ برآمد کروں۔ حتی الوسع مولویوں اور قوم کے لیڈروں کا ہاتھ بٹانے سے گریز کرتا ہوں اور اصلاح قوم یا اصلاح مذہب کے لیے افسانہ لکھنا گناہ کبیرہ سمجھتا ہوں۔

افسانہ لکھتے وقت تمام تر توجہ اس پر رکھتا ہوں کہ افسانہ خواہ مفید ہو یا نہ ہو، دلچسپ ضرور ہو۔ لکھتے وقت لیلیٰ و مجنوں اور شیریں و فرہاد کے واقعات پیش نظر رکھتا ہوں تا کہ ان سے افسانہ بچا رہے۔ حتی الوسع عشق اور محض عشق پر اپنے معاشرتی افسانہ کی بنیاد نہیں رکھتا۔ چونکہ جو دیکھتا ہوں وہی لکھتا ہوں۔ اس وجہ سے شادی سے پیشتر والا عشق میرے افسانوں میں کمزور اور مفقود ہے کیونکہ کم از کم میں نے نہیں دیکھا ہے اور سنا ہوا لکھنے سے رہا۔ عشق بعد از شادی خوب دیکھا ہے لہٰذا مجبوراً جہاں اور لوگ ناول ختم کرتے ہیں وہاں سے میں شروع کرتا ہوں یعنی شادی کے بعد۔ افسانہ میں چاشنی ہی وہیں سے شروع ہوتی ہے۔ لکھنے میں اس کا خیال رکھتا ہوں کہ پڑھنے والا ہیرو ہیروئن کی جھلک سے زیادہ نہ دیکھنے پائے۔ لہٰذا صورت اور شکل کی تفصیل نہیں دیتا۔

معاشرتی افسانوں میں حتی الوسع واقعات اپنے گرد و پیش ہی سے لیتا ہوں اور افسانے کی صورت میں رد و بدل کے سبب نوبت یہ پہنچی کہ بعض نے مستقل طور پر مجھ سے کنارہ کشی کرلی کہ میں نے ان پر ’’الزام‘‘ دیئے۔ یعنی افسانہ جو لکھا تو اس میں کہیں فرضی خط بڑھانا پڑا، کہیں زبان سے کچھ کہلوانا پڑا اور حضرات ہیں کہ برہم ہیں، اکثر حضرات افسانے کو کہتے ہیں کہ ہمارے اوپر چوٹ کی ہے۔

یورپین مصنفین کے افسانے یا ناول میں نے کبھی نہیں پڑھے۔ مختصر افسانے دوچار جو ترجمہ ہوکر رسالوں میں چھپے ہیں وہ البتہ پڑھے۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی جب میں نے دیکھا کہ چیخوف کے ایک افسانے کا پلاٹ ہو بہو میرے افسانے کے پلاٹ سے لڑ گیا۔ در حالیکہ میرا افسانہ نہیں بلکہ آپ بیتی کا واقعہ تھا کہ ایک یکے والے لونڈے کو خوب راستے میں ڈرایا۔ سڑک پر راستے میں اترے جو سہی اور ذرا آگے گئے تو وہ تمام بستر اور ضروری سامان لے کر بھاگ گیا اور بیس میل پیدل چل کر گھر واپس آنا پڑا۔ روسی قصے میں اسی طرح ڈر کر گاڑی بان جنگل میں گاڑی چھوڑ کر بھاگ گیا تھا۔ کسی یورپین قصے یا افسانے کا پلاٹ لے کر میں کبھی نہیں لکھتا اور نہ کوئی لکھ سکتا ہے کیونکہ اس میں محنت اور زیادہ قابلیت کی ضرورت ہے۔

اڈیٹر کی رائے میں ضرورت سے زیادہ وقعت کرتا ہوں اور ان کے فیصلے کو عموماً اٹل سمجھتا ہوں۔ میں یہ کبھی نہیں کرتا کہ اس ایڈیٹر کی ناپسند چیز اس اڈیٹر کو بھیج دی۔ عموماً اسے پھاڑ ڈالتا ہوں۔ ردی اور زٹیل افسانے اکثر لکھتا ہوں کہ جو کہیں آپ دیکھ پائیں تو اپنا اور میرا سر لڑا دیں۔ بہت سے ان میں سے شائع ہوگئے اور بہت سے شائع ہونے سے بال بال بچے۔ لہٰذامیں تو یہ کہتا ہوں کہ افسانہ نگاری نہیں، میں تو وقائع نگاری کرتا ہوں، یہ زمانہ غپ شپ اور قصہ کہانیوں کا نہیں ہے۔ شاعری کرنا ہے تو افسانوں کو چھوڑیے اور افسانہ نویسی مت کیجیے۔ نقاشی مت کیجیے بلکہ فوٹو گرافی کیجیے ورنہ آپ کی نقاشی کے ایک سے ایک بڑھ کر نمونے اور بیل بوٹے فوٹو گرافر کی ایک کھنڈر کی تصویر سے قربان کر دیے جائیں گے۔

یورپ کی افسانہ نگاری کا عروج اسی میں ملتا ہے اور اگر آج نئی پود اپنی افسانہ نویسی میں سے گل و بلبل نکال پھینکے اور سیدھے وقائع نگاری پر آ جائے تو ناممکن ہے کہ ہم یورپین افسانہ نگاروں سے نہ بڑھ جائیں کیونکہ یہ ناممکن ہے کہ دلچسپ واقعات روس میں تو ہوتے ہوں مگر ہندوستان میں نہیں ہوتے۔ بلکہ میں کہتا ہوں کہ چونکہ ہندوستان میں سیکڑوں مذہب، رسمیں، قومیں، زبانیں، روس اور فرانس سے کہیں زیادہ اقسام کی ذہنیتیں موجود ہیں، قدم قدم پر طرح طرح کے قانون ہیں، لہٰذا بہ نسبت روس اور فرانس کے ہندوستان کی معاشرت ایسے ایسے تماشے کے واقعات پیش کرتی ہے کہ جن کے عجیب و غریب پلاٹ دوسری جگہ مرتب ہونا ممکن ہی نہیں۔

ذرا غور فرمائیے کہ ایک بڑے گہرے دوست کے سالے صاحب کسی گاؤں سے ہفتہ وار اخبار نکالتے ہیں تو یہ لکھتے ہیں کہ زیادہ نہیں صرف مہینے میں آٹھ افسانے لکھنا پڑیں گے مگر مزاحیہ ہوں۔ یعنی دو افسانے ہر اشاعت میں ہوں گے۔ ایک دوسرے عزیز لکھتے ہیں کہ لیجیے۔۔۔ رسالہ جاری ہو گیا (اس کے جاری ہوتے ہی مجھے شادئی مرگ نہیں ہوئی) ویسے تو میں آپ کو خط نہ لکھتا، پر اب لکھتا ہوں۔ نتیجہ ظاہر ہے اگر خطوط کے جواب دئیے جائیں تو فوراً پکڑے جائیں۔

مندرجہ بالا تحریر سے میری دانست میں معلوم ہو گیا ہوگا کہ میں افسانہ کیسے لکھتا ہوں۔ اپنے مشاغل اور مجبوریوں کا میں نے اس وجہ سے ذکر کیا تاکہ اندازہ لگایا جا سکے کہ یہ باتیں کس طرح میری تحریروں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ زمانۂ بے کاری کے وہ افسانے جو شروع چھ مہینے میں لکھے گئے ان سے بہتر میں کبھی نہ لکھ سکا۔ گویا افسانہ نگاری کے لیے میں بے کاری ضروری سمجھتا ہوں۔ اپنی دانست میں افسانہ لکھنے سے متعلق میں نے کوئی بات اس مضمون میں نہیں چھوڑی ہے اور خوب واضح کر دیا ہے کہ میں افسانہ کیسے لکھتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ اس مضمون کو پڑھ کر ایک مبتدی شاید کچھ فائدہ حاصل کر سکے۔ اسی کے ضمن میں اپنے کچھ خیالات عرض کرتا ہوں۔

(۱) میں افسانے کو ختم کرنے کی الجھن میں کبھی نہیں پڑتا۔ بعض واقعے صرف آدھے دیکھنے میں آتے ہیں اور بقیہ اپنی طرف سے جوڑنے کی مہلت نہیں۔ لہٰذا جوں کا توں لیجیے اور ختم کے بارے میں جیسا میں مخمصے میں پھنسا رہ گیا آپ بھی پھنسے رہیے۔

(۲) بغیر بیان کیے جو افسانہ لکھتا ہوں تو درجنوں صفحوں پر دیکھ لیجئے کہ شروع کیا مگر نہ ہوا۔ تھوڑا لکھا اور چھوٹ گیا۔ اور بسا اوقات کھو گیا۔

(۳) میں اپنے افسانے میں ’’پھر کیا ہوا؟‘‘ کا جواب بند کرنے کی کبھی کوشش نہیں کرتا۔ قصہ اس موقع پر لا کر چھوڑ دیتا ہوں کہ نتیجہ خود پڑھنے والا سمجھ لے کہ کیا ہوا۔ لوگ اس حرکت پر خفا ہوتے ہیں، تو بعض جگہ تعمیلِ حکم کی صورت میں نتیجہ موجود ہے۔

(۴) افسانے میں بائرن کا مقررانہ جوش لانا پسند کرتا ہوں اور کیٹس کی حسن و عشق کی گرمی واقعات سے پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ آغا حشر کے تھیٹریکل رنگ سے دور رہتا ہوں مگر آغا حشر کی ڈرامائی کیفیت، وہ بھی خفیف سی، افسانے میں پیدا کرنا پسند کرتا ہوں۔

(۵) افسانے میں مزاحیہ نگاری واقعات سے پیدا کرنے سے لطف آتا ہے، مگر زبردستی نہیں کرتا۔ کرتا ہوں تو ناکام ہوتا ہوں اور چیز کمزور اور خراب ہو جاتی ہے۔

(۶) پریم چند کو پہلا فوٹو گرافر سمجھتا ہوں کہ جہاں تک موجودہ دور کی افسانہ نگاری کا تعلق ہے۔ ورنہ کیمرے کو پہلا اٹھانے والا سوائے ڈاکٹر نذیر احمد کے کوئی نہیں۔

(۷) شرر کے تضییع اوقات سے مجھے ہمیشہ ہمدردی رہی، مگر بڑے برے فوٹو گرافر اور بہت اچھے افسانہ نویس۔ ادب میں استاد۔

(۸) جاسوسی ناولوں کے پڑھنے اور لکھنے سے دم الٹتا ہے اور وہ بھی ایسا کہ ایک طویل قصہ لکھا ہے جو پڑا سڑ رہا ہے۔

(۹) معاشرت کی تمام خرابیوں کا ذمہ دار مولویوں کو خیال کرتا ہوں۔ افسانے کی ہر برائی کی جڑ آخر میں ان ہی سے ملاتا ہوں۔ مولوی سے مراد حضرات علمائے کرام سے نہیں، بلکہ جاہل مولوی۔

(۱۰) میرے افسانوں میں کوئی باغ، مکان یا دوکان یا چھت یا جنگل، جو بھی ہے وہ خود میری آنکھوں سے دیکھا ہوا ہے۔ کوئی شے خیالی نہیں۔

(۱۱) افسانوں میں عشق و محبت کی گرمی اور جذبات خود میرے اپنے مشاہدے اور تجربے میں آئے ہوئے ہوتے ہیں۔ حسن وہ ہے جو میں نے دیکھا ہے اور محبت وہ ہے جو خود میں نے دیکھی اور سمجھی ہے اور عورت وہ ہے جسے میں نے خود دیکھا اور سمجھا ہے۔ اپنے افسانوں میں حسن دیکھتا ہوں، دکھاتا نہیں ہوں۔

(۱۲) مکالمہ وہ ہے جو خود میں نے کیا ہے۔ حتی کہ بعض مواقع پر لکھنے سے قبل خود بول کر اور جواب لے کر دیکھ لیا ہے کہ ایسے مواقع پر کیا لفظ میرے منہ سے نکلے، نکل سکنے کا سوال نہیں، واقعی کیا نکلے اور نکلا کرتے ہیں۔ ممکن الوقوع باتوں ہی نے افسانہ نویسی کو بگاڑا ہے۔ یہاں تو شرط ہے کہ وقوع پذیر ہو چکا ہو اور میرے علم میں ہو۔

(۱۳) سینما عمر میں صرف تین مرتبہ دیکھا ہے۔ بغدادی چور اور کنگ کانگ اور ایک مرتبہ ایامِ جہالت میں کوئی مزاحیہ تماشہ دیکھا ہے۔ بغدادی چور کانپور میں ایک دوست نے پکڑ لیا تب دیکھا اور پھر اسی کو دوبارہ کالج میں نمائش کے موقع پر دیکھا، جب سب لڑکے بلوہ کر کے مفت دیکھنے گھس پڑے۔ ہم بھی مفت کی کھیر سمجھ کر گھس پڑے مگر آدھا دیکھ کر بھاگنے لگے کہ معلوم ہوا کہ نرم اور گرم دل بھی یہیں ہے۔ لہٰذا پھر دیکھا۔ کنگ کانگ اب دیکھا۔ بولتا ہوا سینما، یعنی ٹاکی، صرف دو دفعہ دیکھا ہے۔ تھیٹر عمر میں ایک دفعہ دیکھا اور ایسی نفرت ہوئی کہ وہی نفرت سینما سے بھی روکے ہوئے ہے۔ تھیٹر میں آغا حشر کا ’’اسیر حرص‘‘ دیکھا تھا۔

(۱۴) عشاق سے للٰہی بغض ہے۔

(۱۵) اپنے افسانے کی عورتوں کو حتی الوسع معمولی عورتوں سے بڑھنے یا گرنے نہیں دیتا۔ اگر بڑھی یا گھٹی ہوئی دیکھنے میں آئے تو حتی الوسع اس کا قصہ چھوڑ دوں گا کیونکہ ایسی صورت میں افسانہ طویل ہو جاتا ہے۔

(۱۶) حتی الوسع قصے کو اپنی مرضی پر نہیں لے جاتا۔ امکانات اور ممکن الوقوع باتوں سے دور اور خائف سا رہتا ہوں۔

(۱۷) میرا تجربہ ہے کہ کسی واقعہ پر اگر افسانہ لکھا جائے اور قاعدے سے لکھا جائے تو ضرورت ہے کہ لکھنے کے بعد اسے دس دفعہ الٹے پلٹے۔ دس دفعہ زبانی اور ویسے سنایا جائے۔ زبانی اور تحریری سنانے میں فرق جو نکلے تو زائد الا بلا تحریر میں سے پھر چھانٹ کر پھینک دے۔ اس طرح کرنے سے وہی پلاٹ اور وہی قصہ عجیب و غریب طریقے پر مٹی سے سونا ہو جاتا ہے۔ اس کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جس نے مجھے ایسا کرتے دیکھا یا خود اپنے افسانے کے ساتھ کر کے دیکھ لے۔ دوبارہ لکھنے کی ضرورت نہیں۔ صرف کہیں سطریں اِدھر کی اُدھر، کہیں سے کچھ غائب تو کہیں کچھ زائد۔

(۱۸) معاشرتی افسانہ لکھنے کے لیے اور تحریر میں پاکیزگی کے لیے میری دانست میں افسانہ نویس کا کوئی صحیح مرکز عشق و محبت بھی ہونا چاہیے تاکہ اس کی عشقیہ تحریروں میں اور محبت کی داستانوں میں عشق بازاری نہ نظر آئے اور شریف مکانوں میں چکلے کی معاشرت نہ پیدا ہو جائے۔

(۱۹) بعض لوگ، میری طرح، جو دیکھتے ہیں وہ لکھتے ہیں۔ جہاں تک لکھنے کا تعلق ہے، صحیح لکھتے ہیں مگر دشواری یہ کہ گھر انہوں نے دیکھے نہیں اور چکلہ بار بار دیکھا ہے۔

(۲۰) ایک بدچلن افسانہ نویس جس کے حسن و عشق کا کوئی صحیح مرکز ہی نہیں، میری دانست میں، جہاں تک افسانہ نگاری اور معاشرتی افسانوں کا تعلق ہے، سوائے بیہودگی کے کچھ نہ لکھ سکے گا۔

(۲۱) پڑھے لکھے سورما نقادوں سے زیادہ قابل اعتبار اور بھروسے کا نقاد ان کاروباری دوست احباب کو سمجھتا ہوں جس کو زبانی قصہ سناؤں اور اس پر وہ تنقید کریں۔ میں نے اپنے افسانوں کو تنقید و تنقیص کے لیے ہمیشہ ان ہی کو کام کا آدمی پایا۔ لہٰذا میں کبھی کسی کی تنقید سے اچھا یا برا اثر نہیں لیتا۔ بس دوستوں سے تبادلہ خیال کرتا ہوں اور اسی کو بہترین تنقید سمجھتا ہوں۔

مندرجہ بالا باتوں میں سے ممکن ہے کہ کچھ یا سب غلط ہوں اور میں جہالت میں مبتلا ہوں۔ یہاں یہ مسئلہ زیربحث نہیں ہے۔ یہاں تو مندرجہ بالا خیالات و رجحانات، صحیح یا غلط اس لیے بتائے ہیں کہ آپ معلوم کر سکیں کہ میں افسانہ کیسے لکھتا ہوں کیونکہ یہ تمام باتیں ہی ایسی ہیں جو اپنے طریقے پر افسانے پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ یہی وہ چیزیں ہیں کہ ایک ہی پلاٹ پر میں لکھوں گا تو اور چیز بن جائے گی اور آپ لکھیں گے تو دوسری چیز بن جائے گی۔ انہیں خیالات و رجحانات سے میرے افسانے کی ترتیب و تعمیر ہوتی ہے۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.