میں اگر وہ ہوں جو ہونا چاہئے
میں اگر وہ ہوں جو ہونا چاہئے
میں ہی میں ہوں پھر مجھے کیا چاہئے
غرق خم ہونا میسر ہو تو بس
چاہئے ساغر نہ مینا چاہئے
منحصر مرنے پہ ہے فتح و شکست
کھیل مردانہ ہے کھیلا چاہئے
بے تکلف پھر تو کھیوا پار ہے
موجزن قطرہ میں دریا چاہئے
تیز غیروں پر نہ کر تیغ و تبر
آپ اپنے سے مبرا چاہئے
ہو دم عرض تجلی پاش پاش
سینہ مثل طور سینا چاہئے
حسن کی کیا ابتدا کیا انتہا
شیفتہ بھی بے سر و پا چاہئے
پارسا بن گر نہیں رندوں میں بار
کچھ تو بیکاری میں کرنا چاہئے
کفر ہے ساقی پہ خست کا گماں
تشنہ سرگرم تقاضا چاہئے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |