میں تو عاجز ہوں تمہیں پوچھو دل ناکام سے

میں تو عاجز ہوں تمہیں پوچھو دل ناکام سے (1933)
by ناصری لکھنوی
323900میں تو عاجز ہوں تمہیں پوچھو دل ناکام سے1933ناصری لکھنوی

میں تو عاجز ہوں تمہیں پوچھو دل ناکام سے
کیوں تڑپ جاتا ہے سینے میں تمہارے نام سے

سب پئیں ساقی رہیں محروم ہم اک جام سے
ہو گئی برگشتہ قسمت گردش ایام سے

ہجر کی زحمت سے آغاز جوانی میں مرے
تھک گئے تھے ہم کچھ ایسی نیند آئی شام سے

غیر کی تشنیع کا ہم دے نہیں سکتے جواب
خون کی بوندیں ٹپکتی ہیں دل ناکام سے

صرف بیداری ہے اپنی عمر اے سودائے عشق
نیند آئے قبر میں شاید ہمیں آرام سے

جانتے ہیں خوب اس پیماں شکن کو ناصریؔ
دل بہل جاتا ہے لیکن نامہ و پیغام سے


This anonymous or pseudonymous work is in the public domain in the United States because it was in the public domain in its home country or area as of 1 January 1996, and was never published in the US prior to that date. It is also in the public domain in other countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 80 years or less since publication.