میں تو عاجز ہوں تمہیں پوچھو دل ناکام سے
میں تو عاجز ہوں تمہیں پوچھو دل ناکام سے
کیوں تڑپ جاتا ہے سینے میں تمہارے نام سے
سب پئیں ساقی رہیں محروم ہم اک جام سے
ہو گئی برگشتہ قسمت گردش ایام سے
ہجر کی زحمت سے آغاز جوانی میں مرے
تھک گئے تھے ہم کچھ ایسی نیند آئی شام سے
غیر کی تشنیع کا ہم دے نہیں سکتے جواب
خون کی بوندیں ٹپکتی ہیں دل ناکام سے
صرف بیداری ہے اپنی عمر اے سودائے عشق
نیند آئے قبر میں شاید ہمیں آرام سے
جانتے ہیں خوب اس پیماں شکن کو ناصریؔ
دل بہل جاتا ہے لیکن نامہ و پیغام سے
This anonymous or pseudonymous work is in the public domain in the United States because it was in the public domain in its home country or area as of 1 January 1996, and was never published in the US prior to that date. It is also in the public domain in other countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 80 years or less since publication. |