میں خودی میں مبتلا خود کو مٹانے کے لیے
میں خودی میں مبتلا خود کو مٹانے کے لیے
تو نے تو ہر ذرے کو ضو دی جگمگانے کے لیے
ایک ادنیٰ سے پتنگے نے بنا دی جان پر
شمع نے کوشش تو کی تھی دل جلانے کے لیے
برق خرمن سوزاب رکھنا ذرا چشم کرم
چار تنکے پھر جڑے ہیں آشیانے کے لیے
منہ نہیں ہر ایک کا جو سختی گردوں سہے
کچھ کلیجہ چاہیے وہ زخم کھانے کے لیے
خوب بلبل کو سکھایا نالۂ مستانہ وار
خوب غنچے کو سمجھ دی مسکرانے کے لیے
اس قدر ارزاں ہوئی ہے آج کل جنس کمال
جھوٹے سکے ڈھل رہے ہیں ہر خزانے کے لیے
خواب میں بھی اب نہیں شاعرؔ وہ گرمی کلام
شمع سی اک رہ گئی ہے جھلملانے کے لیے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |