میں شمع بزم عالم امکاں کیا گیا
میں شمع بزم عالم امکاں کیا گیا
انسانیت کو دیکھ کے انساں کیا گیا
اب میرے امتحان کا ساماں کیا گیا
یعنی سپرد عالم امکاں کیا گیا
محفوظ میں نے رکھے جنوں کے تبرکات
دامن اگر پھٹا تو گریباں کیا گیا
طے کر کے ارتقا کے منازل کو شوق سے
پہنچا جب اپنے حد پہ تو انساں کیا گیا
سچ پوچھئے تو کیا تھا فقط ایک خار زار
میرے لئے جہاں کو گلستاں کیا گیا
دریا تو اور بھی تھے زمانے میں بے شمار
آب حیات چشمۂ حیواں کیا گیا
کچھ اور روشنی کا بڑھا حسن یا نہیں
فانوس میں جو شعلے کو پنہاں کیا گیا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |