میں عاشق ہوں مجھے مقتل میں اپنا نام کرنا ہے
میں عاشق ہوں مجھے مقتل میں اپنا نام کرنا ہے
ڈرے گا خنجر قاتل سے کیا وہ جس کو مرنا ہے
مدد کر عشق صادق جذب کامل مجھ سے محزوں کی
شب غم نالہ کرنا ہے اور اس جی سے گزرنا ہے
نہ پھینکو سنگ خارا پر حفاظت چاہئے اس کی
کہ رکھ کر مرأت دل روبرو تم کو سنورنا ہے
یہ جام دیدۂ حسرت بھروں گا اشک خونی سے
مئے گلگوں تجھے پیر مغاں ساغر میں بھرنا ہے
ٹھہر جا بلبل غمگیں کہاں تک زاری و شیون
کہ مرغ بوستان عشق کو بھی نالہ کرنا ہے
سرشک چشم پر نم کی روانی سے پریشاں ہوں
جنوں کیا دیدۂ حسرت ہمارا کوئی جھرنا ہے
جمیلہؔ صفحۂ مہتاب پر لہرا گئے کالے
ستم ان گیسوؤں کا دوش پر ان کے بکھرنا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |