میں لپٹتا رہا ہوں خاروں سے
میں لپٹتا رہا ہوں خاروں سے
تم نے پوچھا نہیں بہاروں سے
چاندنی سے سحاب پاروں سے
جی بہلتا ہے یاد گاروں سے
آ مرے چاند رات سونی ہے
بات بنتی نہیں ستاروں سے
منزل زندگی ہے کتنی دور
پوچھ لیتا ہوں رہ گزاروں سے
بات جب بھی چھڑی محبت کی
خامشی بول اٹھی مزاروں سے
ایک بھی آفتاب بن نہ سکا
لاکھ ٹوٹے ہوئے ستاروں سے
شام غم بھی گزر گئی ہے ظفرؔ
کھیلتے کھیلتے غباروں سے
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |