میں پا شکستہ کہاں طفل نے سوار کہاں
میں پا شکستہ کہاں طفل نے سوار کہاں
پھر اس کی گرد کہاں اور مرا غبار کہاں
تمہارے وصل سے ٹھہرے گا یہ دل بے تاب
بغیر آئنہ سیماب کو قرار کہاں
بہت دنوں سے ہوں آمد کا اپنی چشم براہ
تمہارا لے گیا اے یار انتظار کہاں
جو سرد مہری سے ٹھنڈا ہو اس کے اے مہ رو
رگوں میں خون کہاں نبض میں بخار کہاں
نکل کے سینہ سے جا پہنچے طور سینا پر
گئی چمکنے مری آہ پر شرار کہاں
جو سمجھیں تیرے دم تیغ کو طریق اپنا
بتا دے دہر میں ہیں ایسے سر گزار کہاں
فلک کی صلح کو سمجھے رہو وقارؔ جدال
بنے بھی دوست جو دشمن تو اعتبار کہاں
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.
| |