میں گلہ کر رہا ہوں قسمت کا

میں گلہ کر رہا ہوں قسمت کا (1928)
by سید امیر حسن بدر
324282میں گلہ کر رہا ہوں قسمت کا1928سید امیر حسن بدر

میں گلہ کر رہا ہوں قسمت کا
کون موقع ہے یہ شکایت کا

تھا اثر دل میں کچھ محبت کا
پوچھتے تھے نشان تربت کا

بدرؔ وارفتہ ہو کے حضرت کا
کس سے ہے ادعا رقابت کا

ڈر نہ تھا دل میں کچھ قیامت کا
تھا بھروسا تری شفاعت کا

جل اٹھا دل میں داغ حسرت کا
بجھ گیا جب چراغ تربت کا

سن کے واعظ کی پی گئے مے کش
مقتضا تھا یہی شرافت کا

عرق آلودہ رخ کا وصف لکھا
عطر کھینچا گل لطافت کا

شب فرقت تھی رات تربت کی
روز فرقت تھا دن قیامت کا

نہیں ملتا ادا شناسوں کو
تولا ماشہ مزاج حضرت کا

زندگی کا بھی ٹھیکا لیتے ہو
وعدہ کرتے تو ہو قیامت کا

واہ رے حسن تیری رعنائی
رنگ بدلا حیا طبیعت کا

نہ تو مے ہے نہ جام و ساقی ہے
رنگ پھیکا ہے آج صحبت کا

شب گیسو سے بھی دراز ہے یہ
طول کیا کہئے روز فرقت کا

رتی سیم قمر کی چمکی ہے
اوج دیکھو تو اہل دولت کا

پست سے پست زینہ ہے کرسی
آپ کے بام عرش رفعت کا

کس غضب کی ہے سانولی صورت
شور عالم میں ہے ملاحت کا

بے حقیقت یہ خاک کا پتلا
اک نمونہ ہے تیری صنعت کا

آج کیا ہوں ازل سے پروانہ
میں تری شمع بزم قربت کا

دشت غربت میں میرے سر پر تھا
سائباں تیری نیلگوں چھت کا

بدرؔ تم بھی تو ہو بنی ہاشم
فخر بے جا نہیں سیادت کا

بدرؔ مرحوم کو خدا بخشے
آدمی تھا بڑی مروت کا


This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).