ناتواں عشق نے آخر کیا ایسا ہم کو
ناتواں عشق نے آخر کیا ایسا ہم کو
غم اٹھانے کا بھی باقی نہیں یارا ہم کو
درد فرقت سے ترے ضعف ہے ایسا ہم کو
خواب میں بھی ترے دشوار ہے آنا ہم کو
جوش وحشت میں ہو کیا ہم کو بھلا شکر لباس
بس کفایت ہے جنوں دامن صحرا ہم کو
رہبری کی دہن یار کی جانب خط نے
خضر نے چشمۂ حیوان یہ دکھایا ہم کو
دل گرا اس کے زنخداں میں فریب خط سے
چاہ خس پوش تھا اے وائے نہ سوجھا ہم کو
واہ کاہیدگیٔ جسم بھی کیا کام آئی
بزم میں تھے پہ رقیبوں نے نہ دیکھا ہم کو
قالب جسم میں جاں آ گئی گویا شبلیؔ
معجزہ فکر نے اپنی یہ دکھایا ہم کو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |