ناحق و حق کا انہیں خوف و خطر کچھ بھی نہیں
ناحق و حق کا انہیں خوف و خطر کچھ بھی نہیں
بے خبر ہیں وہ زمانے کی خبر کچھ بھی نہیں
دھوم ہی دھوم تھی مدفن کی مگر کچھ بھی نہیں
خاک اس گھر میں بسر ہوگی یہ گھر کچھ بھی نہیں
ہائے افسوس ہوئی کون سی صحبت برخاست
شب کو معراج میں تھے وقت سحر کچھ بھی نہیں
کہہ رہی ہے یہ مرے دل سے محبت اس کی
ہوں تو اکسیر مگر مجھ میں اثر کچھ بھی نہیں
آ رہی ہے یہ صدا گور کے سناٹے سے
میں وہ عالم ہوں جہاں شام و سحر کچھ بھی نہیں
اس نزاکت سے تو میں کاہے کو بسمل ہوں گا
تم چھری پھیرتے ہو مجھ کو خبر کچھ بھی نہیں
ہاتف عشق تو کہتا ہے ادھر سب کچھ ہے
عالم یاس یہ کہتا ہے ادھر کچھ بھی نہیں
آنکھ پھر جاتی ہے معشوقوں کی مایوسوں سے
غمزدہ کچھ نہیں حسرت کی نظر کچھ بھی نہیں
تربت قیس سے کہتی ہے لپٹ کر لیلیٰ
ہم تڑپتے ہیں پڑے تم کو خبر کچھ بھی نہیں
منزل گور میں کیا جانیے کیا گزرے گی
تازہ وارد ہیں ابھی ہم کو خبر کچھ بھی نہیں
لن ترانی کی جو تاکید ہے اے دل یہ کھلا
باب دیدار میں منظور نظر کچھ بھی نہیں
خواب دیکھا تھا کہ تھا وصل کی شب کا سامان
جشن تھا رات کو ہنگام سحر کچھ بھی نہیں
اس کو گہری اسے یہ اوچھی چھری واہ اے یار
زخم دل گھاؤ ہوا زخم جگر کچھ بھی نہیں
رشتۂ جاں سے بھی نازک ہے وہ باریکی میں
گل کی رگ پھر ہے گداز اس کی کمر کچھ بھی نہیں
قبر میں حوروں کے آنے کا اٹھائیں کیا لطف
دیدہ و جسم و دل و جان و جگر کچھ بھی نہیں
راس آ جائے گی جس کو وہ اسے چاہیں گے
پھر محبت میں سبھی کچھ ہے اگر کچھ بھی نہیں
مطمئن ہوں رہ عصیاں میں تری رحمت سے
وہ مسافر ہوں کہ تشویش سفر کچھ بھی نہیں
اے شرفؔ ہے گل مقصود کے ہر سو بوچھار
واہ اے خوبیٔ قسمت کہ ادھر کچھ بھی نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |