ناداں کہاں طرب کا سرانجام اور عشق
ناداں کہاں طرب کا سرانجام اور عشق
کچھ بھی تجھے شعور ہے آرام اور عشق
لینے نہ دیویں گے مجھے ٹک چین جیتے جی
دشمن یہ دونو گردش ایام اور عشق
یاں غش ہیں شوق طوف ہیں یاران کعبہ کو
اے نامہ بر تو کہیو یہ پیغام اور عشق
کیا نام لے کے اس کا پکارا کروں کہ یاں
رکھتا ہے ہر زبان میں اک نام اور عشق
پوچھا کسی نے قیس سے تو ہے محمدی
بولا وہ بھر کے آہ کہ اسلام اور عشق
اسباب کائنات سے بس ہو کے بے نوا
انشاؔ نے انتخاب کیا جام اور عشق
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |