نارسائی
رات اندھیری بن ہے سونا کوئی نہیں ہے ساتھ
پون جھکولے پیڑ ہلائیں تھر تھر کانپیں پات
دل میں ڈر کا تیر چبھا ہے سینے پر ہے ہاتھ
رہ رہ کر سوچوں یوں کیسے پوری ہوگی رات
برکھا رت ہے اور جوانی لہروں کا طوفان
پیتم ہے نادان مرا دل رسموں سے انجان
کوئی نہیں جو بات سجھائے کیسے ہوں سامان
بھگون مجھ کو راہ دکھا دے مجھ کو دے دے گیان
چپو ٹوٹے ناؤ پرانی دور ہے کھیون ہار
بیری ہیں ندی کی موجیں اور پیتم اس پار
سن لے سن کے دکھ میں پکارے اک پریمی بچارا
کیسے جاؤں کیسے پہنچوں کیسے جتاؤں پیار
کیسے اپنے دل سے مٹاؤں برہ اگن کا روگ
کیسے سجھاؤں پریم پہیلی کیسے کروں سنجوگ
بات کی گھڑیاں بیت نہ جایں دور ہے اس کا دیس
دور دیس ہے پیتم کا اور میں بدلے ہوں بھیس
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |